بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
باسمہ الکریم
أنستُ بوحدتي و لزمتُ بیتي
فلا أحدا أزور ولا اُزار(۱)
مخدومنا قبلہ مولانا بنوری صاحب دامت برکاتہم!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عبراتِ رثاء کا عبرت ناک قصیدہ باعثِ عبرت بنا، فجزاکم اللہ أحسن الجزاء کہ اس حقیر کو یاد فرمایا، اگرچہ اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا مکتوبِ گرامی بہت مختصر تھا، مگر:
قلیلٌ منک یکفیني ولکن
قلیلُک لایقال لہٗ قلیلٗ(۲)
دور دور تک اکابر سے ملک خالی ہے، جائیں تو کہاں جائیں؟! (سوائےگل داد مدظلہم کے، مگر وہ آپ کے کام کے تو ہیں، مگر ہمارے جیسے ان سے کوئی فیض حاصل نہیں کر سکتے)ویسے بھی فضاء وار داتِ فسادات کی بنا پر مسموم ہے، کسی کو چین اور اطمینان نہیں ہے، دن گزرتاہے تو اپنے اکابر کی قدر ومنزلت دل میں بڑھتی جاتی ہے، لیکن ان تک پہنچنا بظاہر ممکن نظر نہیں آتا، لیکن دل کی کیفیت بحمداللہ یہی ہے:
لأنھضنّ إلی حشري بحبّہم
ولا أکون لکن بأنّہم فنسی
مولانا محمد انور صاحب(بدخشانی) محترم کا خط ملا، ہمشیرہ محترمہ کا یہ انتساب مبارک ہو، اہلِ بیت کا یہ ایثار باعثِ شرف وباعثِ مراتبِ عالیہ ہو۔ مولوی محمد انور صاحب کے لیے یہ انتساب باعثِ فخر دنیا وآخرت ہے، انہوں نے الحمد للہ بہت ہی مسرت کا اظہار کیا ہے، اللہ تعالیٰ ان کو دونوں جہانوں میں منور فرمائے۔ بہت ہی باادب انسان ہے، اللہ تعالیٰ جانبین کو اطمینان نصیب فرمائے اور اللہ تعالیٰ آپ کے ان اسلاف والے کارناموں کو دنیا کے لیے باعثِ رشد وہدایت، اصلاح وفلاح بنا دے، آمین۔
لک العزۃ القسعاء والرتبۃ التي
قواعدھا لتسمو علی عنکب النسرٖ
سموتَ علواً إذ دنوتَ تواضعا
وقمتَ بحق اللہ في البر والبحرٖ
فلا زلتَ محروس الجناب مؤیّداً
من اللہ بالتوفیق والعزّ والنصرٖ(۳)
تطویلِ تخاطب میں معذور فرمائیں، واللہ! آپ کی شفقت سامنے نہ ہوتی تو یہ جسارت معرضِ وجود میں نہ آتی ۔ فقط والسلام مع العز والاحترام
قبلہ محترم آغاجی مدظلہم کی خدمت میں سلام عرض ہے۔ برادرمحترم محمد صاحب(بنوری) موقّر کے ایک چھوٹے سے رقعہ کا دَین محسوس کررہا ہوں، جواب دوں گا، ناراض نہ ہوں اور سلام کا ہدیہ ضرور قبول فرمائیں۔ برادرم احمد الرحمٰن صاحب سے بھی یہی درخواست ہے کہ سلام مسنون منظور فرمائیں۔ فضل محمد
۸؍ربیع الاول یوم الأربعاء، مدرسہ مظہر العلوم، منگورہ
(۱) میں تنہائی سے مانوس ہوں اور اپنے گھر کو لازم پڑے ہوئے ہوں، اس لیے نہ میں کسی سے ملتا ہوں، اور نہ ہی کوئی مجھ سے ملنے آتا ہے۔
(۲) آپ کی تھوڑی داد ودہش بھی میرے لیے کافی ہے، لیکن آپ کے عطا کیے گئے تھوڑے کو تھوڑا نہیں کہا جاسکتا۔
(۳) آپ کو وہ عزت وشوکت اور مرتبہ حاصل ہے جس کی بنیادیں عقاب کے کندھوں سے بلند وبالا ہیں۔ جب آپ تواضع اختیار کرتے ہیں تو مزید بلند ہوتے ہیں، اور آپ نے بحر وبر میں اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کیے ہیں۔ آپ ہمیشہ سے (خدا کے دین کے) ایسے پہرے دار ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے توفیق، اور عزت ونصرت کے ذریعہ تائید یافتہ ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باسمہ الکریم
حضرت قبلہ جناب مولانا صاحب دامت برکاتہم!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جواب کے انتظار میں خون سوکھ رہا ہے، رات خواب میں بھی کچھ ایسی حالت دیکھنے میں آئی ہے جو میرے لیے بے حد پریشان کن ہے، اللہ پاک رحم فرمائے، میں کیا عرض کروں؟ اس بڑھاپے میں یہاں کی ناموافق فضا میں دینی کام کرنا ہر قدم پر کانٹے دامن گیر ہوتے ہیں اور پھر تسلی کی کوئی جگہ نہیں ہے، اس لیے لوجہ اللہ مجھے مشورہ بھی دیجیے، میرا دل خدا کی قسم! اب بھی وہاں سے وابستہ ہے، کوئی بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے، چند کلمات سے نوازا جائے، فأجرکم علی اللہ۔
یہ حامل الخط ایک بہت مجاہد عالم کا لڑکا ہے، تمام کتابیں پڑھ چکا ہے، گزشتہ سال دورہ حدیث مدرسہ اشرفیہ لاہور میں پڑھ چکا ہے، درجہ علیا میں کامیاب ہے۔ یہ دعوت وارشاد میں داخل ہونا چاہتاہے، ان کے والد کی خاطر یہ چند کلمات عرضِ خدمت ہیں۔فقط
مؤرخہ ۱۵؍ شوال
تابعدار فضل محمد
مدرسہ مظہر العلوم، مینگورہ، سوات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باسمہ العظیم
بدؤ یا الجمال الغال منک لنا المُنٰی
و منک لنا في المنزل العال إنزال
مخدومي العظیم دامت برکاتہم!
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سیدی! آپ کے دونوں ڈرافٹ بہت دیر میں پہنچے تھے، پھر چونکہ وہ اس قسم کے تھے کہ جن کے لیے بنک میں مُرسل الیہ کا اکاؤنٹ ہو، میرا چونکہ بینک میں کوئی اکاؤنٹ نہیں تھا، اس لیے مختلف ذرائع اختیار کرنے پڑے اور مختلف دوکانداروں کے پاس وہ پھرتے رہے، ہم نے نام واپس کر نے کا ارادہ کیا، لیکن ایک بڑے دوکاندار نے جن کے بینک سے خصوصی تعلقات تھے، ان کو اپنے نام پر منتقل کراکر پھر چند روز بعد رقم نکلوائی، آپ کو اطلاع کردی تھی، مگر آپ کو میری اطلاع نہیں پہنچی۔ ایک خط آپ کو پنڈی کے پتہ سے لکھا، وہ بھی آپ کی خدمت میں نہیں پہنچا، ایک خط کراچی کے پتہ سے بعد میں لکھا ہے، اس میں صرف ختم نبوت کے مسئلہ کی کامیابی پر اظہارِ تشکر تھا، وہ بھی خدمتِ اقدس میں نہیں پہنچا، آپ کی اس تشویش سے سخت صدمہ ہوا، خدا کرے یہ خط گم نہ ہو جائے۔ دوسرا مسئلہ میرے متعلق تھا کہ میں کیا راہ اختیار کروں؟ تو عبد المنان نے مشافہۃً عرض کردیا ہوگا، مختصراً پھر عرض کردوں کہ مجھے قلبی اطمینان نہیں ہے، مگر ایسے حالات میں چھوڑنے سے بالکل مدرسہ ختم ہونے کا اندیشہ ہے، کیونکہ جو کام کے مدرسین ہیں، وہ صرف میری وجہ سے وابستہ ہیں، میری علیحدگی پر وہ فوراً الگ ہو جائیں گے، کیونکہ ان کے لیے صوبہ سرحد کے ہر مدرسے کے بلاوے آرہے ہیں مزید راحت اور مزید تنخواہوں کے ساتھ۔ میں صرف اس اندیشے سے یہ بے مزہ، بد مزہ، بے اطمینان کی زندگی فی الحال اختیار کرتاہوں اور جب تک آپ کا سایہ پاکستان پر قائم رہے گا، ہم نیوٹاؤن (بنوری ٹاؤن) سے قلبی روحانی طور سے وابستہ رہیں گے، بلکہ میدانِ قیامت میں آپ کے دامن سے وابستہ رہنے کے متمنی ہیں اور امیدوار ہیں۔
سیدی! خدا کی قسم! ایک بے مروت دنیا میں زندگی بسر کررہاہوں، نہ کوئی انیس ہے، نہ کوئی محب، نہ کوئی مخلص، آپ کے دامن سے ظاہری جدائی کی سزا موت ہی پر جاکر ختم ہو تو غنیمت ہے، کہیں بعد الموت باقی نہ رہ جائے، ایک ہفتہ سے خدا کی قسم ہرحالت خلوت میں آپ کے فراق کے آنسو بے اختیار آنکھوں سے بہتے رہتے ہیں، واللہ اعلم کیا وجہ ہے؟ واللہ شاھد علی ما أقول ۔
ہم نے آپ کے اِعزاز واکرام کی قدر نہ کی تو اب یہ ذلت وہوان ضرور پہنچ کر رہے گی، جیساکہ یہ مقولہ مشہور ہے:’’من لم تصلحہ الکرامۃ أصلحہ الھوان، ومن طلب فوق قدرہٖ استحق الحرمان۔‘‘ (۱)یہ دونوں جملے مجھ فقیر پر خوب چسپاں ہیں، اللہ تعالیٰ جل وعلی شانہ ہم جیسے ضعفاء سے اپنے رحم وکرم کا معاملہ فرمائے ۔
رمضان میں حرمین شریفین کے سفر کی اطلاع ہوجائے تو بے انتہا نوازش ہوگی، میں ان شاء اللہ تعالیٰ آپ کے عَوْد (واپسی) پر حاضرِ خدمت ہوں گا اور ایک ہفتہ کم سے کم خدمت میں گزاروں گا، اللہ تعالیٰ کرے کہ صحت وعافیت کے ساتھ ملاقات نصیب ہو۔
برادرم حسین احمد نے آپ کے لیے ایک نافہ کاغذی قسم کاعمدہ خریدا ہے، تقریباً دو تولے وزن کا، بعد العید ان شاء اللہ وہ بھی اپنے کاروباری سلسلہ (میں) شاید میرے ساتھ رفیق ہو تو وہ نافہ ساتھ لے آئیںگے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ رمضان مبارک اور خصوصاً حرمین کی دعاؤں میں ہم بھی امیدواروں میں سے ہیں، محروم نہ فرمائیں۔ قبلہ آغاجی مدظلہم اور برادرم محمد صاحب(بنوری) کو سلام عرض ہیں۔
فضل محمد
مدرسہ مظہر العلوم، منگورہ، سوات
(۱) جسے اعزاز وتکریم راس نہ آئے تو ذلت ہی اس کے مناسب ہوتی ہے اور اپنے قد کاٹھ سے بڑھ کر عزت کا طالب ہو وہ محرومی کا مستحق ہوتا ہے۔