ماہنامہ بینات صفر المظفر ۱۴۴۶ ھ کے شمارہ میں سپریم کورٹ کے ۲۴ ؍جولائی ۲۰۲۴ ء کے نامبارک ثانی کیس کے فیصلہ کا تجزیہ اور تبصرہ کیا گیا تھا، جو سپریم کورٹ تک بھی پہنچا ۔ علمائے کرام اور اراکینِ اسمبلی کے پُرزور مطالبہ پر قومی اسمبلی کے اسپیکر کے خط اور وزیر اعظم کی ہدایت پر اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کی کہ چونکہ یہ مذہبی معاملہ ہے ، اس لیے اس فیصلہ میں ان علمائے کرام کی آراء سنی جائیں ، جنھوں نے اپنی تحریروں اور تقریروں میں اس فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے ۔
راقم الحروف کو بھی نوٹس موصول ہوا ، راقم الحروف تحفظِ ختمِ نبوت کے سلسلہ میں جمعیت علماء (موریشس) افریقا کے سفر پر تھا، اس لیے بندہ کی نمائندگی عالمی مجلس تحفظِ ختمِ نبوت اسلام آباد جماعت نے کی۔ قائد ِ جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن دامت برکاتہم بنفس نفیس عدالت پہنچے، جہاں پر انھوں نے چیف جسٹس سے کہا کہ ۷۲ سال میں ‘ میں پہلی دفعہ سپریم کورٹ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ختمِ نبوت کے تحفظ کے سلسلہ میں پیش ہو رہا ہوں ۔ حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی I ترکیہ کے دورہ پر تھے، اس لیے وہ آن لائن شریک ہوئے۔ مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے نظرثانی کیس میں جو رائے دی ، اس کو شاید نظر انداز کیا گیا، نظر ثانی درخواستوں کے فیصلے میں کچھ قرآنی آیات کا حوالہ دیا گیا، اچھی بات ہے کہ چیف جسٹس فیصلوں میں آیات کا حوالہ دیتے ہیں ۔ پیراگراف نمبر ۷ اور ۴۲ کو حذف کیا جائے۔ عدالت دفعات کا اِطلاق ہونے یا نہ ہونے کا معاملہ ٹرائل کورٹ پر چھوڑے۔ اصلاح کھلے دل کے ساتھ کرنی چاہیے۔ عدالت نے لکھا کہ قادیانی مبارک ثانی نجی تعلیمی ادارے میں معلم تھا، گویا عدالت نے تسلیم کرلیا کہ قادیانی ادارے بناسکتے ہیں ۔ عدالت نے کہا کہ قادیانی بند کمرے میں تبلیغ کرسکتے ہیں ، قانون کے مطابق قادیانیوں کو تبلیغ کی کسی صورت اجازت نہیں ، عدالت نے سیکشن 298-C کومدِنظر نہیں رکھا۔ چیف جسٹس صاحب نے کہا کہ: اگر ہم وضاحت کردیں تو کیا یہ کافی ہوگا؟ مفتی تقی عثمانی صاحب نے کہا کہ عدالت وضاحت کی بجائے فیصلے کے متعلقہ حصہ کو حذف کرے۔ چیف جسٹس صاحب نے مفتی تقی عثمانی صاحب سے کہا کہ آپ کے مطابق دو پیراگراف ختم ہونے چاہئیں ، مزید کچھ کہنا چاہیں تو بتادیں ۔ مفتی تقی عثمانی صاحب نے کہا کہ قادیانی اقلیت میں ہیں ، لیکن خود کو غیرمسلم تسلیم نہیں کرتے، قادیانیوں کو پارلیمان میں بھی نشستیں دی گئیں ،جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ۲۰۰۲ء کے بعد قانون تبدیل ہوگیا اور قادیانیوں کی ایک نشست تھی جو ختم کر دی گئی، اب صرف اقلیت کی ۱۰؍ مخصوص نشستیں رکھی گئی ہیں ۔ مفتی تقی عثمانی صاحب نے کہا کہ : قادیانی مسلم کی بجائے اقلیت کے طور پر رجسٹر ڈہوسکتے ہیں ، اقلیت خود کو مان لیں تو پھر ان کو اقلیتوں کی نشستیں بھی مل سکتی ہیں ، میرے پاس ان مسائل سے متعلق کتاب ہے، عدالت چاہے تو فراہم کردوں گا۔ اور فیصلہ کے پیراگراف ۴۹ سی کو اس طرح تبدیل کیا جائے: ’’ جہاں تک اس مسئلہ کا تعلق ہے کہ پیش نظر مقدمہ کے ملزم پر مجموعۂ تعزیرات پاکستان کی دفعہ : 295-B ، 295-C، 298-B، 298-Cکا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں ؟ ضمانت کے اس مقدمہ میں جبکہ ملزم کا ٹرائل ابھی باقی ہے ، ہم یہ مناسب نہیں سمجھتے کہ اس پر کوئی فیصلہ دیں ، کیونکہ ٹرائل کورٹ میں ابھی مقدمہ چل رہا ہے ۔ ٹرائل کورٹ کو چاہیے کہ وہ ہمارے فیصلہ مؤرخہ ۶؍فروری ۲۰۲۴ء سے متأثر ہوئے بغیر مقدمہ کی کارروائی جاری رکھے اور تمام حالاتِ مقدمہ کو سامنے رکھتے ہوئے اس بات کا فیصلہ کرے کہ ملزم پر مذکورہ دفعات کے تحت جرم بنتا ہے یا نہیں ؟ اس طرح نظرثانی کی تمام درخواستیں جزوی طور پر منظور کی جاتی ہیں ۔‘‘
حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کی مولانا فضل الرحمٰن صاحب نے تائید کی ، عدالت نے حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب سے کہا کہ : آپ آخر تک عدالت میں موجود رہیں ۔ دوسرے حضرات نے بھی اپنی اپنی آراء دیں ، جو کہ حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی I کی رائے سے ملتی جلتی تھیں ۔ اس پر عدالت نے درج ذیل مختصر فیصلہ دیا۔ اس فیصلے کو تاریخ کے اوراق میں محفوظ کرنے کی غرض سے یہاں نقل کیا جاتا ہے:
سپریم کورٹ کے فیصلے مؤرخہ ۲۴؍ جولائی میں تصحیح کے لیے وفاق پاکستان کی جانب سے متفرق درخواست نمبر : ۱۱۱۳ بابت ۲۰۲۴ء دائر کی گئی ہے۔ اس مقصد کے لیے پارلیمان نے ایک متفقہ قرارداد بھی منظور کی تھی۔ وفاق کی درخواست میں بعض جید علمائے کرام کا نام لے کر استدعا کی گئی تھی کہ تصحیح کرتے وقت ان کی آراء کو مدِّ نظر رکھا جائے۔ اس درخواست کو منظور کرتے ہوئے ان علمائے کرام کو نوٹس جاری کیا گیا۔
۲ - مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے ترکیہ سے ، جبکہ محترم سیّد جواد علی نقوی نے لاہور سے ویڈیو لنک پر دلائل دیے۔ درج ذیل علمائے کرام نے عدالت کے سامنے بنفسِ نفیس دلائل پیش کیے :
مولانا فضل الرحمٰن صاحب، صدر جمعیت علمائے اسلام۔ مفتی شیر محمد خان صاحب، رئیس دارالافتاء دارالعلوم محمدیہ غوثیہ، بھیرہ۔ مولانا محمد طیب قریشی صاحب، چیف خطیب خیبر پختونخوا۔ صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر صاحب، صدر ملّی یکجہتی کونسل۔ مولانا ڈاکٹر عطاء الرحمٰن صاحب، جامعہ اسلامیہ تفہیم القرآن، مردان۔
مفتی منیب الرحمٰن صاحب، حافظ نعیم الرحمٰن صاحب، پروفیسر ساجد میر صاحب اور مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ صاحب بوجوہ شریک نہیں ہوسکے، لیکن ان کی نمائندگی بالترتیب مفتی سید حبیب الحق شاہ صاحب ، جناب ڈاکٹر فرید احمد پراچہ صاحب، جناب حافظ احسان احمد ایڈووکیٹ سپریم کورٹ اور مفتی عبدالرشید صاحب نے کی۔
۳ - علمائے کرام نے معترضہ فیصلے کے متعدد پیراگرافس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور ان کے حذف کے لیے تفصیلی دلائل دیے ۔ انھوں نے اس موضوع پر اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پیش نظر رکھنے پر بھی زور دیا ۔
۴- تفصیلی دلائل سننے کے بعد وفاق کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے عدالت اپنے حکم نامے مؤرخہ ۶؍فروری ۲۰۲۴ء اور فیصلے مؤرخہ ۲۴ ؍جولائی ۲۰۲۴ء میں تصحیح کرتے ہوئے معترضہ پیراگرافس حذف کرتی ہے اور ان حذف شدہ پیراگرافس کو نظیر کے طور پر پیش / استعمال نہیں کیا جا سکے گا۔ ٹرائل کورٹ ان پیرا گرافس سے متأثر ہوئے بغیر مذکورہ مقدمے کا فیصلہ قانون کے مطابق کرے۔ اس مختصر حکم نامے کی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔ چیف جسٹس جج جج اسلام آباد ، ۲۲؍ اگست ۲۰۲۴ء ‘‘
یہ فیصلہ علمائے کرام اور اراکینِ اسمبلی کے اتحاد و اتفاق کی برکت سے سامنے آیا، جس پر حضرت مولانا فضل الرحمٰن نے پریس کانفرنس میں سب کا شکریہ ادا کیا، اور جمعہ کو یومِ تشکر کے طور پر منانے کا اعلان کیا اور ۷؍ ستمبر ۲۰۲۴ء کو یوم الفتح کے طور پر منانے کے لیے مینارِ پاکستان لاہور میں ایک بڑے اجتماع کی اہمیت کو واضح کیا اور پوری پاکستانی قوم کو اس میں شامل ہونے کی ترغیب دی۔ اس فیصلے پر جہاں اُمتِ مسلمہ کو خوشی حاصل ہوئی، وہاں کچھ لبرل اور قادیانی نواز لوگوں کے پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگی۔
بہرحال! اچھا ہوا کہ عدالتِ عظمیٰ نے اس فیصلہ کی تصحیح کرلی، اس پر ہم جہاں عدالتِ عظمیٰ کے شکر گزار ہیں ، وہاں تمام علمائے کرام، وکلاء برداری، تاجر برادری، مذہبی و سیاسی جماعتوں ، مسلم عوام اور اراکینِ اسمبلی کے بھی تہہ دل سے شکر گزار ہیں کہ سب کی جدوجہد رنگ لائی اور ایک بار پھر اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختمِ نبوت کا تحفظ کرنے والوں کو سرخرو اور کامیاب و کامران کیا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے ملک پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ اور تمام ملکی اداروں کی حفاظت فرمائے، ان کی عزت و توقیر میں اضافہ فرمائے، ہمارے پیارے ملک پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدات کی حفاظت فرمائے، ملک میں امن وا مان نصیب فرمائے اور معاشی و اقتصادی طور پر ملک کو مستحکم و مضبوط فرمائے، آمین بجاہ سید المرسلین و خاتم النبیین!
وصلی اللہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد و علٰی آلہٖ و صحبہٖ أجمعین