بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

حضرت مولانا عبدالمجید لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت

حضرت مولانا عبدالمجید لدھیانوی vکی رحلت

عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیرمرکزیہ، جامعہ باب العلوم کہروڑپکا کے شیخ الحدیث، اقرأ روضۃ الاطفال ٹرسٹ کے صدر،حضرت مولانا مفتی محمود نور اللہ مرقدہٗ کے شاگرد رشید، استاذ العلمائ، شیخ المحدثین حضرت اقدس مولانا عبدالمجید لدھیانوی۱۰؍ ربیع الثانی۱۴۳۶ھ مطابق یکم فروری ۲۰۱۵ء بروز اتوار وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سیمینار میں بیان کے فوری بعد حرکت قلب بند ہوجانے سے خالق حقیقی سے جاملے۔إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون، إن للّٰہ ماأخذ ولہٗ ماأعطٰی وکل شیء عندہٗ بأجل مسمی۔ ایک طرف فتنوں کی اتنا بہتات اور کثرت ہے کہ وہ ختم ہونے یا بند ہونے میں نہیں آرہے اور دوسری طرف اہل اللہ او ر علمائے کرام کی پے درپے اس جہانِ فانی سے رحلت اورکوچ کرنے کی خبریں ہیں کہ جن کی دعاؤں اور سحرگاہی آہوں اور سسکیوں سے آمدہ آفات اور بلیات ٹل جایا کرتی تھیں۔ تبلیغی جماعت کے بزرگ مولانا جمشید علی خانؒ، میاں سراج احمد دین پوریؒ، مولانا ڈاکٹر خالد محمود سومروؒ، مولانا محمد نافع   ؒ، مولانا نور محمد تونسویؒ، مولانا بشیر احمد جمالیؒ اور اب استاذ جی حضرت مولانا عبدالمجید لدھیانوی نور اللہ مراقدہم جیسے اولیاء اللہ اور جبال العلم علماء تھے جو اپنی دعاؤں، توجہات اور کوشش سے امتِ مسلمہ کے دین وایمان کی حفاظت اور قلوب کو روحانیت کے انوارات سے منور کرنے کا فن اور گر جانتے تھے، دیکھتے ہی دیکھتے یہ سب سلاطین علم وعمل اس دنیا سے جدا اور رخصت ہوگئے۔ پے درپے اتنا کثرت سے ان بزرگوں کا اس دنیا سے رخصت ہوجانا علاماتِ قیامت میں سے ہے، جیسا کہ آپ a کا ارشاد ہے: ’’إن اللّٰہ لایقبض العلم انتزاعا ینتزعہ من العباد ولکن یقبض العلم بقبض العلمائ، حتی إذا لم یبق عالما اتخذالناس رؤسا جھالا، فسئلوا فأفتوا بغیر علم فضلوا وأضلوا۔‘‘                                                   (مشکوٰۃ،ص:۳۳) ’’اللہ تعالیٰ علم کو لوگوں (کے سینے )سے کھینچ کر نہیں اُٹھائے گا، بلکہ وہ علم کو علماء کے اٹھانے کے ذریعہ اُٹھائے گا، یہاں تک کہ جب علماء نہ رہیں گے تو لوگ جاہلوں کو اپنا بڑا بنالیں گے، پھر جب وہ ان سے فتویٰ مانگیں گے تو وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے، (خود بھی )گمراہ ہوں گے اور (دوسروں کو بھی )گمراہ کریں گے۔‘‘ حضرت مولانا عبدالمجید لدھیانویv ۵؍ جون ۱۹۳۴ء کو موضع سلیم پور تحصیل جگراؤں ضلع لدھیانہ کے ایک آرائیں گھرانے میں پیدا ہوئے۔ والد ماجد حافظ محمد یوسف صاحبؒ ایک دین دار آدمی تھے اور متوسط درجے کے زمیندار اور کاشت کار تھے، ابتدا میں آپ کو سلیم پور کے گورنمنٹ ہائی اسکول میں داخل کرادیا گیا، آٹھویں جماعت کے دوران تقسیم ہند کا فیصلہ ہوگیا، آپ بھی اپنے والدین کے ہمراہ پاکستان منتقل ہوگئے اور یہاں شورکوٹ میں سکونت اختیار کی اور مڈل کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد عصری تعلیم کو خیرباد کہہ کر مدرسہ عربیہ دارالعلوم ربانیہ (تحصیل ٹوبہ ٹیک سنگھ، فیصل آباد) میں دینی تعلیم کے حصول کے لیے داخل ہوگئے۔ یہ ۱۹۴۹ء کا واقعہ ہے۔ دو سال کے بعد مدرسہ اشرف الرشید فیصل آباد میں داخلہ لیا، اسی دوران کمالیہ میں رہنے والے ایک خاندان میں آپ کی شادی ہوگئی، پھر حدیث کی کتابیں پڑھنے کے لیے جامعہ قاسم العلوم ملتان میں داخل ہوئے اور ۱۹۵۶ء میں درسِ نظامی سے فراغت حاصل کی۔ بخاری اور ترمذی حضرت شیخ الہندvکے شا گرد حضرت مولانا عبدالخالق v سے پڑھیں، مسلم شریف حضرت مولانا مفتی محمودvسے پڑھی، آپ کو شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجرمدنیv، حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلویv، اور حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریv سے بھی اجازتِ حدیث حاصل تھی۔ آپ کے ہم درس رفقاء میں مولانا محمد عبداللہ شہیدv(سابق خطیب لال مسجد) مولانا نذیر احمدv(بانی جامعہ امدادیہ ،فیصل آباد)مولانا عبدالمجید انورv، مولانا محمد رب نواز جلالپوریv اور مولانا فداء الرحمن درخواستی وغیرہ شامل ہیں۔ اپنے سلسلۂ بیعت وارشاد کے بارے میں حضرت v خود لکھتے ہیں: ’’میں نے ۵۹ سال پہلے جو میری تدریس کا پہلا سال تھا، فیصل آباد میں ۲۷؍ رمضان المبارک کی رات کو شیخ الحدیث جامعہ رشیدیہ ساہیوال حضرت مولانا عبداللہ صاحب v کے توسط سے حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری vسے بیعت کا شرف حاصل کیا، بعد میں بزرگوں کی ایک کہکشاں حضرت مولانا عبدالعزیزv (ساہیوال والے) حضرت پیر جی عبداللطیف صاحبv ، حضرت پیر جی عبدالعزیزv، حضرت مولانا سید نیاز احمد شاہ صاحبv(تلمبہ والے) اور حضرت مولانا پیر سید خورشید احمد ہمدانیv کے درمیان رہنے کی سعادت حاصل رہی اور اسی راہِ طریقت کے رہرو حضرت مولانا عبدالعزیزv (سرگودھا والے) بھی تھے،میراان سب سے زیادہ تعلق رہا۔‘‘ حضرت سید نفیس الحسینی شاہ صاحب v سے ایک عرصہ تعلق رہا، انہوں نے مکہ مکرمہ میں حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوریv کے سلسلے کی اجازت بھی مرحمت فرمائی۔ اسی طرح حضرت مولانا جمیل احمد میواتی v جو حضرت رائے پوری v اور حضرت لاہوریv دونوں کے خلیفہ مجاز تھے، انہوں نے بھی ۱۴۰۲ھ میں مدینہ طیبہ میں اجازت عنایت فرمائی۔ حضرت مولانا سید محمد اصلح الحسینی صاحب v نے بھی ان حضرات کی شفقتوں، عنایتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک حاضری کے موقع پر اجازت عنایت فرمائی اور تسبیحات ستہ کی تلقین بھی فرمائی۔ ۲۰۱۰ء میں خواجہ خواجگان حضرت خواجہ خان محمد قدس سرہٗ کے وصال کے بعد آپ کوعالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کا امیرمنتخب کیا گیا، آپ نے جامعہ باب العلوم میں درس بخاری دینے کے ساتھ ساتھ جماعت کے پروگراموں میں شرکت کو بھی اپنے لیے ضروری سمجھا اور پاکستان میں ہوتے ہوئے ہمیشہ چناب نگر کانفرنس کی صدارت آپ نے فرمائی۔ جب سے حکومت نے دینی مدارس اور مذہبی جماعتوں کے خلاف ایکشن پلان منظور کیا ہے۔ اس وقت سے علمائے امت انتہائی پریشان اور سخت اضطراب میں ہیں، اس لیے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ تمام اسکیمیں اور حربے اس ملک سے دین کو دیس نکالا دینے اور پاکستانی قوم کو مغربی تہذیب میں رنگنے کے بہانے ہیں۔حضرت مولانا عبدالمجید لدھیانوی قدس سرہٗ کے دل پر بھی اس کا بہت صدمہ اور بوجھ تھا، جس کی ایک جھلک آپ کے آخری بیان میں بھی نظر آتی ہے، جو آپ نے اپنی وفات سے چند منٹ پہلے ملتان میں وفاق المدارس العربیہ کے سیمینار میں کیا تھا۔ بالآخر یہی کرب والم آپ کے لیے جان لیوا ثابت ہوا۔ حضرت استاذ جی v اکابر علمائے دیوبند کے مسلک سے سرمو انحراف کو گوارا نہیں فرماتے تھے۔ ساری زندگی آپ نے قال اللہ وقال الرسول کی تعلیم وتعلم میں گزاردی، آپ کو من جانب اللہ تربیت کا بھی ایک خاص انداز ودیعت ہوا تھا، جو بھی فرد خالی الذہن ہوکر استاذ جی کی بات سنتا وہ آپ کا گرویدہ ہوجاتا۔ حضرت استاذ جی کی نسبی اولاد تو نہ تھی، لیکن آپ کی روحانی اولاد ہزاروں اور لاکھوں میں شمار کی جاسکتی ہے، جن میں شیوخ الحدیث، علمائ، خطباء کے علاوہ ہزاروں طلبہ اور دینی جماعتوں کے کارکنان کے ساتھ ساتھ درسی تفسیر قرآن چھ جلد، خطباتِ حکیم العصر ۱۲جلد، صحیح بخاری کی شرح بھی آپ کے حسنات میں شامل ہیں، جو آپ کے لیے صدقہ جاریہ ہیں۔ آپ کی اہلیہ محترمہ کئی سال پہلے اس دارِ فانی سے کوچ کرگئی تھیں۔ بروزپیر ساڑھے گیارہ بجے آپ کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی، نمازِ جنازہ حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب مدظلہٗ نے پڑھائی۔ آپ کی نماز جنازہ میں علمائ، طلبہ، دینی جماعتوں کے قائدین اور کارکنان کے علاوہ لاکھوں مسلمانوں نے شرکت کی۔ اللہ تعالیٰ حضرت کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائیںاور آپ کے لگائے گئے جامعہ باب العلوم کو ترقیات سے نوازے اور ہم سب کو آپ کے مشن کو جاری وساری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ تفصیلی مضمون ان شاء اللہ! بعد میں لکھا جائے گا۔  

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین