اللہ اوراللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والے ہر شخص کا یہ نظریہ اور عقیدہ ہوتا ہے کہ اللہ کی مان مان کر چلنے، قدم قدم پر نبی مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے فرامین کو اپنانے، دین کی مبارک تعلیمات کے مطابق اپنی زندگی کوڈھالنے میں ہی میری نجات، کامیابی اور دونوں جہاں کی خوشگوار زندگی کا سامان ہے۔ دنیا اِدھر سے اُدھر ہوجائے، لیکن پیارے نبی علیہ السلام کے پیارے ارشاد ات وہ کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ وہ جانتا ہے اور مانتا ہے کہ نبی علیہ السلام کی بات کو میں نے پسِ پشت ڈالا تو میری دنیابھی اُجڑ جائے گی اورآخرت بھی، آ خرت کی نعمتوں سے بھی محرومی ہوگی اور دنیا کی خوشیاں بھی مجھ سے روٹھ جائیں گی، اگر چہ وقتی طورپر حاصل رہیں۔ گانا اور میوزک یہ ایک ایسی چیزہے جو آدمی کی دنیا بھی برباد کرتی ہے اور آخرت بھی، بعض طبیعتوں کو میوزک سننے سے شاید لذت وراحت سی محسوس ہوتی ہو، ایسی لذت کی مثال اُ س خارش زدہ شخص کی لذت جیسی ہے جس کو خارش کرتے ہوئے مزہ محسوس ہورہا ہوتا ہے، لیکن کچھ دیر بعد ہی یہ مزہ اُس کے لیے وبالِ جان بن جاتا ہے۔ اسی طرح یہ میوزک بھی اللہ تعالیٰ کی سخت پکڑ اور خطرناک سزا کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
یادرکھیں! یہ گناہ دو چیزوں پر مشتمل ہے: ۱:- میوزک، گانا اور ساز وباجے پر، ۲:- بے حیائی کے جملوں اور بول، فحش خیالات، نامحرم کی آواز، جنسی جذبات کو بھڑکانے اور غلط وگناہ پر آمادہ کرنے والے نظریات پر۔ لہٰذا اگر دونوں باتیں جمع ہوں تب تو گناہ ہے ہی اور اگر دونوں میں سے کوئی ایک بات بھی پائی جارہی ہو تو ایسی آواز کا سننا بھی ناجائز اور حرام ہے۔ اس لیے ایسی نعت وغیرہ جس کے پیچھے( Backgroud ) میوزک کی آواز ہو اُس سے بھی بچنا لازم ہے، البتہ اگر بغیر میوزک کے وہ نعت ہو اور دیگر کوئی خلاف شرع بات نہ ہو تو اُسے سنا جاسکتا ہے،لہٰذا میوزک اورساز وغیرہ پر مشتمل نعتوں اور قوالیوں کے بارے میں یہ کہنا کہ:’’ـ یہ تو نعت ہے یا قوالی ہے، اس سے کیا ہوتا ہے؟! اِ س میں تو اچھی باتیں ہیں‘‘درست نہیں ہے، ایسی نعتوں اورقوالیوں کو نہیں سننا چاہیے، کیونکہ ان میں میوزک، ساز اور باجے کی آواز شا مل ہے اور میوزک، ساز اور باجے کی آواز سننابھی حرام ہے۔
ایک بارحضرت عبداللہ بن عمر r راستے میں جارہے تھے، ان کے کانوں میں گانے اور ساز کی آواز آئی، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کانوں میں انگلیاں ڈال لیں اوراس راستے سے ہٹ گئے۔ پھر تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد اپنے شاگرد نافع سے پوچھتے رہے کہ کیا اب بھی آواز آرہی ہے؟ حضرت نافع اثبات میں جوا ب دیتے (یعنی آواز آرہی ہے) توآپ چلتے رہتے، یہاں تک کہ جب گانے کی آواز سنائی دینا بند ہوگئی تو آپ نے اپنے کانوں سے ہاتھ ہٹالیے اور فرمایا :میں نے رسول اللہ a کو بھی گانے کی آواز پر اسی طرح کانوں میں انگلیاں ڈالتے دیکھاتھا۔ (مسند احمد: ۴۶۳۳)
ملاحظہ فرمائیے ! گانوں کی آواز سے کتنی سخت نفرت تھی کہ کانوں میں انگلیاں ڈال لیں۔ گانے بجانے، سننے میں اپنے کریم رب اور ہمدرد نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی نافرمانی کے ساتھ چند نقصانات یہ بھی ہیں:
۱:- دل میں نفاق پیدا ہوجانا: سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک ارشاد ہے:
’’اَلْغِنَائُ یُنْبِتُ النِّفَاقَ فیِ الْقَلْبِ کَمَا یُنْبِتُ الْمَائُ الزَّرْعَ‘‘ (شعب الایمان: ۴۷۴۶)
’’ گانا دل میں اِس طرح نفاق پیدا کرتا ہے جیسے پانی کھیتی اُگاتاہے۔‘‘
۲:- اُمت پر مصیبتوں کا ٹوٹ پڑنا: ایک حدیث مبارک میں رسول اللہ a نے ۱۵ ایسے اعمال بتائے کہ جب لوگوںمیں وہ کام ہونے لگیں تو ان پر پریشانیاں او رمصیبتیں نازل ہونے لگ جاتی ہیں، ان میں سے ایک کام ساز باجوں اور گانوں کی کثرت ہے۔ (جامع ترمذی: ۲۲۱۰) اللہ ہماری اور ہماری نسل کی اِس سے حفاظت فرمائے۔
۳:- بے حیائی عام ہونے لگتی ہے۔
۴:- ہمارے بچوں، بچیوں کے اخلاق خراب ہونے لگتے ہیں، وہ اپنے والدین اوربڑوں کے نافرمان ہوجاتے ہیں۔
۵:- اللہ کی یاد سے غفلت ہونے لگتی ہے۔
۶:- بے چینی، بے سکونی اور بے اطمینانی کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے، امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ہر سال امریکا میں ۶۰۰ نوجوان گانے بجانے کے اثرات سے متاثر ہوکر خودکشی کرلیتے ہیں۔
۷:- احساسِ ذمہ داری ختم ہوجاتا ہے۔
۸:- فحش اور گندی زبان استعمال ہونے لگتی ہے۔
خوشگوار اور پرسکون زندگی کے لیے، طرح طرح کی پریشانیوں، مصیبتوں اوراللہ کے عذاب سے حفاظت کے لیے، بااخلاق وباکردار معاشرہ کی تشکیل کے لیے ہم میں سے ہر شخص یہ عزم کرے کہ وہ خود بھی گانے اور میوزک سننے سے بچے گا اور اپنے بچے، بچیوں، رشتہ داروں اور دوستوں کو بھی نرمی اور محبت سے گانے سننے سے بچائے گا۔ اس کے لیے درج ذیل باتوں پر خود بھی عمل کریں اور دوسروں کو بھی اِن کی ترغیب دیں :
۱:- خدانخواستہ اِس گناہ میں مبتلا ہیں تو بلا تاخیرابھی دو رکعت نفل پڑھ کر اپنے پروردگار سے خوب رو رو کر مانگیں کہ: ’’اے اللہ! مجھے اِس گناہ کی نحوست سے بچالے، اس کی نفرت میرے دل میں بٹھادے، تاکہ میں گانے ومیوزک کے خطرناک نقصانات سے بچ سکوں۔‘‘
۲:- جیسے ہی گانے کی آواز کانوں میں پڑے فوراً ’’لاَحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ‘‘مانگنا شروع کردیں اور اپنے دل ودماغ کو گانے کی آ واز سے ہٹاکر دوسرے کاموں میں لگانے کی کوشش کریں۔
۳:- ایسی تقریبات اور محفلوں میں بھی جانے سے بچیں جہاں معلوم ہوکہ گانے، میوزک بجائے جائیں گے۔ اِس کا حل یہ ہے کہ تقریب سے کچھ دن پہلے یا کچھ دن بعد جاکر ان کی خوشی میں شریک ہوجائیں اور اُن کو یہ بتاکر معذرت کرلیں کہ: آپ برانہیں مانیے گا، میں گانے اور میوزک سے بچنے کی کوشش کرتا ہوں، تاکہ اللہ تعالیٰ مجھے اس کے نقصانات سے بچالیں۔
۴:- اپنے موبائل پر میوزک والی رنگ ٹون کو بدل لیں، تاکہ ہم خود بھی اِس گناہ سے محفوظ رہیں اور دوسروں کی تکلیف کا ذریعہ بھی نہ بنیں۔
۵:- اِس دعا کو اپنے پاس نوٹ کرکے یاد کرکے دھیان کے ساتھ مانگنا شروع کردیں:
’’اَللّٰھُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُبِکَ مِنْ مُنْکَراتِ الْأَخْلَاقِ وَالْأَعْمالِ وَالْأَھْوَائِ۔ ‘‘(جامع ترمذی: ۳۵۹۱)
’’اے اللہ !میں ۱:- برے اخلاق، ۲:- برے اعمال اور۳:- بری خواہشات سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں۔ ‘‘
ہم میں سے ہر ایک یہ ٹھا ن لے کہ اب آئندہ ان شاء اللہ! ساری زندگی میں گانے نہیں سنوں گا، ایسی مجلس وتقریب سے میں فوراً دور ہوجائوں گا، چاہے گانے بج رہے ہوں یا میوزک والی نعتیں یا قوالیاں سنی جارہی ہوں، کیوںکہ حقیقی خیر اور اصل سکون وکامیابی پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے احکامات سے اپنی زندگیوں کو سنوارنے میں ہی ہے۔ خدائے رحمن سے درخواست ہے کہ تمام گناہوں بالخصوص گانے اور میوزک سننے سے ہماری حفاظت فرمائے ، آمین!