بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

خوفِ خدا اور فکرِآخرت

 

خوفِ خدا اور فکرِآخرت

    سیدی ومرشدی حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر نور اللہ مرقدہٗ نے اپنے مرشد حضرت شیخ عبد الغنی پھولپوریv کی اثباتِ قیامت کی تقریر کو نظم میں فرمایا تھا، جس کا آخری شعر یہ ہے: قیامت کا دن منتہائے عمل ہے جزائے عمل ہے سزائے عمل ہے     ان سادہ الفاظ میں جو جامعیت ونصیحت ہے وہ اظہر من الشمس ہے، یعنی دل میں خوفِ خدا اور دنیا سے بے رغبتی پیدا کرکے روزِ قیامت کی تیاری کے لیے فکرِآخرت پیدا کرنا ہے۔حضور نبی کریم رحمۃ للعالمین فخر المرسلین a نے ارشاد فرمایا کہ: ’’آنکھوں کو بھی عبادت کا حصہ دو، یعنی قرآن میں دیکھو اور اس میں غور وتدبر کرو اور اس کے عجائبات سے درسِ عبرت لو‘‘۔(الصحیح لابن حبان بروایت ابی سعید، کنز العمال اردو مترجم:۱/۳۲۳، رقم الحدیث:۲۲۶۲)     امام التابعین حضرت حسن بصریv کہتے ہیں کہ: ’’ پہلے لوگ قرآن شریف کو اللہ تعالیٰ کا فرمان سمجھتے تھے، رات بھر اس میں غور وتدبر کرتے تھے اور دن کو اس پر عمل کرتے تھے اور تم لوگ ا س کے حروف اور زیر وزبر تو بہت درست کرتے ہو، مگر اس کو فرمانِ شاہی نہیں سمجھتے، اس میں غور و تدبر نہیں کرتے۔(فضائل قرآن مجید، زیر حدیث نمبر: ۱۹)     البتہ خود سے غور وتدبر کرنے کی بجائے علمائے کرام سے اس کا طریقہ پوچھنا چاہیے اور سیکھنا چاہیے، تاکہ خود ساختہ طریقے پر چلنے سے گمراہی میں مبتلا نہ ہوجائے، کیونکہ کلام پاک کے معنی کے لیے جو شرائط وآداب ہیں ان کی رعایت بھی ضروری ہے۔ اور ایک جگہ رسول اللہ a نے ارشاد فرمایا کہ: ’’افسوس اس شخص پر جس نے یہ آیت پڑھی۔۔۔۔۔-: ’’إِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ لَأٰیٰتٍ لِّأُوْلِیْ الْأَلْبَابِ‘‘۔ ( آل عمران:۱۹۰)  ’’بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات ودن کے بدل بدل کر آنے جانے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔- لیکن اس میں کچھ غور وفکر نہ کیا۔‘‘ (کنز العمال اردو مترجم:۱/۳۵۱، رقم:۲۵۷۶)     اس آیت پر حضور a کا ایک واقعہ بھی منقول ہے، ملاحظہ ہو:     حضرت عبید بن عمیرq فرماتے ہیں کہ: میں نے حضرت عائشہ tسے پوچھا کہ آپ نے حضور a کی سب سے زیادہ عجیب بات جو دیکھی ہو، وہ ہمیں بتادیں۔ پہلے تو وہ خاموش ہوگئیں، پھر فرمایا: ایک رات حضور a نے فرمایا:’’اے عائشہ! مجھے چھوڑو، آج رات میں اپنے رب کی عبادت کروں۔‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ کی قسم! مجھے آپ کا قرب بھی پسند ہے اور جس کام سے آپ کو خوشی ہو وہ بھی پسند ہے، چنانچہ حضور a اُٹھے اور وضو کیا، پھر کھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگے اور نماز میں روتے رہے اور اتنا روئے کہ آپ a کی گود گیلی ہوگئی اور بیٹھ کر اتنا روئے کہ آپ a کی داڑھی آنسوؤں سے ترہوگئی، پھر سجدہ میں اتنا روئے کہ زمین تر ہوگئی، پھر حضرت بلال q حضور a کو نماز کی اطلاع دینے آئے، جب انہوں نے حضور a کو روتے ہوئے دیکھا تو عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ رو رہے ہیں؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے ہیں۔     حضور a نے فرمایا: تو کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ آج رات مجھ پر ایسی آیت نازل ہوئی ہے کہ جو آدمی اسے پڑھے اور اس میں غور وفکر نہ کرے، اس کے لیے ہلاکت ہے، وہ آیت یہ ہے:’’إِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ لَأٰیٰتٍ لِّأُوْلِیْ الْأَلْبَابِ‘‘۔ ( آل عمران:۱۹۰) ترجمہ:…’’بلاشبہ آسمانوں اور زمین کے بنانے میں اور رات ودن کے بدل بدل کر آنے جانے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔‘‘    (اخرجہ ابن حبان فی صحیحہ، کذا فی الترغیب:۳۳۲ بحوالہ حکایۃ الصحابہ:۳/۱۵۰، ۱۴۹ ) حضور a پر بڑھاپے کے آثار قبل از وقت کیوں؟     مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ قرآن پاک کے بنیادی مضمون تین ہیں:     ۱:…توحید، ۲:…رسالت، ۳:…قیامت۔     قرآن پاک میں کچھ سورتیں ایسی ہیںجن میں قیامت کی ہولناکیاں اور اگلی اقوام کے حالات وغیرہ کا ذکر ہے۔ مختلف احادیث میں ان سورتوں کی نشاندہی فرمائی گئی ہے۔ ان سب روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ صحابۂ کرامs مثلاً حضرت ابوبکرصدیقq، حضرت عمر فاروق q وغیرہ نے ریش مبارک میں بالوں کی سفیدی دیکھ کر اظہارِ رنج کے ساتھ عرض کیا کہ: یا رسول اللہ! آپ بوڑھے ہوگئے؟ سید الانبیاء حضور سرور عالم a نے فرمایا کہ: مجھے سورۂ ہود اور اس کی بہنوں یعنی دوسری چند سورتوں نے بڑھاپے سے قبل ہی سفید بالوں والا یعنی بوڑھا کردیا۔                        (مستفاد از کنز العمال اردو مترجم)     ان سورتوں میں پچھلی قوموں پر نازل ہونے والے قہر الٰہی، مختلف قسم کے عذابوں، قیامت کے ہولناک واقعات اور ان کی منظر کشی، کفار وفجار کی سزا اور مؤمنین ومتقین کی جزاء وغیرہ کا ذکر خاص انداز میں آیا ہے، اس لیے ان واقعات کے خوف ودہشت کی وجہ سے آپ a پر بڑھاپے کے آثار شروع ہوگئے۔     اسی طرح ایک حدیث میں آیا ہے کہ حضور اقدس a دولت کدہ سے تشریف لاتے ہوئے داڑھی مبارک پر ہاتھ پھیر رہے تھے، حضرت ابوبکرqاور حضرت عمرq مسجد میںتشریف فرما تھے، حضرت ابوبکرqنے یہ منظر دیکھا اور عرض کیا: یارسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، کس قدر جلدی آپ پر بڑھاپا آگیاہے اور یہ کہہ کر رونے لگے اور آنسو جاری ہو رہے تھے۔ حضورa نے فرمایا: سورۂ ہود جیسی سورتوں نے مجھے بوڑھا کردیا ہے۔      (شمائل ترمذی مع اردو شرح خصائل نبوی، ص:۴۳) سورتوں کے نام     وہ سورتیں جن کا ذکر آپ a نے مختلف روایات میں فرمایا، وہ مندرجہ ذیل ہیں: ۱:… ہود ، ۲:… الواقعۃ ، ۳:… الحاقۃ ، ۴:… المعارج ، ۵:… المرسلات ، ۶:… النبأ ، ۷:… التکویر ،  ۸:… الغاشیۃ ، ۹:… القارعۃ ۔ (کنز العمال اردو مترجم،ج:۱،رقم الحدیث:۲۵۸۶ -۲۵۹۲،  ۴۰۹۱- ۴۰۹۶)     ان سورتوں کے علاوہ بھی اس طرح کی بہت سی سورتیں اور آیتیں ہیں، لیکن چونکہ درج بالا سورتوں میں اس موضوع کا خاص طور پر ذکر ملتا ہے، اس لیے ان کے نام لے کربتائے گئے۔ ایک ہی رات میں بال سفید ہوگئے (ایک واقعہ)     علامہ زمخشری کہتے ہیں: میں نے ایک کتاب میں دیکھا ہے کہ ایک شخص شام کے وقت بالکل سیاہ بال جوان تھا، ایک ہی رات میں بالکل سفید ہوگیا۔ لوگوں نے پوچھا، تو اس نے کہا کہ میں نے رات قیامت کا منظر دیکھا ہے کہ لوگ زنجیروں سے کھینچ کر جہنم میں ڈالے جا رہے ہیں، اس کی دہشت مجھ پر کچھ ایسی غالب ہوئی کہ اس نے ایک ہی رات میں مجھے اس حالت پر پہنچادیا۔ اللہ اکبر! (شمائل ترمذی مع اردو شرح خصائل نبوی:۴۴، ۴۳) چند مخصوص آیات مبارکہ کاتذکرہ      خوفِ خدا اور فکرِ آخرت پر حضور اقدس a، صحابۂ کرام s اور علماء ومشائخ کے ایسے بے شمار واقعات ہیں کہ ایک ہی آیت کو پڑھتے رہے اور خوف وخشیت سے روتے رہے۔ اپنے موضوع (خوفِ خدا اور فکر آخرت) کی مناسبت سے صرف حضور سرور عالم a کے چند واقعات وارشادات پر ہی اکتفا کرتا ہوں، جن میں مخصوص آیاتِ قرآنیہ کا ذکر ہے:     ۱:۔۔۔۔۔ رسول اللہ a نے ارشاد فرمایاکہ: ’’سب سے زیادہ خوف زدہ کرنے والی آیت: ’’فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَّرَہٗ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرّاً یَّرَہٗ‘‘ ہے۔ (الزلزال:۸، ۷) ۔۔۔۔۔ ’’چنانچہ جس نے ذرہ برابر کوئی اچھائی کی ہوگی وہ اسے دیکھے گا اور جس نے ذرہ برابر کوئی برائی کی ہوگی وہ اُسے دیکھے گا۔‘‘     سب سے زیادہ امید رساں اور دل کو تقویت بخشنے والی آیت: ’’ قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ أَسْرَفُوْا عَلٰی أَنْفُسِہِمْ لَاتَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ‘‘ ہے۔(الزمر:۵۳)۔۔۔۔۔ ’’کہہ دو کہ:اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر رکھی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔‘‘ (کنز العمال اردو مترجم:۱/۳۵۰، رقم الحدیث: ۲۵۶۰)     ۲:۔۔۔۔۔ رسول اللہ a نے ارشاد فرمایاکہ: ’’میں تم پر ایک سورت (التکاثر) پڑھتا ہوں، جو اس پر رویا اس کے لیے جنت واجب ہوگئی، پس جس کو رونا نہ آئے وہ رونے کی کوشش کرے۔                       (شعب الایمان بروایت عبد الملک بن عمیر، مرسلاً، کنز العمال اردو مترجم:۱/۳۶۵، رقم الحدیث:۲۷۱۵)     اس سورت میں دنیا کی زندگی اور مال ودولت کو مقصد بنانے والوں کی مذمت کی گئی ہے، نیز مال کی بے ثباتی، روز قیامت اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے بارے میں سوال ہونے اور جہنم سے ڈرایاگیا ہے۔ ۳:۔۔۔۔۔ نبی اکرم a ایک مرتبہ تمام رات روتے رہے اور صبح تک نماز میں یہ آیت تلاوت فرماتے رہے: ’’ إِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَإِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِیْزُالْحَکِیْمُ‘‘(المائدۃ:۱۱۸) ترجمہ:۔۔۔۔۔’’اگر آپ ان کو سزادیں تو یہ آپ کے بندے ہیں اور اگر آپ ان کو معاف فرمادیں تو آپ زبردست ہیں، حکمت والے ہیں۔‘‘     یعنی آپ ان کے مالک ہیں اور مالک کو حق ہے کہ بندوں کو ان کے جرائم پر سزا دے، اس لیے آپ اس کے بھی مختارہیں، قدرت والے ہیں، معافی پر بھی آپ قادر ہیں، اس لیے اس کے بھی آپ مختار ہیں تو آپ کی معافی بھی حکمت کے موافق ہوگی، اس لیے اس میں بھی کوئی قباحت نہیں ہوسکتی، مطلب یہ کہ آپ دونوں حالت میں مختار ہیں، میں کچھ دخل نہیں دیتا۔     (بیان القرآن، زیرآیت ہذا: ۲۷۱، وحکایات صحابہؓ:۳۶)     ۴:۔۔۔۔۔حضرت ابن عمرq فرماتے ہیں کہ: حضور a نے ایک قاری کو یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا: ’’إِنَّ لَدَیْنَا أَنْکَالًاوَّجَحِیْمًا‘‘ ۔ (المزمل:۱۲)ترجمہ:۔۔۔۔۔’’ہمارے یہاں بیڑیاں ہیں اور دوزخ ہے‘‘۔ یہ سن کر حضور a بے ہوش ہوگئے۔                                       (حیاۃ الصحابہؓ،ج:۲،ص:۶۸۸)     ۵:۔۔۔۔۔ حضرت عبد اللہ q فرماتے ہیں کہ: حضور a نے مجھ سے فرمایا: مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ، میں نے عرض کیا: میں آپ کو قرآن پڑھ کر سناؤں؟ حالانکہ قرآن تو خود آپ پر نازل ہوا ہے۔ حضور a نے فرمایا: میرا دل چاہتا ہے کہ میں دوسرے سے قرآن سنوں، چنانچہ میں نے سورۂ نساء پڑھنی شروع کردی اور جب میں ’’فَکَیْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ أُمَّۃٍ بِشَہِیْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی ہٰؤُلَائِ شَہِیْداً‘‘ (نسائ:۴۱) ۔۔۔۔۔ ’’پھر (یہ لوگ سوچ رکھیں کہ) اس وقت (ان کا) کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لے کر آئیں گے اور (اے پیغمبر!) ہم تم کو ان لوگوں کے خلاف گواہ کے طور پر پیش کریںگے۔‘‘ پر پہنچا تو حضور a نے فرمایا: بس کرو! میں نے آپa کی طرف دیکھا تو آپa کی آنکھیں آنسو بہارہی تھیں۔              (اخرجہ البخاری، کذا فی البدایۃ:۶/۵۹، بحوالہ حیاۃ الصحابہؓ:۲/۶۹۲)     فائدہ: تمام انبیائے کرام o قیامت کے روز اپنی اپنی امتوں کے اچھے برے اعمال پر گواہی دیںگے اور آنحضرت a کو اپنی امت کے لوگوں پر گواہ بناکر پیش کیا جائے گا۔ (آسان ترجمۂ قرآن:۱/۲۶۶)     یعنی جن لوگوں نے اللہ کے احکام دنیا میں نہ مانے ہوں گے، ان کے مقدمہ کی پیشی کے وقت بطور سرکاری گواہ کے انبیاء o کے اظہارات سنے جاویںگے، جو جو معاملات انبیاء o کی موجودگی میں پیش آئے تھے سب ظاہر کریںگے، اس شہادت کے بعد ان مخالفین پر جرم ثابت ہوکر سزادی جاوے گی۔                                              (بیان القرآن، زیر آیت ہذا:۱۷۶)     ۶:۔۔۔۔۔ شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ ایک صاحب کوخواب میں حضور a کی زیارت ہوئی، انہوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا ہے کہ سورۂ ہود نے مجھے بوڑھا کردیا، کیا بات ہے؟ حضور a نے ارشاد فرمایا کہ: اس میں ایک آیت ہے: ’’فَاسْتَقِمْ کَمَا أُمِرْتَ‘‘ یعنی دین پر ایسے مستقیم رہو جیساکہ حکم ہے اور ظاہر ہے کہ حکم کے موافق پوری استقامت بہت ہی مشکل امر ہے، اس لیے صوفیاء نے لکھا ہے کہ استقامت ہزار کرامتوں سے افضل ہے۔   (شمائل ترمذی مع اردو شرح خصائل نبوی:۴۳)     ۷:۔۔۔۔۔ حضرت ابوہریرہ q فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی:’’ أَفَمَنْ ہَذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَ وَتَضْحَکُوْنَ وَلَاتَبْکُوْنَ‘‘۔ (النجم:۶۰، ۵۹) ۔۔۔۔۔ ’’سو کیا (ایسی خوف کی باتیں سن کربھی) تم لوگ اس کلام (الٰہی) سے تعجب کرتے ہو اور ہنستے ہو اور (خوفِ عذاب سے) روتے نہیں ہو۔‘‘     تو اصحابِ صفہؓ اتنا روئے کہ آنسو اُن کے رُخساروں پر بہنے لگے، حضور a نے جب ان کے رونے کی ہلکی ہلکی آواز سنی تو آپ a بھی ان کے ساتھ رو پڑے، آپ a کے رونے کی وجہ سے ہم بھی رو پڑے، پھر حضور a نے فرمایا: جو اللہ کے ڈر سے روئے گا وہ آگ میں داخل نہیں ہوگا اور جو گناہ پراصرار کرے گا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا اور اگر تم گناہ نہ کرو (اور استغفار کرنا چھوڑ دو) تو اللہ ایسے لوگوں کو لے آئے گا جو گناہ کریںگے (اور استغفار کریں گے) اور اللہ ان کی مغفرت کریںگے۔                                            (اخرجہ البیہقی، کذا فی الترغیب:۵/۱۹۰، بحوالہ حیاۃ الصحابہؓ: ۲/۶۹۳) ٭٭٭

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین