بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 ربیع الثانی 1446ھ 07 اکتوبر 2024 ء

بینات

 
 

عصرِ حاضر اور بچوں کی ابتدائی تعلیم وتربیت

عصرِ حاضر اور بچوں کی ابتدائی تعلیم وتربیت


ابتدائی تعلیم کا آغازعہدِالست کے ساتھ ہوگیا تھا، جب روحانی و حقیقی وجود ملتے ہی سب سے پہلے معرفتِ رب عطا کی گئی تھی اور ایک وعدہ لینے کے بعد اس دنیا میں بھیجنے کا انتظام کیا گیا۔ تاہم اگر کہا جائے کہ ابتدائی تعلیم کا آغاز ماں کے پیٹ میں ہی ہوجاتا ہے تو بے جا نہیں ہوگا۔ سب سے پہلے فطرت ہی تعلیم یا ابتدائی تعلیم کا آغاز کرتی ہے اور ہرہر عضو کو اس کا فرضِ منصبی ازبر کراتی ہے۔ آنکھوں کو دیکھنا سکھایا جاتا ہے، کانوں کو سننا سکھایا جاتا ہے، دل کو دھڑکنا اور معدے کو جہاں ہاضمہ کی ذمہ داری سونپی جاتی، وہاں جگر کاکام خون کی فراہمی ہوتا ہے اور گردوں کو خون صاف کرنے کا فن اس ابتدائی تعلیم میں ودیعت کیا جاتا ہے، علیٰ ہٰذا القیاس۔ قدرت کے کام میں کوتاہی تلاش نہیں کی جاسکتی، کیونکہ اللہ نے سورۂ ملک میں کہا:
’’اَلَّـذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَـمٰوٰتٍ طِبَاقًا مَّا تَـرٰی فِیْ خَلْقِ الرَّحْـمٰنِ مِنْ تَفَاوُتٍ فَارْجِــعِ الْبَصَرَ ہَلْ تَـرٰی مِنْ فُطُوْرٍ ‎‎ثُـمَّ ارْجِــعِ الْبَصَرَ کَرَّتَيْنِ يَنْقَلِبْ اِلَيْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَّہُوَ حَسِيْرٌ۔‘‘ (الملک)
ترجمہ: ’’جس نے سات آسمان اوپر تلے بنائے، تو رحمٰن کی اس صنعت میں کوئی خلل نہ دیکھے گا، تو پھر نگاہ دوڑا، کیا تجھے کوئی شگاف دکھائی دیتا ہے؟ پھر دوبارہ نگاہ کر، تیری طرف نگاہ ناکام لوٹ آئے گی اور وہ تھکی ہوئی ہوگی۔‘‘
جس نے پوری کائنات بغیرکسی خامی کے بنائی ہے اور اسے بطورمثال انسان کے سامنے پیش کیا اس کا تخلیق کردہ اشرف المخلوقات تو بلاشبہ ’’لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ‘‘ (والتین :۴)‎ ’’بے شک ہم نے انسان کو بڑے عمدہ انداز میں پیدا کیا ہے۔ ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی قدرت کا شاہکار ہے۔ اس فنِ تخلیق کواللہ تعالیٰ نے نزولِ قرآن کی اولین وحی کے ساتھ تذکرہ کیا اور ماں کے پیٹ کے دورانیہ کا ہی تذکرہ کیا جہاں انسان فطرت کی طرف سے اپنی ابتدائی تعلیم کے مراحل سے گزر رہا ہوتا ہے۔ قدرت تو اپنے کارِ تخلیق میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتی، لیکن انسان اپنی بے اعتدالیوں اور حدوداللہ سے گزرجانے والے نافرمانی کے رویوں کے باعث خدائی تخلیق میں بگاڑ کے اثرات کا بری طرح سے سامنا کرتا ہے اور پریشانیوں کا شکار ہو رہتاہے۔ 
ماں کے پیٹ میں ابتدائی تعلیم پر ماں کے اثرات ماضی میں تو قصے کہانیاں ہی سمجھے جاتے تھے، لیکن اب عصری طبی ماہرین اور ماہرینِ نفسیات نے اس کی تصدیق بھی کردی ہے۔ اس دوران اگرماں خوش باش رہے گی، مطمئن رہے گی، کھاتی پیتی اور سیروسیاحت بھی اس کے معمولات میں شامل رہیں گے اور آرام، چین وسکون کے ساتھ ساتھ اس کی جملہ ضروریات و خواہشات بھی پوری ہوتی رہیں گی تو نومولود بھی طبی و جذباتی و ذہنی و نفسیاتی طور پر صحت مند ہوگا، بصورتِ دیگر چڑچڑاپن، بیماریاں، کمزوریاں اور عدمِ برداشت کے مکروہ تحفے ماں کے پیٹ سے جنم لینے والاساتھ لائے گا۔ 
اللہ تعالیٰ نے یہ دنیااس طرح بنائی ہے کہ بہت کچھ انسان کے حواسِ خمسہ سے پوشیدہ رکھا گیا ہے اور اسے ’’یُوْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ‘‘ کی تلقین کی گئی ہے۔ غیب کی ان اخبارمیں جو حواسِ خمسہ کی دسترس سے باہر رکھے گئے ہیں ایک روحانی دنیابھی ہے۔ روحانیت بھی بتاتی ہے کہ باپ سے وابستہ رزقِ حلال اورماں کے اثرات براہِ راست پیٹ میں ابتدائی تعلیم پر ثبت ہورہے ہوتے ہیں۔ 
اگر ماں ابتدائی تعلیم کے اس دورانیے میں پاک صاف رہے گی، عفت و پاکدامنی اس پر ختم ہوگی، صوم و صلوٰۃ کی پابند رہے گی، اذکارودعواۃوتسبیحات ووظائف اس کے معمولات کاحصہ ہوں گے، تلاوتِ قرآن مجیدمیں ناغہ نہیں کرے گی، اپنی خانگی ذمہ داریاں وخدمت گاریاں بھی مقدور بھر ادا کرتی رہے گی اور کسی تکلیف پیش آجانے کی صورت میں ہائے وائے اور چیخنے چلانے کی بجائے صبر کا دامن تھامے رکھے گی تو وہ نیک اولاد کو جنم دے گی اور اس کے رحم میں ابتدائی تعلیم کی خواندگی تقویٰ اور پاکبازی سے عبارت ہوگی اور بصورتِ دیگر یہ دنیا فساق و فجار اور رجل الدرہم والدینار اور پیٹ کی خواہش اور پیٹ سے نیچے کی خواہش کے پجاریوں سے بھری پڑی ہے جن کے لیے قرآن نے کہا ہے: ’’ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ‘‘
جنم لیتے ہی ابتدائی تعلیم کا اگلا مرحلہ شروع ہوجاتا ہے۔ یہ مرحلہ کم و بیش دس سالوں تک محیط ہوتا ہے، جس کے بعد پھر ثانوی تعلیم کے مراحل شروع ہوجاتے ہیں۔ ابتدائی تعلیم کی چار بنیادیں: اوائلِ عمری، معصومیت، خالی الذہنی اورمشاہدہ ہیں اور ابتدائی تعلیم کے چھ عناصر: خودشناسی، خداشناسی، حفظ، بنیادی اخلاقیات اور مبادیاتِ لسان وحسابیات اور تقابلات ہیں۔ ابتدائی تعلیم کی پہلی بنیاد اوائل عمری میں اولین جو کلام کانوں کے راستے دماغ کی گہرائیوں اور تاریکیوں تک پہنچتا ہے وہ پتھر پر لکیر کی طرح اَن مٹ اور عمر بھر کے لیے امر ہوجاتا ہے، چنانچہ دنیا میں قدم رکھتے ہی اس کے دائیں کان میں اذان دے کر اسے ابتدائی و اولین تعلیم میں اللہ تعالیٰ کی کبریائی اور درسِ توحید سے آشنائی فراہم کردی جاتی ہے اور بائیں کان میں اقامت کہہ کر اسے نماز جیسی بزرگ عبادت کا تعارف کرادیا جاتا ہے، جو عمر بھر کا ایک وظیفہ ہے جو اسے تاحیات اور تادمِ مرگ جاری رکھنا ہے کہ روزِ محشر سب سے پہلے اسی کے بارے میں پرسش ہونی ہے۔ 
اذان اوراقامت کے ابتدائی اسباق اس کے تاریک دماغ میں روشنی کاباعث بنتے ہیں اوراس کاقلب و نظروذہن وفکرنور سے بھرجاتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ میں فرمایا:
 ’’اَللہُ وَلِیُّ الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا يُخْرِجُـہُـمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ۖ وَالَّـذِيْنَ کَفَرُوْٓا اَوْلِيَآؤُہُـمُ الطَّاغُوْتُ يُخْرِجُوْنَـہُـمْ مِّنَ النُّـوْرِ اِلَی الظُّلُـمٰتِ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ہُـمْ فِيْـہَا خٰلِـدُوْنَ ۔ ‘‘ (البقرۃ:۲۵۷)
ترجمہ: ’’ ‎اللہ ایمان والوں کا مددگار ہے اور انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالتا ہے، اور جو لوگ کافر ہیں ان کے دوست شیطان ہیں جو انہیں روشنی سے اندھیروں کی طرف نکالتے ہیں، یہی لوگ دوزخ میں رہنے والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ ‘‘
لیکن ابتدائی تعلیم ابھی نامکمل ہے، کیونکہ معلم کی تعیناتی ابھی باقی ہے، چنانچہ خاندان کے کسی نیک ومتقی و دینداربزرگ مردیاخاتون کے ہاتھوں شہادت کی مقدس انگلی سے گھٹی دی جاتی ہے، تاکہ بزرگ کی نیک فطرت اس نومولودمیں عودکرآئے۔ سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے دوران بچوں کو گھٹی کے لیے محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس لایا جاتا تھا اور روایات کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی انگشت مبارک سے بچے کے تالوپر شہد لگادیتے تھے، جسے وہ چاٹتا رہتا تھا۔ یوں ابتدائی تعلیم کا قیمتی ترین مرحلہ ایک غیررسمی تعلیمی ادارے میں شروع ہوجاتا ہے۔ 
اس عمر میں بچے کا ذہن بالکل اور کلیتاً خالی سلیٹ اور صاف تختی کی مانند ہوتا ہے، بظاہر بچہ سورہا ہوتا ہے، یا خاموش ہوتا ہے یا صرف دائیں بائیں دیکھتے ہوئے نظر آتا ہے یا خود سے کھیل رہا ہوتا ہے اور مصروفِ محض ہوتا ہے، لیکن فی الحقیقت یہ سارا ماحول، آوازیں، مناظر اورخوردونوشت وغیرہ اس کے ذہن پر اپنے قوی نقوش چھوڑ رہے ہوتے ہیں اور یہ سب کچھ آنے والے دنوں میں اس کی شخصیت اور یقینی طورپراس کے کردارکاحصہ بن جائے گا۔ بچہ اپنے ابتدائی دنوں میں گویاابتدائی تعلیم کے ایام میں بہت سے ہاتھوں میں کھیل رہاہوگا، ہرکوئی اسے گودلینے کے لیے بے تاب ہوگا، ہرکوئی اس کی خدمت داری میں سبقت لے جانا چاہے گا، وہ نیندمیں ہوگاتو اس کے جاگنے کابے تابی سے انتظار ہوگا، اسے کھلانے، پلانے، نہلانے، دھلانے، پہنانے، اوڑھانے، سلانے اورلاڈپیارکے لیے بہت سے ہاتھ بڑھ بڑھ کر اسے تھامتے ہوں گے تو وہ بہت شاندار نفسیات کا مالک، خوشگوار طبیعت کا خوگر، حسنِ خلق کا مرقع، مرجعِ خلائق اور معاشرے میں کامیاب اجتماعی کردار ادا کرنے کی سند امتیاز لے کر تعلیم کے اگلے مرحلوں میں قدم رکھے گا۔ 
اس کے برعکس اگر اس کی ابتدائی تعلیم صرف دو یا چار ہاتھوں میں ہوئی، اور اس کے والدین بھراپورا گھر، خاندان، قبیلہ اور رشتہ داروں کو چھوڑ کر اور اپنی اَناکوپوجتے ہوئے اس کو اتنے بڑے فطری ابتدائی تعلیمی ادارے سے نکال کر اور ایک مختصرترین عمارت میں سدھارلائے تواس کی ابتدائی تعلیم میں جوکمی، کوتاہی، خامی اورخلارہ جائیں گے وہ کبھی بھی پورے نہیں ہوں گے، بلکہ اس کی اگلی نسلوں تک میں بھی منتقل ہوتے رہیں گے اور وہ تنہائی پسند، کم ظرف، اپنی ذات میں گرفتار، آدم بیزار، نفسیاتی دباؤ کاشکار، اجتماعیت سے خوفزدہ، دوسروں سے بے نیاز اور کافی حدتک خودغرض واقع ہوگا، الاماشااللہ۔ 
ابتدائی تعلیم کی دوسری بنیاد معصومیت کے ساتھ ایک خاص عمرمیں بچے کورسمی تعلیمی ادارے میں داخل کردیا جاتا ہے، یہ وہ عمرہوتی ہے جب بچہ اپنی حوائجِ فطریہ سے واقف اورکسی حدتک خودکفیل بھی ہوچکا ہوتا ہے، عمومی طورپر یہ ساڑھے تین سال کی عمرہوتی ہے، لیکن اس میں کمی بیشی کی گنجائش ممکن ہے۔ 
ابتدائی تعلیم میں بچے کی تربیت میں یہ قربانی شامل ہے کہ وہ چندگھنٹے کے لیے ماں کی گود چھوڑ کر اپنے ابتدائی تعلیم کے ادارے میں آجاتا ہے۔ ابتدامیں معصوم بچے پریہ تبدیلی بوجھل ہوتی ہے، کچھ بچے اس کااظہاربھی کرتے ہیں اور ابتدائی تعلیم کے ادارے میں جاتے ہوئے روتے ہیں، ٹانگیں چلاتے ہیں، شورمچاتے ہیں اوران کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ کسی بھی طرح گھر کو لوٹ جائیں، جو فرد انہیں چھوڑنے جاتا ہے اس سے چمٹے رہتے ہیں یا پھر تقاضا کرتے ہیں کہ یہ بھی ادارے میں رک جائے، لیکن کچھ بچے بظاہراظہارنہیں کرتے، لیکن خاموش رہتے ہیں، سہمے ہوئے اورڈرے ہوئے رہتے ہیں، اپنا بستہ اور کتابیں کاپیاں سنبھال سنبھال کر رکھتے ہیں، کیونکہ اس اجنبی ماحول میں یہی بستہ اس کا اپنا ہے اور باقی سب ناآشنا اور غیر ہیں اور اگر اسی ادارے میں ان کا کوئی بھائی، بہن ، پڑوسی یا رشتہ دار پڑھتا ہو تو وہ چاہتے ہیں کہ اسی کے ساتھ جاکر بیٹھ جائیں۔ یہ بچے ادارے کے بندہونے اور چھٹی کے وقت کا بہت بےتابی سے انتظارکرتے ہیں اور دوڑ لگاکر ایسے نکلتے ہیں جیسے انہیں باندھ کر رکھا گیا تھا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کی اپنے ہم جولیوں سے دوستیاں ہوجاتی ہیں اور معلم اور ماحول سے مانوس ہوجاتے ہیں اور پھر شوق سے بھاگتے ہوئے مدرسے جاتے ہیں اور وہاں بہت اچھا وقت گزارتے ہیں، یہ ان کی معصومیت کا ایک اور پرتو ہے۔ 
ابتدائی تعلیم کی تیسری بنیاد خالی الذہنی ہے، اس میں بچے کو سب سے پہلے عقیدہ یاد کرایا جاتا ہے، یہاں اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ صرف مثبت پہلو یاد کرائے جائیں، کیونکہ منفی پہلوؤں کے باعث ابتدا سے ہی اس کا خالی ذہن مشکل میں پڑسکتا ہے۔ عقیدہ کی تعلیم اسے سنائی جائے گی اور اسے دہراتا رہے گا اور اس طرح ذہن نشین ہوجائے گی۔ ابتدائی تعلیم میں اس حدتک تربیت بھی شامل ہے کہ اسے عقیدہ پر یقین کرنے کے لیے کسی دلیل کی طرف دھکیلنے سے احترازکیاجائے، اسے صرف یہ معلوم ہوکہ معلم یا معلمہ کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ اسے ازبرکرنے ہیں، کیونکہ یہ سوفیصدسچے ہیں۔ دلائل اول تواس کی خالی ذہنی سطح سے بالاترہوں گے اورپھراسے ہربات دلائل کے ساتھ ہی ماننے کی عادت پڑجائے گی اور اساتذہ کے لیے ایسے بچے کوترسیلِ تعلیم مشکل میں ڈالے رکھے گی، پس اسے ’’سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا‘‘ کا خوگر ہونا چاہیے، تاکہ فرمانبرداری اس کےخالی ذہن میں سرایت کرجائے۔
بنیادی تعلیم کی چوتھی بنیادمشاہدہ کے مطابق عقیدہ کے ساتھ اچھے اخلاق اسے عملاً سکھائے جائیں گے، تاکہ پہلے وہ اچھی طرح دیکھ لے اور پھر اسے اپنی شخصیت میں جذب کرلے، یہ ایک طرح سے تعلیم کے ساتھ تربیت بھی ہے، مثلاً صفائی کی تعلیم دی جائے گی کہ کوڑاکرکٹ ایک خاص جگہ پرپھینکاجائے، اپنے ہاتھ ، منہ، دانت، کپڑے، جوتے، کتب، کھلونے اوراٹھنے بیٹھنے کے مقامات مٹی سے پاک ہوں۔ کھانے کے آداب سکھائے جائیں کہ سب مل جل کرایک برتن میں کھاتے ہیں، پہلے دوسروں کو کھانے کی دعوت دیتے ہیں، دائیں ہاتھ سے لقمہ توڑتے ہیں، اپنے سامنے سے کھایاجاتاہے، آخرمیں برتن صاف کرتے ہیں، خواہ انگلی سے ہی کرنا پڑے، برتن واپس اپنی جگہ پررکھتے ہیں، کھانے سے پہلے ، درمیان اورآخرمیں پڑھی جانے والی دعائیں اور اکل و شرب کے دیگرمسنون طریقے ان کی تربیت کاحصہ ہوں۔ 
ابتدائی تعلیم کے اگلے مرحلوں میں بچوں کو ادارے سے باہرلے جایا جائے گا اور انہیں سڑک پار کرنے کی، سڑک سے ہٹ کرطریق القدم پر چلنے کی، اپنے دائیں طرف اور دوسروں کاخیال رکھتے ہوئے اور میانہ چال سے چلنے کی تربیت بھی دی جائے گی۔ مزیداگلے مراحل میں پرندوں، جانوروں اورباغیچے میں پودوں کی نگہداشت وغیرہ کے عملی اسباق ان کی تربیت کاحصہ بنیں گے۔ 
خودشناسی بنیادی تعلیم کاپہلا اہم عنصر ہے، یہاں اولاً توبچے کانام اسے یاد ہونا چاہیے جو اس کی اولین اور جداگانہ شناخت ہے، اس کے بعداسے اس کا لڑکا یا لڑکی ہونے کااحساس ہونا چاہیے، چنانچہ انتظامیہ کچھ ایسے انتظامات ضرور بجالائے جن سے بچوں کے اپنے فطری امتیازات کا احساس بیدار ہو، جیسے بچوں اوربچیوں کی علیحدہ قطاریں، علیحدہ وردی، ان کے علیحدہ نشستی انتظامات یا مقابلوں کی صورت میں جداگانہ مقابلے وغیرہ۔ 
بنیادی تعلیم کے باقی عناصرخمسہ: خودشناسی، خداشناسی، حفظ، بنیادی اخلاقیات ومبادیاتِ لسان وحسابیات اورتقابلات کو باہم جدانہیں کیاجاسکتا، کیونکہ تعلیم ایک ہمہ گیرعمل ہے جس میں یہ کل عناصرمل کر ایک نظام کو متحرک رکھتے ہیں، چنانچہ صبوحی دعامیں انہیں ایک بچے کی پیروی میں اپنے روزکے اسباق دہرانے ہوتے ہیں، یہاں ان بچوں کو ادب و احترام اور اطاعت کیشی کا درس ملتا ہے، ایک بچہ تلاوت کرتاہے باقی سب سرنیچے کیے، ہاتھ باندھے صرف سنتے ہیں۔ ایک بچہ نعت سناتاہے باقی سب ہمہ تن گوش ہوکر خاموش رہتے ہیں اورصرف سماعت کرتے ہیں۔ پھرکلامِ اقبال سے ’’لب پے آتی ہے دعا‘‘ پڑھائی جاتی ہے، تین بچے پڑھتے ہیں اوران کی متابعت میں سب بچے اسی مصرعے کودہراتے ہیں، اس کے بعدجملہ صبوحی اسباق بھی اسی طرح اطاعت کیشی کے درس کے ساتھ یادکرائے جاتے ہیں جن میں قومی ترانہ بھی شامل ہوتاہے۔ 
سب بچوں کوباری باری آگے لاکرموقع فراہم کرناچاہیے کہ وہ دوسرے بچوں کو یادکرائیں، جن میں قائدانہ صلاحیتیں موجودہوں گی وہ خودسے اور بصدشوق نکل آئیں گے۔ شرمیلے، خوفزدہ، پست ہمت، دبی ہوئی شخصیت کے مالک اورسہمے ہوئے بچے اول تو نکلیں گے نہیں اور اگر زبردستی انہیں لاکر سامنے کھڑا بھی کردیا گیا تو وہ خاموش رہیں گے یا رونے لگیں گے تو اب یہ معلمین و معلمات کا امتحان ہے کہ ایسے بچوں کوکیسے دوسرے بچوں کے ساتھ چلاناہے۔ 
اس چھوٹی سی عمر میں اور ابتدائی تعلیم میں زبانی یاد کرانا بہت آسان ہوتا ہے، کیونکہ کوئی بھی سبق متعدد بار دہرانے سے ابتدائی تعلیم کی اس عمر میں بچے کی خالی تختی پر نقش ہوجاتا ہے۔ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بچے کو نماز یاد کرادینی چاہیے، اسی طرح قرآن مجیدکی آخری سورتیں اور کچھ زیادہ فضیلت کی بڑی سورتیں بھی بچےآسانی سے یاد کرلیتے ہیں۔ بعض ابتدائی تعلیم کے ادارے پورا قرآن مجید بھی حفظ کرادیتے ہیں۔ قرآن مجیدکے حفظ سے دماغ اپنی استعدادسے بڑھ کرکام کرنے لگتا ہے اور اگلے تعلیمی مرحلوں میں حفاظ بچے باقی بچوں کی نسبت زیادہ سرعت سے اسباق کوہضم کرپاتے ہیں اور روحانی برکات اس کے سوا ہیں۔ ابتدائی تعلیم کے ابتدائی مرحلے صرف زبانی یاد کی حدتک یا سمعی و بصری تعلیم کی حدتک ہی ہونے چاہئیں، بعدکے مراحل میں انہیں ابتدائی خواندگی کی طرف لے جایاجائے گا جس میں حروف کی پہچان، جوڑتوڑ اور معمولی حساب بھی شامل ہے۔ 
مقابلے کی فضا ابتدائی تعلیم میں بہت اچھے نتائج سامنے لاتی ہے۔ نصابی وہم نصابی سرگرمیوں میں جب ہم جولیوں سے مقابلہ درپیش ہو تو جیتنے کا جذبہ بچے کو اپنی پوری صلاحیتیں بروئے کار لانے میں مددگار ومہمیز ثابت ہوتا ہے۔ یہاں ایک امر قابلِ غور ہے کہ اس چھوٹی اور معصوم عمر میں شکست کے بھی بہت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں جو شخصیت میں منفی رجحانات پیدا کرنے میں دیر نہیں لگاتے، چنانچہ مدرسے کی انتظامیہ کو بہت دقیق نظر سے دیکھنا ہوگاکہ سو فیصد بچے کامیابی کا تمغہ سینے پر سجائے گھروں کو سدھاریں۔ 
اس کا بہت آسان طریقہ ہے، پہلے نصابی سرگرمیوں میں کامیابیاں فراہم کی جائیں، پھرکوشش کی جائے کہ جو بچے تعلیم کے میدان میں کچھ پیچھے رہ گئے ہیں وہ کھیل کے میدان میں آگے بڑھ کر اعتمادِنفسی حاصل کرلیں، کچھ پھر بھی ابھی آخری صفوں میں رکے ہوئے ہیں تو حمدونعت خوانی یا تقریر یانغمہ سرائی یابیت بازی میں انہیں سب کے سامنے لاکرنمایاں قراردے دیا جائے، پھر بھی اگر کچھ بچے باقی ہیں تو انہیں آرائش و زیبائش، پہیلیاں بوجھنے اور اس طرح کے دیگر شوقین قسم کے امورمیں کسی نہ کسی طرح سب سے بہتر قرار دے کر انعام کا حق دار قرار دے دیا جائے۔ اُمیدہے اس کے بعد کوئی بچہ باقی نہیں بچے گا۔
بصورت دیگرانتظامیہ اپنی طرف سے اطاعت وفرمانبردار ی ، باقاعدگی، حسنِ لباس، ادب و احترام، پابندیِ وقت، صفائی یا کسی بھی اور اخلاق فضیلت کومعیار بناکر اسے اعتمادفراہم کردے اور یوں سب نونہال مدرسہ سے نہال ہوکر گھروں کو لوٹیں اور اپنے والدین کو اپنی کامیابی کی داستانیں سناتے ہوئے اگلے دن ذوق و شوق سے بھاگتے ہوئے اور چمکتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ اپنے کمرۂ جماعت میں داخل ہوں۔ 
بنیادی تعلیم کی کامیابی کاایک ہی پیمانہ ہے کہ بچہ اگلے مرحلۂ تعلیم میں اپنے شوق سے داخل ہو اور وہ اپنی نئی کتب کا منتظر ہو، اپنے نئے اساتذہ سے مسرتِ ملاقات اس کے رویے سے ہویدا ہو اور اس کے خواب نئی عمارت اور بڑے بڑے کھیل کے میدانوں کی تعبیرسے آراستہ ہوں، اس کے لیے کسی طرح کے تحریری، تقریری، زبانی یانمائشی امتحانات کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے، بہت چھوٹی عمرمیں اور خاص طورپر بنیادی تعلیم کے دورانیے میں امتحانات کا انعقاد بچوں میں تعلیم کے لیے نفرت، دوری، بے رغبتی اور عدمِ اشتیاق کے جذبات پیدا کرتا ہے۔ بنیادی تعلیم کی یہ عمر ماحول سے حاصل کیے گئے اثرات کے سو فیصد انطباق کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔ 
اگرکہیں مقاصدِ تعلیم کے حصول میں کلی یا جزوی ناکامی مشاہدے میں آتی ہے تو انتظامیہ، اساتذہ، نصاب اور ماحول کو تبدیل کرنے یا ان میں بہتری لانے کی ضرورت ہے، بچے اس سے کلیتاً مبرا ہیں۔ سوفیصد بچوں کو جو دورانیۂ تعلیم مکمل کرچکے ہوں انہیں بلاتخصیص و تمیزاگلے مرحلوں میں بڑھادینا ہی تعلیمی کارکردگی میں بہتری کی ضمانت ہوگی جو ان میں اعتماد اور شوق اور مزید آگے بڑھنے کا جذبہ بھی پیدا کرے گی۔ تاہم اگر کچھ بچے دورانیۂ تعلیم کے درمیان میں داخل ہوئے ہوں اور وہ باقی ہم جماعت ساتھیوں سے اپنے اسباق میں ابھی پیچھے ہوں تواساتذہ کرام سے مشاورت کے نتیجے میں انہیں حالیہ درجے میں ہی روک لیناقرینِ قیاس ہوگا، تاکہ ان کی بنیا د میں پختگی لائی جاسکے، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ اس ٹھہراؤکواپنی ناکامی پرمحمول نہ کریں اوربخوشی اس فیصلے کوقبول کرلیں۔ 
تعلیم پیشہ نہیں ہے، بلک شیوہ اور انبیاء o کاترکہ ہے جواپنی قوموں سے کہاکرتے تھے کہ: ’’وَ مَآ اَسْئَـلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘ (الشعراء:۱۴۵) ’’اور میں تم سے اس پر کوئی اُجرت نہیں مانگتا، میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔‘‘
 لیکن دورِغلامی سے سیکولرازم کے باعث نہ صرف یہ کہ ایک پیشہ بن گیاہے، بلکہ بنیادی تعلیم کی حدتک یہ ایک مکروہ دھندابن گیاہے۔ سیکولرازم کی پروردہ کاروباری ذہنیت سرمایہ دارانہ رویوں نے بنیادی تعلیم کی اقدارکو بری طرح پامال کردیاہے، یہاں تک کہ اب بچے بچے نہیں رہے، بلکہ گاہک بن گئے ہیں اورابتدائی تعلیم کے ادارے کاروباری مراکزاور دھن دولت جمع کرنے والے کارخانے بن گئے ہیں۔ 
صرف تعلیم ہی نہیں، بلکہ تفریح کے دوران کے کھانے، صاف پانی، کتب ، تحریری مواد، ملبوس، ذرائع نقل و حمل اوریہاں تک کہ بال کاٹنے کاعمل بھی منافع بخش بنالیے گئے ہیں اوران ذرائع سے پیداگیری کی جاتی ہے۔ مقابلے کے اس رجحان نے جہاں معیارِتعلیم کا بیڑاغرق کردیا ہے، وہاں معیارِ اخلاق بھی گہناگیاہے اور مقامی معاشرتی روایات اور تہذیب و تمدن بھی دم توڑ رہے ہیں۔ 
ان سب پرمستزادبدیسی ذریعۂ تعلیم ہے جس نے زوال کی رہی کسر بھی پوری کردی ہے اور پورا نظام تعلیم اس وقت صرف ایک ہلکے سے دھکے کا منتظر ہے جو اسے دھڑام سے گرادے۔ والدین کوخوش کرنے کے لیے نجی تعلیمی ادارے سب بچوں کو %‎۹۹ شرح کامیابی سے نوازدیتے ہیں اور رقم بٹورنے کے لیے ساراسال امتحانات پر امتحانات منعقد ہوتے ہیں اور نتائج کی تقریبات کے نام پر بے ہودگی اوربدتمیزی کی بڑھ چڑھ کر نمائش کی جاتی ہے اور یوں جھوٹ، دھوکے اور فریب کو دکھاوے اورنمائش کے ذریعے اپنی کامیابی بناکرپیش کیا جاتا ہے، تاکہ کاروبار کے حجم کو زیادہ سے زیادہ وسعت دی جاسکے۔
 لیکن مایوسی اس لیے نہیں ہے کہ معاشرے کاصالح عنصر بھی بیدار مغز قیادت کے ساتھ میدان میں موجودہے اور بہت کم سہی، لیکن سرعت سے ترقی پذیر مثالی تعلیمی ادارے بھی قائم ہوتے چلے جارہے ہیں اور بہت جلد سیکولرازم کا بوریا بستر گول ہونے والا ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین