بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مروجہ سنِ عیسوی میں کیا کیا اِصلاحیں ہوئیں؟!

مروجہ سنِ عیسوی میں کیا کیا اِصلاحیں ہوئیں؟!


موجودہ سن عیسوی دراصل رومی سن ہے، جس کے بیشتر مہینوں کے نام مختلف رومی دیویوں اور دیوتاؤں کے ناموں سے لیے گئے ہیں اور یہ دیکھ کر سخت افسوس ہوتا ہے کہ ایک جداگانہ نظامِ تقویم کے حامل ہونے کے باوجود ہم لوگ اپنی روز مرہ تحریروں میں ایسے مہینوں کا عام استعمال کرتے ہیں جو افسانوی قسم کے باطل دیوتاؤں کی طرف منسوب ہیں، حسبِ تصریحِ جوہری طنطاویؒ اُن کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
مہینہ کا نام اور وجہ تسمیہ
جنوری 
یہ جانوس سے ماخوذ ہے، جانوس ایک دیوتا کا نام ہے، رومی لوگ اس کے آگے پیچھے دو چہرے بناتے تھے جس سے (وہ یہ خیال پیش کرتے تھے کہ ) وہ سامنے اور پیچھے دونوں جانب دیکھتا تھا۔ 
فروری 
یہ نام فبروا نامی ایک دیوی سے ماخوذ ہے، جسے اہل روم کے ہاں طہارت کی دیوی کا مقام حاصل ہے۔ 
مارچ
یہ مارس سے ماخوذ ہے، جو رومیوں کے نزدیک جنگ کا دیوتا ہے۔ 
اپریل 
یہ نام ابیریری کے لفظ سے ماخوذ ہے جس کے معنی رومی میں کسی چیز کے پھوٹنے یا کھلنے کے ہوتے ہیں، اس مہینے کا یہ نام اس مناسبت سے تجویز کیاگیا کہ اس میں پھول کھلتے ہیں۔ 
مئی 
میاسے ماخوذ ہے جو افسانوی شیطان اٹلس کی بیٹیوں میں سے ایک کا نام ہے۔ 
جون
یہ نام یونون سے ماخوذ ہے جو دیویوں کے سردار جیوپڑکی بیوی تھی۔ 
جولائی
جولیانی تقویم کے بانی جو لیس قیصر کی یادگار کے طور پر اس مہینے کا نام’’جولائی‘‘ رکھ دیا گیا۔ 
اگست
رومیوں کے پہلے بادشاہ اور جولیس قیصر کے جانشین اغسطس کی یادگار کے طور پر اس مہینے کا نام ’’اگست‘‘ رکھ دیاگیا۔ 
ستمبر
اس کے معنی ہیں ’’ساتواں مہینہ‘‘ جبکہ قدیم اُصول کے مطابق مارچ کو سال کا پہلا مہینہ شمار کیا جاتا تھا۔ 
اکتوبر
اس کے معنی ہیں ’’آٹھواں مہینہ‘‘ جبکہ قدیم اُصول کے مطابق مارچ کو سال کا پہلا مہینہ شمار کیا جاتا ہے۔ 
نومبر
اس کے معنی ہیں ’’نواں مہینہ‘‘ جبکہ قدیم اُصول کے مطابق مارچ کو سال کا پہلا مہینہ شمار کیا جاتا تھا۔ 
دسمبر
اس کے معنی ہیں ’’دسواں مہینہ‘‘ جبکہ قدیم اُصول کے مطابق مارچ کو سال کا پہلا مہینہ شمار کیا جاتا تھا۔ 
(ملاحظہ ہو: الجواہر فی تفسیر القرآن الکریم، ج:۵، ص:۱۱۰، طبع دوم: ۱۳۵۳ھ)
موجودہ سنِ عیسوی کی اصلاح سب سے پہلے جولیس قیصر کے زمانہ میں ہوئی تھی ۔ قیصر مذکور نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت سے ۴۵ سال قبل ۷۰۹ رومی میں اسکندریہ سے مصر کے مشہور فلکی سوسی جینس ( OSI GENESS) کو اس غرض سے طلب کیا تھا کہ سالِ شمسی کو مرتب ومنظم کر دے، چنانچہ اس نے اولاً اعتدالِ ربیعی کا دن رصد سے معلوم کیا تو اس کے حساب سے ۲۵؍مارچ کا دن نکلا، پھر فلکی مذکور نے حسب ذیل نقشہ کے مطابق قیصر کے لیے سن شمسی کو مرتب کردیا:
تعداد ایام     
رومی مہینوں کے نام
مہینوں کے موجودہ نام
۳۱
جانواریوس
جنوری
۲۹؍اورسال کبیسہ میں ۳۰
فبروار یوس
فروری
۳۱
مارتیوس
مارچ 
۳۰
اپریلیس
اپریل
۳۱
مایوس
مئی
۳۰
یونیوس
جون
۳۱
کینتلیس 
جولائی
۳۰
سیکتیلس
اگست
۳۰
ستنبر
ستمبر
۳۱
اکتوبر
اکتوبر
۳۰
نومبر 
نومبر
۳۱
دسمبر
دسمبر
فلکی مذکور نے ماہِ فروری کے بارے میں یہ قاعدہ مقرر کیا تھاکہ وہ ۳؍سال تک مسلسل ۲۹؍ دن کا ہوا کرے گا، ہر چوتھے سال ۳۰؍دن کا شمار کیاجائے گا، جولیس قیصر نے اس اصلاح کی یادگار میں ماہِ کینتلیس (مطابق ماہِ تموز) کا نام بدل کر اپنے نام کی نسبت سے اس کانام ’’جولائی‘‘ کردیا۔ 

سنِ عیسوی میں دوسری تبدیلی

بعد کو جب شاہ اگستس (۱)(augustus) نے اس کی گدی سنبھالی تو چونکہ یہ بڑا مغرور خودپرست بادشاہ تھا اور جیساکہ بیرونی کا بیان ہے: سب سے پہلے ’’قیصر‘‘ کا لقب بھی اسی نے اختیار کیا ہے اور اس کی وجہ تسمیہ بیرونی نے یہ لکھی ہے کہ: ’’قیصر‘‘ کے معنی فرنگی زبان میں اس چیز کے آتے ہیں جس کو چاک کرکے نکالاگیاہو، چونکہ اس کی ماں دردِزہ میں مرگئی تھی اور اس کو شکم مادر سے چاک کرکے نکالا گیا تھا، اس لیے اس کا لقب ہی ’’قیصر‘‘ پڑگیا۔ اگستس از راہِ تکبر اکثر کہا کرتا تھا کہ میں اندام نہانی کے راستہ باہر نہیں آیا۔ (۲)
بہرحال جب یہ تخت نشین ہوا تو اس کی آتشِ حسد نے جوش مارا اور اسے خیال ہوا کہ جولیس کے نام کو تو اس اصلاح کی بدولت بقائے دوام حاصل ہوا کہ ماہ ’’جولائی‘‘ ہرسال اس کی یادتازہ کرتا رہتا ہے، آخر میں اس سلسلہ میں اپنی یادگار کیوں نہ چھوڑوں، اس خیال سے اس نے بھی ماہ ’’سکستیلس‘‘ جو جولائی کے بعد آتا ہے اپنے نام پر ’’اگست‘‘ سے موسوم کردیا اور چونکہ یہ مہینہ ماہ ’’آب‘‘ کے مطابق تھا جس کے تیس دن ہوتے ہیں، اس لیے اس کے تکبر نے اس بات کو بھی گوارانہ کیا کہ جو مہینہ اس کے پیش رَو کے نام سے منسوب ہے وہ تو اکتیس دن کا ہو اور جو مہینہ خود اس کے نام پر موسوم ہو وہ تیس دن کا، اس لیے اس نے اس سن میں بمقتضائے ’’ایجادِ بندہ اگرچہ گندہ‘‘ یہ  اصلاح کی کہ ماہ ’’اگست‘‘ کو بھی بجائے تیس کے اکتیس ہی کا قرار دے دیا اور ماہِ فروری کے بارے میں جو تین سال تک انتیس کا اور ہر چوتھے سال تیس دن کا شمار کیا جاتا تھا، یہ قاعدہ وضع کیا کہ آئندہ سے یہ ایک دن کم کرکے تین سال تک اٹھائیس دن کا اور ہر چوتھے سال انتیس دن کا شمار ہواکرے گا۔ جولائی اور اگست کے پیہم ۳۱، ۳۱ دن کے ہونے کی اصل حکمت یہ ہے، یہ ’’تقویم جولیس‘‘ سے موسوم ہے۔ 

 حاشیہ:۱۔۔۔۔۔’’اگست‘‘ کے معنی حسن وفقی بک نے مقدس کے لکھے ہیں۔
 حاشیہ:۲۔۔۔۔۔ملاحظہ ہو، الآثار الباقیہ عن القرون الخالیہ، ص:۲۹۔

سنِ عیسوی میں تیسری اصلاح

پھر ۱۰۷۹ رومی یعنی ۳۷۰ جولیسی مطابق ۳۲۵ عیسوی میلادی میں شہرازنیق میں جو اَناطولیہ کے مضافات میں واقع ہے، پوپ پادریوں کی ایک روحانی مجلس اس غرض سے منعقد ہوئی کہ عیسائیوں کی عیدوں اور ان کے مقدس دنوں کی تعیین کی جائے، چنانچہ اس مجلس نے تاریخِ عیسوی کا مبدأ حضرت عیسیٰ علیٰ نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام کی ولادت باسعادت کو قرار دیا۔ ارکانِ مجلس کی رائے میں حضرت عیسیٰ علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام کی ولادت ۲۶؍دسمبر کو ہوئی تھی، اس لیے یکم جنوری سے سنِ عیسوی میلادی کا آغاز قرار دیاگیا۔ اس مجلس نے ’’تقویم جولیس‘‘ کو جوں کا توں برقرار رکھا، بجز اس کے کہ’’اعتدال ربیعی‘‘ کا دن بجائے ۲۵؍مارچ کے اب سے ۲۱؍مارچ مقرر کردیا گیا، کیونکہ سوسی جینس فلکی نے جب جولیس قیصر کے زمانے میں رصد سے ’’اعتدالِ ربیعی‘‘ کا وقت معلوم کیا تھا تو وہ ۲۵؍ مارچ کا دن تھا، لیکن اب ۳۷۰ برس گزرجانے کے بعد جب ازنیقی مجلس نے رصد سے اس کا حساب لگایا تو معلوم ہواکہ اب تک چار دن کا فرق پڑچکا ہے اور اب ’’اعتدالِ ربیعی‘‘ کا دن بجائے ۲۵؍مارچ کے ۲۱؍مارچ ہوگیا ہے، کیونکہ آفتابِ اول برجِ حمل میں اسی تاریخ کو داخل ہوتاہے۔ 
بہرحال ان پادریوں نے یہ اصلاح کرکے اپنی عیدوں، تہواروں اور مقدس دنوں کا تعین اسی اصلاح یافتہ سن کے اعتبار سے کرلیا، لیکن سارے ارکانِ مجلس میں سے کسی کو اتنا خیال نہ آیا کہ ’’اعتدالِ ربیعی‘‘ میں یہ چار دن کا فرق ۳۷۰ سال کے عرصہ میں کیسے پڑگیا؟! اور آئندہ اس کی کیا صورت ہو کہ پھر یہ فرق نہ پڑنے پائے، مگر انہوں نے اتنی ہی اصلاح ضروری سمجھی اور مدت تک مذہبی دنوں کے تعین کے سلسلہ میں اسی طریقہ کار پر عمل درآمد ہوتا رہا۔ 

سنِ عیسوی کا استعمال کب سے شروع ہوا؟!

پھر ۵۲۸ء سے تاریخِ میلادی کا استعمال شروع ہوا اور رفتہ رفتہ تمام مسیحی اقوام میں سن عیسوی کا عام رواج ہوگیا، جو بغیر کسی ادنیٰ تغیر وتبدل کے ’’تقویم جولیس‘‘ کے مطابق سولہویں صدی کے اخیر تک رائج رہا۔ (۱)

حاشیہ:۱۔۔۔۔۔ فارسی زبان کے کسی شاعر نے انگریزی مہینوں اور سال کبیسہ (لوند کے سال) کے معلوم کرنے کے قاعدہ کو اس طرح نظم کردیاہے:

جنوری و فروری و مارچ اپریل و مئی                                                                                                            جون جولائی اگست و نیز سیتمبر بدان
ہست اکتوبر نومبر ہم دسمبر آخریں                                                                                                            از شہور سال انگریزی بسان رومیان
پس بود اپریل وجون ونیز سیتمبر دگر                                                                                                             شد نومبر ایں ہمہ سی روزہ باشد درمیان
فروری دو کم بود لیکن بسال چارمین                                                                                                            یک بریں افزا کبیسہ بست ونہ گرد و عیان
ہفت باقی سی و یک روز است گر قسمت کنی                                                                                                            سالہائے عیسوی بر چار تا اے مہربان
بر نیاید کسر گر سال کبیسہ شد ہمین                                                                                                                                     در بر آید بس بترک کسر کن تقسیم آن
گر یکے ماند ز سال بے کبیسہ اول است                                                                                                             در دو دوم در سہ سوم سال باشد بیگمان

سنِ عیسوی میں چوتھی اصلاح

پھر سولہویں صدی عیسوی کے آخر میں پوپ گریگوری سیزدہم نے اس حساب میں یہ اصلاح کی کہ ’’تقدیم جولیس‘‘ میں سے دس اور گھٹا دیئے، چنانچہ اس نے یوم پنجشنبہ ۴؍اکتوبر ۱۵۸۲ء کے بعد والے جمعہ کی تاریخ ۵؍اکتوبر کے بجائے ۱۵؍اکتوبر قرار دی اور یہ قاعدہ بنایا کہ ۱۷۰۰ء ، ۱۸۰۰ء اور ۱۹۰۰ء میں کبیسہ کا دن ضم نہ کیا جائے اور آئندہ سے ہر تین سال ۳۶۵ دن معمول کے مطابق شمار کیے جائیں اور ہر چوتھا سال ۳۶۶ دن کا سال کبیسہ مانا جائے۔ 
اس اصلاح کا سبب یہ تھا کہ شمس کی حرکتِ دَوری حقیقت میں وہ نہ تھی جو جولیس کی تقویم میں مقرر کی گئی تھی، یعنی دَورِ شمسی کی مدت (۲۵۰۵ [۳۶۵] دن)نہ تھی، بلکہ (۲۴۲۲۱۶، [۳۶۵]دن) تھی اور اسی غلطی کا یہ نتیجہ تھا کہ جس طرح سابق ’’تقویم‘‘ جولیس کے حساب سے ’’اعتدالِ ربیعی‘‘ کا دن ۲۵؍مارچ کی بجائے ۲۱؍مارچ ہوگیا تھا، اب بجائے ۲۱؍ مارچ کے ۱۱؍مارچ ہوگیا تھا، چنانچہ جب یہ نکتہ پوپ صاحب پر کھلا تو مجبوراً ان کو اس حساب میں سے دس دن کم کرکے اپنے ایام مذہبی کی تعیین کرنی پڑی، جب سے آج تک پوپ صاحب کی اسی اصلاح کے مطابق عمل در آمد چلا آرہا ہے، آگے اللہ جانے اور کیا اصلاح کرنی پڑے!۔ 

تقویم گریگوری اور مسیحی اقوام

پوپ گریگوری کی مذکورہ تصحیحات کو سب سے پہلے فرانس میں سندِ قبول عطا کی گئی، چنانچہ وہاں کے شاہ ہنری سوم کے حکم سے یک شنبہ ۹؍دسمبر کے بعد جو دو شنبہ آیا تو اس روز بجائے دسمبر کی ۱۰؍تاریخ کے ۲۰؍تاریخ قرار دی گئی اور اس وقت سے لے کر ۲۲؍ستمبر ۱۷۹۲ء تک فرانس میں اسی تاریخ پر عمل ہوتا رہا۔ پھر ۲۲؍ ستمبر ۱۷۹۲ء سے حکومت فرانس نے اپنے سن میں یہ تبدیلی کردی کہ آغازِ سال‘ شمس کے  نقطۂ ’’اعتدالِ خریفی‘‘ پر آجانے سے قرار دیا اور سال کے سب مہینے تیس تیس دن کے کر دیئے، پھر اختتامِ سال پر معمولی سالوں میں ۵؍ دن اور سال کبیسہ میں ۶؍دن کا اضافہ مقرر کیا، تاکہ شمسی کی تکمیل ہوسکے۔ ۱۸۰۵ء کے اختتام تک حکومتِ فرانس اسی حساب پر عامل رہی، پھر ۱۷؍جنوری ۱۸۰۶ء سے گریگوری کی تقویم پر حسبِ سابق عمل شروع ہوگیا۔ 
لیکن حکومتِ انگلستان ۱۷۵۱ء تک ’’تقویم جولیس‘‘ ہی پر عمل کرتی رہی، بعد کو جارج دوم کے زمانے میں اس کے عہدِ حکومت کے چوبیسویں سال حسبِ قرار دادِ پارلیمنٹ اس تقویم کو ترک کرکے گریگوری کی تقویم کو قبول کیاگیا، چنانچہ ۲؍ستمبر ۱۷۵۲ء یوم چہار شنبہ کے بعد یوم پنجشنبہ کو بجائے ۳؍ستمبر کے ۱۴؍ستمبر تاریخ قرار دی گئی۔ اس سے پہلے چار سو سال انگریزوں کا مالی سال ۲۵؍مارچ سے شروع ہوتا تھا، اب ۱۷۵۳ء سے سال کا پہلا دن یکم جنوری کو قرار دیاگیا۔ (۱)
روس میں سال کا آغازستمبر کی پہلی تاریخ سے ہوتا تھا، ۱۶۹۹ء میں قیصر روس پطرس کبیر نے یہ حکم دیا کہ روس میں بھی یورپ کی طرح سال کا آغاز یکم جنوری سے قرار دیاجائے۔ قیصر روس پطرس مذکور نے آغازِ سال کا دن تو بدلوادیا، لیکن اس سے اتنا نہ ہوسکا کہ ’’تقویم جولیس‘‘ کو ہٹا کر گریگوری کی تقویم کو نافذ کردیتا، نتیجہ یہ ہوا کہ ۱۹۱۴ء کی جنگ عظیم تک روس اور یونان میں عملدرآمد اسی غلط تقویم پر ہوتا رہا، تا آنکہ روس میں انقلاب آیا، زار کی حکومت کا تختہ اُلٹا اور کمیونزم کا راج ہوگیا۔ بعد ازاں یکم اکتوبر ۱۹۲۳ء کو روس اور یوگوسلاویہ کے چرچ نے سن عیسوی کے شمار کے لیے جولیس کے حساب کو بدل کرگریگوری کے حساب کو اختیار کرلیا۔ 
غرض گریگوری سیزدہم نے اوائل مارچ ۱۵۸۱ء میں سن عیسوی کی اصلاح کا حکم دیا، چنانچہ مجلس ازنیقی کے وقتِ انعقاد سے لے کر اب تک یعنی ۳۲۵ء سے لے کر ۱۵۸۲ء تک تقریباً دس دن کا فرق جو ۱۲۵۷ سال میں ہوگیا تھا، اس کو درست کرنے کی غرض سے جمعہ ۱۵۸۲ء کو اکتوبر کی ۵؍تاریخ کے بجائے ۱۵؍تاریخ شمار کی گئی اور اس روز سے کیتھولک فرقہ نے جس کی حکومتیں فرانس، اٹلی، اسپین اور پرتگال میں قائم تھیں اسی تاریخ پر عمل شروع کردیا، لیکن پرو ٹسٹنٹ نے اس اصلاح کو ۱۷۰۰ء سے پہلے قبول نہیں کیا اور انگریزوں نے تو اس کو ۱۷۵۲ء میں اپنے یہاں نافذ کیا ہے، سب سے آخر میں اس اصلاح کو آرتھوڈکس فرقہ نے قبول کیا، جس کے پیرو‘ روس اور یوگوسلاویہ اور دیگر ریاستہائے بلقان میں ہیں اور اب تو سارے یورپ میں یہی تاریخ مروج ہے۔ (۲)

یہ ہے اس سن عیسوی کا تاریخی جائزہ جس پر ساری مسیحی دنیا کا دار ومدار ہے۔ مقام عبرت ہے کہ اتنی بڑی قوم برسوں نہیں صدیوں تک اپنے مقدس دنوں، عیدوں، تہواروں اور روزوں کے ایام کو گم کیے رہی اور خود اپنے اقرار کے مطابق ۱۵۸۲ء تک صحیح دنوں کی تعیین نہ کر سکی، بلکہ عباداتِ مذہبی کو اسی غلط حساب کے مطابق ادا کرتی چلی آئی، یہیں سے اس امر کا بھی اندازہ لگا لیجئے کہ جس قوم نے اپنے مقدس دنوں کو گم کردیا، وہ اپنے انبیائB کی مقدس تعلیم کو کس طرح محفوظ رکھتی؟!۔ تمام عیسائی دنیا کا اپنے اصلی دنوں کو گم کردینا اسی ضلال واضلال کا ایک نمونہ ہے، جس کے متعلق قرآن عظیم میں ارشاد ہے: ’’یا أہل الکتاب لاتغلوا فی دینکم غیر الحق‘‘ ۔۔۔۔۔یعنی۔۔۔۔۔ ’’اے اہل کتاب! اپنے دین کی بات میں ناحق کا مبالغہ مت کرو۔‘‘ 

 حاشیہ:۱۔۔۔۔۔اس ساری تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، تقویم القدیم از حسن وفقی بک، ص:۱۱۰تا۱۱۹، مطبع سلفیہ قاہرہ ۱۳۴۵ھ۔
 حاشیہ:۲۔۔۔۔۔یہ واضح رہے کہ انگریزوں کو تو اپنے سنِ مروجہ کی غلطی ۱۷۵۲ء میں معلوم ہوئی، مگر ہندوستان کے مسلمانوں نے اس غلطی کی نشان دہی ان کی اصلاح سے ۳۳ سال پہلے ۱۷۱۹ء میں کردی تھی۔ ملاحظہ ہو: زیچ بہادرخانی، بابِ ہفتم در معرفت تاریخ عیسوی ازمولوی غلام حسین جون پوری، طبع بنارس ۱۸۵۳۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین