ہم اکثر نکاح کا خطبہ سنتے رہتے ہیں، لیکن کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ اس خطبے میں کیا کہا جارہا ہے؟! خطبۂ نکاح میں حمد وصلوٰۃ کے بعد قرآن کریم کے جن مشہور تین مقامات سے تلاوت کی جاتی ہے، ان تینوں میں حیرت انگیز طور پر نکاح کا کوئی تذکرہ ہی نہیں ہے، بلکہ تینوں جگہ ایک ہی مضمون پر زور دیا گیا ہے اور وہ ہے ’’تقویٰ۔‘‘ تقویٰ اور پرہیزگاری ایک ایسا مؤثر عنوان ہے، جس کے تحت بہت سے مسائل خود حل ہوجاتے ہیں۔اللہ رب ا لعزت نے خطبۂ نکاح میں تقویٰ وپرہیزگاری کا حکم ارشاد فرما کر اس جانب توجہ دلائی کہ میاں بیوی ایک خوشگوار ازدواجی زندگی اور ایک پرسکون گھر اس وقت بنا سکیںگے، جب دونوں ’’تقویٰ وپرہیزگاری‘‘ کے زیور سے آراستہ ہوں، ان دونوں کو اپنے ہر عمل کی جواب دہی کی فکر لاحق ہو۔ اللہ کے ہاں جواب دہی کا احساس وہ واحد پیمانہ ہے، جس سے سچائی اور امانت کی انتہا ناپی جاسکتی ہے۔
اگر یہ احساس نہ رہے تو دنیا کی کوئی عدالت، کمیونٹی، انجمن، سربراہی یا خاندان ان دونوں کو جوڑ نہیں سکتے، چونکہ یہ ایسا گہرا تعلق ہے جس سے بڑھ کر قریب تر کوئی تعلق نہیں، دنیا کے ہر رشتہ میں سوتیلے پن کی گنجائش ہے، لیکن اس میں نہیں۔ دنیا میں شاید کوئی تعلق مصنوعی یا جھوٹ کے سہارے چل سکتا ہو، لیکن یہ تعلق بھرپور احساسات وجذبات کے بغیر ایک مردہ جسم کی مانند بن جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نے اس دنیا میں سب سے پہلے ’’میاں بیوی‘‘ کے تعلق سے انسانی عالم کی ابتدا فرمائی، اس تعلق کے مقاصد اور پختگی کی کیا صورتیں ہوسکتی ہیں؟ اس حوالے سے اللہ رب العزت کلامِ پاک میں ارشاد فرماتے ہیں:
’’وَمِنْ اٰیٰتِہِ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَا جًا لِّتَسْکُنُوْا اِلَیْھَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّ رَحْمۃً۔‘‘ (الروم:۲۱)
ترجمہ:’’ اور اس کی نشانیوں میں سے ایک اہم نشانی یہ ہے کہ اس نے تمہارے ہی وجود سے جوڑے پیدا فرمائے، تاکہ تم اس جوڑی کے ذریعے سکون حاصل کرسکو اور تمہارے درمیان اپنی قدرت سے محبت اور رحمت کا بیج بودیا۔‘‘
واضح رہے کہ اللہ رب العزت نے میاں بیوی کے تعلق کو سکون کے خزانے کی چابی قرار دیا ہے۔ معلوم ہوا کہ سکون کا اصل مرکز انسان کا اپنا گھر ہونا چاہیے، جہاں وہ اپنے شوہر، بیوی، بچوں کا چہرہ دیکھ کر سکون کی ناقابلِ بیان کیفیت میں آجائے، لیکن اگر گھر میں سکون کی فضا نہ رہے اور گھر اینٹ، پتھر اور فقط نقش ونگار کی آرائش وتزیین ہو تو وہ گھر‘ گھر نہیں، بلکہ ’’ڈپریشن کا مرکز‘‘ بن جاتا ہے اور پھر ہر کوئی ہوٹل، کلب، دوست یار، تفریح اور دیگر مصنوعی سرگرمیوں کے نام سے سکون کی تلاش میں فرار ہونے کی ناکام کوشش کرتا ہے، کیونکہ جس کسی کو اپنے گھر میں سکون نہیں مل سکتا تو دنیا کے کسی کونے میں بھی وہ پرسکون نہیں رہ سکتا۔
گھر کا یہ سکون کس طرح بحال ہوجائے؟! اس حوالے سے چند اُمور پیشِ نظر رکھنا لازمی ہے، ان میں سے کچھ کا تعلق مرد کی ذمہ داریوں سے ہے اور کچھ کا تعلق عورت کی ذمہ داریوں سے ہے۔ اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
’’ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسُ لَّھُنَّ‘‘ ترجمہ: ’’وہ تمہارے لیے لباس کی مانند ہیں اور تم ان کے لیے لباس کی مانند ہو۔‘‘ (البقرۃ:۱۸۷)
اللہ رب العزت نے اس تعلق کو ایک انتہائی بلیغ تشبیہ دے کر بات کو سمجھایا ہے کہ میاں بیوی فقط رسمی تعلق کا نام نہیں، بلکہ لباس سے تشبیہ دے کر سمجھایا کہ لباس انسانی بدن کے لیے کئی اعتبار سے اہم ہے، مثلاً: ستر، عزت، تحفظ، زینت، صحت، تہذیب، وغیرہ، یعنی جس طرح لباس ہمارے ستر کا ذریعہ ہے، یہ رشتہ بھی ہمارے عیوب کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔ جس طرح لباس کی زینت عزت بخشتی ہے، ایسے ہی یہ رشتہ عزت افزائی کا زریعہ ہے، جس طرح لباس ہمیں سردی گرمی سے محفوظ رکھتا ہے، اسی طرح لباس بھی ہماری عزت وزینت کا ایک مجموعہ ہے۔ ٹھیک اسی طرح میاں بیوی کا معاملہ ہے، ان کی عزت، ذلت، ان کا مقام، ایک دوسرے سے وابستہ ہے، ان دونوں میں ہر ایک کے ذمّے ہے کہ وہ اپنے رشتے کو دھوپ، سردی، گرمی، بارش، حادثات اور آفات سے بچا بچا کر رکھے۔
لباس سے متعلق ایک اہم بات یہ ہے کہ ہمارے لباس پر اگر راہ چلتے کوئی کیچڑ، گند یا داغ لگ جائے تو ہم افسوس کا اظہار کرتے ہیں اور اسے پھینکنے، پھاڑنے یا اس حصے کو کاٹنے کی بجائے بہت خیال کے ساتھ فوری طور پر صاف کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ٹھیک یہی معاملہ میاں بیوی کے تعلق کا ہے کہ انسانی فطرت کے سبب اگر کوئی اَن بن، جھگڑا، اختلاف یا ناراضگی ہوجائے تو ان کو اپنے گھر کا خیال رکھتے ہوئے اس اختلاف کو فوری سمیٹنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
درحقیقت یہ رشتہ ذمہ داریوں کی تقسیم کا معاملہ ہے۔ اس میں کسی ایک کو مکمل قصور وار ٹھہرانا حماقت ہے۔ انسان خطا کا پتلا ہے اور انسان کا نام ہی نسیان سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب اس کی فطرت میں بھلکّڑ پن اور غلطیاں کرنا موجود ہے، لہٰذا جس طرح شوہر ایک انسان ہے، اسی طرح بیوی بھی ایک انسان ہے اور انسان ہونے کے ناطے دونوں کو اپنی کارکردگی پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم اور احادیثِ مبارکہ اور فقہِ اسلامی کے ماہرین فقہاء نے دونوں کی ذمہ داریوں کے حوالے سے تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔
اس ضمن میں سب سے پہلی بات یہ سمجھنے کی ہے کہ ہر جوڑا شکایات کی ایک طویل لسٹ ذہن میں لیے پھرتا ہے اور جہاں کہیں ادھورا موقع ملتے ہی مکمل شکایات سنانا شروع کردیتا ہے، جس میں رشتہ ٹھیک جگہ نہ ہونا، خدمت میں کوتاہی، جھگڑا، گالم گلوچ، مارپیٹ، طعنے، رہائش، والدین، گھر والے، جمال، کمال غرض ہر طرح کی شکایتیں سننے کو ملتی ہیں۔ ان تمام کے بعد ایک بہت بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا اتنی برائیاں سامنے آجانے کے بعد آپ کس صورت حال تک پہنچتے ہیں؟ آیا آپ نے ان خرابیوں کی وجہ سے یہ رشتہ ختم کرنا ہے؟ اگر ہاں! تو شریعت نے ہر دو کو یہ موقع دیا ہے، تاکہ کوئی انسان فضول میں اپنی مختصر زندگی کا سکون غارت نہ کرے، بلکہ خلع یا طلاق کے اختیارات استعمال کرکے علیحدہ ہوجائے اور اپنی نئی زندگی شروع کرے۔
لیکن حیرت انگیز طور پر اکثریت اس اختیار کو استعمال کرنے کی نہیں سوچتی، بلکہ ساتھ رہنا چاہتی ہے، جس سے معلوم ہوا کہ جوڑا ایک دوسرے کے ساتھ رہنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اب اس موقع پر یہ بات بہت اہم ہے کہ جب آپ نے ساتھ ہی رہنا ہے تو آپ شکایات، اعتراضات کا بھاری بوجھ اُٹھانے کے بجائے معاملات کو حل کرنے والی گفتگو کی طرف آئیں۔ آپ اعتراض نہ کریں، بلکہ سوال کریں کہ میرا مسئلہ کیسے حل ہوگا؟ میں کیسے اپنی بیوی کے ساتھ پرسکون رہ سکوںگا؟ میں کیسے اپنے شوہر کے ساتھ اچھی زندگی گزار سکوںگی؟ لہٰذا یہ پہلو واضح ہوا کہ وقت بے وقت، موقع بے موقع شکایتوں سے فقط غیبت، حسد، بہتان، گالم گلوچ، اور فتنہ وفساد کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آتا، بلکہ اپنی قوت ِ فیصلہ کو استعمال میں لاتے ہوئے کرنے یا نہ کرنے والی صورت کی طرف آنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ان اُمور کو سمجھنے کی ضرورت ہے، جن کا تعلق بیوی سے ہے۔
بیوی کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے شوہر اور بچوں کی تربیت کو اپنی زندگی کا مقصد بنائے اور اپنی تمام تر صلاحیتیں اپنے گھر کو جنت بنانے میں صرف کرے۔ ایک خاتون کا اپنے گھر کو جنت بنانے کے لیے کسی بڑے ساز وسامان کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ فقروفاقہ کی عین چوٹیوں میں رہ کر بھی یہ سب ہوجانا ممکن ہے۔
اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ بیوی خاتونِ خانہ بنے، شمعِ محفل نہ بنے، لیکن آج یہ بات سمجھنا ذرا مشکل ہوگیا ہے، کیونکہ لڑکیاں بھی اعلیٰ تعلیم کے حصول میں پیش پیش ہیں اور ڈاکٹر، انجینئر، آفیسر لڑکیاں عام نظر آتی ہیں اور ایک اعلیٰ تعلیم سے آراستہ لڑکی سے جب یہ کہا جاتا ہے کہ آپ اپنے گھر پر زیادہ توجہ دیں تو ان کو یہ مشورہ دینے والا تنگ نظر دکھائی دیتا ہے۔
لڑکیاں تعلیم حاصل ضرور کریں اور حدودِ شرع کی رعایت کرتے ہوئے کسی مناسب شعبہ میں اپنی خدمات بھی پیش کرسکتی ہیں، لیکن وہ ایک استثنائی صورت ہے، جبکہ عام حالات میں آپ دیکھتے ہیں کہ میاں بیوی دونوں اپنی معاشی مصروفیات کے سبب اپنے گھر اور بچوں کا ٹھیک خیال نہیں رکھ پاتے اور ایک ماسی رکھ کر کام چلایا جاتا ہے، جس کے اپنے ہاتھ کے کھانوں میں نہ خلوص کا جذبہ ہے، نہ ہی اس کی تربیت میں ماں کی ممتا ہے، بلکہ وہ تو ایک ملازمہ ہے۔
گھرداری بظاہر ایک معمولی سا عنوان ہے، لیکن درحقیقت یہ ایک طویل جدوجہد کا نام ہے، جس کے اثرات نسلوں تک جا پہنچتے ہیں۔ مشہور ہے کہ ایک خاتون نے ایک عالم دین سے پوچھا کہ جتنے بھی انبیاء آئے ہیں سب مرد ہیں، اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو نبی بناکر کیوں نہیں بھیجا؟ جواب میں عرض کیا کہ عورتیں نبی بن کر نہیں آئیں، لیکن انبیاء کو جنم دینے کا سہرا انہی خواتین کے سروں پر ہے۔
نبی کریم سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مبارکہ میں بیویوں کو ایک مختصر مگر جامع پروگرام دیا گیا ہے، جس میں ایک نصاب کی طرح اُن کی ذمہ داریاں بتائی گئی ہیں، فرمایا:
’’الْمرْأۃُ إِذَا صَلَّتْ خَمْسَھَا وَصَامَتْ شَھْرَھَا وَاَحْصَنَتْ فَرْجَھَا وَاَطَاعَتْ بَعْلَھَا فَلْتَدْخُلْ مِنْ أیِّ اَبْوَابِ الْجَنَّۃِ شَائَتْ۔‘‘ (حلیہ ابو نعیم)
’’ایک بیوی جب پنج وقتہ نماز کی پابندی کرے اور رمضان کے روزے رکھے اور اپنی عزت و عصمت کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی خدمت کرے تو اس کو اجازت ہے کہ جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہوجائے۔‘‘
اس حدیث میں آپ علیہ السلام خواتین کی چار ذمہ داریاں بتارہے ہیں: ۱:- فرض نماز کی ادائیگی، ۲:- فرض روزوں کی ادائیگی، ۳:- عزت وعصمت کی حفاظت کرنا، ۴:-شوہر کی اطاعت وفرمانبرداری کرنا۔
اس حدیث میں آپ علیہ السلام خواتین کو ایک بہت بڑی بشارت سنارہے ہیں کہ جنت کے تمام دروازے اُن کے لیے کھل جائیںگے، لیکن بدلے میں مطالبہ کسی لمبی چوڑی عبادت کا نہیں کیا جارہا ہے، بلکہ فقط فرائض کی ادائیگی جس میں نماز اور روزے کی فرض عبادتیں اور اپنی عصمت کی حفاظت، (جس میں پردہ خاص طور پر) شامل ہے اور آخری اہم بات اپنے شوہر کی خدمت ہے اور شوہر کی خدمت میں وہ تمام کام آجاتے ہیں، جو ایک بیوی اپنے گھر میں انجام دیتی ہے، جس میں بچوں کی پیدائش، اُن کی تربیت، کچن کا انتظام، صفائی کا انتظام وغیرہ شامل ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ جن کاموں کو خواتین خالص دنیوی یا رسمی سمجھتی ہیں اور ایک روٹین یا عادت یا بعض اوقات مجبوری کے تحت کرتی ہیں اُس خالص دنیوی عمل کو ’’دینِ اسلام‘‘ ایک عظیم عبادت قرار دے کر اس کے بدلے اتنی بڑی بشارت سنارہا ہے، اللہ اکبر!
اس ضمن میں ایک اہم کام خواتین کے ذمے یہ ہے کہ وہ ’’شکر‘‘کا اہتمام کریں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑی قربانیاں دینے والی فطرت دی ہے، لہٰذا قربانی دینے کے بعد یا خدمت میں کھپ جانے کے بعد بہت ضروری ہے کہ وہ اپنے ثواب کو بچاتے ہوئے اپنے ذہن اور اپنی زبان کو شکایات پر نہ لگائیں، بلکہ اللہ نے جو بھی دیا ہے اسے غنیمت جان کر اپنے گھر کو خوشحال اور پُرسکون رکھیں، ورنہ وقت بے وقت کی شکایتی راگنی ایک ایسی چنگاری ہے جو پورے گھر کو آگ لگاسکتی ہے، لہٰذا شکر کا خاص طور پر معمول بنایا جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے حقوق سے متعلق جو ہدایات ہیں ان میں ایک مجموعی طرزِ فکر یہ ہے کہ خواتین کا مزاج سمجھا جائے اور ان سے اسی مزاج کے موافق توقعات رکھی جائیں۔ علماء فرماتے ہیں کہ: خواتین کے حوالے سے تین باتوں کا سمجھنا انتہائی ضروری ہے، اس سے اندازہ ہوگا کہ خواتین کس مزاج کی حامل ہیں:۱:- تحفظ، ۲:- عزت، ۳:-
۱:- تحفظ:بیوی اپنے شوہر سے بھرپور اُمید اور توقع رکھتی ہے کہ میری اور میرے بچوں کی مکمل ذمہ داری میرا شوہر ادا کرے گا اور وہ رہائش، خرچ اور ضروریات کی فکر میں لگے بغیر اپنے گھر کو سنبھالتی ہے، اس کے لاشعور میں یہ کھٹکارہتا ہے کہ میرا اب اس دنیا میں کوئی بھی نہیں سوائے میرے شوہر کے، تبھی وہ اپنے شوہر سے بے پناہ توقع رکھتی ہے ۔
اسی وجہ سے وہ سوتن سے ڈرتی ہے، کیونکہ اُسے یہ خوف لگا رہتا ہے کہ وہ اس کے تحفظ میں رکاوٹ کا ذریعہ بن جائے گی، اسی لیے شوہر اس بات کا خاص خیال رکھے کہ وہ دوسری شادی کرنا چاہتا ہے تو کرے، لیکن دوسری شادی کی مصنوعی دھمکیاں نہ دے، اس سے نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے ۔
۲:- عزت: بیوی اپنی، اپنے بچوں کی اور اپنے والدین کی عزت چاہتی ہے، اسے عزت نہ ملے تو وہ تھوڑا کام کرکے بھی خود کو ایک ملازمہ تصور کرتی ہے اور اُسے عزت مل جائے تو جان کھپا کر بھی فخر کے جذبات رکھتی ہے۔
۳:- حوصلہ افزائی: بیوی کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے، بلکہ علماء فرماتے ہیں کہ: عورت چاہے کسی بھی روپ میں ہو، ماں، بہن، بیٹی، یا بیوی، اُسے حوصلہ افزائی کی شدید ضرورت ہوتی ہے، یہ اس کی فطری چاہت ہے جسے ختم نہیں کیا جاسکتا اور اگر اُسے جائز طریقے سے حوصلہ اَفزا جملے سننے کو نہ ملیں تو وہ بعض اوقات ناجائز حوصلہ افزائی کی طرف متوجہ ہوسکتی ہے، اسی لیے اس کی پڑھائی، صفائی، کھانا اور خوبصورتی و خوب سیرتی کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیاری حدیث ہے، فرمایا:
’’خَیْرُ کُمْ خَیْرُکُمْ لإٔھْلِہٖ وَأنَا خَیْرُکُمْ لِأہْلِيْ۔‘‘ (سنن الترمذی، رقم الحدیث: ۳۸۹۵، باب فضل ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم، ج:۵، ص: ۷۰۹، طبع: داراحیاء التراث العربی، بیروت)
ترجمہ: ’’تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہو اور میں اپنے گھر والوں کے ساتھ تم سب میں سب سے زیادہ اچھا ہوں۔‘‘
فرمایا کہ: گھر میں تندخو، سخت مزاج یا فوجی بن کر نہ رہو، بلکہ اُن کے ساتھ اچھے سے پیش آئو اور کوئی اگر باہر کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو، لیکن گھر میں برا ہے تو وہ برا ہے۔گھر والوں کے ساتھ اچھا سلوک رکھے اور اس نیت سے رکھے کہ یہ بھی عبادت کا حصہ ہے اور مجھے اس حسنِ سلوک پر نیکیاں مل رہی ہیں۔
اس بات کا بہت افسوس ہے کہ مرد حضرات اپنے گھر میں اچھا ماحول دیکھنا چاہتے ہیں، لیکن اس اچھے ماحول کی آبیاری کے لیے کوئی کوشش نہیں کرتے، حالانکہ وہ اپنی کوشش سے ایک نہایت خوب صورت ماحول تشکیل دے سکتا ہے۔وہ اپنے گھر والوں سے کپڑے، کھانا، صفائی اور آرام کے مطالبے کرلیتا ہے، لیکن نماز کے متعلق نہیں پوچھتا ۔ تلاوتِ کلامِ پاک کے متعلق نہیں پوچھتا۔ شاپنگ کے لیے لے جاتا ہے، لیکن کسی نیکی کی مجلس میں نہیں لے جاتا، حالانکہ اگر سب گھر والے روزانہ صرف ۱۰ منٹ بھی ایک اجتماعی ماحول قائم کریں، کوئی دینی کتاب کا مطالعہ کرلیں تو اس سے حیرت انگیز فوائد دیکھنے کو ملیںگے، ان شاء اللہ
ایک اہم مگر مشکل کام جو مرد کے ذمے ہے، وہ ہے اپنی زوجہ کو الگ سے وقت دینا، ایک ایسا وقت جو آرام اور کھانے پینے کے علاوہ ہو۔ اس میں وہ دونوں ایک دوسرے سے کھلے دل کے ساتھ ہر وہ بات شیئر کریں جو دل چاہے اور اس اظہار میں کوئی بھی پابندی نہ ہو، یہاں تک کہ زوجین آپس میں معاہدہ کرلیں کہ ہمارے بیچ کوئی بھی مسئلہ ہوگا، ہم دیگر افراد کو بیچ میں لائے بغیر بلا تردُّد اس کو ایک دوسرے سے ذکر کریں گے۔
عین ممکن ہے کہ مرد کو اپنی ماں، بہن کے متعلق بہت سی تلخ باتیں سننے کو ملیں، لیکن وہ یہ سب یہ سوچ کر سنے کہ اس کے ذمے خدمت، رضاعت، حمل، تربیت کی بہت سی ذمہ داریاں ہیں اور یہ ان سب کے باوجود طعن وتشنیع کے تیر بھی کھاتی رہتی ہے، لہٰذا اس وقت میں اگر اس کے دکھ درد ( اگر چہ نہ ہو) نہ سنوں تو اور کون سنے گا، لیکن احتیاط لازم ہے کہ فقط سنے اور سنتا جائے، بار بار سنے، ہمیشہ سنے، دل لگا کر سنے، لیکن اس شنوائی پر کوئی بھی ردِ عمل کا اظہار نہ کرے، ورنہ اپنی بیوی بچوں کی فکر میں وہ حدِّ اعتدال سے نکل کر والدین اور بہنوں کے حقوق غصب کرے گا، ٹھیک اسی طرح اپنی والدہ محترمہ کے پاس جائے تو وہاں بھی اہلیہ کے متعلق فقط سننے پر اکتفا کرے، اگر ردِ عمل کا اظہار کرے گا تو اپنے گھر سمیت خود بھی ٹوٹ جائے گا۔
ایک اہم اور آخری بات یہ ہے کہ اپنی بیوی کا مزاج سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے خواتین کے لیے ایک مقام پر ’’غافلات‘‘ کا صیغہ ذکر کیا ہے، جب کہ مردوں میں غفلت کا مطلب لاپرواہی یا اپنی ذمہ داریوں میں پورانہ کرنے والے کو ’’غافل ‘‘کہا جاتا ہے، لیکن جن معنوں میں ’’غافلات‘‘ عورتوں کے لیے قرآن میں استعمال ہوا ہے، اس کا معنی ہے بھولی بھالی یا ایسی عورت جو حد درجہ ہوشیاری نہ جانتی ہو، بلکہ سیدھی سادی اور انتہائی مخلص مزاج ہو، جسے ہر با ت کی فلسفیانہ وجوہات اور تہہ میں جاکر سمجھنا نہ آتا ہو۔ اندازہ لگائیں کہ اس عورت سے جب مرد بار بار یہ شکایات کرتا ہے کہ تم بات نہیں سمجھتی ؟ تمہیں عقل نہیں ہے؟ تم ایک ہی بات بار بار کیوں کہتی ہو؟ تم تو پیچھے ہی پڑگئی ہو؟ تم کیوں نہیں سمجھتی؟ یہ سارے وہ جملے ہیں جن میں مرد اپنی بیوی سے دانش مندی کی انتہا درجہ توقعات رکھتا ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اس نہج پر نہیں بنایا۔
نوٹ: البتہ کچھ خواتین واقعی علم وعقل وشعور اور دانش کی اعلیٰ سطح پر قائم رہتی ہیں، لیکن وہ ایک استثنائی صورت ہے۔
آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی ازواجِ مطہرات کے کس قدر مزاج شناس تھے، اس حوالے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک مرتبہ فرماتے ہیں کہ: ’’عائشہ! جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو یا ناراض ہوتی ہو تو پتہ چل جاتا ہے۔ ‘‘پوچھا : کیسے؟ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو کہتی ہو: ’’وربِّ محمد صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ (محمد کے رب کی قسم!) اور جب تم ناراض ہوتی ہو تو کہتی ہو: ’’وربِّ إبراہیم‘‘ (ابراہیم ( علیہ السلام ) کے رب کی قسم!)۔‘‘
اور جواب میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’’لا أھجر إلَّا اسمَک‘‘ ناراضگی کے عین موقع پر بھی میں فقط آپ کا نام چھوڑتی ہوں، باقی دل میں برابر آپ کی محبت برقرار رہتی ہے۔
یہ کچھ گزارشات ہیں جن کی زوجین کو ضرورت ہے اور ضرورت ہے کہ تمام شادی شدہ حضرات اِن اصولوں سے ایک بار ضرور واقف ہوں۔