بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 رجب 1446ھ 20 جنوری 2025 ء

بینات

 
 

دہشت گردی کی نئی لہر


دہشت گردی کی نئی لہر


الحمد للہ وسلامٌ علٰی عبادہ الذین اصطفٰی

افغانستان اور امریکا کی جنگ بندی کے بعد اہلِ پاکستان کو اُمید ہو چلی تھی کہ اب پاکستان میں امن و امان کا دور دورہ ہوگا اور اطمینان و سکون نصیب ہوگا، لیکن ’’بسا آرزو کہ خاک شدہ ‘‘ کے مصداق اہلِ پاکستان کو یہ نعمتیں ابھی تک میسر نہیں آسکیں۔ کیا کہا جائے کہ اس میں ہمارے پالیسی ساز ناکام ہوئے؟ یا اہلِ حکومت و مقتدرہ قوتیں بروقت فیصلہ کرنے کی صلاحیت و استعداد سے محروم ہیں؟ یا کوئی غیر مرئی قوت ہے جو ہماری مقتدرہ اور بااختیار اتھارٹی کو اپنی قوم اور ملک کے مفاد میں صحیح اور بروقت فیصلہ کرنے میں آڑے آجاتی ہے اور روکتی ہے؟ یا عالمی طاقتیں مستحکم پاکستان پسند نہیں کرتیں؟! سبب اور وجہ کوئی بھی ہو، لیکن اتنا تو ہر باشعور اور عقل و خِرد کے حامل انسان اور پاکستانی کو معلوم ہے کہ ہمارے حکمران ہوں یا بااختیار ادارے، بہرحال! پاکستانی عوام کو تحفظ دینے اور امن و امان قائم کرنے میں بہت پیچھے ہیں ۔
حالات کی اَبتری اور مخدوش صورت حال کا اس سے اندازہ لگائیں کہ ہمارے ملک پاکستان کے چار صوبوں میں سے دو صوبے تو مستقل دہشت گردی، بم دھماکوں اور گولیوں کی زَد میں ہیں۔ صوبہ خیبر پختون خواہ کے جنوبی اَضلاع میں رات کے حکمران الگ اور دن کے حکمران الگ الگ ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ سرکاری سطح پر اعلان کیا گیا ہے کہ رات کے وقت پولیس تھانوں سے باہر نہ نکلے اور سرکاری ملازمین بھی سفر نہ کریں، حالانکہ اس صوبےکا وزیر اعلیٰ، گورنر اور آئی جی، جنوبی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھتے ہیں۔ جب پولیس اور سرکاری ملازمین کا یہ حال ہے تو بیچارے عوام کس کے رحم و کرم پر ہوں گے! 
صوبہ خیبر پختون خواہ میں اکتوبر کے مہینے میں ۳۵؍ حملوں میں۶۴؍ افراد شہید ہوئے، جن میں ۴۹؍ سیکورٹی اہل کار تھے، اور ۴۰؍ سے زائد لوگ زخمی ہوئے۔ اس سے پہلے خیبر پختون خوا کے ضلع بنوں کے علاقے مالی خیل میں سیکورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر حملے میں پاک فوج کے ۱۲ ؍جوان شہید ہوئے، آئی ایس پی آر کے مطابق سیکورٹی فورسز کے جوانوں نے خوارج کی چیک پوسٹ میں داخل ہونے کی کوشش ناکام بنا دی، چیک پوسٹ میںداخل ہونے کی کوشش میں بارود سے بھری گاڑی چیک پوسٹ کی دیوار سے ٹکرا دی، اس دھماکے کے نتیجے میں دیوار کا ایک حصہ گر گیا، پاک فوج کے ۱۰ ؍جوان اور ایف سی کے ۲ ؍اہل کار شہید ہوئے۔ اسی طرح کرم کے علاقے میں چلتی بسوں پر فائرنگ کے نتیجے میں اب تک ۴۹؍ لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جن میں خواتین اور بزرگ بھی شامل ہیں۔ لگ یوں رہا ہے کہ آپس میں زمین کے تنازع سے اُٹھنے والی خلفشار اور دشمنی کی آگ فرقہ واریت کی آگ میں بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ ولا فعل اللہ ذٰلک! 
اور اُدھر صوبائی حکومت ہے کہ وہ خوابِ غفلت سے باہر نہیںآ رہی اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید وہ اِن معاملات اور قتل و قتال کو اہمیت نہیں دے رہی، تبھی تو وہ اِن معاملات سے مکمل غافل نظر آرہی ہے اور صوبہ کے وزیر اعلیٰ اور پوری کابینہ کا ایک کام رہ گیا ہے کہ وہ صرف بانی پی ٹی آئی کو قانونی شکنجے سے رہائی دلانے کے لیے ہر قسم کے غیرقانونی حربے آزماتے رہیں اور صوبے کے وسائل اس میں جھونک دیں۔ بس ! یہی ان کے نزدیک ملک کا سب سے بڑا مسئلہ رہ گیا ہے، اور وفاقی حکومت ہے کہ اس کا مقصد صرف اورصرف اس احتجاج کو روکنا ہے۔ اس کے علاوہ شاید امن و امان کے درست کرنے کی ذمہ داریاں لینے کے لیے وہ بھی سنجیدہ نظر نہیں آرہی ۔
کچھ یہی صورتِ حال صوبہ بلوچستان کی ہے کہ اس میں بھی ایک دس سالہ بچے کو ایک باغ سے اغوا کیا گیا اور ابھی تک پولیس اسے بازیاب نہیں کرا سکی، جس کی بنا پر پورے صوبہ بلوچستان میں دھرنے ہو رہے ہیں، ٹریفک جا بجا رُکی ہوئی ہے، اسی طرح ٹرینوں کو بھی منسوخ کیا جا رہا ہے۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے ؟ لگ یوں رہا ہے کہ ہمارے ملک کی دشمن بیرونی ایجنسیاں اور ان کے داخلی ایجنٹ مل کر ملک کو عدمِ استحکام کا شکار بنا رہے ہیں اور چاہتے یہ ہیں کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے جو ممالک دل چسپی رکھتے ہیں، وہ لوگ اس امن و امان کی ناقص صورت ِ حال کی بنا پر اپنا سرمایہ اس ملک میں نہ لگائیں ۔ ولا فعل اللہ ذٰلک !
  حکومت کو چاہیے کہ جو لوگ بیرونی قوتوں کے آلۂ کار بن کر ملک کے امن و امان کو تہہ و بالا کر رہے ہیں، ان کے ساتھ نیشنل ایکشن پلان کے تحت سختی سے نمٹا جائے، پارلیمانی نمائندگی کے ذریعہ پوری قوم کو اعتماد میں لیا جائے اور ان کے مشوروں سے اپنے ملک کی داخلہ اور خارجہ پالیسی مرتب کی جائے، تمام حکومتی ذمہ داران حضرات اور سیاسی جماعتوں کے اکابرین کی ایک آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائے اور اسے قومی مسئلہ قرار دیتے ہوئے اس پر غور و فکر کیا جائے۔ ان شاء اللہ! اس سے امن و امان قائم کرنے کا کوئی نہ کوئی حل ضرور نکل آئے گا۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین