بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

محفلِ میلاد کی واقعاتی اور شرعی حیثیت!

محفلِ میلاد کی واقعاتی اور شرعی حیثیت!

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
۱:-ہمارے اکابرین کے نزدیک ۱۲؍ربیع الاول کو یا سال بھر کسی بھی دن کومحفلِ میلاد منانا کیسا ہے؟ نیز اگر زید، عمرو، بکر وغیرہ یہ کہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرِ ولادت شریف کفار کے مشابہ ہے، ایسا کہنے والا کیسا ہے؟ مسلمان یا خارجی؟ اور ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟
۲:-مُردوں کو جو فاتحہ وغیرہ پڑھ کر بخشی جاتی ہے، اس میں چھوٹے بڑے سب کو ایک جیسا بشر سمجھ کر (مرتبہ کے لحاظ سے) ایک ساتھ ثواب بھیج سکتے ہیں کہ نہیں؟
۳:- اور تعزیت و عرس کے لیے محفل وغیرہ کرانا کیسا ہے؟ 
تفصیلاً جواب دے کر مشکورو ممنون فرمائیں۔               المستفتی:حافظ عامر شہزاد زیندی

الجواب حامداً ومصلیاً

واضح رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا ذکر مبارک خواہ ذکرِ ولادت ہو یا عبادات ومعاملات، شب وروزکے نشست وبرخاست کا ذکر‘ بلاشبہ باعثِ اجر وثواب اور موجبِ خیر وبرکت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اُمتِ محمدیہ (علی صاحبہا الصلوۃ والسلام) کے لیے بہت بڑی نعمت ہے۔ خود قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کو بطور احسان کے ذکر فرمایاہے:
’’لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ إِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْ أَنْفُسِہِمْ۔‘‘ (آل عمران:۱۶۴)
مروجہ طریقہ پر مجلسِ میلاد (محفلِ میلاد) منعقد کی جاتی ہے، اس کا ثبوت قرآن وحدیث میں کہیں نہیں ہے، نہ خود بنفسِ نفیس حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نبوت کی تیئیس سالہ زندگی میں یہ مجلس منعقد کی اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو ۱۱۰ہجری تک اس دنیا میں موجود رہے اور ان حضرات کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت یقینا ہم سے ہزاروں گنا زیادہ تھی، اور اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ وہ اُمور جو سننِ عادیہ کہلاتے ہیں، ان میں بھی یہ حضرات اتباع کا دامن نہیں چھوڑتے تھے۔ چند احادیث بطور نمونہ پیش کی جاتی ہیں:حضرت انس رضی اللہ عنہ کے بال سامنے کی طرف سے کچھ بڑے تھے، ان کی والدہ نے ان کے کٹانے سے منع کیا، کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان بالوں کو پکڑا کرتے تھے اور ان پر ہاتھ پھیرتے تھے:
’’عن أنسؓ بن مالک قال: کانت لی ذوائبۃ، فقالت لي أمي: لا أجزہا ، کان رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم یمدہا ویأخذہا۔‘‘                         (سنن ابی داؤد ،ج:۲، ص:۲۲۵،ط:حقانیہ)
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما ڈاڑھی کو زرد خضاب لگایا کرتے تھے، کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اس طرح کیا تھا۔حدیث شریف میں ہے:
’’عن ابن عمرؓ کان یلبس النعال السبتیۃ ویصفر لحیتہٗ بالورس والزعفران وکان ابن عمرؓ یفعل ذٰلک۔‘‘                             (سنن ابی داؤد ج:۲، ص:۲۲۶،ط:حقانیہ)
ان احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پوری زندگی محبت کی عملی تصویر تھی، لیکن اس کے باوجود ان کی پوری زندگی میں مروجہ طریقہ پر محفلِ میلاد منانے کا ایک واقعہ بھی نہیں ملتا، بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاکیزہ دور کے بعد بھی چھ سو سال تک کسی نے میلاد کے نام پر محافل سجانے کا اہتمام کبھی نہیں کیا، بلکہ وہ تو اس کے بجائے خود کواتباعِ نبوی میں ڈھالنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔
اس بدعت کی ابتداء ۶۰۴ھ میں ایک بے دین بادشاہ مظفر الدین کوکری نے اپنی حکومت کو طول دینے ، رعایا کو اپنی طرف مائل کرنے ، اپنی عظمت ان کے دلوں میں بٹھانے ، اور دین سے لگاؤ کا تأثر دینے کے لیے کوئی دینی ڈھونگ رچانے کو بہترین حربہ خیال کیا، چنانچہ اس نے ربیع الاول میں جشنِ میلاد کی بدعت ایجاد کرنے کا منصوبہ بنایا اور اسی مقصد میں پوری طرح کامیابی کے لیے اس نے زبردست تدبیر یہ اختیار کی کہ عمر بن دمیہ ابو الخطاب نامی ایک شخص- جو خود کو عالم کہلواتا تھا- کے ذریعہ اس بدعت کو سندِ جواز فراہم کرنے کے لیے مواد اکٹھا کرنے کا کارنامہ سرانجام دلوایا اوراس کو ایک ہزار دینار کا صلہ دیا، جیساکہ مشہور و معروف مؤرخ ابن خلکان نے اپنی کتاب ’’وفیات الأعیان وأبناء أبناء الزمان‘‘ میں لکھاہے:
’’وأما احتفالہٗ بمولد النبي صلی اللہ علیہ وسلم فإن الوصف یقصر عن الإحاطۃ بہٖ، لٰکن نذکر طرفا منہ وہو أن أہل البلاد کانوا قد سمعوا بحسن اعتقادہٖ فیہ ، فکان في کل سنۃ یصل إلیہ من البلاد القریبۃ خلق کثیر من الفقہاء والصوفیۃ والوعاظ والشعراء ، ولایزالون یتواصلون من المحرم إلٰی أوائل شہر ربیع الأول ، فکان مظفر الدین (ملک أربل)  ینزل کل یوم بعد صلاۃ العصر ویقف علی قبۃ إلٰی أٰخرہا ویسمع غناء ہم ویتفرج علٰی خیالاتہم وما یفعلونہٗ في القبات۔۔۔ ہٰکذا یعمل کل یوم إلٰی لیلۃ المولد ، فإذا کان صبیحۃ یوم المولد  أنزل الخلع من القلعۃ إلٰی الخانقاہ علی أیدی الصوفیۃ ۔۔۔ فإذا فرغوا من ہٰذا الموسم تجہز کل إنسان للعود إلٰی بلدہٖ ، فیدفع لکل شخص شیئًا من النفقۃ ، وقد ذکرت في ترجمۃ الحافظ أبی الخطاب ابن دحیۃ فی حرف العین وصولہٗ إلی أربل وعملہ لکتاب ’’التنویر فی مولد سراج المنیر‘‘ لما رأی من اہتمام مظفر الدین بہٖ۔‘‘  (وفیات الاعیان لابن خلکان: ترجمہ مظفر الدین صاحب اربل، رقم الترجمۃ: ۵۴۷، ج:۴، ص:۱۱۷، ط: دارصادر، بیروت)
۲:- ’’حسن المقصد في عمل المولد‘‘ میں ہے:
’’وقال ابن الجوزي في ’’مرآۃ الزمان‘‘ : حکي أن بعض من حضر سماط المظفر في بعض الموالد ویعمل للصوفیۃ سماعاً من الظہر إلی الفجر ویرقص بنفسہٖ معہم الخ۔‘‘       (حسن المقصد فی عمل المولد،ص:۴۳، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
۳…علامہ جلال الدین سیوطیv نے اپنی کتاب ’’حسن المقصد‘‘ میں اس نوایجاد کردہ میلاد کو بادشاہ مظفر الدین کے دور کے عالم شیخ ابن دحیہ کی طرف منسوب کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’وقد صنف الشیخ أبوالخطاب ابن دحیۃ مجلدا في مولد رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم سماہ ’’التنویر في مولد البشیر والنذیر‘‘، فجازاہ علی ذٰلک بألف دینار‘‘ (ص:۴۲-۴۳، ط: دار الکتب العلمیۃ)
اگر حقیقتِ حال پر نظر کی جائے کہ وہ تاریخ کونسی تھی جس دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود مبارک اس عالم میں طلوع ہوا تو اس سلسلے میں علماء سیر کا اس پر تو اتفاق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائشِ بابرکت ماہ ربیع الاول، پیر کے دن ہوئی، لیکن ربیع الاول کی کس تاریخ کو ہوئی؟! اس بارے میں علماء کے اقوال مختلف ہیں :۲،۸،۹،۱۲ ۔ سیرۃ ابن ہشام میں ہے:
’’قال ابن إسحاق: ولد رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم الاثنین واثني عشر لیلۃ خلت من شہر ربیع الأول عام الفیل۔‘‘                       (سیرۃ ابن ہشام،ج:۱، ص:۱۶۷، ط: دار العباس)
علامہ قسطلانیv ’’المواہب اللدنیۃ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’واختلف أیضا في الشہر الذي ولد فیہ والمشہور أنہ ولد فی شہر ربیع الأول وہو قول جمہور العلماء ونقل ابن حجرؒ الاتفاق علیہ ، وکذا اختلف أیضا في أي یوم من الشہر ، فقیل: إنہ غیر معین ، إنما ولد یوم الاثنین من ربیع الأول من غیر تعیین ، والجمہور علی أنہ یوم معین منہ ، وقیل: للیلتین خلت منہ۔ قال الشیخ قطب الدین القسطلانيؒ: وہو اختیار أکثر أہل الحدیث، ونقل عن عباس وجبیر بن مطعمؓ وہو اختیار أکثر من لہ معرفۃ بہٰذا الشأن ، واختارہ الحمیدي وشیخہ ابن حزم، وحکی القضاعي فی ’’عیون المعارف‘‘ إجماع أہل التاریخ علیہ ،  ورواہ الزہري عن محمد بن جبیر بن مطعم وکان عارفا بالنسب وأیام العرب، أخذ ذٰلک عن أبیہ، وقیل: لعشرۃ وقیل: لاثني عشر وعلیہ عمل أہل مکۃ في زیارتہم موضع مولدہ في ہٰذا الوقت، وقیل: سبع عشر وقیل: لثمان عشر وقیل: لثمان بالیقین منہ، وقیل: إن ہٰذین القولین غیر صحیحین عمن حکیا عنہ بالکلیۃ، والمشہور أنہ ولد یوم الاثنین ثاني عشر شہر ربیع الأول وہو قول ابن إسحاق وغیرہ۔‘‘                                 (المواہب اللدنیۃ، للشیخ احمد بن محمد القسطلانی ، ج:۱، ص:۷۴، ط:بیروت)
’’البدایۃ والنہایۃ‘‘ میں ابن کثیرؒ فرماتے ہیں:
’’ثم الجمہور علی أن ذٰلک فی شہر ربیع الأول، فقیل: للیلتین خلتا منہ، وقیل: لثمان خلون منہ ورواہ ابن أبي شیبۃ فی مصنفہ عن عفان عن سعید بن مینا عن جابرؓ وابن عباسؓ أنہما قالا: ولد رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم عام الفیل یوم الاثنین الثامن عشر من شہر ربیع الأول وہنا ہو المشہور عند الجمہور۔‘‘              (البدایۃ والنہایہ ، ج:۱-جزء: ۲، ص:۲۴۲،ط:بیروت)
اسی طرح رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم (ج:۱،ص:۳۸) میں اور تاریخ حضری (ج:۱،ص:۶۲) میں بھی تاریخِ ولادت ۹/ربیع الاول مطابق ۲۰ یا ۲۲ اپریل ۵۷۱ء مذکور ہے اور اس ترقی یافتہ دور میں جب علم فلکیات اپنے عروج پر ہے کہ حساب سے بھی دیکھا جائے تو ۱۲/ ربیع الاول کا قول کسی طرح درست ثابت نہیں ہوتا، بلکہ علماء ہیئت نے بھی ۹/ربیع الاول والے قول کو ترجیح دی ہے۔
اس تمام تر تفصیل اور ذکر کردہ عبارات سے واضح ہوا کہ تاریخِ ولادت کے مختلف اقوال ہیں: ۹/تاریخ راجح قول ہے، ۱۲/کو ترجیح کسی طرح حاصل نہیں ہے، کیونکہ یہ تو مسلم ہے کہ ربیع الاول کا مہینہ اور پیر کا دن تھا، لیکن دلائل کی رو سے ۱۲ ربیع الاول کا مہینہ اور پیر کا دن جمع نہیں ہوسکتے، بلکہ علم فلکیات کے اعتبار سے مؤرخین کا بارہ ربیع الاول آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ وفات ہونے پر اتفاق ہے، لہٰذا ترجیح کسی بھی تاریخ کو ہو، لیکن مروجہ میلاد کی کوئی اصل نہیں، بلکہ صریح بدعات کا مرکب ہے۔ خواہ محفلِ میلاد منانا ربیع الاول کے مہینہ میں ہو یا سال کے دیگر مہینہ میں ہو، ہاں! البتہ اس بات میں کوئی شک نہیں جگ مطلقاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کا ذکر کرنا اور ولادت باسعادت کے وقت جواہم واقعات وقوع پذیر ہوئے ان کا ذکر کرنا یقینا محبتِ رسول کی دلیل ہے، لیکن اس کے لیے کوئی دن خاص کرنا اور اس میں بدعات کا ارتکاب کرنا بے اصل اور بے دلیل ہے۔ علامہ شاطبیv فرماتے ہیں:
’’وأما غیر العالم وہو الواضع لہا یعنی البدعۃ ، فإنہٗ لایمکن أن یعتقدہا بدعۃ بل ہي عندہٗ مما یلحق بالمشروعات کقول من جعل یوم الاثنین یصام لأنہٗ یوم ولد النبي صلی اللہ علیہ وسلم وجعل الثاني عشر من ربیع الأول ملحقا بأیام الأعیاد لأنہٗ علیہ السلام ولد فیہ۔‘‘                                        (الاعتصام، ج:۲، ص:۲۱۴، ط:بیروت، بحوالہ جواہر الفقہ)
’’حسن المقصد فی عمل المولد‘‘ میں ہے:
’’لا أعلم لہٰذا المولد أصلا فی کتاب اللّٰہ تعالٰی ولاسنۃ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ولاینقل عملہٗ عن أحد من علماء الأمۃ الذین ہم قدوۃ في الدین المتمسکون بآثار المتقدمین، بل ہو بدعۃ أحدثہا البطالون وشہوۃ نفس اعتنی بہا الأکالون الخ ۔‘‘    (ص:۴۹-۴۶ ، ط: دار الکتب العلمیۃ)
علامہ ابن الحاج vاپنی کتاب ’’المدخل‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’فصل في المولد: ومن جملۃ ما أحد ثوہ من البدع مع اعتقادہم أن ذٰلک من أکبر العبادات وإظہار الشعائر ما یفعلونہٗ فی شہر ربیع الأول من المولد وقد احتوٰی ذٰلک علی بدع ومحرمات جملۃ ، فمن ذٰلک استعمالہم المغاني ۔‘‘       (المدخل، ج:۲،ص:۳)
باقی رہا سوال ’’مشابہت‘‘ کا تو استفتاء میں یہ وضاحت نہیں کہ مذکورہ قائل نے میلاد منانے والوں کوکن کفار کے ساتھ مشابہت دی ہے اور اس کے لیے وجہ تشبیہ کونسی بیان کی ہے، لہٰذا وضاحت کے بغیر اس کا جواب دینا ممکن نہیں۔ تاریخ ولادت کوئی بھی ہو یہ مقصود نہیں اور نہ ہی دین کا کوئی حکم اس پر موقوف ہے۔ اصل اتباع یہ ہے کہ زندگی کے کسی بھی لمحہ میں اتباع سنت نبوی کا دامن نہ چھوڑے۔
۲:- مردوں کو ہر نیک عمل کا ثواب بخشا جاسکتاہے کہ اپنے طور پر صدقات نافلہ یا تلاوت قرآت کریم یا تسبیح وتہلیل وغیرہ وغیرہ پڑھ کر زبان سے کہہ دے کہ یا اللہ! اس کا ثواب فلاں کو پہنچادے تو حدیث شریف میں ثواب کا پہنچنا ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مرضی سے جس قدر چاہے پہنچائے:
’’عن سعد بن عبادۃ قال: یا رسول اللّٰہ ! إن أم سعدؓ ماتت فأي الصدقۃ أفضل؟ قال: الماء ، فحفر بئرا ، وقال: ہٰذا لأم سعد۔‘‘                   (مشکوٰۃ ، ص:۱۶۹، ط: قدیمی)
۳:- البتہ ایصالِ ثواب کے لیے محفل کرانا اور اس میں مروجہ طور پر فاتحہ کا اہتمام اور اس میں قیود ورسوم وغیرہ شرعاً بے اصل اور بدعت ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انسان علم وفضل، تقویٰ و پرہیزگاری، اسی طرح دیگر خصوصیات کے اعتبار سے برابر نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ہرانسان کے ساتھ معاملہ یکساں نہیں ہوتا، بلکہ علیحدہ ہوتا ہے۔ یہ ایک مسلمہ عقیدہ ہے۔ایصالِ ثواب کی ترغیب وفضیلت قرآن کریم واحادیث مبارکہ میں آئی ہے، اگر کوئی ایصالِ ثواب کرتاہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے اس کا ثواب اپنی صوابدید پر مسلمان مرحومین کو عطا فرمادیتے ہیں۔
باقی انسانوں میں چونکہ انبیاء کرام o بھی ہیں اور یہ انبیاء کرامo تمام کے تمام بشر ہی ہیں اور بشر یعنی انسانوں میں سے ہی اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام o کو پیدا فرمایا، لیکن نبی ہونے کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ نے ہرنبی کو گناہ سے معصوم اور محفوظ بنایا، صحابہ کرامؓ کو اللہ تعالیٰ نے گناہوں سے محفوظ رکھا، لہٰذا ایصالِ ثواب کے وقت نبی کے بارے میں بشر ہونے کا عقیدہ رکھتے ہوئے یہ بھی ضروری ہے کہ ان کے معصوم اور محفوظ ہونے کا بھی عقیدہ ہو، اس عقیدے کے تحت سب کو ایک ساتھ ایصالِ ثواب کرسکتے ہیں۔                                           فقط واللہ اعلم
       الجواب صحیح                   الجواب صحیح                           کتبہ
  محمد عبد المجید دین پوری             محمد انعام الحق                         محمد ذاکر
       الجواب صحیح                   الجواب صحیح                      متخصصِفقہِ اسلامی
         محمد داؤد                  محمد شفیق عارف       جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین