بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

فرانس کے صدر کی اسلام دشمنی

فرانس کے صدر کی اسلام دشمنی


الحمد للّٰہ وسلامٌ علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی


اسلام کا ہر پیروکار سراپا سلامتی اور امن و امان کا علمبردار ہے۔ ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ تمام انبیاء کرام  علیہم السلام  قابلِ احترام اور لائقِ تعظیم ہیں۔ ہر مسلمان کے نزدیک اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  سے محبت وعقیدت اسلام کا جزو ہے، ان کی فرمانبرداری اور اطاعت تکمیلِ ایمان کا سبب ہے اور ان سے وفاداری و شیفتگی اسلام کی اَساس اور اہلِ اسلام کی شناخت ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
۱:- ’’قُلْ إِنْ کَانَ  اٰبَآؤُکُمْ  وَأَبْنَآؤُکُمْ وَإِخْوَانُکُمْ  وَأَزْوَاجُکُمْ  وَعَشِیْرَتُکُمْ  وَأَمْوَالُنِ اقْتَرَفْتُمُوْھَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَھَآ أَحَبَّ إِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِھَادٍ فِيْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِيَ اللّٰہُ بِأَمْرِہٖ وَاللّٰہُ لَا یَھْدِیْ الْقَوْمَ  الْفٰسِقِیْنَ۔‘‘  (التوبہ:۲۴)
ترجمہ: ’’تو کہہ دے! اگر تمہارے باپ اور بیٹے اور بھائی اور عورتیں اور برادری اور مال جو تم نے کمائے ہیں اور سوداگری جس کے بند ہونے سے تم ڈرتے ہو اور حویلیاں جن کو پسند کرتے ہو، تم کو زیادہ پیاری ہیں اللہ سے اور اُس کے رسول سے اور لڑنے سے اس کی راہ میں تو انتظار کرو، یہاں تک کہ بھیجے اللہ اپنا حکم اور اللہ راستہ نہیں دیتا نافرمان لوگوں کو۔‘‘
 ۲:- ’’ اَلنَّبِيُّ أَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ أَنْفُسِھِمْ وَأَزْوَاجُہٗٓ أُمَّھٰتُہُمْ۔‘‘             (الاحزاب:۶)
ترجمہ: ’’ نبی سے لگاؤ ہے ایمان والوں کو زیادہ اپنی جان سے۔‘‘
 ۳:- ’’ إِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ فِيْ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَأَعَدَّلَھُمْ عَذَابًا  مُّھِیْنًا۔‘‘ (الاحزاب:۵۷)
ترجمہ: ’’جو لوگ ستاتے ہیں اللہ کو اور اس کے رسول کو، ان کو پھٹکارا اللہ نے دنیا میں اور آخرت میں، اور تیار رکھا ہے ان کے واسطے ذلت کا عذاب۔‘‘
 ۴:- ’’ إِنَّ الَّذِیْنَ یُحَآدُّوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗٓ أُولٰٓئِکَ فِيْ الْأَذَلِّیْنَ کَتَبَ اللّٰہُ  لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِيْ۔‘‘ (المجادلۃ:۲۰،۲۱)
 ترجمہ: ’’ جو لوگ خلاف کرتے ہیں اللہ کا، اور اس کے رسول کا، وہ لوگ ہیں سب سے بے قدر لوگوں میںاللہ لکھ چکا کہ میں غالب ہوں گا اور میرے رسول۔‘‘
 حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:
۱:- ’’لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی أَکُوْنَ أَحَبَّ مِنْ وَّالِدِہٖ وَوَلَدِہٖ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ۔‘‘    (متفق علیہ، مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الایمان، الفصل الاول، ص:۱۲، ط:قدیمی کتب خانہ)
ترجمہ: ’’ تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔‘‘
 ۲:- ’’اَلْمَرْئُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ۔‘‘    (صحیح بخاری، رقم الحدیث: ۶۱۶۹)
ترجمہ: ’’آدمی (قیامت کے دن) اسی کے ساتھ ہوگا جس سے اس کو محبت ہوگی۔‘‘
 قرآن کریم اور احادیثِ مبارکہ کے ان ارشادات کی بناپر ہر مسلمان حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے محبت کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتا ہے، اس لیے اپنی جان، مال، عزت وآبرو سب کچھ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کی عزت وناموس کی حفاظت پر قربان کرنے کو اپنی سعادت اور کامیابی سمجھتا ہے۔
حکومتِ فرانس کی جانب سے نبی کریم خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے گستاخانہ خاکے بنانے کی حمایت اور اس کو اظہارِ رائے کی آزادی قراردینا بہت ہی افسوسناک اور غمناک ہے، جو دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں میں تشویش اور اضطراب کا باعث ہے۔
آزادیِ اظہار کا بے محابہ اور غیرمحدود استعمال نہ صرف انسانی واخلاقی اقدار کے خلاف ہے، بلکہ اس سے امن وامان کی صورت حال کو بھی سنگین خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کے بارہ میں مغرب اور پوری دنیا کا رویہ یکسر منافقانہ اور دوہرے معیار پر مبنی ہے، آئے دن میڈیا میں اسلام اور پیغمبرِ اسلام( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے بارہ میں قابلِ اعتراض اور نفرت آمیز مواد شائع ہوتا رہتا ہے اور آزادیِ اظہارِ رائے کی آڑ میں اس کی حمایت کی جاتی ہے، جس کی تازہ مثال گزشتہ ہفتے فرانس کے ایک میگزین چارلی ہبڈو نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے کچھ اور توہین آمیز خاکے بنائے، اس کو پورے فرانس میں عام کیا گیا اور پھیلایا گیا۔ فرانس کے شہر پیرس کے مضافاتی علاقے کے ایک مڈل اسکول کے ایک استاذ نے یہ خاکے آٹھویں جماعت کے معصوم اور خالی الذہن طلبہ کو دکھائے۔ مسلمان طلبہ مشتعل ہوگئے، انہوں نے اپنے گھروالوں کو یہ بات بتائی۔ فرانس کے مسلم باشندوں نے اسکول انتظامیہ کو اس کی شکایت کی، تھانے میں بھی کچھ مسلمان والدین نے درخواست دی۔ اسکول انتظامیہ اور تھانہ والوں نے کہا کہ یہ خاکے دکھانا نہ تو ملکی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور نہ اسکول کے نظم اور ضابطے کے خلاف ہے۔ اس کے بعد ۲۳ اکتوبر ۲۰۲۰ء بروز جمعہ کو ایک اٹھارہ سالہ مسلم شیشانی عبداللہ اندروفؒ نامی طالب علم نے ردِ عمل میں اسکول کی چھٹی کے بعد اس سیموئیل پیٹی نامی ٹیچر کو -جس نے یہ توہین آمیز خاکے کلاس میں دکھائے-قتل کردیا اور پولیس نے اس طالب علم کو بھی گولی مار کر شہید کردیا۔
اس واقعہ پر فرانس کے صدر میکرون اور اسلام مخالف عناصر آپے سے باہر ہوگئے، فرانس کے صدر نے ایک ریلی کی قیادت کی، جس میں اس ملعون ٹیچر کو قومی ہیرو قراردیتے ہوئے اسے قومی ایوارڈ سے نوازنے کا اعلان کیا اور گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کو آزادی اظہارِ رائے قراردیتے ہوئے کہا کہ:’’ہم خاکے بنانا نہیں چھوڑیں گے اور اب ان خاکوں کو عوامی مقامات پر لگایا جائے گا۔‘‘ چنانچہ اس کے بعد تمام سرکاری عمارتوں کے علاوہ جہاں مسلمان آباد ہیں، وہاں ان محلوں میں بطور خاص یہ خاکے لٹکائے گئے۔
یہ کتنا افسوس کی بات ہے کہ فرانس کے صدر نے اس ملک کے ساٹھ لاکھ باشندوں اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے گستاخی کرنے والے اخبار کی بڑی ڈھٹائی کے ساتھ نہ صرف یہ کہ حمایت کی، بلکہ سرکاری عمارتوں پر ان گستاخانہ خاکوں کے بڑے بڑے بینر آویزاں کیے۔ اس سے مسلمانوں میں غیظ وغضب اور اشتعال پیدا ہونا ایک فطری امر تھا، اس کا نتیجہ ہے کہ پوری دنیاکے مسلمان فرانس کے صدر کے اس اقدام کے خلاف صدائے احتجاج بلند کررہے ہیں اور ان کی مصنوعات کا بھرپور انداز میں بائیکاٹ کررہے ہیں۔
دانشور حضرات کا کہنا یہ ہے کہ فرانس نے ایک عرصہ سے جو مذہب بیزاری کا علم بلند کیا ہوا ہے اور اس نے آسمانی تعلیمات کو ہر جگہ سوسائٹی کے اجتماعی اور معاشرتی معاملات سے نکالنے کے لیے بہت سے مذاہب کو اپنا ہمنوا بنالیا ہے، ایک مسلمان ہی ایسے ہیں جو ابھی تک فرانس سمیت ہر جگہ اپنے مذہب اور اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعلیمات کے ساتھ کسی نہ کسی درجہ میں جڑے ہوئے ہیں، اس کو وہ اپنی اقدار ، اپنے فلسفہ، اپنے کلچر اور اپنی تہذیب کے خلاف سمجھتے ہیں، اس لیے وہ پردہ،اذان اور اسلامی تعلیمات پر پابندی لگاکر مسلمانوں کو ہراساں کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے جان سے زیادہ عزیز اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی توہین کرکے مسلمانوں کے قلوب کو مجروح اور زخمی کرتے رہتے ہیں۔ فرانس کے صدر کی اس ناپاک جسارت اور ملعون حرکت پر سب سے مؤثر اور پرزور ردِ عمل ترکی کے صدر جناب طیب اردوان نے اپنی ایک نشری تقریر میں دیا، انہوں نے کہا: 
‘‘ترک عوام فرانسیسی مصنوعات کا اسی طرح بائیکاٹ کریں، جیسے قطر اور کویت کی سپر مارکیٹوں میں کیا جارہا ہے، فرانس میں جس شخص کے پاس حکمرانی ہے، وہ اپنے راستے سے ہٹ گیا ہے، وہ ایک مریض ہے اور اسے واقعی دماغ کے علاج کی ضروت ہے۔ انہوں نے فرانسیسی صدر کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فاشزم کو ہم نے جرمنی اور اٹلی میں دیکھا ہے، ہم نازی ازم دیکھ چکے ہیں، تم بالکل اسی راستے پر ہو، جس پر وہ تھے۔ ہماری کتاب قرآن کریم نہ ہمیں فاشزم سکھاتی ہے اور نہ ہی نازی ازم۔ ہماری کتاب قرآن ہمیں سماجی انصاف سکھاتی ہے اور ہم اسی کی ہدایت کے مطابق سماجی انصاف کے راستے پر چلتے ہیں۔‘‘
اور یہ خبر بھی سوشل میڈیا پر چل رہی ہے کہ فرانس کے صدر نے ایک تقریب میں ترکی کے صدر کو ہاتھ ملانے کی کوشش کی تو اس پر ترکی کے صدر نے کہا کہ: 
’’ اس سے کہو کہ میں تمہیں ہاتھ نہیں ملاسکتا، اس لیے کہ کل میں اپنے آقا، شافع روزِ جزا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو کیا منہ دکھاؤں گا؟۔‘‘
حضرت مولانا فضل الرحمن دامت برکاتہم نے کوئٹہ میں پی ڈی ایم کے بہت بڑے عوامی جلسہ میں فرانس کے صدر کی گستاخانہ حرکتوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا: ’’ہم ایسے حکمرانوں کے چہرے پر تھوکتے ہیں۔‘‘
اس کے علاوہ ہماری حکومت نے بھی فرانس کے صدر کے اس اقدام کے خلاف قومی اسمبلی اور سینیٹ میں مذمتی قراردادیں منظور کیں۔ پوری پاکستانی قوم خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہبی جماعت سے ہو یا سیاسی جماعت سے یا تجارتی برادری سے سب نے پورے ملک میں مظاہرے کیے، ریلیاں نکالیں، اور ان کا مطالبہ ہے کہ فرانس کی تمام مصنوعات کا اس وقت تک بائیکاٹ کیا جائے جب تک فرانس کا صدر اُمتِ مسلمہ سے معافی نہ مانگ لے اور ساتھ ساتھ ان کا مطالبہ ہے کہ فرانس کے سفیر کو ملک بدر کیا جائے اور پاکستانی سفیر کو احتجاجاً فرانس سے واپس بلایا جائے۔
مغربی ممالک میں سے صرف کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے مغربی ممالک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ: ’’ہم آزادیِ اظہار پر کوئی کمپرومائز نہیں کرتے، لیکن آزادیِ اظہار کی بھی حدود وقیود ہیں۔‘‘ اس نے اپنی سوسائٹی کے اعتبار سے مثال دیتے ہوئے کہا کہ : ’’آپ کو سینما میں چلتی فلم کے دوران اپنی رائے کے پرزور اظہار کی آزادی حاصل نہیں ہوتی، تاکہ وہاں فلم دیکھنے آئے ہوئے دیگر لوگ ڈسٹرب نہ ہوں، کجا یہ کہ آپ ایسے معاملات میں یہ حق استعمال کریں جو دیگر قوموں کے لیے حساس ہو۔‘‘
ہر باشعور شخص جانتا ہے کہ مغرب نے اظہارِ خیال کی آزادی کا ایک خود ساختہ پیمانہ بنایا ہوا ہے، اس لیے کہ اگر کوئی شخص یہودیوں کے ہولوکاسٹ کا انکار کرے یا اس موضوع پر اپنی تحقیق پیش کرے تو وہ مجرم ہے۔ اگر کوئی نائن الیون کو فرضی کہانی قراردے تو وہ سزا کا مستحق ہے۔ اگر کوئی نازی جرمنی میں رہتا ہے تو نازی پارٹی پر تنقید نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی سوویت یونین میں رہتا ہے تو وہ کیمونسٹوں کے خلاف نہیں بول سکتا۔ اگر کوئی چین میں رہتا ہے تو وہ چینی کیمونسٹ پارٹی پر تنقید نہیں کرسکتا۔ اسی طرح شمالی کوریا میں کوئی رہتا ہے تو کم آل جولگ کی بات کرنا مصیبت کو دعوت دینا ہے۔ اگر کوئی کیوبا میں رہتا ہے تو وہ کیوبا کی کیمونسٹ پارٹی پر تنقید نہیں کرسکتا، حتیٰ کہ امریکہ میں رہ کر کوئی یہودی لابی کے خلاف بات نہیں کرسکتا، اس لیے کہ یہ وہ ہیں جو آزادیِ اظہارِ رائے کو کنٹرول کرتے ہیں۔
جب ترکی کے صدر جناب طیب اردوان نے فرانس کے صدر کی اس حرکت پر اس کو اپنے دماغ کا علاج کرانے کا مخلصانہ اور دانشمندانہ مشورہ دیا تو اس کو بہت صدمہ پہنچا کہ اس کی اہانت کی گئی ہے۔ یہاں اس کو یہ خیال کیوں نہیں آیا کہ اس کی بدتمیزی سے دنیا میں کتنے انسانوں کا دل زخمی ہوا؟ یہاں اظہارِ رائے کی آزادی کا کیوں کوئی احترام نہیں؟ اسی طرح امریکہ کی ستائیس ریاستوں میں اسرائیل کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے والی کمپنیوں، افراد یا اداروں کے خلاف سزا کا قانون کیوں موجود ہے؟ یہ کونسی اظہارِ رائے کی آزادی کا مظہر ہے، جس کے مطابق ان ریاستوں میں اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے پر سزادی جاتی ہے؟جبکہ خود یورپی عدالت برائے انسانی حقوق 2018ء میں یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو معاذ اللہ بدنام کرنے کی کوشش کرنا ’’Goes beyond the permissible limits of an objective debate‘‘ (معروضی بحث کی اجازت کی حد سے باہرہے) یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب آسٹریا کی ایک عورت کو اس کی سزا سنائی گئی، اس عورت نے سزا کے خلاف یہ کہہ کر اپیل کی تھی کہ وہ یورپی کنونشن برائے انسانی حقوق کی شق 10 -جو آزادیِ اظہارسے متعلق ہے- کے تحت اپنے خیالات کے اظہار میں آزاد ہے، مگر یورپی یونین کی سات رکنی عدالت نے اس عورت کا موقف مسترد کرتے ہوئے فیصلے میں لکھا کہ:
"That by considering the impugned statements as going beyond the permissible limits of an objective debate and classifying them as an abusive attack on the prophet of islam, which could stir up predjudice and put at risk religious peace , the domestic courts put forward relevant and sufficient reasons "
’’گستاخانہ بیانات کو کسی معقول مباحثے کی جائز حد سے تجاوز کرنے اور انہیں پیغمبر اسلام پر مکروہ حملہ قراردیتے ہوئے جو تعصب کو جنم دے سکتا ہے اور مذہبی امن کو خطرے میں ڈال سکتا ہے، اس پر غور کرکے علاقائی عدالتوں نے متعلقہ اور مناسب وجوہات پیش کیں کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ یعنی ’’یورپین کورٹ آف ہیومن رائٹس (ای سی ایچ آر) کے فیصلے کے تحت حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کو بدنام کرنا ’’ کسی معروضی مباحثے کی جائز حد سے بالاتر ہے‘‘ اور ’’ تعصب کو جنم دے سکتا ہے اور مذہبی امن کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے ‘‘ اور یوں آزادیِ اظہار رائے کی اجازت کی حد سے تجاوز کیا جاسکتا ہے۔‘‘
آزادیِ اظہار کی حدود سے متعلق یہ یورپ کی سب سے بڑی عدالت کا فیصلہ ہے۔
ہماری دانست میں فرانس کے صدر کی موجودہ جھنجھلاہٹ کا سبب دو باتیں ہوسکتی ہیں: ایک وجہ تو یہ ہے کہ آزاد ذرائع سے سروے کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ فرانس میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے اور ۲۰۴۰ء میں اسلام فرانس کا سب سے بڑا مذہب ہوگا اور دوسری وجہ یہ ہے کہ فرانس کا صدر آئندہ الیکشن جیتنے کے لیے مسلمانوں کے خلاف یہ غیظ وغضب دکھا اور پابندیاں لگارہا ہے ، تاکہ اپنے غیرمسلم ووٹروں کے دلوں میں اپنی جگہ بناسکے، اس کے علاوہ بھی کچھ وجوہات ہوسکتی ہیں، جن کی بناپر یہ توہین آمیز خاکے بنائے اور عام کیے جارہے ہیں، مثلاً:
۱:-اسلام کے خلاف نفرت کا اظہار کرنا اور لوگوں کو اسلام سے متنفر کرنا۔
۲:- مسلمانوں کو اشتعال دلانا، تاکہ ان کے مشتعل اقدامات کو بہانہ بناکر اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گرد قراردیا جائے۔
۳:- اسلام کی تیز رفتار اشاعت پر قدغن لگانا، تاکہ اسلام کی طرف مائل ہونے والا یورپی طبقہ دوری اختیار کرے۔
۴:-ملک کے اصلی مسائل اور موضوعات سے عوام کو بھٹکانا۔
ان حالات میں مسلمانوں کے لیے یہ بات ضروری ہوجاتی ہے کہ: پوری دنیا کے مسلمان ہر ممکن ذرائع اختیار کرکے اقوامِ متحدہ سے مطالبہ کریں کہ وہ اظہارِ رائے کی آزادی کی جائز، منصفانہ اور شریفانہ حدود قائم کرے،جس میں یہ بات شامل ہوکہ کسی بھی مذہب کی مقدس شخصیتوں کی اہانت ایک جرم اور دل آزاری ہے اور یہ اظہارِ رائے کے دائرہ میں نہیں آتی، بلکہ اشتعال انگیزی اور تشدد پسندی کے دائرہ میں آتی ہے۔
۲:۔۔۔۔۔ او آئی سی کا اجلاس بلاکر تمام مسلم ممالک متفقہ لائحہ عمل اپنا کر اقوامِ متحدہ سے یہ مطالبہ کریں کہ آئندہ ایسی شرانگیزی کرنے والی حکومتوں سے اپنے تعلقات ختم کردیں یا محدود کریں۔
۳:۔۔۔۔۔ جہاں مسلم حکومتیں نہ ہوں، وہاں مسلمان انفرادی طور پر اور جہاں ان کی حکومتیں ہوں، وہ ممالک حکومتی سطح پر فرانس کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں۔ موجودہ دور میں یہ پرامن احتجاج کا ایک مؤثر طریقہ ہے اور اس سے بھرپور فائدہ اُٹھایا جائے۔ نیز مسلم ممالک ڈالر، یورو اور پاؤنڈ کے ذریعہ معاملہ نہ کریں، بلکہ مسلم ممالک اپنی اپنی کرنسیوں کے ذریعہ تجارت کو اپنا وطیرہ بنائیں، ان شاء اللہ! اس سے ان ممالک کو مؤثر پیغام جائے گا۔
۴:۔۔۔۔۔ ایک اہم کام یہ ہے کہ دنیا کی مختلف زبانوں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ پر لٹریچر تیار کیا جائے، جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   کے اخلاق، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سیرت، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اُسوۂ حسنہ پر مشتمل مضامین کو شامل کیا جائے۔
۵:۔۔۔۔۔ ہر مسلمان اسلامی تعلیمات پر مکمل عمل کرنے کو اپنی زندگی کا جزو بنائے اور غیراسلامی نظریات، افکار، خیالات، عادات و اطوار، تہذیب و تمدن، معاشرت اور سیاست وغیرہ سے کلی اجتناب کرے، خصوصاً فیشن پرستی کو چھوڑ کر سادہ زندگی گزارنے کو ترجیح دے۔ 
۶:۔۔۔۔۔ ہر گھر میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعلیمات اور سیرت کے مطالعہ کو عام کریں، نمازوں کا اہتمام کیا جائے، زندگی کے ہر موڑ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنتوں کو معلوم کرکے اس پر عمل کرکے بدعات اور خرافات سے کلی کنارہ کشی اختیار کی جائے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  سے محبت اور ان کے حالاتِ زندگی سے خوب واقفیت حاصل کرکے اُنہیں کے نقوش پر زندگی گزارنے کی کوشش کی جائے۔ 
۷:۔۔۔۔۔ علمائے کرام سے محبت اور دینی ودنیوی ہر معاملہ میں ان سے راہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔
ان شاء اللہ! ان باتوں پر عمل کرنے سے جہاں ہم اپنے نبیِ مکرم، فخرِ معظم، حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ان گستاخوں کو مؤثر جواب دے سکیں گے، وہاں اپنے مذہب اسلام اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے اخلاق واعمال اور سیرت وکردار کا نمونہ بھی پوری دنیا کے سامنے پیش کرنے کا فریضہ ادا کرسکیں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین