بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی




بہرحال یہ مسلمات میں سے ہے کہ افراد بشر میں جن نفوسِ قدسیہ کو حق تعالیٰ نے اصلاحِ نفوس اور ہدایت وارشاد ِ عالم کے لئے منتخب فرمایا ہے‘ ان سب کے سرتاج سید الانبیاء والمرسلین‘ امام المتقین‘ خاتم النبیین سیدنا محمد ا کی ذاتِ مقدس ہے۔ اگر ان میں کوئی کوتاہی اور کمی رہ جائے تو پھر سارے انبیاء کرام کوتاہیوں سے مبرا کیسے ہو سکتے ہیں اور امت کی ہدایت کے لئے وہ کیسے اسوہ وقدوہ بن سکتے ہیں اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ جس ذاتِ اقدس نے ہدایت وارشاد کے لئے ان کی بعثت فرمائی ہے‘ وہ العیاذ باللہ قاصر ہے اور ان کی قدرت سے ایسے افراد کا انتخاب بالا تر ہے‘ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی‘ پھر نہ تو خدائی رہی‘ نہ نبوت ورسالت‘ نہ آسمانی وحی‘ نہ دین‘ سارا معاملہ ہی ختم ہوگیا‘ ان حقائق کی روشنی میں” ترجمان القرآن“جلد ۸۵ شمارہ اپریل ۱۹۷۶ء میں بعنوان ”اسلام کس چیز کا علمبردار ہے“ مودودی صاحب کا مقالہ مطالعہ کیجئے‘ ص:۳۰ پر موصوف یوں رقمطراز ہیں:
”وہ (یعنی رسول اللہ ا) نہ فوق البشر ہے‘ نہ بشری کمزوریوں سے بالاتر ہے“۔
کس جاہل نے کہا ہے کہ وہ فوق البشرہے؟ ہاں تمام اولین وآخرین اور حق تعالیٰ جو خالق الانبیاء والمرسلین ہیں‘ ان کا فیصلہ ہے کہ وہ اتقی البشر ہیں‘ سید البشر ہیں‘ تمام نسلِ انسانی میں سب سے بڑھ کر متقی اور کامل ترین افرادِ بشر میں سے ہیں‘ آفتابِ عالمتاب اور بدرِ منیر کے انوار کو ان کے انوار سے کیا نسبت؟ آسمان ہو یا زمین‘ چاند ہو یا سورج حتی کہ عرشِ رحمن بھی آپ کی منزلت سے قاصر ہے‘ تمام مخلوقاتِ خداوندی میں افضلیت وکمال کا تاج آپ ہی کے سرباندھا گیا ہے۔ ”نہ فوق البشر ہے“ یہ جملہ بھی جو غمازی کرتا ہے کہ فوق البشر کہنا بھی ناقابلِ برداشت ہے‘ لیکن ”نہ بشری کمزوریوں سے بالا تر ہے“ کے فقرے سے جوکچھ دل میں تھا ابھرکر آگیا۔ جو شخص بشری کمزوریوں میں ملوث ہے‘ وہ بشر کی ہدایت کے لئے کیسے موزوں ہوسکتا ہے؟ اردو کے عرف میں اور عام تعبیرات کے پیش نظر بشری کمزوریوں کا اطلاق ان صفاتِ بشریہ پر ہوتا ہے جو صفات ذمیمہ اور قبیحہ ہیں‘ لوازم ِ بشریت مراد ہو ہی نہیں سکتے‘ لوازمِ بشریت: کھانا‘ پینا‘ سونا‘ جاگنا‘ خوشی‘ غم‘ صحت ومرض‘ وفات وغیرہ بلاشبہ یہ لوازم بشریت ہیں‘ خواص ِ بشریت ہیں اور صفاتِ بشریہ ہیں ‘ عرف میں اس کو کوئی بشری کمزوریوں سے تعبیر نہیں کرتا‘ لوازم بشریت سے تو ملائکة اللہ اور حق تبارک وتعالیٰ منزہ ہیں‘ کہنا یہ ہے کہ یہ جملہ خطرناک حقیقت کی غمازی کررہا ہے۔ اسلام کی پوری بنیاد منہدم ہوجاتی ہے۔ حق تعالیٰ تو ان کو یہ شرفِ قبولیت عطا فرماتاہے کہ کلمہٴ اسلام میں‘ کلمہٴ شہادت میں‘ اذان واقامت میں حق تعالیٰ کے نام کے ساتھ آپ کا نام آئے‘ نماز میں درود وسلام بھیجنے کا حکم ہو اور اس انداز سے ہو کہ چونکہ حق تعالیٰ اور ان کے فرشتے آپ پر درود بھیجتے ہیں‘ اے ایمان والو! تم بھی درود بھیجو‘ بارگاہ قدس سے اتنا اونچا منصب عطا کیا گیا ہو‘ اور مودودی صاحب کی نگاہ میں ”وہ بشری کمزوریوں سے بالاتر نہیں“ جو شخصیت بشری کمزوریوں میں مبتلا ہو‘کیا وہ اس منصبِ جلیل کی مستحق ہوسکتی ہے؟ بظاہر تو یہ ایک جملہ ہے‘ لیکن اس ایک جملہ سے ان کے تمام کمالات اور منصبِ نبوت پر پانی پھر جاتا ہے اور ہر ناقد کے لئے تنقید کا راستہ ہموار ہوجاتاہے‘ بشری کمزوری میں جھوٹ بولنا‘ خود غرضی‘ بقایا جاہلیت کے آثار کا نمایاں ہونا‘ مصلحت اندیشی کا کار فرما ہونا‘ بنی عبد مناف اور بنی ہاشم کو بنی امیہ پر ترجیح دینا‘ قریش ومہاجرین کو وہ مقام عطا کرنا جس سے انصار محروم تھے‘ وغیرہ وغیرہ۔ کون سی کمزوری ہے جو اس اجمال میں نہیں آسکتی؟ کیا اچھا ہوتا کہ مودودی صاحب ان کمزوریوں کی نشاندہی خود فرمادیتے کہ وہ کون سی کمزوریاں ہیں جو آپ کی ذاتِ گرامی میں موجود ہیں‘ اس قسم کے نظریات یا قلمی طغیانی اس شخص کا شیوہ ہے جو نہ اہل اللہ کا صحبت یافتہ ہو‘ نہ اسے علمِ دین میں کمال حاصل ہو‘ عجب وکبر میں مبتلا ہو‘ اعجاب بالرای کی وباء عظیم میں ملوث ہو‘ جس ذات گرامی پر ایمان لانے کا حکم ہو‘ حق تعالیٰ پر ایمان کے بعد جس پر ایمان کا مرتبہ ہو‘ جسے ہدایتِ امت کے لئے سراجاً منیراً بنایا گیا ہو‘ جو دعوت الی اللہ پر مامور ہو‘ جس کی شخصیت کو امت کے لئے اسوہ بنایا گیا ہو‘ جس کی صفات وکمالات اور خصائص واخلاقِ عظیمہ کا اعلان کیا گیا ہو‘ مودودی کی نگاہ میں ان کی شخصیت اتنی شدید مجروح ہو کہ” بشری کمزوریوں سے بالاتر نہیں“ اب تک تو ہم یہی سمجھتے تھے کہ مودودی صاحب سلفِ صالحین کو مجروح کرتے چلے آئے ہیں‘ صحابہ کرام کی شخصیت کو مجروح کرتے چلے آئے ہیں اور انبیاء کرام کی شخصیت پر بھی کچھ نہ کچھ اشارات جرح کے موجود تھے۔ حضرت یونس علیہ السلام سے فریضہٴ نبوت پر تقصیر ہوئی جیسے کہ ”تفہیم القرآن“ میں ہے وغیرہ وغیرہ‘ ایک حضرت سید المرسلین‘ خاتم النبیین‘ امام المتقین کی ذاتِ گرامی باقی رہ گئی تھی وہ بھی اب مجروح ہوگئی۔ تعجب کا مقام ہے کہ مودودی صاحب نے ہر پیراگراف کو قرآنی حوالہ دے کر بیان کیا اور شاید مقالہ اور اس کی تعلیمات کو پڑھنے والے کو یہ غلط فہمی ہو کہ یہ جملہ بھی بقیہ قرآنی حوالوں سے معمور ہوگا ‘ لیکن بغیر جوڑ کے قرآنی تعبیرات کے درمیان سطر ۱۲‘ اشارہ ۱۳‘ ص:۳۱ پر یہ دل کی بات قلم سے نکل گئی‘ قرآن کریم میں جہاں یہ حکم ہو کہ: آپ اعلان کریں کہ میں بشر ہوں‘ ساتھ ہی ”یوحیٰ الیّ“ کا وصف لگایاگیا‘ تاکہ کوئی قاصر الفہم‘ قاصر العقل بشر کے ساتھ بشری کمزوریوں کا خیال نہ کرے‘ چنانچہ ارشاد ہے:
”قل انما انا بشر مثلکم یوحی الیّ انما الہکم الہ واحد“ (کہف:۱۱۰‘فصلت :۶)
سورہ اسراء:۴۳ میں ہے: ”قل سبحان ربی ہل کنت الا بشراً رسولا“ بشر کے ساتھ رسول کی صفت لگائی گئی ہے۔ جہاں محض بشریت کا ذکر کیا ہے یا صفاتِ بشریت کا ذکر ہے وہ تمامتر مشرکین وکفار کے قول کی نقل ہے:
”قالوا ان انتم الا بشر مثلنا“۔( ابراہیم:۱)
”ہل ہذا الا بشر مثلکم“۔( الانبیاء:۳)
”ماہذا الا بشر مثلکم“۔( المومنون:۳۳)
”ما انتم الا بشر مثلنا“۔( یٰس:۱۵)
”ما نراک الا بشراً مثلنا“ ۔(ہود:۲۷)
کفار نے بلاشبہ طعنے کے طور پر کہا کہ یہ ہم جیسے بشر ہیں‘ بلکہ ان کو بھی اس کی جرات نہیں ہوئی کہ یہ جرم بھی عائد کرسکیں کہ بشری کمزوریوں سے بالاتر نہیں‘ اس لئے کہ وہ جانتے تھے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی پاکیزگی اخلاق‘ کرامت وشرافت اتنی بدیہی اور واضح ہے کہ انکار کی مجال نہیں۔زیادہ سے زیادہ یہ طعنہ دیا کہ: کھاتا پیتا ہے‘ بازاروں میں جاتاہے‘ گویا فرشتہ نہیں کہ ان چیزوں سے بالاتر ہو‘ کچھ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ موصوف کے دل میں اس سے بھی زیادہ کچھ ہے‘ لیکن خوف مانع ہے‘ پوری دل کی بات کا اظہار نہ کرسکے۔ ”وما تخفی صدورہم اکبر“ اللہ تعالیٰ زیغ وضلال سے بچائے۔ بشری کمزوری دوراستوں سے ہوتی ہے: ۱:- نفس‘ ۲:- شیطان۔ جب نبی ورسول نفس کی غیر مستحسن اور ناپسندیدہ خواہشات سے مبرا ہے اور پاک ہے تو اس کے عواطف ورجحانات ناپسندیدہ نہیں ہوسکتے‘ ان کا نفس نفسِ مطمئنہ ہے‘ نفسِ ملکی ہے‘ نفس کی صفاتِ رذیلہ سے یکسر بالاتر ہے‘ ادنیٰ سے ادنیٰ رذیلہ ٴ نفسانی کا وہاں گذر نہیں اور نفس کے جتنے صفاتِ کمال ہیں‘ تقویٰ وطہارت‘ شکر وصبر‘ عفت ورافت‘ رحمت وجود اور سخا وکرم وغیرہ تمام کے تمام وہاں موجود ہوتے ہیں اور شیطان لعین کے وساوس سے یکسر حفاظت ہوتی ہے۔ شیطان نبی ورسول کو کبھی بھی غلط کام پر آمادہ ہی نہیں کرسکتا‘ نبی کریم ا نے فرمایا ہے کہ: ”میرا شیطان مجھے خیر ہی کا حکم دیتا ہے“ بہرحال جب دونوں راستوں سے حفاظت ہوگئی تو بشری کمزوری خود بخود ختم ہوجاتی ہے۔
”صحیح مسلم“ میں حضرت عائشہ صدیقہ کی روایت میں تو یہ آیا ہے کہ: ”کان خلقہ القرآن“ آپ کے اخلاق کریمہ قرآن کریم کا مرقع ہیں‘ گویا آپ کی حیاتِ مقدسہ زندہ قرآن ہے‘ آپ کا وجود مقدس زندہ قرآن ہے اور یہی تمام عالم کا فیصلہ ہے‘ لیکن مودودی صاحب فرماتے ہیں کہ” بشری کمزوریوں سے آپ بالاتر نہیں“۔
پھر سنت اللہ جاری ہے کہ انبیاء کرام علیہ السلام کے عام قویٰ بشری بھی عام انسانوں سے بالاتر ہوتے ہیں‘ ان کی جسمانی صلاحیتیں جسمانی قوتیں برتر اور عام افرادِ بشر سے بالاتر ہوتی ہیں‘ بلکہ ایک حدیث میں آیاہے کہ :
”حضرت رسول اللہ ا کو چالیس افراد جنت کی قوت عطا فرمائی گئی ہے“۔
اور ایک حدیث میں یہ بھی آیاہے کہ:
”جنت میں ہر فرد بشر کو سو اشخاص کی قوت عنایت کی گئی ہے“ بلکہ قاضی عیاض ”شفاء“ میں اور سیوطی کی ”خصائص کبریٰ“ میں حضرت عائشہ صدیقہ کی روایت سے ایک حدیث ہے کہ آپ نے فرمایا ہے:
”اما علمت ان اجسادنا تنبت علی ارواح اہل الجنة“
یعنی ہمارے اجساد میں ارواح‘ اہل جنت کی ہیں‘ ان تفصیلات کا یہاں موقع نہیں ہے‘ بہرحال نہ معلوم کہ اتنی صاف اور واضح حقیقت کیوں سمجھ میں نہیں آتی کہ جب کوئی شخص بشری کمزوریوں میں مبتلا ہو‘ وہ کیونکر ہادی ورہنما بنے گا اور اس کی دعوت وتبلیغ کیونکر کامیاب ہوسکتی ہے؟ قرآن کریم تو صاف اعلان فرماتاہے:
”اتامرون الناس بالبر وتنسون انفسکم وانتم تتلون الکتاب افلا تعقلون“ ۔ (البقرہ:۴۴)
ترجمہ:․․․”کیا تم لوگوں کو حکم دیتے ہو نیکی کا اور اپنے نفسوں کو بھولتے ہو اور تم کتاب اللہ پڑھتے ہو‘ کیا اتنا بھی تم نہیں جانتے کہ اس کا کیا اثر ہوگا“۔
حضرت نبی کریم ا کی تو سب سے بڑی خصوصیت یہی ہے کہ جو کیا‘ اسی کا حکم دیا۔ تاکہ قول وعمل میں کوئی تضاد نہ ہو۔ مقام افسوس ہے کہ مودودی صاحب کو اتنی واضح اور صاف بات بھی سمجھ میں نہیں آتی‘ بہرحال جہاں مودودی صاحب کے بہت سے قابل شدید اعتراض مباحث ہیں یا تعبیرات ہیں اور ان کی تصنیفات میں بکھری پڑی ہیں‘ یہ جملہ اور مضمون بھی قباحت میں گوئے سبقت لے گیا ہے۔ مودودی صاحب اپنی تفسیر سورہٴ آل عمران میں حضرات صحابہ کرام کے بارے میں رقمطراز ہیں :
”سود خوری جس سوسائٹی میں موجود ہوتی ہے اس کے اندر سود خوری کی وجہ سے دو قسم کے اخلاقی امراض پیدا ہوتے ہیں‘ سود لینے والے میں حرص وطمع‘ بخل‘ خود غرضی اور سود دینے والوں میں نفرت ‘ غصہ اور بغض حسد‘ احد کی شکست میں ان دونوں قسم کی بیماریوں کا کچھ نہ کچھ حصہ شامل تھا“۔
اسی سورہٴ آل عمران کے آخر میں ان صحابہ کے بارے میں حق تعالیٰ یوں فرماتے ہیں:
”فالذین ہاجروا واخرجوا من دیارہم واوذوا فی سبیلی وقاتلوا وقتلوا لاکفرن عنہم سیآتہم ولادخلنہم جنت تجری من تحتہا الانہار ثوابا من عند اللہ واللہ عندہ حسن الثواب“۔(آل عمران:۱۹۵)
ترجمہ:․․․”سو جن لوگوں نے ترک وطن کیا اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور تکلیفیں دیئے گئے میری راہ میں اور جہاد کیا اور شہید ہوگئے‘ ضرور ان لوگوں کی تمام خطائیں معاف کردوں گا اور ضرور ان کو ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی ‘ یہ عوض ملے گا اللہ کے پاس سے اور اللہ ہی کے پاس اچھا عوض ہے“۔ حق تعالیٰ نے تو ان کو یہ داد دی ہے اور مودودی صاحب کی نگاہ میں وہ حریص‘ طماع بخیل‘ خود غرض ایک دوسرے سے نفرت کرنے والے بغض وحسد رکھنے والے اور ان بیماریوں میں مبتلا تھے۔ ان میں جہل وعناد کی بھی انتہاء ہوگئی‘ غزوہٴ احد کے بعد غزوہ نبی النضیر میں جو سورہٴ حشر نازل ہوئی‘ اس میں حق تعالیٰ شانہ یوں ارشاد فرماتے ہیں:
”للفقراء المہاجرین الذین اخرجوا من دیارہم واموالہم یبتغون فضلاً من اللہ ورضواناً وینصرون اللہ ورسولہ اولئک ہم الصادقون والذین تبوء وا الدار والایمان من قبلہم یحبون من ہاجر الیہم ولایجدون فی صدورہم حاجةً مما اوتوا ویؤثرون علی انفسہم ولوکان بہم خصاصة ومن یوق شح نفسہ فاولئک ہم المفلحون“۔ (الحشر:۸)
ترجمہ:․․․”ان فقراء مہاجرین کا حق ہے جو اپنے گھروں سے اور اپنے مالوں سے جدا کردیئے گئے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضامندی کے طالب ہیں اور وہ اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں‘ یہی لوگ سچے ہیں اور ان لوگوں کا حق ہے جو دار الاسلام میں ان (مہاجرین کے آنے) سے قبل قرار پکڑے ہوئے ہیں اور جو ان کے پاس ہجرت کرکے آتا ہے‘ اس سے یہ لوگ محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو جو کچھ ملتا ہے اس سے یہ لوگ اپنے دلوں میں کوئی رشک نہیں پاتے اور اپنے سے مقدم رکھتے ہیں‘ اگرچہ ان پر فاقہ ہی ہو‘ اور واقعی جو شخص اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ رکھا جائے ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں“۔ حق تعالیٰ تو ان مہاجرین وانصار کو ”صادقوں ومفلحون“ جیسے شاندار الفاظ میں اس عجیب انداز سے داد دیں اور مودودی صاحب ان کو طماع وحریص‘ ایک دوسرے سے متنفر بتلائیں۔ اس وقت تو بطور مثال ایک سرسری اشارہ کردیا گیا اور یہ موضوع ابھی بہت کچھ لکھنے کا محتاج ہے‘ اسی مضمون ومقالہ کے شروع میں جو تحقیق فرمائی گئی کہ:
”ہمارے عقیدے کے مطابق اسلام کسی ایسے دین کا نام نہیں جس کو سب سے پہلے محمد ا نے پیش کیا ہو اور اس بناء پر آپ کو بانی اسلام کہنا صحیح ہو۔انبیاء میں محمد ا کی خصوصیت دراصل یہ ہے کہ:۱- وہ خدا کے آخری نبی ہیں۔۲- ان کے ذریعہ خدانے اسی اصل دین کو پھرتازہ کردیا جو تمام انبیاء کا لایا ہوا تھاالخ“۔
اس مضمون میں بھی ان کو ٹھوکر لگی ہے اور غلط موڑ پر پہنچ گئے جو نہایت خطرناک ہے‘ اب دیانت اور دین کی خیر خواہی کا تقاضا یہی ہے کہ ان مضامین پر بے لاگ تبصرہ ایسا کیا جائے کہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی سامنے آجائے جو ایک دو مولوی ان کی ہم نوائی کرتے چلے آئے ہیں‘ ان کے ایمانی امتحان کا وقت بھی آ گیا ہے۔
واللہ یقول الحق وہو یہدی السبیل۔
حضرت نبی کریم ا کے مقام عالی کا کیا کہنا‘ آپ کی صحبت ‘ فیض خدمت اور توجہاتِ مبارکہ سے صحابہ کرام جس مقام پر پہنچ گئے ہیں‘ اس کا ادراک بھی ہم جیسوں کے لئے ناممکن ہے۔ قرآن کریم کی سورہٴ فتح میں ارشاد ہے:
”محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینہم تراہم رکعاً سجداً یبتغون فضلاً من اللہ ورضواناً سیماہم فی وجوہہم من اثر السجود“ ۔ (الفتح:۲۹)
ترجمہ:․․․”حضرت محمد ا اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ کے صحبت یافتہ ہیں‘ وہ کافروں کے مقابلہ میں تیز اور آپس میں مہربان ہیں‘ اے مخاطب! تو ان کو دیکھے گا کہ کبھی رکوع کررہے ہیں اور کبھی سجدہ کررہے ہیں‘ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں لگے ہیں‘ ان کے آثار بوجہ تاثیر سجدہ کے ان کے چہرے سے نمایاں ہیں“۔
یہاں تک لکھ چکا تھا کہ آج ”ترجمان القرآن“ بابت ماہ جون ۱۹۷۶ء میں ”رسائل ومسائل“ کے عنوان سے اس کے جواب کی کوشش کی گئی‘ ظاہر بات ہے کہ بات ناقابل برداشت تھی اور اس میں پوری رسوائی ہورہی تھی‘ اس لئے موصوف کے حواریوں میں سے کسی نے موصوف کو متنبہ کیا اور اس کا جواب دیا گیا‘ کیا اچھا ہوتا کہ مودودی صاحب اپنی غلطی کا اعتراف کرکے توبہ کرتے اور اعلان کرتے کہ:” میں نے یہ بات غلط کی ہے ‘ لیکن مودودی صاحب کی تاریخِ زندگی میں اس بات کا امکان نہیں ‘ یہ تو ہوا کہ جب کسی ہمدرد حواری نے کسی غلطی پر متنبہ کیا تو دوسرے ایڈیشن میں وہ بات نکال دی گئی ‘ لیکن اس کی توفیق نہ ہوئی کہ اعتراف کرکے غلطی کا اعلان ہوتا اور غلط بات سے رجوع کرتے‘ تاکہ وہ لوگ جن کے پاس پہلا ایڈیشن ہے‘ وہ بدستور گمراہ نہ ہوتے‘ مثلاً تفسیر ”تفہیم القرآن“ کے پہلے ایڈیشن میں حضرت یونس علیہ الصلاة والسلام کو فرائضِ نبوت میں تقصیر کا مرتکب مانا تھا‘ لیکن اعتراض کے بعد دوسرے ایڈیشن پر اس عبارت کو حذف کردیا گیا ‘ کیا یہ دیانت ہے؟ اور کیا یہ حق ہے؟ اور کتنی مثالیں ہیں۔ مودودی صاحب کے نزدیک انبیاء کرام علیہم السلام ایسے معصوم نہیں ہیں کہ غلطی نہ ہوسکتی تھی‘ وہ تو فرماتے ہیں کہ:” بشریت کے اظہار کے لئے کوئی وقت ایسا ضرور ہے“ تو کیا مودودی صاحب معصوم ہیں کہ ان کی عصمت انبیاء کرام علیہم السلام سے بھی زیادہ ہے‘ بہرحال جب عذر کرکے جواب دیا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ بھی بالکل لچر اور بے معنی ہے‘ اردو محاورات میں کوئی بتلادے کہ لوازمِ بشریت کمزوریوں سے تعبیر کیا جاسکتا ہے؟ مولانا مودودی صاحب بشری کمزوریوں سے عیوب ونقائض ہی مراد لیتے ہیں‘ اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ سورہٴ آلِ عمران کی تفسیر میں انہوں نے صحابہ کرام پر یہ الزام لگایا ہے کہ ان میں سود خوری کی وجہ سے دو قسم کی بیماریاں تھیں‘ حرص وطمع‘ بخل وخود غرضی اور حسد‘ نفرت‘ بغض اور غزوہ احد کی شکست میں دونوں کو دخل ہے‘ اس کے ثبوت میں قرآن کے لفظ ”ببعض ما کسبوا“ کا ترجمہ ”بعض کمزوریوں سے کیا گیا‘ جس پر نہایت عالمانہ ومحققانہ انداز سے حضرت مولانا اسحاق صدیقی سندیلوی تنقید فرماچکے ہیں۔ملاحظہ ہو ”بینات“ بابت ماہ جون ۱۹۷۶ء مودودی صاحب کی اس تفسیر وتشریح سے واضح ہے کہ کمزوریوں سے مراد وہ بیماریاں لیتے جو عیوب اور بدترین عیوب ہیں‘ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور صحیح توبہ کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین