بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

عورت کا پردہ اور برقعہ کیسا ہونا چاہیے؟


عورت کا پردہ اور برقعہ کیسا ہونا چاہیے؟


پردہ عورت کے لیے انعامِ خداوندی
اللہ تعالیٰ نے عورت کو پردہ کرنے کا حکم دیا ہے، جو کہ عورت کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑا انعام ہے، اسی پردے میں عورت کی عزت ہے، یہی عورت کی حیا کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔ جو عورت پردہ کرتی ہے اللہ تعالیٰ اس کو دنیا اور آخرت کی بے شمار نعمتیں عطا کرتا ہے، جن میں سے سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسی عورت سے راضی ہوجاتا ہے، ظاہر ہے کہ ایک مسلمان عورت کے لیے اس سے بڑھ کر نعمت اور خوشی اور کیا ہوسکتی ہے کہ اللہ اس سے راضی ہوجائے۔
عورت سراپا پردہ ہے
سنن الترمذی میں ہے:
’’عَنْ عَبْدِ اللہِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: الْمَرْاَۃُ عَوْرَۃٌ، فَإِذَا خَرَجَتْ اسْتَشْرَفَہَا الشَّیْطَانُ۔‘‘                              (سنن الترمذی ، رقم الحدیث:۱۱۷۳)
ترجمہ: ’’حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ: عورت سراپا پردہ ہے، جب وہ نکلتی ہے تو شیطان اس کو جھانکتا ہے۔‘‘
یعنی شیطان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو اس بات پر اُبھارے کہ وہ اس عورت کو دیکھ کر بدنظری اور دیگر گناہوں میں مبتلا ہوں۔
عورت کے لیے افضل جگہ
اللہ تعالیٰ کو عورت کا پردے میں رہنا اتنا پسند ہے کہ عورت جتنا پردے میں رہتی ہے اور جتنا زیادہ اپنے آپ کو نا محرم مردوں سے چھپاتی ہے تو اتنا ہی اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہوتا ہے، اور عورت اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتی ہے جب وہ اپنے گھر کے کسی کونے اور پوشیدہ جگہ میں ہو۔ صحیح ابن حبان میں ہے:
’’عَنْ عَبْدِ اللہِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: الْمَرْأَۃُ عَوْرَۃٌ، فَإِذَا خَرَجَتْ اسْتَشْرَفَہَا الشَّیْطَانُ، وَأَقْرَبُ مَا تَکُونُ مِنْ رَبِّہَا إِذَا ہِیَ فِی قَعْرِ بَیْتِہَا۔‘‘                                             (صحیح ابن حبان ، رقم الحدیث:۵۵۹۹) 
اس حدیث شریف میں صراحت سے یہ فرمایا گیا ہے کہ عورت تو پردے کی چیز ہے اور عورت اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتی ہے جب وہ اپنے گھر کے کسی پوشیدہ حصے میں ہو، اس سے عورت کے لیے پردہ کرنے ، پردے میں رہنے اور بلا ضرورت گھر سے نہ نکلنے کی بڑی فضیلت واہمیت معلوم ہوتی ہے۔
عورت کے لیے نماز پڑھنے کی افضل جگہ
حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ: عورت کے لیے صحن میں نماز پڑھنے سے زیادہ افضل یہ ہے کہ وہ کمرے میں نماز پڑھے، اور کمرے میں بھی زیادہ افضل یہ ہے کہ وہ کسی کونے (اور پوشیدہ جگہ) میں نماز ادا کرے۔ سنن ابی داؤد میں ہے:
’’عَنْ أَبِیْ الْاَحْوَصِ عَنْ عَبْدِ اللہِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: صَلاَۃُ الْمَرْأَۃِ فِیْ بَیْتِہَا أَفْضَلُ مِنْ صَلاَتِہَا فِیْ حُجْرَتِہَا، وَصَلاَتُہَا فِیْ مَخْدَعِہَا اَفْضَلُ مِنْ صَلاَتِہَا فِیْ بَیْتِہَا۔‘‘                                  (سنن ابی داؤد ، رقم الحدیث:۵۷۰)
سبحان اللہ! نماز جیسی اہم عبادت میں بھی پردے کا خوب اہتمام کرنے کی فضیلت اس حدیث مبارک سے واضح ہوجاتی ہے۔
مرد اور عورت کی نماز میں فرق کی وجہ
شریعت نے عورت اور مرد کے مابین نماز کے معاملے میں بھی واضح فرق رکھا ہے ، جس کی وجہ سے متعدد مقامات میں عورت کی نماز مرد کی نماز سے مختلف ہے، مرد اور عورت کی نماز میں فرق کی وجہ بھی یہی ہے کہ عورت نام ہی حیا اور پردے کا ہے، اس لیے عورت کے لیے نماز میں وہی طریقہ اختیار کیا گیا ہے، جو عورت کے لیے زیادہ ستر اور پردے کا باعث ہو اور یہی طریقہ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے،جیسا کہ محدث امام بیہقی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:
’’وَجُمَّاعُ مَا یُفَارِقُ الْمَرْاَۃَ فِیْہِ الرَّجُلُ مِنْ اَحْکَامِ الصَّلاۃِ رَاجِعٌ إِلَی السَّتْرِ، وَہُوَ أَنَّہَا مَأمُورَۃٌ بِکُلِّ مَا کَانَ أسْتَرَ لَہَا۔‘‘ (السنن الکبریٰ للبیہقی، باب ما یستحَبُّ للمراۃ من ترک التجافی فی الرکوع والسجود)
ترجمہ: ’’مرد اور عورت کی نماز میں باہمی فرق کے تمام تر مسائل کی بنیاد ستر اور پردہ ہے، چنانچہ عورت کو نماز میں اسی طریقے کا حکم دیا گیا ہے جو عورت کے لیے زیادہ ستر اور پردے کا باعث ہو۔‘‘
دنیا میں نازیبا لباس پہننے پر شدید وعیدیں
۱:-حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ: دو جہنمی گروہ ایسے ہیں جن کو میں نے اب تک نہیں دیکھا: ایک تو وہ لوگ جن کے پاس گائے کی دُم کی طرح کوڑے ہوں گے، جن کے ذریعے وہ لوگوں کو ماریں گے۔دوسری وہ عورتیں جو لباس پہننے کے باوجود ننگی ہوں گی، (نا محرم مردوں کو) اپنی طرف مائل کرنے والی ہوں گی اور خود بھی (اُن کی طرف ) مائل ہوں گی، ان کے سر بُختی اونٹوں کے جھکے ہوئے کوہانوں کی طرح ہوں گے، ایسی عورتیں جنت میں داخل نہ ہوں گی اور نہ ہی جنت کی خوشبو سونگھیں گی، حالاں کہ جنت کی خوشبو تو اتنی اتنی دور سے سونگھی جاتی ہے۔ صحیح مسلم میں ہے:
’’عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : صِنْفَانِ مِنْ اَہْلِ النَّارِ لَمْ أَرَہُمَا: قَوْمٌ مَعَہُمْ سِیَاطٌ کَأَذْنَابِ الْبَقَرِ یَضْرِبُوْنَ بِہَا النَّاسَ، وَنِسَاءٌ کَاسِیَاتٌ عَارِیَاتٌ مُمِیْلاَتٌ مَائِلاَتٌ، رُءُوْسُہُنَّ کَاَسْنِمَۃِ الْبُخْتِ الْمَائِلَۃِ، لَایَدْخُلْنَ الْجَنَّۃَ وَلَا یَجِدْنَ رِیْحَہَا وَإِنَّ رِیْحَہَا لَیُوْجَدُ مِنْ مَسِیْرَۃِ کَذَا وَکَذَا۔‘‘
                                                          (صحیح مسلم ، رقم الحدیث:۵۷۰۴)
۲:- حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ: بعض عورتیں دنیا میں تو لباس پہنتی ہوں گی، لیکن آخرت میں ننگی ہوں گی۔ صحیح بخاری میں ہے:
’’عَنْ اُمِّ سَلَمَۃَ قَالَتْ: اسْتَیْقَظَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ فَقَالَ: سُبْحَانَ اللہِ مَاذَا اُنْزِلَ اللَّیْلَۃَ مِنَ الْفِتَنِ وَمَاذَا فُتِحَ مِنَ الْخَزَائِنِ! اَیْقِظُوْا صَوَاحِبَاتِ الْحُجَرِ ، فَرُبَّ کَاسِیَۃٍ فِیْ الدُّنْیَا عَارِیَۃٍ فِیْ الْآخِرَۃِ۔‘‘        (صحیح بخاری ، رقم الحدیث:۱۱۵)
لباس پہننے کے باوجود ننگی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یا تو لباس اس قدر چھوٹا ہوگا کہ اس میں ستر نہ چھپ سکے گا، یا اس قدر چست ہوگا کہ جس سے جسم کی ہیئت ظاہر ہوگی، یا اس قدر باریک ہوگا کہ جس سے جسم نمایاں ہوتا ہوگا، اس لیے اس حدیث میں موجود یہ شدید وعید اُن تمام عورتوں کے لیے جو ایسا نامناسب لباس پہنتی ہیں۔
مردوں کی مشابہت اختیار کرنے پر لعنت کی وعید
حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے لعنت فرمائی ہے اس آدمی پر جو عورت جیسا لباس پہنتا ہے اور اس عورت پر جو مرد جیسا لباس پہنتی ہے۔سنن ابی داؤد میں ہے:
’’عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ: لَعَنَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الرَّجُلَ یَلْبَسُ لِبْسَۃَ الْمَرْأَۃِ، وَالْمَرْأَۃَ تَلْبَسُ لِبْسَۃَ الرَّجُلِ۔‘‘          (سنن ابی داود ، رقم الحدیث:۴۱۰۰)
بدنظری کا ذریعہ بننے پر لعنت کی وعید
حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کی لعنت ہے بدنظری کرنے والے پر اور اس (عورت) پر جو اپنے آپ کو بدنظری کے لیے پیش کرے۔شعب الایمان میں ہے:
’’عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: وَبَلَغَنِیْ اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَعَنَ اللہُ النَّاظِرَ والْمنْظُوْرَ إِلَیْہِ۔‘‘                           (شعب الایمان ، رقم الحدیث:۷۳۹۹)
خوشبو لگاکر نا محرم مردوں کے پاس سے گزرنے پر وعید
حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ: ہر (بدنظری کرنے والی) آنکھ زناکار ہے، اور جب کوئی عورت خوشبو لگاکر لوگوں کے پاس سے گزرے تو ایسی عورت زناکار ہے۔ سنن الترمذی میں ہے:
’’عَنْ أَبِیْ مُوْسٰی عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ: کُلُّ عَیْنٍ زَانِیَۃٌ، وَالمَرْأَۃُ إِذَا اسْتَعْطَرَتْ فَمَرَّتْ بِالمَجْلِسِ، فَہِيَ کَذَا وَکَذَا یَعْنِیْ زَانِیَۃً۔‘‘ ( ترمذی ،رقم الحدیث: ۲۷۸۶)
ان تمام احادیثِ مبارکہ اور تفصیلات سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہوجاتی ہے کہ اللہ کے نزدیک عورت کے لیے پردہ کرنا کس قدر پسندیدہ اور اہم ہے، اس لیے اس بات کا تقاضا یہ ہے کہ جب عورت کسی ضرورت کے لیے گھر سے نکلے تو اس کو چاہیے کہ ایک تو مکمل پردے کے ساتھ باہر نکلے، دوسرا یہ کہ باہر نکلتے وقت ایسا برقعہ نہ پہنے جس سے اس کا پردہ نہ ہوتا ہو، حیا کی حفاظت نہ ہوتی ہو، اور جو مردوں کو اپنی جانب متوجہ کرے، کیوں کہ جس طرح بے پردہ ہوکر نکلنا اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے، اسی طرح فیشنی اور چست برقعہ پہن کر باہر نکلنا بھی اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے۔ افسوس! کہ آج کل بہت سی خواتین زیب وزینت والے فیشنی اور چست برقعہ پہنتی ہیں، جن سے پردے کا مقصد ہی حاصل نہیں ہوتا، ظاہر ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی خلاف ورزی ہے، جو کہ ایک مسلمان عورت کی شان نہیں ہوسکتی۔
برقعہ کی شرائط واوصاف
کون سا برقعہ پہننا جائز ہے اور کون سا ناجائز؟! ماقبل میں مذکور تفصیل کی روشنی میں اس حوالے سے مندرجہ ذیل شرائط معلوم ہوتی ہیں:
l    برقعہ انتہائی سادہ ہو، اس میں نقش ونگار اور زیب وزینت نہ ہو،اور نہ ہی ایسا رنگ ہو جو جاذبِ نظر ہونے کی وجہ سے مردوں کی توجہ کا سبب بنے۔
l    برقعہ چست نہ ہو کہ اس سے جسم کی ہیئت اور نشیب وفراز ظاہر ہو، بلکہ ڈھیلا ڈھالا ہو، جس سے جسم نمایاں نہ ہوتا ہو۔
l    برقعہ باریک نہ ہو جس سے جسم یا جسم کا لباس ظاہر ہوتا ہو، بلکہ وہ اس قدر موٹا ہو جس سے جسم اور اس کا لباس نظر نہ آئے۔
l    برقعہ اس قدر بڑا ہو جس میں جسم اچھی طرح چھپ جائے۔
l    برقعہ مردوں کے لباس کے مشابہ نہ ہو، اسی طرح کافروں یا دین بیزار عورتوں کے فیشنی برقعہ کے مشابہ بھی نہ ہو، کیوں کہ ان لوگوں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
l    برقعہ پرمہکنے والی خوشبو بھی نہ لگائی جائے، جو کہ مردوں کے لیے فتنے کا سبب بنے۔
مسلمان عورتوں کے ایمان اور حیا کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ایسا برقعہ پہننے کا اہتمام کریں جس میں مذکورہ بالا شرائط پائی جاتی ہوں، جیسا کہ بعض علاقوں میں ٹوپی والے برقعے رائج ہیں، جن میں یہ شرائط پائی جاتی ہیں۔ ان کے علاوہ ایسے برقعے پہننا جو نقش ونگار والے ہوں،جاذبِ نظر ہوں، چست یا باریک ہوں، جس سے جسم نمایاں ہوتا ہو تو واضح رہے کہ یہ ناجائز ہے۔ اسی طرح مرد حضرات کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی خواتین کو ایسے ناجائز برقعوں سے منع کرکے جائز برقعے پہننے کا پابند بنائیں۔
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ :
مزین برقعہ پہن کر نکلنا بھی ناجائز ہے
امام جصاص  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا کہ: جب زیور کی آواز تک کو قرآن نے اظہارِ زینت میں داخل قرار دے کر ممنوع کیا ہے تو مزیّن رنگوں کے برقعے پہن کر باہر نکلنا بدرجہ اولیٰ ممنوع ہوگا۔ 
                                                  (معارف القرآن، ج:۶، ص:۷۰۶-۷۰۷)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ تمام مسلمان عورتوں کو شریعت کے منشا کے مطابق پردہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین 
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین