عموماً دیکھا جاتا ہے کہ خاندانوں کے کئی ایک بزرگ خاموش سے رہتے ہیں، ان کی آواز کم کم ہی کانوں میں پڑتی ہے، لیکن جب وہ اس دنیا سے اُٹھ جاتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ کوئی قیامت سی ٹوٹ پڑی ہے، یہ زمین اپنی تمام وسعتوں کے باوجود تنگ داماں ہوگئی ہے، ایک ویرانی سی چاروں طرف فضاؤں میں بکھرتی نظر آتی ہے اور دور تک خلا سا محسوس ہونے لگتا ہے۔ حضرت مولانا سید محمد واضح رشید حسنی رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کی خبر ۱۶جنوری کی صبح کو جب ملی تو کچھ ایسا ہی لگا۔ ایک خاموش، لیکن عظیم شخصیت کے دنیا سے اچانک اس طرح رخصت ہونے کا گمان بھی نہیں تھا، لیکن قدرت کی ہونی کو کون ٹال سکتا ہے، مرنے کا ایک وقت مقرر ہے، ہم جیسے کورے دماغ اسے اچانک سمجھ بیٹھتے ہیں۔
آپ نے عمرِ عزیز کی ۸۵ بہاریں اس دنیائے فانی میں دیکھیں، ۱۹۳۳ء میں سید احمد شہیدv کی بستی ’’تکیہ کلاں، رائے بریلی‘‘ میں آنکھیں کھولی تھیں۔ والد ماجد سید رشید حسنی صاحب زمیندار تھے، مؤرخِ ہند علامہ حکیم عبد الحی حسنی رحمۃ اللہ علیہ آپ کے نانا تھے، جن کی چھوٹی بیوی محترمہ خیرالنساء بہتر رحمۃ اللہ علیہا آپ کی نانی تھیں، اس رشتے سے حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ آپ کے سگے ماموں تھے، آپ کا مکان ننھیال سے لگا ہوا تھا، لہٰذا آپ نے اپنی نانی صاحبہ اور خالہ امۃ اللہ تسنیم صاحبہ کے آغوشِ تربیت میں بچپن کا دور گزارا۔
اس گھر کا ماحول اگر دینداری کا نمونہ نہ ہوتاتو آخر اور کونسا گھر ہوتا؟ گھرانے کے سبھی لوگ مروت اور اخلاق کے پتلے اور اسلاف کی سیرت کے اعلیٰ نمونے، اس گھرانے سے جڑے ہوئے تھے۔ بچپن ہی سے نمازکی پابندی کا اہتمام ہوتا، اس میں تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ گھر کا ماحول زمیندارانہ ہونے کے باوجود کہیں احساسِ برتری کو اُجاگر ہونے کی جگہ نہ تھی، خادمائیں اور خالائیں بھری پڑی تھیں، لیکن اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا تھا کہ کسی کا دل نہ دُکھنے پائے، زبان سے کسی کی تحقیر کا کوئی جملہ نہ نکلے۔ اگر کبھی زبان درازی تک نوبت پہنچی اور ہاتھ اُٹھا تو پھر والدین معافی مانگنے کو کہتے، خالہ نے جو خود بہترین عالمہ اور مصنفہ تھیں، قرآن پڑھایا، گیارہ سال کی عمر تک گاؤں ہی کے قریب ’’مدرسہ الٰہیہ‘‘ میں ابتدائی تعلیم مکمل ہوئی،جب شعور پروان چڑھنے لگا تو سامنے حضرت مولانا علی میاںv اور ڈاکٹرسید عبد العلی حسنی v دو ماموؤں کی زندگی نمونہ بنی، حالانکہ آپ کے ددھیالی رشتے کے افراد عصری تعلیم کی طرف مائل تھے، آپ کے چچا احمد برطانیہ سے بیرسٹری کی ڈگری لے کرلوٹے تھے۔
مکتب کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد ان دونوں کے مشورے سے۱۹۴۵ء میں داخلہ ندوۃ العلماء کے درجہ عربی اول میں ہوا، اس وقت یہاں علامہ سید سلیمان ندوی v ’’معتمدِ تعلیمات ‘‘ کے منصب پر فائز تھے، اور مولانا محمد عمران خان ندوی مہتمم تھے، شیخ التفسیر مولانا محمد اویس نگرامیؒ ترجمۂ قرآن پڑھاتے تھے۔ علامہ عموماً درجات میں آتے تو طلبہ سے بات چیت ضرور کرتے، ان کی باتیں ہمیشہ کتابوں کے بارے میں ہوتی تھیںکہ فلاں کتاب پڑھی ہے یا نہیں؟ اکابر عموماً علم وکتاب ہی کی باتیں کیا کرتے تھے۔
اس وقت ندوے میں عربی میڈیم کا تجربہ کیا جارہا تھا، اساتذہ میں سے مولانا محمد عمران خان اور مولانا محبوب الرحمنؒ ازہر شریف سے پڑھ کر آئے تھے۔ یہ دونوں طلبہ سے عربی ہی میں بات چیت کیا کرتے تھے،طلبہ سے کہتے کہ عربی ہی میں بولو۔ کچھ نہیں تو الف لام ہی ہر لفظ پر لگالو۔ کورس کے لیے کتابیں دستیاب نہیں تھیں، ’’المحاورۃ العربیۃ، قصص النبیین، القراء ۃ الراشدۃ‘‘ وغیرہ ابھی تصنیف نہیں ہوئی تھیں، لے دے کے عربی ریڈروں میں مصر کی ’’القراء ۃ الرشیدۃ‘‘تھی۔
مولانا محبوب الرحمن صاحب ’’المحاورۃ العربیۃ‘‘ عملی انداز میں بغیر کتاب کے زبانی یاد کرواتے تھے، باغ میں لے جاتے، ٹوکری میں سیب اور کیلے رکھے ہوتے، کہتے:’’ہٰذا موز، ہٰذا تفاح، ہٰذا حجر، ہٰذا شجر، ہٰذا نہر، سمک یسبح فی الماء‘‘ آپ فرماتے تھے کہ: زبان آنے کے لیے اس سے محبت ہونی چاہیے، ’’حب اللغۃ‘‘ ہی بنیاد ہے، اساتذہ کے پڑھانے کا انداز دلچسپ ہوتا تھا، اور سوالات کے ذریعہ زبان اس طرح سکھائی جاتی تھی کہ آپ کو عربی کتابوں سے محبت سی ہوگئی، لہٰذا اُردو سے زیادہ عربی کتابیں آپ کے مطالعہ میں رہیں۔ مولانا عمران صاحب عربی میں قصے سناتے تھے، حضرت مولانا علی میاں v اس وقت تدریس چھوڑکر تصنیف اور دعوتی کام سے وابستہ ہوچکے تھے، لیکن درجات میں حاضری ضرور دیتے تھے، سوالات بلیک بورڈ پر لکھتے اور جوابات پوچھتے اور جملے بنانے کی مشقیں کیا کرتے تھے، مولانا مصطفی بستوی نحو زبانی پڑھاتے تھے، تجوید کے استاذ مولانا قاری محی الدین صاحب تھے، قاضی عین القضاۃ فرنگی محلی کے شاگرد مولانا اسباط صاحب بھی یہاں تھے، ابوداؤد اور ہدایہ ان کے ذمہ تھی، شیخ الحدیث مولانا محمد اسحاق سندیلوی کا شمار بڑے اساتذہ میں ہوتا تھا، ندوہ ابھی مختصر تھا، آپ کا سبھی اساتذہ کے ساتھ احترام کا تعلق قائم رہا، لیکن استاذِ ادب مولانا عبدالحفیظ بلیاوی مصنفِ ’’مصباح اللغات‘‘ سے آپ کے تعلقات کی نوعیت ہی جداگانہ تھی، آپ ان کی خلوت و جلوت میں شریک رہتے، مولانا بلیاوی علم وادب کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھے، جاہلیت کے اشعار انہیں بے تحاشا ازبر تھے، بیسیوں دواوین حافظے میں محفوظ تھے، آپ فرمایا کرتے تھے کہ: طالب علم کو موضوع سے مناسبت ہوجائے تو جی لگا کر پڑھنے میں پریشانی نہیں ہوتی، کامیاب استاذ وہ ہوتا ہے جو سبق کو آسان کردے، عالمیت میں آپ کے گیارہ اور فضیلت میں صرف دو ساتھی تھے۔
ان دنوں حضرت مولانا v نائب معتمدِ تعلیمات تھے، طلبہ میں آپ کے خطابات ہوا کرتے تھے، جن میں دینی ماحول کے قیام پر آپ کی توجہ زیادہ تر مرکوز رہتی تھی۔ اس زمانے میں نصابِ تعلیم مسلسل تبدیل ہوا کرتا تھا، جس کی وجہ سے کبھی کبھار ایک ہی درجہ میں دودوسال رہنا پڑتا تھا، ندوہ شہر سے دور تھا، شام گئے سناٹا چھا جاتا تھا، کل ملا کر شبلی ہاسٹل کی پہلی منزل، مین بلڈنگ،یہی کل کائنات تھی، طلبہ کی تعداد ڈیڑھ سو کے قریب رہی ہوگی،پچاسی سالہ جشن کے بعد طلبہ کی تعداد بڑھنے لگی، اب عالمیت میں طلبہ کی تعداد سات سو کے قریب ہونے لگی ہے۔
اس زمانے میں کتب خانہ سے استفادہ پر زور دیا جاتا تھا، اساتذہ سے خارج اوقات میں بھی سیکھنا آسان تھا، مولانا بلیاوی سے الگ سے بھی کتابیں پڑھنے کا موقع ملا، آپ سے کافیہ، شافیہ، اوضح المسالک، المفصل اور شرح ابن عقیل حرف بہ حرف پڑھیں،جس کی وجہ سے نحو آپ کا محبوب ترین مضمون بن گیا تھا۔ مولانا بلیاوی کو آپ سے اتنی محبت تھی کہ گھر میں کوئی خاص چیز پکتی تو ضرور یاد کرتے۔ آپ ہی نے ایامِ عرب سے بخوبی واقفیت کے لیے قبائلِ عرب سے واقفیت پر توجہ دلائی تھی، کیونکہ اس کے بغیر حماسہ وغیرہ سمجھنا ممکن نہیں ہوتا، اس کے لیے مولانا واضح صاحب نے قبائل کے انساب کے باقاعدہ چارٹ بنادیئے تھے،ندوے سے آپ کی فراغت ۱۹۵۱ء میں مکمل ہوئی۔ رمضان کی تاریخیں قریب تھیں، آپ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہکی خدمت میں حاضر ہوئے، وہاں سے حضرت مولانا عبد القادر رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ کے یہاں اور یہیں بیعت و سلوک کا تعلق آپ سے قائم ہوا، یہ رمضان آپ نے مسوری میں گزارا۔
شوال میں آپ دہلی روانہ ہوئے، جہاں آپ کے عزیز مولانا ابو بکر حسنی آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ تھے، اس زمانے میں ریڈیو میں زیادہ تر عرب صحافی کام کیا کرتے تھے، جوخبروں کا ترجمہ لکھ کر چلے جاتے تھے، لہٰذا براڈکاسٹرس کی اسامیاں خالی ہوگئی تھیں، اس وقت مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی مرحوم عربی سروس کے سربراہ تھے، وہ ندوے میں پڑھ کر ازہرشریف گئے تھے، ان کے مولانا ابو الکلام آزاد سے بہت زیادہ قریبی روابط تھے، وہ ’’ثقافۃ الہند‘‘کے مدیر بھی تھے، انہوں نے آپ کا انٹرویو لیا، آواز کا ٹیسٹ لیا گیا اور تقرری کی منظوری میں کوئی دیر نہیں لگائی۔ یہی وہ زمانہ تھا جب آپ کو صحافت کے میدان سے وابستہ عرب اہلِ قلم کے ساتھ رہنے اور ان سے عالمِ عرب کے حالات گہرائی سے جاننے، سمجھنے اور جدید عصری زبان پر عبور حاصل کرنے کا موقع مل گیا، ریڈیو میں آپ نے اکیس سال گزارے۔
مولانا نے جب ریڈیو سے وابستگی اختیار کی تھی تو یہ بڑا ہنگامہ خیز دورتھا۔مشرقِ وسطی میں نہر سویز کی جنگ چھڑ رہی تھی اور جنرل جمال عبدالناصر عربوں کے ہیرو بن کراُبھر رہے تھے۔ عرب قومیت کا نعرہ اپنی بلندیوں کو چھورہا تھا۔ سوریہ اور مصر کے ما بین اتحاد قائم ہورہا تھا۔ ہندوستان میں پنڈت جواہر لال نہرو کی وزارتِ عظمیٰ کا بھی یہی زمانہ تھا۔ عرب دنیانہروجی کا بڑا احترام کرتی تھی، اور ان کے مشوروں کو بڑی اہمیت دیتی تھی،جس کی وجہ سے عرب رہنماؤں سے آپ کے بڑے گہرے روابط استوار تھے، جس سے ہندوستان میں عرب رہنماؤں کی آمد تواتر سے ہونے لگی تھی، بڑے تزک و احتشام سے ان کا استقبال ہوتا تھا، اسٹیڈیموں میں ان کی تقاریر رکھی جاتی تھیں، مصر کے جنرل ناصر آئے، شام کے شکری القوتلی آئے، جمعہ کی نماز ساتھ ہی میں پڑھی، مولانا کو مختلف پروگراموں میں ان قائدین سے قریب ہونے اور اسٹیج کے پاس ہی رہنے کا موقع ملتا تھا۔ ریڈیو ٹاک اور انٹرویو لینے کے لیے آپ ہی کو فوقیت دی جاتی تھی، اس دوران سعودی فرماں روا ملک سعود بن عبد العزیز بھی آئے جن کا ریڈیو ٹاک آپ ہی نے رکھا تھا۔ لال قلعہ میں جو سربراہانِ مملکت کا استقبالیہ رکھا جاتا تھا،اس میں آپ کی شرکت لازمی ہوتی تھی۔ مصری قاریوں کی بھی اس زمانے میں بڑی مانگ تھی، یہ حضرات بھی ریڈیو کی دعوت پر آتے اور اپنی تلاوتیں ریکارڈ کرواتے تھے۔
ریڈیو کی ذمہ داریوں سے فارغ ہوکر ہر جمعرات کو حضرت جی مولانا محمد یوسف کاندھلویرحمۃ اللہ علیہ اور حضرت جی مولانا انعام الحسن رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں جانے کا مولانا اہتمام کرتے تھے، حضرت جی مولانا محمد یوسف کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ گجرات اور بھوپال سفر کرنے کا بھی آپ کو موقع ملا۔ دہلی میں حضرت شیخ بھی تشریف لاتے تھے، انہیں دنوں آپ نے ’’فضائلِ صلاۃ‘‘ اور ’’فضائلِ درود‘‘ کا عربی میں ترجمہ مکمل کیا، حضرت شیخ الحدیث v سے دلی لگاؤ تھا اورآپ سے تجدیدِ بیعت کی آپ کی خواہش تھی، لیکن حضرت شیخ جن لوگوں کا حضرت مولانا عبد القادر رائے پوری v سے بیعت کا تعلق ہوتا تھا، ان سے بیعت نہیں لیتے تھے، لیکن آپ سے تربیتی تعلق آخر تک قائم رہا۔
۱۹۷۳ء میں جب حضرت مولانا علی میاں رحمۃ اللہ علیہ سفرِ حجِ بیت اللہ پر روانہ ہوگئے تھے اور وطن میں نہیں تھے، گرمی کا زمانہ تھا، اس دوران ایک مہینے کی چھٹی پر آپ ندوہ آگئے، مولانا محب اللہ لاری ندوی رحمۃ اللہ علیہ مہتمم تھے، آپ نے سوچا کیوں نہ واضح صاحب کی خدمات سے فائدہ اُٹھایا جائے؟! لہٰذا آپ کو ادبِ عربی کے گھنٹے لگادیئے گئے، تعطیل جب ختم ہوگئی اور واپسی کا وقت آیا تو ندوے کی مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ دل پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوئی، یہاں مسجد میں بیٹھ کر ندوے کے فراق میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے، اس وقت آپ کے دل پر فراغت کے وقت سے زیادہ مادرِ علمی سے فراق کا غم تھا، اسی وقت آپ نے فیصلہ کیا کہ اب ریڈیو اسٹیشن واپس نہیں جانا ہے، حضرت شیخ سے مشورہ کیا تو جواب آیا کہ تمہیں تو ندوے کو چھوڑ کر پہلے ہی نہیں جانا چاہیے تھا، ندوہ تمہاری اصل جگہ تھی، استعفاء پر ریڈیو انتظامیہ کو حیرت ہوئی، کیوں کہ وہاں پر بڑی تنخواہ ملتی تھی، دیگر سہولتیں الگ تھیں، پانچ مہینے انکوائری چلی کہ کہیں دوسرا بہتر کام تو نہیں ملا؟ اس طرح آپ نے آنکھوں کو خیرہ کرنے والی ان سہولتوں کو چھوڑ کرندوے کی ملازمت کا آغاز کیا۔ حضرت مولانا علی میاںرحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا سید محمد رابع صاحب نے اس بڑے فیصلے پر اختلاف نہیں کیا، گھروالوں نے بھی آسائشوں اور سہولتوں کی قربانی کو ہنسی خوشی قبول کیا۔
یہی زمانہ تھا جب مولانا سید واضح رشید ندوی صاحبؒ کا نام پہلے پہل اس ناچیز کے کانوں میں پڑاتھا، ہوا یہ تھا کہ ہمارے عزیز مولوی عبدالصمد قاضی نے جو اس وقت ندوے میں عالمیت کے درجے میں پڑھ رہے تھے،تعطیلات میں بھٹکل آئے تو بتایا کہ: ندوے میں ایک ماہر عربی استاذ کی تقرری ہوئی ہے، جنہیں جدید عربی زبان لکھنے اور بولنے پر زبردست عبور حاصل ہے، اس وقت جی بہت للچایا اور اس محرومی کا احساس بھی بہت ستایا، دراصل جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے قیام سے یہاں سے طلبہ عربی چہارم مکمل کرکے ندوے میں داخلہ لیتے تھے،۱۹۶۹ء کی اسٹرائیک کی وجہ سے جو حالات پیدا ہوئے، اس کے معاً بعد جس درجہ کو ندوے جانا تھا، وہ وہاں نہ جا سکاتھا، اس درجے میں سے صرف مولانا ناصر الاسلام ندوی ہی اکیلے طالب علم تھے جو بعد میں یہاں داخلہ لے سکے تھے، ناصر صاحب کے والد محمد باشا شرالی مرحوم‘ حضرت مولاناؒ کے بڑے عقیدت مند تھے، حضرت مولانا v بھی آپ کو بہت چاہتے تھے، گرمیوں میں جب بھٹکل آتے تو کبھی کبھار آپ ہی کے گھر پر ہنگاموں سے دور چند دن سکون سے تصنیف و تالیف میں گزارتے تھے۔ جامعہ میں ندوے کا کورس جاری تھا، طلبہ کو اس ادارے سے اور یہاں کے اساتذہ سے بہت اُنس تھا، وہ یہاں کے حالات سے باخبر رہتے تھے، طلبہ میں اس تعلق کو قائم کرنے میں نئے نئے نامزد ہمارے استاذ مولانا ملا محمد اقبال ندوی صاحب کا بھی بڑا ہاتھ تھا، اسٹرائیک کے بطن سے ایک نئے ندوے نے جنم لیا، مولانا واضح صاحب کی ندوے سے وابستگی بھی اس کی نشأتِ ثانیہ کا آغاز تھی، جس کی برکتیں آج تک محسوس کی جارہی ہیں۔
۱۹۷۴ء میں جامعہ اسلامیہ بھٹکل کی منتقلی جامعہ آباد کے ویرانے میں ہوئی، افتتاح سرپرستِ جامعہ حضرت مولانا علی میاں v کے ہاتھوں ہوا، یہ ہاتھ ایسے بابرکت ثابت ہوئے، دعاؤں نے ایسا اثر دکھایا کہ یہ ’’وادیِ غیر ذی ذرع‘‘ لہلہاتے باغ میں تبدیل ہوگئی، یہی موقع تھا کہ مولانا واضح صاحب پہلی مرتبہ یہاں تشریف لائے تھے، لیکن آپ کی موجودگی کو اس وقت محسوس نہیں کیا گیا، عوامی جلسوں میں بولنے اور خود کو اُجاگر کرنے کی جو عادت ان میں نہیں تھی، اس سے پہلے ۱۹۶۷ء میں جامعہ آباد کے سنگِ بنیاد کے موقع پر آپ کے بھائی سید محمد الحسنی مرحوم بانی مدیر ’’البعث الإسلامي‘‘ بھی تشریف لائے تھے، وہ بھی ایسے ہی خاموش، لیکن تھے قلم کے دھنی، شاید ان کے والد ماجد نے ان دونوں بیٹوں کو اپنی خاموشی ورثے میں دی تھی۔ اس وقت واضح کی زیارت نصیب میں نہیں لکھی تھی۔ لیکن ’’الرائد‘‘ کے ذریعہ آپ کی تحریروں سے دماغ کو روشنی اور دل کو ٹھنڈک مل رہی تھی۔ مولانا جدید عربی صحافت کے لب و لہجے کو جس طرح برتتے تھے، وہ آپ ہی کا خاصہ تھا، اس وقت اس کی دوسری مثال برصغیر میں نہیں ملتی تھی، آپ نے جلیل القدر ماموں جان کے نقشِ قدم پر چل کرعربوں سے جی جان کر محبت کی،اور انہیں اسلام سے وابستہ رہ کر ماضی کی عظمتوں تک لوٹانے کی ہمیشہ فکر کرتے رہے، اور اس کے لیے اپنی بھرپور صلاحتیں صرف کیں۔بحیثیت مربی و معلم ندوے سے وابستگی کے آخری ۴۵ سالوں میں آپ نے اپنی توجہات، فکر، علم و تجربے سے اس چمن کی آبیاری کی، اورآپ کی رہنمائی میں یہاں سے اس دوران ایک ایسی نسل پروان چڑھی جس پر یہ ادارہ بجا طور پر فخر کرسکتا ہے۔
مولانا سے اس ناچیز کا پہلا باقاعدہ رابطہ۱۹۸۰ء میں قائم ہوا، ہوا یوں کہ جب بھٹکل میں تدریسی خدمات انجام دے رہاتھاتو عرب دنیا کے مجلات میں مختلف خطیبوں کے کیسٹوں کے اشتہارات پڑھنے کو ملتے تھے، اس وقت تو اتنی استطاعت نہیں تھی کہ اس سلسلے کو شروع کیا جائے، لیکن دل میں اس کام کے شروع کرنے کی ایک اُمنگ تھی، اللہ تعالیٰ نے جب ذریعۂ معاش دبئی میں رکھ دیاتو یہاں پر قدیم مدرسہ احمدیہ کے ایک کمرے میں قائم لائبریری میں احباب کے ساتھ مل کر اکابرین کی کیسٹوں کی لائبریری کا قیام عمل میں لایا گیا، اس کے لیے یہاں کی ’’وزارۃ الإعلام‘‘ سے باقاعدہ لائسنس بھی حاصل کیا گیا، اور پیغامِ اسلام کیسٹ سیریز کے نام سے اپنی نوعیت کا اولین سلسلہ شروع کیا گیا، اس سلسلے میں اس زمانے کی بڑی شخصیات حضرت حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب رحمۃ اللہ علیہ، اور مفکرِاسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ کو بھی خطوط لکھے گئے، جن میں پہلا ہمت افزا جواب حضرت مولانا سید محمد واضح رشید رحمۃ اللہ علیہ کا تھا، مولانا نے نہ صرف حضرت مولانا کی طرف سے جواب دیا، بلکہ اس وقت جتنے کیسٹ دستیاب تھے وہ سب فراہم کردئیے، اخراجات کے لیے جو معمولی سی رقم بھیجی گئی تھی، اس میں سے سو پچاس روپے شاید بچ گئے تھے، ایک عرصہ تک جب بھی ملاقات ہوتی رہی، تذکرہ کرتے رہے کہ کچھ رقم بچی ہے، وہ لے جائیں، ہمت افزائی اور حساب کتاب میں اس باریکی کی مثالیں اب شاید ہی مل سکیں۔
جب وہ بھٹکل آتے تو سب سے پہلے جامعہ کے کتب خانے میں جاتے اور نئی کتابوں کا پوچھتے، اس کتب خانے سے انہیں بڑا لگاؤ تھا، در اصل۱۹۸۱ء میں جناب محیی الدین منیریv نے ناظم جامعہ بننے کے بعد کتب خانے کی بلڈنگ کی تعمیر پرتوجہ دی اور ۱۹۸۵ء میں جب اس کی عالی شان عمارت تکمیل کو پہنچی تو اس میں کتابوں کی صرف دو ایک الماریاں ہی پڑی تھیں، مرحوم نے مجھے ہدایت کی کہ یہ تمہارا میدان ہے، اس کی ذمہ داری اپنے سر لو، اس وقت ہمارے ذہن میں اللہ نے بات ڈال دی کہ کتابوں کی کثرتِ تعداد کی زیادہ اہمیت نہیں ہے، طلبہ کی ضروریات کے ساتھ ساتھ فرضِ کفایہ ادا کرنے کی کوئی سبیل نکلنی چاہیے اور ایسے مواد کی فراہمی پر توجہ دینی چاہیے جن کی دوسرے کتب خانوں میں موجودگی کا امکان کم ہو، اللہ نے توفیق دی، راہیں کھل گئیں، ایسی کتابوں کی معقول تعداد کے ساتھ ساتھ مجلات: المنار، الزہراء، المسلمون، حضارۃ الإسلام، الرسالۃ وغیرہ انیسویں صدی سے جاری اسلامی و ادبی نشأۃِ ثانیہ میں کردارادا کرنے والے مجلات کی مکمل فائلیں یہاں اکٹھی ہوگئیں، ہیرے کی قیمت جوہری ہی جانے، یہاں آنے والے بزرگان میں حضرت مولانا علی میاںؒ، مولانا واضح رشید صاحبؒ اور مولانا نذر الحفیظ ندوی صاحبؒ کی جیسی دلچپسی اس میں دیکھی، ایسی کوئی اور نظر نہیں آئی، انہیں حضرات کی نظرِ عنایت نے مزید ہمت دلائی۔
مولانا جب بھی بھٹکل آتے تو اس ناچیز کے بارے میں ضرور دریافت کرتے کہ یہاں پر موجود ہیں یا نہیں؟ فون پر بات ہوتی تو کہتے آپ کے یہاں آئے ہیں اورآپ نہیں ہیں، اس اپنائیت اور محبت سے دل کٹ کے رہ جاتا،لیکن کیا کرتے ملازمت کی بندشیں کچھ ایسی ہوتیں کہ بغیر ترتیب کے ان حضرات کی اچانک بھٹکل آمد پر حاضری نہ ہو پاتی، اور دل مسوس کر رہ جاتا۔
میری کمزوری رہی ہے کہ بڑوں کے سامنے دلچسپی دیکھ کر ہی اپنے علمی و ادبی ذخیرہ کا تعارف کرتا ہوں، بھٹکل میں اکابر آتے ہیں تو ایک بھیڑ بھڑکا رہتا ہے، اپنے شہر میں ہم اجنبی ہو جاتے ہیں۔
مولانا سے جب بھی بھٹکل یا لکھنؤ میں ملاقات ہوتی تو کہتے کہ آپ کے کتب خانے میں جوچیزیں ہیں وہ ہمارے یہاں نہیں ہیں، ندوے کا بھی خیال رکھا کیجیے۔ تین سال قبل ہمارے عزیز مولوی عبد المعز منیری نے اپنے نانا کے نام پر ندوے میں دار المطالعہ قائم کیا توبڑے خوش ہوئے، دلی دعائیں دیں۔ مولانا کم گو تھے، لوگ سمجھتے تھے کہ مولانا اُنہیں نہیں جانتے، لیکن ایسا نہیں تھا، وہ یہاں آتے تو جامعہ کی باریک باریک چیزوں پرآپ کی نظر ہوتی، وہ یہاں کی رگ رگ سے واقف تھے، یہاں پر جو لوگ شہرت اور ناموری کی خواہش سے بلند ہوکر خدمات انجام دے رہے ہیں، ان کی انہیں مکمل جانکاری ہوا کرتی تھی، جس کا اندازہ مولانا سے بات چیت پر ہوا کرتا تھا۔
ندوے میں ایک یک جان دو قالب ہونے اور نام و نمود سے بلند ہوکر اپنے رفقاء کی سربلندی کے لیے قربانی دینے والوں کی کئی ایک سنہری مثالیں موجود ہیں، ان میں علامہ سید سلیمان ندویؒ کے ساتھی مولانا مسعود علی ندویؒ، حضرت مولانا علی میاں ندویؒ کے رفیق مولانا معین اللہ ندوی صاحبؒ اور پھر حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی دامت برکاتہم کے بھائی اور رفیق مولانا سید محمد واضح رحمۃ اللہ علیہ کی ہے، ایسی رفاقتوں کی مثالیں تاریخ میں شاذو نادر ہی نظر آئیں۔ یہ یہاں کی تاریخ کا سنہرا ورق ہے۔
حضرت مولانا ؒکی سرپرستی اور مزاج کی ہم آہنگی نے آپ کو عالمِ اسلام کے لیے بڑا دردمند بنادیا تھا، ساتھ ہی ساتھ ریڈیو کی طویل ملازمت نے آپ کو براہِ راست ساری دنیا سے جوڑ دیا تھا۔ رہنمائی کے ساتھ علم و فضل یکجا ہوجائے،اور فکری صلاحیتیں بھی اپنی انتہاء پر پہنچی ہوں نور علی نور، یہ کہنے میں کوئی مبالغہ نہیں کہ اس میدان میں حضرت مولانا کے صحیح جانشین آپ ہی تھے۔ عالمی صحافت پر ایسی نظر رکھنے والے کم ہی ہوں گے۔ لکھنؤ میں رہ کر انڈیپینڈنٹ برطانیہ کے کالم نگار روبرٹ فیسک وغیرہ عالمی تجزیہ نگاروں کے آپ مستقل قاری تھے۔
مولانا نے دنیا کی دستیاب آسائشوں کو ترک کرکے بڑی زاہدانہ زندگی گزاری، یہ صرف آپ پر کہاں موقوف، ان کے دادا حضرت حسن q نے وحدتِ امت کے لیے خلافت قربان کی تھی۔ خاندانِ سادات کی اس شاخ کے بزرگوں نے بھی دنیا اور منصب کو پرِکاہ کے برابر نہ سمجھنے کا نمونہ قائم کیا، اس گئے گزرے دور میں حضرت مولانا علی میاں رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے بھانجوں نے دنیا کو دکھادیا کہ ایسے بھلے لوگوں سے دنیا ابھی خالی نہیں ہوئی۔
آپ نے ندوہ کے معتمد تعلیمات رہ کریہاں کے تعلیمی اور تربیتی معیار کو بلند تر کرنے کے لیے اپنی توانائیاں صرف کیں۔ چالیس سال سے زیادہ عرصہ ’’الرائد‘‘ کی ادارت سے وابستہ رہے اور پینتیس سال سے زیادہ ’’البعث الإسلامي‘‘ کی ادارت سے، ان مجلات کو آپ کی توجہات اور تحریروں سے بڑا وزن ملا، اور دنیا نے ان سے رہنمائی پائی۔ آپ کی رحلت سے برصغیر میں ایک خلا پیدا ہوگیا ہے، وقت گزرتے گزرتے اس کی شدت کا احساس بڑھے گا، آپ نے اس دنیا میں ایک طبعی عمر گزاری، لیکن محسوس ہوتا ہے کہ عمر کے یہ پچاسی سال بہت کم تھے، زندگی کی اتنی ہی مہلت مزید ملتی تو بھی علم و فضل کایہ کنواں خالی نہیں ہوتا،پیاسوں کی سیرابی کا سامان مزید ملتا۔ ہم خوش قسمت تھے جو کردار و اخلاق کی ایسی مثالیں اپنی آنکھوں سے دیکھنے کو ملیں، ایسی مثالیں ہی کانٹوں بھری راہوں میں چلنا آسان کردیتی ہیں، اب اپنے اعمالِ حسنہ کے ساتھ مولانا اپنے خالق کی بارگاہ میں پہنچ چکے ہیں، ہم سب کو بھی دیر سویر وہاں جانا ہے، لیکن وہ بھی کیسے خوش قسمت تھے، جن کی زندگی آنے والوں کے لیے مشعلِ راہ بن گئی، جس کی روشنی میں رہتی دنیا تک رہنمائی ملتی رہے گی۔