بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

جناب جاویدغامدی صاحب کی دین فہمی اور اُن کے خود ساختہ اُصول (ایک نظرمیں)

جناب جاویدغامدی صاحب کی دین فہمی  اور اُن کے خود ساختہ اُصول    (ایک نظرمیں)

’’جناب غامدی صاحب کی دین فہمی اور اُن کے خود ساختہ اُصول‘‘ جامعہ کراچی کے شعبۂ تصنیف کے ڈائریکٹر سید خالد جامعی صاحب نے جمع وترتیب دیئے ہیں، جس میں غامدی صاحب کی مختلف تحریرات وتقریرات کے ذریعہ ان کی فکری بے راہ روی کو خود اُن کے پیش کردہ شواہد وقواعد سے شریعت وحقیقت سے جدا بتایا ہے۔ قارئین کو یہ فکر وتدبر کا موقع دیا گیا ہے کہ جس انسان کی فکر اس قدر غیر متوازن ہو کہ اُسے خود اپنے کئے اور کہے پر گرفت نہ ہو ، اُس کی دین فہمی اور شریعت بیانی کس پائے کی ہوگی؟ اور اُس کے مخزنِ فکر کی طبی حالت کیا ہوسکتی ہے؟ غور کا مقام ہے۔ موصوف صاحبِ قلم کی یہ بنیادی فکر، غامدی صاحب کے ذکری اضطراب کی زَد میں آنے والے مسلمان بھائیوں کے لئے لمحۂ فکریہ ہے۔ اس دعوتِ فکر کو افادۂ عام وخاص کے لئے پیش کرنا مفید معلوم ہوا، اس لئے نذرِ قارئین کیا جاتا ہے۔      (ادارہ)

۱:…کسی فکر کی درستگی کا پیمانہ، اصول ، منہاج، فرقان ،دینی فکر‘ امت کی علمی روایت سے مطابقت رکھتی ہو اور امت کے اجتماعی تعامل کے مطابق ہو۔ (پرویز صاحب کا فہم قرآن، غامدی صاحب کی تقریر ،ص: ۴۸۔دارالتذکیر ۲۰۰۴ئ) ۲:…سنت قرآن کے بعد نہیں، بلکہ قرآن سے مقدم ہے۔ (میز ان ص: ۵۲، طبع دوم ۲۰۰۲ئ) ۔ ۳:…قرآن کی دعوت جن مقدمات سے شروع ہوتی ہے ۱:… دین فطرت کے حقائق۔ ۲:… سنت ابراہیمی۔۳:…اورقدیم صحائف ہیں۔( میزان ص: ۴۸ طبع دوم ۲۰۰۲ئ)( یعنی چوتھے نمبر پر قرآن آئے گااور فطرتِ انسانی ماخذ شریعت ہے) ۔ ۴:…خیر و شر کی کسوٹی انسان:دین میں معروف و منکر کا تعین فطرتِ انسانی کرتی ہے۔( میزان ص:۴۸ ،  ۴۹ ،طبع دوم ۲۰۰۲ ئ)یعنی انسان شارع ہے۔ ۵:…نیا اصول: نبیؐ کی رحلت کے بعد کسی شخص کو کافر قرار نہیں دیا جاسکتا۔( اشراق دسمبر ۲۰۰۰ء ص: ۵۴۔۵۵ بحوالہ غامدی صاحب کا مذہب کیا ہے ؟ رفیق اختر) ۶:…شارع فرد خود ہے ،زکوٰۃ کا نصاب منصوص اور مقرر نہیں ہے۔ (قانونِ عبادات، ص: ۱۱۹، طبع اپریل ۲۰۰۵ئ)  ۷:… واحد ماخذ:’’دین کا تنہا ماخذ اس زمین پر اب محمدؐ کی ذات والا صفات ہے‘‘۔ (میزان ،ص: ۹ ،طبع دوم ۲۰۰۲ئ) ۸ :…دین کے ماخذ دو ہیں:۱:…قرآن مجید۔۲:…سنت ۔(میزان ، ص: ۹، طبع دوم ۲۰۰۲ئ) ۹:…فطرت شارع ہے۔ حلال و حرام جانور کا تعین فطرت انسانی کرتی ہے، اسی لئے شیر، چیتے، ہاتھی، کوے ،گدھ، عقاب، سا نپ، بچھو اور خود انسان کوئی کھانے کی چیز نہیں ہے۔ وہ جانتا ہے کہ گھوڑے، گدھے، دستر خوان کی لذت کے لئے نہیں، یہ سواری کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔(میزان ، ص: ۳۷ محولہ بالا)۔ (حضور ا اونٹ کیوں کھاتے تھے؟ یہ تو سواری کا اصل جانور ہے؟؟؟)نشہ آور چیزوں کی غلاظت کو سمجھنے میں بھی اس کی عقل عام طور پر صحیح نتیجے پر پہنچتی ہے، چنانچہ خدا کی شریعت نے اس معاملے میں انسان کو اصلاً اس کی فطرت ہی کی رہنمائی پر چھوڑ دیا ہے، انسان کی فطرت کبھی کبھی مسخ ہو جاتی ہے، لیکن ان کی ایک بڑی تعداد اس معاملے میں بالعموم غلطی نہیں کرتی۔(  میزان، ص:۳۱۰) ۱۰:…عقل و فطرت کا مل رہنما نہیں :’’کچھ جانوروں کی حلت و حرمت کا فیصلہ تنہا عقل و فطرت کی رہنمائی میں انسان کے لئے ممکن نہیں،لہٰذا ان کی ممانعت شریعت نے کی ہے‘‘۔ (میزان ،ص: ۳۷ ،طبع دوم ۲۰۰۲ئ) ۱۱:… تغیر دوامی :’’اصول دین کے ماخذات مستقل نہیں ہوتے، متغیر ہوتے ہیں۔ ان میں اصلاح ، کمی بیشی، ترمیم و تنسیخ کا عمل جاری رہتا ہے، رہ سکتا ہے، ماخذات کے لئے معین اصطلاحات لفظاً ظاہراً مستقل ہوتی ہیں،جیسے قرآن و سنت، لیکن ان کے مطالب و مفاہیم بدل سکتے ہیں اور بدلتے رہتے ہیں ‘‘۔(اس اصول کے لئے جناب غامدی صاحب کی درج ذیل کتب کا تقابلی مطالعہ کیجئے: میزان ،جلد اول ۱۹۸۵ء ۔میزان، طبع دوم، اپریل ۲۰۰۲ئ۔ اصول و مبادی ۲۰۰۰ئ۔ میزان ۲۰۰۸ء ،۲۰۰۹ئ، مقامات ۲۰۰۶ء ۔ مقامات ۲۰۰۸ء ۔ قانونِ دعوت ۱۹۹۶ئ۔ پرویز صاحب کا فہم قرآن، خطاب جاوید غامدی، ۲۰۰۴ء دارالتذکیر ، لاہور۔ اس کے سوا بقیہ کتب غامدی صاحب نے خود شائع کی ہیں۔) ۱۲:…اصل الاصول ارتقاء : غامدی صاحب کے یہاں ماخذات دین میں تغیر و تبدل کا اصول فہم کاارتقاء ہے۔ جب بھی کوئی خیر، حق واضح ہوجائے گا ،اس سے رجوع کرلیا جائے گا۔ اس اصول کے تحت سنت میں پہلے داڑھی شامل تھی، پھر وہ نکل گئی۔ سنتیں ۱۹۹۷ء میں ۲۷ تھیں۔(اسلام کیا ہے؟) دانش سرا کے صدر ڈاکٹر فاروق کی کتاب اشاعت ۱۹۹۹ء میں سنتوں کی تعداد ۳۹ ہے۔ اصول و مبادی مقدمہ میزان تالیف غامدی صاحب سن ۲۰۰۰ء میں سنتوں کی تعداد چالیس ہے۔ میزان طبع دوم اپریل ۲۰۰۲ء میں سنتوں کی تعداد صرف ۲۷ ہے۔ جون ۱۹۹۱ء کے اشراق ص: ۳۲ کے مطابق داڑھی بھی سنت تھی۔ ۱۹۹۷ء ، ۱۹۹۹، ۲۰۰۰ء ، ۲۰۰۲ء اور ۲۰۰۸ء میں داڑھی سنت سے نکل گئی۔ مئی ۱۹۹۸ اشراق ص: ۳۵ پر سنتوں کی تعداد چالیس تھی۔ فروری ۲۰۰۵ء میں اصول و مبادی طبع ہوئی تو اس میں سنتوں کی تعدادصرف ۱۸ رہ گئی، پھر ۲۶ رہ گئی،سنتوں کی تعداد نہایت تیزی سے گھٹتی بڑھتی رہتی ہے، اس کی کوئی دلیل بھی ہماری نظر سے نہیں گزری ۔ ’’میزان‘‘ ،’’ اصول و مبادی‘‘،’’ سنت کیا ہے ؟‘‘جیسے تمام کتابچوں اور اشاعتوں میں ۱۹۹۷ء سے لے کر ۲۰۰۸ء تک نومولود کے کان میں اذان کو سنت شمار کیا گیا تھا، لیکن جب عامر گزدر صاحب نے مؤطا امام مالکؒ سے اس کی کراہت کی دلیل پیش کی اور معز امجد اور خالد ظہیر صاحب نے بھی اس دلیل سے اتفاق کیا تو غامدی صاحب نے میزان ۲۰۰۹ء کی اشاعت میں اس سنت کو بھی خارج کردیا، لیکن  ارتقاء کے اصول کا ماخذ معلوم نہیں ہوسکا۔  غامدی صاحب کو اس سلسلے میں مدیر ساحل نے ان کے فلسفۂ ارتقاء پرایک خط لکھا جو ساحل میں شائع ہوا، مگر انہوں نے اس کا جواب نہیں دیا، لیکن ارتقاء کا اصول ان کے یہاں اصل الاصول ہے،مثلاً حدود و تعزیرات طبع اول، اگست ۱۹۹۵ء میں ص: ۱۱ پر غامدی صاحب نے خدا اور اس کے پیغمبروں کے بارے میں سب و شتم کو محاربہ اور فساد فی الارض کے زمرے میں شامل کیا تھا اور مجرموں کو واجب القتل قرار دیا تھا، لیکن میزان طبع دوم ۲۰۰۲ء میں محاربہ اور فساد فی الارض کے جرائم کی فہرست میں سے غامدی صاحب نے شتم خدا اور رسول کو فہرست سے ہی خارج کردیا ہے۔ میزان ۲۰۰۸ء میں بھی یہ جرائم جدید فہرست سے خارج ہی رہے، مگر اشراق مئی جون ۲۰۱۱ء میں دوبارہ توہین رسالت کی سزائے قتل کو محاربہ اور فساد فی الارض کے زمرے میں شامل کردیا، مگر توہین خدا کے بارے میں حضرت والا نے کوئی رائے نہیں دی۔  مسجد میں حاکم کا خطبہ سنت تھا،نبیؐ نے جو سنت ان کے بارے میں (ہماری مسجدیں) قائم کی، وہ یہ تھی کہ نماز جمعہ کا خطاب اور اس کی امامت امیر ریاست اور اس کے عمال کریں گے۔(ص:۱۸۷، مقامات، طبع اول ۲۰۰۸ئ) اس سنت کا ذکر میزان ۲۰۰۸ء ، ۲۰۰۹ء میں سنتوں کی فہرست میں نہیں ہے،ارتقاء ہوگیا یا رجوع ۔وہ لکھتے ہیں کہ قرآن و سنت کی رو سے ان(غیر مسلم شہری) کی دو واضح اقسام ہیں: ایک ذمی، دوسرے معاہد۔(مقامات ،ص: ۱۳۳ ،۲۰۰۶ئ) بعد میں سنتوں کی فہرست سے ذمی معاہد کا ذکر غائب ہے۔ اسی طرح بیعت، دعوت، ہجرت، حدود و تعزیرات بھی پہلے قرآن و سنت کے دائرے میں داخل تھے، بعد میں سنت کے دائرے سے خارج ہوگئے۔ ۱۳:… پہلا ماخذ:’’دین کا سب سے پہلا ماخذ قرآن مجید ہے، قرآن مجید کے بعد دوسرا ماخذ حدیث و سنت ہے۔ دین میں یہی دو چیزیں اصل حجت ہیں‘‘۔(مقامات، طبع اول ۲۰۰۸ئ، ص: ۱۷۸، المورد لاہور) ۱۴:…قرآن کی ایک آیت کا صرف ایک ہی مطلب ہوتا ہے، ایک سے زیادہ مطالب ہوں تو قرآن چیستان بن جائے گا۔(برہان ۱۹۹۲ئ، برہان ۲۰۰۶ئ، میں طاہر القادری صاحب پر تنقید کا مطالعہ کیجئے، جہاں اس دلیل کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے)۔ غامدی صاحب ۲۰۰۶ء تک اقدامی جہاد کے قائل تھے، اس کی دلیل قرآن سے لاتے تھے۔(دین حق، ص: ۲۰ ستمبر ۲۰۰۶ء المورد ، لاہور) بعد میں اقدامی جہادقرآن کی جدید تشریح کے باعث ختم ہوگیا۔  المورد کے زیر اہتمام ۱۹۹۷ء میں شائع شدہ کتابچے قانون معیشت میں ص: ۵۶ پر غامدی صاحب کا موقف تھا کہ’’ اللہ کی طرف سے وارثوں کے حصے متعین ہونے کے بعد کسی وارث کے لئے وصیت اب جائز نہیں، ورثاء کے بارے میں مبنی بر عدل قانون وہی ہے جو اس نے خود بیان فرمایا(یعنی غیر وارث کے لئے وصیت کی جاسکتی ہے، لیکن اس سے متعین وارث پر اثر نہیں پڑے گا) یہاں علتِ حکم منفعت ہے، اگر وارث و مورث میں سے کوئی دین بدل لے اور وارث اپنے مورث کو قتل کر ڈالے تو منفعت کا قاعدہ لا گو نہ ہوگا۔ (لیکن قرآن و حدیث و سنت سے اس استدلال کے بعد اب مقامات ۲۰۰۸ء میں غامدی صاحب کا موقف یہ ہے کہ مورث کسی کے حق میں بھی پوری جائیداد کی وصیت کرسکتا ہے)قرآن نے وصیت کے لئے کوئی حد مقرر نہیں کی، جائیداد وصیت پوری کرنے کے بعد تقسیم کی جائے گی، لہٰذا وصیت کی حد پر قرآن کی آیت کی روشنی میںپابندی عائد نہیں کی جاسکتی۔(ص: ۱۴۱ مقامات، ۲۰۰۸ئ) حتی کہ وارثوں کے حق میں بھی ان کی ضرورت ، خدمت یا اسی نوعیت کی کوئی دوسری چیز تقاضا کرے تو وصیت یقیناً ہوسکتی ہے، مثلاً بچوں میں سے کسی نے والدین کی زیادہ خدمت کی، کوئی بچہ اپنے پیر پر کھڑا نہیں ہے۔ وصیت وارثوں کے حق میں بھی ہوسکتی ہے، اس میں کوئی چیز مانع نہیں۔(ص: ۱۴۲، مقامات ۲۰۰۸ئ) پہلے قرآن کی ہی آیت سے وارث کے حق میں وصیت کا انکار کیا گیا اور سنت اور اجماع کی روشنی میں وصیت کی تحدید کی گئی، اب اسی آیت سے ورائے حدود وصیت کا حکم ثابت کردیا گیا کہ کل جائیداد کسی کو بھی دے دو- ورثاء کو محروم کردو-۔  احکاماتِ حجاب کے سلسلے میں بھی قرآن کی آیتِ حجاب کے معانی بدلتے رہے ہیں۔( تفصیلات کے لئے میزان حصہ اول ۱۹۸۵ء ،اشراق کی فائلیں، تقاریر، ڈاکٹر فاروق خان کی کتابیں، اسلام کیا ہے؟ وغیرہ پڑھ لیجئے)  ایک ہی آیت سے مختلف احکامات اخذ کئے جارہے ہیں اور امام اصلاحی کی تشریحات کو بھی قبول نہیںکیا جارہا ہے۔۱۹۹۲ء میں وہ حجاب کے قائل تھے، لکھتے ہیں:چنانچہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ان میں وہ قرآن مجید کی صریح ہدایت کے مطابق سر کی اوڑھنی سے اپنا سینہ ڈھانپ کر اور زیب و زینت کی نمائش کئے بغیر کم ہی سامنے آتی ہے۔( برہان ص: ۹۳)  ۱۹۹۲ء میں سر کی اوڑھنی اور اس سے سینہ ڈھانپنا قرآن سے ثابت تھا، ۲۰۰۸ء میںمقامات کی نئی اشاعت میں اوڑھنی قرآن سے ہی غیر ثابت ہوگئی اور صرف اسلامی روایت کی شکل رہ گئی۔ جب غامدی صاحب اپنے ہی اصول کے برعکس قرآن کی ایک ہی آیت سے مختلف مفاہیم نکال رہے ہیں تو قرآن چیستان بن گیا ،چیستان ماخذ دین کیسے ہوسکتا ہے؟ ۔  ۱۹۸۵ء میں میزان حصہ اول میں رضاعت کے مسئلے پر بحث کرتے ہوئے خواتین کے پردے پر قرآن کی آیت سے ثابت کرتے ہیںکہ سورۂ نور میں پردے کے احکامات عام عورتوں پر گھر میں نافذ العمل ہوں گے، بعد میں ان آیات کا مفہوم ہی بدل گیا۔۱۹۷۵ء سے لے کر ۲۰۰۲ء تک غامدی صاحب کا موقف تھا کہ قرآن کریم سے خواتین کے چہرے کا پردہ گھر اور محفوظ مقامات میں نہیں، بلکہ گلی، بازار اور غیر محفوظ مقامات پر ہے۔ ان کی تقاریر سن لی جائیں اور ان کے ادارے دانش سرا ، دارالاشراق سے شائع ہونے والی کتاب ’’اسلام کیا ہے؟‘‘ کی ۱۹۹۷ء سے ۲۰۰۰ء تک کی اشاعتیں پڑھ لیں، سب میں یہی لکھا ہے۔ ’’میزان‘‘ اسی کتاب کی آخری شکل ہے۔’’ اسلام کیا ہے؟‘‘ کی عبارت، دلائل، الفاظ تک میزان میں حرف بہ حرف موجو دہیں ۔ سورۂ نحل کی آیت: ۴۴ سے غامدی صاحب میزان ۲۰۰۸ء ،میزان ۲۰۰۲ء ، وغیرہ میں سنت ابراہیمی کا وجوب ثابت کررہے ہیں، جو کبھی ۱۷؍ کبھی ۲۷؍ کبھی ۴۰؍ کبھی ۱۹؍ کبھی ۲۶؍ہیں، لیکن برہان ۲۰۰۶ء میں قرآن کی اسی آیت سے وہ ثابت کرتے ہیں کہ رسول کی سنت قرآن کی تبیین کرسکتی ہے، گویا تبیین پیغمبر کی ذمہ داری ہے۔ سنت ہر اس معاملے میں جس میں قرآن مجید خاموش ہے، بجائے خود ماخذ قانون کی حیثیت رکھتی ہے۔(ص: ۳۸ تا ۴۱، برہان ۲۰۰۶ئ)بعد میں اسی آیت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ سنت‘ دین ابراہیمی کی روایت ہے، سنت سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا ہرگز اضافہ نہیں ہوتا۔(ص: ۱۱ ، میزان ۲۰۰۲ئ) سنت صرف رسوم و آداب کا نام ہے، سنت قرآن سے مقدم ہے، سنت دین ابراہیمی کی روایت کے طور پر عرب میں رائج تھی، چند چیزوں کے سوا آپ نے ان میں کوئی اضافہ نہیں کیا، یہ تواتر عملی سے امت کو منتقل ہوئی ہے، ان کا ماخذ اجماع امت ہے۔ (رسوم و آداب ، ص: ۳۲۱، میزان ۲۰۰۲ئ)  سورۂ نحل کی ایک آیت سے غامدی صاحب نے دو مختلف مطالب اخذ کرلئے تو کیا قرآن ماخذ رہ گیا؟مقامات ۲۰۰۶ء اور ۲۰۰۸ء میں حکمرانوں کا عام آدمی کا معیار زندگی رکھنا سنت تھا، قانون معیشت ۱۹۹۷ء میں یہ صرف نمونہ رہ گیا،سنت کے دائرے سے خارج ہوگیا ۔(ص: ۴۵ ، قانون معیشت ۱۹۹۷ء المورد، لاہور) ۲۰۰۶ء کے برہان میں وہ لکھتے ہیں: ’’قرآن مجید کوئی چیستان نہیں ہے کہ اس کی ہر آیت دو یا تین متضاد مفاہیم کی حامل قرار دی جائے‘‘۔(ص: ۲۵۵، ارباب منہاج القرآن کی خدمت میں) غامدی صاحب کے اپنے اصول کی زد میں خود غامدی صاحب بھی آجاتے ہیں۔ غامدی صاحب نے آیت وصیت ومیراث کی تشریح میں لکھا تھا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے وصیت میں ضرر رسانی کو روکنے کے لئے اصل وارثوں کے حصے خود مقرر فرمادیئے ہیں۔ اُس کا بندہ جانتے بوجھتے کسی حق دار کو محروم کرتا ہے تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ اس کے ہر فعل سے باخبر ہے۔(میزان حصہ اول ۱۹۸۵ء ، ص: ۵۷،۵۸) لیکن مقامات ۲۰۰۸ء میں حضرت والا لکھتے ہیں کہ: مورث کسی کو بھی پوری میراث کی وصیت کرسکتا ہے اور متعین وارثوں کے حق میں بھی یا ان کے متعین حصے کے سوا وصیت لکھ سکتا ہے۔( ارتقاء ہوگیا شاید) پردہ کے بارے میں لکھتے ہیں:’’ رہی حدیث سالم تو اس کی تاویل میرے نزدیک رفع حرج کے اصول پر کی جانی چاہئے‘‘۔(سالم کی گھر میں آمد پر خواتین کو پردے میں مشکلات پیش آئیں اور سورۂ نور کے احکامات حجاب پر عمل کا مسئلہ پیدا ہوا تو غامدی صاحب اس کی تشریح کررہے ہیں) کسی گھرانے کی خواتین اگر حجاب کے ان حدود کی پابندی کرنا چاہیں جو سورۂ نور میں بیان کئے گئے ہیں، رفع حرج کے اصول کی بناء پر اسے عام قانون سے مستثنیٰ کیا جائے گا، تاہم یہ بات ملحوظ رہے کہ اس کی حیثیت ایک رخصت کی ہوگی، اصل قانون وہی رہے گا جو اوپر بیان کیا گیا ہے۔(ص: ۷۵ ، میزان ۱۹۸۵ئ)  ۱۹۸۵ء سے ۱۹۹۷ء تک غامدی صاحب آیاتِ حجاب، پردہ سے متعلق موضوعات پر اجماعِ امت، تعاملِ امت کے قائل تھے، اب ان آیات کی نئی تفسیر پیش کرتے ہیں۔ آیت کے دونوں مفہوم بالکل مختلف ہیں۔ خود وہ فرماتے ہیں کہ قرآن کی ایک آیت کا ایک ہی مطلب ہوسکتا ہے، مگر خود کبھی دو، کبھی چار، کبھی سات مطالب بتاتے ہیں۔  طاہر القادری صاحب نے جب قرآن کی ایک آیت کے کئی مطالب بتائے تو غامدی صاحب نے لکھا’’آدمی کی عربی خام ہو اور اس کا ادبی ذوق پست ہو یا وہ سیاق و سباق کی رعایت ملحوظ رکھے بغیر قرآن کی ہر آیت کو الگ الگ کرکے اس کا مدعا سمجھنے کی کوشش کرے تو یہ البتہ ممکن ہے،لیکن عربیت کے کسی جید عالم اور قرآن کے کسی صاحب ذوق شارح سے یہ چیز کبھی صادر نہیں ہوسکتی۔ یہ کوئی علم نہیں کہ آپ کسی آیت کے دو یا تین یا اس سے زیادہ معنی بیان کردیں، بلکہ علم در حقیقت یہ ہے کہ آپ تمام احتمالات کی نفی کرکے زبان و بیان کے قابل اعتماد دلائل کے ساتھ یہ ثابت کردیں کہ آیت جس سیاق و سباق میں آئی ہے، اس میں اس کا یہی ایک مفہوم ممکن ہے، تاکہ اللہ کی یہ کتاب فی الواقع، ایک میزان کی حیثیت سے اس اُمت کے سامنے آئے اور اس طرح تشت و افتراق کے بجائے یہ اس امت کے لئے فصلِ نزاعات اور وحدتِ فکر و عمل کا ذریعہ بنے‘‘۔(برہان ،۱۹۹۲، ص: ۴۵،۴۶)  غامدی صاحب کے ان اصولوں کی روشنی میں جو طاہر القادری صاحب کے لئے بیان ہوئے، اگر ہم محترم غامدی صاحب کوپرکھیں تو کیا ہم نہایت ادب سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ نہ عربیت کے جید عالم ہیں، نہ قرآن کے صاحب ذوق شارح۔ قرآن کی آیت کے کئی مطالب بتانے سے امت تشت و افتراق میں مبتلا ہوگی، قرآن وحدت فکر و عمل کا ذریعہ نہ بن سکے گا؟۔ ہم اس گستاخی پر معذرت خواہ ہیں۔  ۱۵:… کلامِ عرب قرآن کے فہم کا واحد دروازہ ہے:’’قرآن کی ہدایت کے غوامض اور اسرار جو بھی ہوں، ان کا دروازہ بہر حال زبان ہی ہے، یعنی اس کے شہر ستانِ معانی میں داخل ہونے کا صرف ایک دروازہ ہے، وہ زبان ہے۔ اس کے اصول وقواعد وہ ایک حاکم کی حیثیت سے موجود رہیں گے۔ اگر کوئی شخص اس دروازے کے سوا کسی اور دروازے سے داخل ہونا چاہے گا تو ظاہر ہے وہ کہیں اور چلا جائے گا، اس پر کتاب کا مدعا کبھی واضح نہ ہو گا، زبان کے سوا کوئی اور دروازہ نہیں ہے۔ (ص: ۲۵ پرویز صاحب کا فہم قرآن، خطاب غامدی، مقدمہ خورشید ندیم ۲۰۰۴ئ، دارالتذکیر، لاہور)غامدی صاحب کے اس اصول کی مزید تفصیلات کے لئے میزان کا’’ باب اصول و مبادی‘‘ کا مطالعہ کیجئے ،یعنی نص کا تعین، فہم، ادراک صرف کلام عرب اور شعر جاہلیت پر منحصر ہوگیا۔ ۱۶:… اجماع امت (جو انتقال علم کا ذریعہ ہے )’’ سنت صحابہؓ کے اجماع اور عملی تواتر سے ملی ہے اور قرآن ہی کی طرح ہر دور میں امت کے اجماع سے ثابت قرار پائی ہے‘‘۔(ص: ۱۰ میزان طبع دوم ۲۰۰۲ئ) امت کا اجماع جن مسائل پر ہے، غامدی صاحب ان کو حجت نہیں مانتے، آخر کیوں؟  ۱۷:… عقل:’’ سارا دین عقل پر مبنی ہے، ہماری عقل بہت سے دینی حقائق خود دریافت نہیں کرسکتی، دین عقل سے ماوراء کوئی ہدایت عقل کو نہیں دیتا‘‘۔(ص: ۱۶۵ تا ۱۶۷، مقامات سن ۲۰۰۸ئ)ایمان بالغیب کا مطلب ہے کہ وہ حقائق جو آنکھوں سے نہیں دیکھے جاسکتے، انہیں محض عقلی دلائل کی بنا پر مان لینا۔ (مقامات ص: ۱۲۵، سن ۲۰۰۸ئ) غامدی صاحب کہتے ہیں کہ عقل و دانش پہلی وحی ہے ۔ ۱۸:…صحابہؓ کا اجماع، صحابہؓ کا عملی اور قولی تواتر:’’قرآن صحابہؓ کے قولی تواتر سے ملا ہے، سنت صحابہؓ کے اجماع اور عملی تواتر سے ملی ہے‘‘۔(ص: ۱۰ میزان طبع ۲۰۰۲ئ) ۱۹:…ایک اہم اصول رجوع کا منفرد طریقہ:(تاریخ کا صرف انکار نہیں، تاریخ کو ختم کرنے، مٹانے کی کوشش)غامدی صاحب کی کتاب ’’درس قرآن‘‘ مقرر جاوید احمد غامدی مجلد، صفحات:۸۰، مولود احمد شاہد صاحب نے المورد کے ذیلی ادارے میکرو وژن کی جانب سے شائع کی، مگر اچانک کتاب بازار سے اٹھالی گئی، کیوں؟ مقامات ۲۰۰۶ء کی اشاعت کے ساتھ بھی یہی ہوا، اس کتاب کے تین حصے تھے، عربی اور انگریزی۔ ساحل نے عربی حصے کو اغلاط کا دفتراور انگریزی حصے کی شاعری کو بڑے شعراء کی شاعری کا سرقہ ثابت کیا تو کتاب غائب کرادی گئی۔ یہ بھی غامدی صاحب کا ایک اصول ہے ۔(یہ ارتقاء تھا یا رجوع یا تاریخ کا انکار؟) اس کتاب کو بازار سے غائب کرانے کے بعد اسی نام سے نئی کتاب مقامات کے نام سے طبع کی گئی، جس سے عربی انگریزی حصے نکال دئیے گئے اور اس پر لکھا گیا طبع اول سن: ۲۰۰۸ئ۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ۲۰۰۸ء کے مقامات میں غامدی صاحب کا۲۰۰۷ء کا ایک مضمون ص: ۲۸ پر درج ہے، جس میں لکھا ہے کہ ’’برہان، مقامات اور خیال و خامہ شائع ہوچکی ہیں،جبکہ صفحہ: ۲۹ پر اس مضمون کی تاریخ اشاعت ۲۰۰۷ء درج ہے، یہ اشراق میں ۲۰۰۷ء میں شائع ہوچکا ہے، جبکہ جس کتاب ’’مقامات‘‘ میں یہ مضمون درج ہے، اس پر لکھا ہے طبع اول ۲۰۰۸ئ۔ اس سے غامدی صاحب کا انوکھا اصول سامنے آتا ہے یعنی التباس پیدا کردینا ۔ ۲۰:…ایک اہم اصول اپنی تاریخ کا خود انکار:غامدی صاحب کی کتاب ’’قانونِ معیشت‘‘ ۱۹۹۷ء میں المورد نے شائع کی تو اس کے آخر میں ان کی کتابوں کی فہرست میں الاشراق (عربی) الملک الناس (زیر طبع)کا اشتہار دیا گیا، اس سے پہلے غامدی صاحب کی کتاب’’ قانونِ دعوت‘‘ جو ۱۹۹۶ء  میں المورد نے شائع کی، اس کے آخر میں درج تصانیف میں الاشراق [عربی] الفاتحہ [زیر طبع] کا اشتہار دیا گیا تھا، لیکن مقامات ۲۰۰۸ء کے ص: ۲۷، ۲۸ پر غامدی صاحب نے اپنی تصانیف زیر طبع، زیر تسوید، مجوزہ کی جو فہرست اپنے قلم سے تحریر کی ہے، اس میں عربی تفسیر ’’الاشراق‘‘ کا ذکر سرے سے غائب ہے۔ یہ رویہ بھی فکر غامدی کا ایک اہم اصول ہے۔ اپنی ہی تاریخ، تصنیف و تحریر کا انکارواخراج، ان کے فکر کے محاکمے میں یہ اصول کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ جب عربی زبان میں کتاب لکھ لی گئی ،۱۹۹۶ء میں طباعت کے لئے تیار تھی تو ۲۰۰۸ء میں کتابوں کی فہرست سے اس کو کیوں نکال دیا گیا؟۔ ۲۱:… اپنے ارتقاء کا انکاریا اخفاء :میزان حصہ اول کی پہلی اشاعت ۱۹۸۵ء میں، دوسری اشاعت اپریل ۲۰۰۲ء میںاور تیسری اشاعت ۲۰۰۸ء میں آئی، لیکن کسی پر یہ درج نہیںہے کہ یہ اضافہ شدہ، ترمیم شدہ، تبدیل شدہ، نظر ثانی شدہ اشاعت ہے۔ درمیان میں میزان کے ابواب، اصول و مبادی، قانون معیشت، حدود و تعزیرات ، قانون سیاست، کے نام سے ۱۹۹۳ئ، سے لے کر ۲۰۰۵ء تک وقتاً فوقتاً شائع ہورہے ہیں اور ہر کتابچے میں موقف پارۂ سیماب کی طرح بدلتا رہا، لیکن کسی اشاعت پر نظر ثانی شدہ اشاعت درج نہیں کیا گیا، اس رویے کی توجیہ ہم نہیں کرسکتے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ رویہ آخر کیوں؟حالانکہ ہر اشاعت پہلی سے یکسر مختلف ہے، ان کی آراء بدلتی رہتی ہیں، اصولاً اس کا اظہار کتاب پر کرنا اخلاقی تقاضا ہے۔ اس رویے کو ہم غامدی صاحب کے ایک اصول کے طورپر قبول کرتے ہیں، جس سے ان کے علمی رویے کا اندازہ ہوتا ہے۔ ۲۲:…تاریخ کا انکار اور صرف اپنے منبع علم ،فہمِ نفس پر کامل اعتبار و اعتماد۔(یہ غامدی صاحب کا اہم ترین اصول ہے)۔ ۲۳:…قدیم صحف:’’قرآن کے اسالیب و اشارات (یہود و نصاریٰ کی تاریخ وغیرہ وغیرہ) سمجھنے کے لئے قدیم صحیفے ہی اصل ماخذ ہوں گے‘‘۔(میزان، ص: ۵۲ ، طبع دوم ۲۰۰۲ئ) یعنی قرآن صرف قرآن یا صاحب قرآن یا صحابہؓ کرام کے ذریعے نہیں سمجھا جاسکتا ،اس کا درست فہم محرف صحائف پر ہی منحصر ہے اور ان منسوخ صحائف سے ملنے والا فہم ہی معتبر ہے، اس کے سوا اعتبار کا کوئی ذریعہ نہیں۔ کیا صحابہؓ نے فہم قرآن اس طرح حاصل کیا؟ اس ذریعے سے مستشرقین کو جو فہم حاصل ہوگا، کیا وہ تام ہوگا؟ جبکہ غامدی صاحب کا اصول جو پرویز صاحب پر نقد کرتے ہوئے انہوں نے وضع کیا، یہ تھا کہ پرویز کی تعبیر نہ علمی ہے، نہ امت کے اجتماعی تعامل کے مطابق ہے۔ (پرویز صاحب کا فہم قرآن ص: ۴۸ دارالتذکیر ۲۰۰۴ئ) ۲۴:…تاریخ:غامدی صاحب کی سنت ابراہیمی کا علم تواتر عملی سے منتقل ہوتا ہے، لیکن بدعات بھی اس ذریعے یعنی تواتر عملی سے ملتی ہیں، پھر سنت و بدعت میں فرق کیسے کیا جائے گا؟ اس کا جواب غامدی صاحب کے پاس ہے- تاریخ- ’’بے شک بہت سی بدعات رائج ہوگئیں، بے عملی بڑھ گئی، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کی ساری تاریخ کا واضح ریکارڈموجود ہے۔ کیا اصل ہے ؟کیا اختراع ہے؟ یہ سب امت کے سامنے ہے۔(ماہنامہ اشراق نومبر، ۱۹۹۹ء ص: ۵۳) یہاں غامدی صاحب کا ماخذ تاریخ ہے، لیکن غامدی صاحب خبرواحد کو ماخذ دین نہیں مانتے، لیکن تاریخ کو کیسے مان لیتے ہیں؟۔ائمہ اربعہؒ میں مسائل پر اختلاف تواتر عملی کی وجہ سے نہیں، بلکہ دلیل اپنے موقف کی تائید کے لئے وہ خبر سے پیش کرتے تھے، یعنی اصل دلیل خبر ہے۔  ۲۵:…سنت آدمؑ :غامدی صاحب کی سنتوں میں قربانی اور تدفین بھی شامل ہے، لیکن یہ تو حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے کی سنت ہے۔ قرآن نے ہابیل قابیل کے حوالے سے دونوں سنتوں کا ذکر کیا ہے۔(المائدۃ: ۲۷ تا ۲۹)اسے سنت ابراہیمی کہنا کیا درست ہے؟لہٰذا سنت آدمؑ بھی ماخذ ہے ۔ ۲۶:…تمام انبیاء علیہم السلام کاعمل ماخذ سنت :غامدی صاحب کی سنتوں میں نکاح، طلاق، نماز، زکوٰۃ، روزہ ، حج، حیض و نفاس میں عورت سے اجتناب، حیض و نفاس کے بعد غسل، غسل جنابت، جانور کا تزکیہ شامل ہیں۔ لیکن یہ تمام اعمال، سنتیں تمام انبیاء علیہم السلام کے یہاں موجود تھیں۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ان کے یہاں یہ اعمال یا سنتیں موجود نہ ہوں، وہ ان احکامات سے فطرت کے مطالبات سے بالکل نا بلد ہوں۔ اگر یہ تمام کام حضرت ابراہیم علیہ السلام سے شروع ہوئے تو اس سے پہلے انبیاء علیہم السلام کیا کرتے تھے؟ یہ انبیاء علیہم السلام پر تہمت ہے۔ ’’ قُلْ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ مَآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا وَ مَآ اُنْزِلَ عَلٰٓی اِبْرٰھِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْأَسْبَاطِ وَ مَآ أُوْتِیَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰی وَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّھِمْ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ أَحَدٍ مِّنْھُمْ وَ نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ ‘‘۔                              (آل عمران:۸۴) ۲۷:…خبر: سنت ابراہیمی کو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ثابت کرنے کا واحد ذریعہ غامدی صاحب کے پاس اب خبر ہے۔ خبر سے ان کے نزدیک سنت ثابت نہیں ہوتی، بلکہ تواتر عملی سے ثابت ہوتی ہے، لیکن وہ خبر کے سوا سنت کو کسی اور طریقے سے تواتر عملی سے عہد ابراہیمی سے لے کر عہد رسالت مآبؐ تکثابت نہیں کرسکتے۔جب اس کا ثبوت تواتر عملی سے ممکن ہی نہیں تو پھر خبرِ واحد ہی ثبوت ہے، لیکن غامدی صاحب اسے ماخذ نہیں مانتے تو پھر ماخذِ سنتِ ابراہیمی خبر کے سوا کیا رہ جاتا ہے؟ سنتِ ابراہیمی کو اخذ کرنے کا طریقہ براہِ راست مشاہدہ ہے یا بالواسطہ مشاہدہ۔ بالواسطہ مشاہدہ ہی خبرہے، لہٰذا غامدی صاحب کا ماخذ خبر ہے، مگر وہ اُسے تسلیم نہیں کرتے ۔ ۲۸:…ملت:غامدی صاحب نے سورۂ نحل کی آیت:’’  ثُمَّ أَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ إِبْرٰھِیْمَ حَنِیْفًا وَّ مَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ‘‘۔(النحل:۱۲۳)سے ثابت کیا ہے کہ سنت، دین ابراہیمی کی روایت اس ذریعے سے ملی ہے، یہاں لفظ ملت ہے، جسے وہ سنت کے مترادف ، متبادل کے طور پر استعمال کررہے ہیں اور اس آیت سے کبھی ۲۷ سنتیں، کبھی ۴۰ سنتیں کبھی ۳۰ سنتیں نکال رہے ہیں ۔علم تفسیر کے ذخیرے میں ملت سے کسی نے سنت کا استنباط نہیں کیا مگر غامدی صاحب کا ماخذ ملتِ ابراہیم ہے، جس کا کوئی براہِ راست مشاہدہ ان کے پاس نہیںہے۔ ۲۹:…صحابہؓ اور امت کا اجماع:سنت کے ثبوت کے لئے شرط غامدی صاحب کے پاس صحابہؓ اور امت کا اجماع ہے، مگر سنت کی تعریف متعین کرنے کے لئے وہ ان ہی شرائط کا اطلاق نہیں کرتے، سنت کی تعریف وہ خود متعین فرماتے ہیں، اور اپنی تخلیق کردہ سنت کے لئے بلا دلیل صحابہؓ اور امت کا اجماع ثابت کرتے ہیں، اسی لئے سنتوں کی تعداد مستقل بدلتی رہتی ہے۔ ۳۰:…وحی:غامدی صاحب کے نزدیک وحی ماخذ ہے، تمام صحفِ سماوی اور قرآن بھی، قرآن آخری وحی ہے۔ دین وحی سے اخذ ہوتا ہے، یعنی سنت وحی ہے کہ دین یہی ہے۔ اگردین سنتِ ابراہیمی ہے تو کیا حضرت ابراہیم ؑ کی وحی سے یہ ثابت ہے؟ اگرسنت ابراہیمی وحی نہیں ہے تو پھر وہ دین کیسے بن گئی؟ جبکہ اس میں تدفین اور قربانی تو حضرت آدم ؑکی سنت ہے ،دیگر سنتیں دیگر انبیاء کی مشترکہ ہیں۔ حدیث ہے کہ ختنہ، زیر ناف کے بال مونڈنا ، بغل کے بال صاف کرنا، ناخن کاٹنااور مونچھیں پست رکھنا فطرت ہے۔ ’’الفطرۃ خمس ‘‘۔ (صحیح بخاری کتاب اللباس)غامدی صاحب کے اصول سے تو یہ اصول اخذ ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ سے پہلے کی تمام امتیں فطرت سے نابلد تھیں اور ان کے یہاں نکاح ، طلاق، پاکیزگی ، طہارت، نفاست کا تصور سرے سے مفقود تھا ۔ ۳۱:…نقل کرنے کا ذریعہ ماخذ دین ہے:دین کو نقل کرنے کے ذرائع دین نہیں سمجھے جاتے۔ روایت، نقل ، تواتر عملی دین کو پہنچانے اور منتقل کرنے کے ذرائع ہیں، نہ کہ دین کا معیاریاخود دین۔ غامدی صاحب ذریعے( Medium )کو ماخذ(Source )بلکہ دین قرار دیتے ہیں۔ تواتر عملی قرن اول کے لئے نہ دین ہے، نہ ذریعہ، کیونکہ صحابہؓ رسول اللہ ا کے ہر عمل کا براہِ راست مشاہدہ کررہے تھے۔ اللہ کے رسول ا کا ایک عمل جو صحابہؓ کے لئے خبر واحد سے ثابت تھا، غامدی صاحب کے نزدیک دین ہی نہیں ہے تو کیا صحابہؓ   قرن اول میںدین پر عمل نہیں کررہے تھے؟ دین تو وہ ہے جسے اللہ اور اس کا رسول ا دین قرار دیں، چاہے وہ خبر واحد سے ملے یا قولی یا عملی تواتر سے۔ ذریعہ دین نہیں ہے ، نہ ہو سکتا ہے، بلکہ اللہ اور رسول ا کے حکم سے کوئی چیز دین بنتی ہے اور پھر بعد میں کسی ذریعے سے پہنچتی ہے۔ دین پہلے موجود ہوتا ہے، پھر ذریعہ وجود میں آتا ہے۔ ذریعے کو دین بنانا عجیب بات ہے۔ ۳۲:… سنت ثابتہ:’’اس مرحلے سے پہلے اس طرح کی بیعت ایک بدعت ہے، جس کا کوئی ثبوت نبیؐ کی سنت ثابتہ اور سیرت طیبہ سے پیش نہیں کیا جاسکتا ‘‘۔(برہان ص: ۲۸ اہل بیعت کی خدمت میں ۱۹۹۲ء دارالاشراق ،لاہور)۔ ۳۳:…سنت:’’سنت ہر اس معاملے میں جس میں قرآن مجید خاموش ہے، بجائے خود ماخذ قانون کی حیثیت رکھتی ہے ‘‘۔(برہان ، ص: ۴۱، ۲۰۰۶ء المور ، لاہور)  ۳۴:…قول پیغمبر:’’دین میں کوئی چیز اگر ثابت کی جاسکتی ہے تو قرآن مجید کے بعد پیغمبر کے قول سے ہی ثابت کی جاسکتی ہے‘‘۔(برہان ، ص: ۱۹۲، ۲۰۰۶ء ، المورد ، لاہور) ۳۵:…حدیث و سنت اور اخبار آحاد:’’قرآن مجید کے بعددوسرا ماخذ حدیث و سنت ہے۔ اس کا بیشتر حصہ تو اتر عملی کے ذریعے سے ملا ہے، باقی جو کچھ حصہ اخبار آحاد کی صورت میں تھا، اس میں جتنا کچھ ہمارے اسلاف نے قابل اعتماد پایا، وہ سب انہوں نے منتقل کردیا ہے، اس میں سے کوئی چیز چھپا کر نہیں رکھی۔ دین میں یہی دو چیزیں اصل حجت ہیں‘‘۔(مقامات ،ص: ۱۳۵، ۲۰۰۶ئ، المورد، لاہور)(مقامات ، طبع اول، ص: ۱۷۸، ۲۰۰۸ء ، المورد ، لاہور) ۳۶:…سنت ماخذ دین نہیں ہے:غامدی صاحب ۱۹۹۸ء میں کراچی کے محاضرات میں کہہ چکے ہیں کہ ’’سنت میں اختلاف کیسے ہو جائے گا ؟جیسے ہی اختلاف ہو جائے گا وہ چیز سنت ثابت نہیں ہوگی۔ اجماع اس کی لازمی شرط ہے۔ جیسے قرآن میں کوئی اختلاف نہیں ہوسکتا، سنت میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہوسکتا‘‘۔ (ساحل مئی ۱۹۹۸ء ، ص: ۵۸) غامدی صاحب کے اس اصول کے تحت اب سنت ماخذ نہیں ہے، کیونکہ اس میں اختلاف ہوگیا ہے۔ پہلے سنت ثابتہ، پھر حدیث و سنت، پھر سنت ،پھر ان کی تعداد کبھی ۲۷، کبھی ۲۶، کبھی ۱۷، کبھی کچھ۔ ۳۷:…اس امت کے اہل تحقیق میں کوئی اختلاف نہیں کہ لغتِ عرب کی تحقیق کے لئے سب سے پہلا ماخذ خود قرآن مجید ہے اور اس کے بعد یہ حیثیت پیغمبرؐ اور صحابہؓ کے ان اقوال کو جو روایت باللفظ کے طریقے پر منتقل ہوئے ہیں اور پھر ادب جاہلی کو حاصل ہے ۔ (ص: ۲۷۱، برہان ۲۰۰۶ئ)لغت عرب کی تحقیق کے لئے پیغمبرؑ اور اقوال صحابہؓ حجت ہیں، لیکن سنت کی تعریف متعین کرنے کے لئے ان ماخذات میں سے کوئی ماخذ حجت نہیںہے، صرف غامدی صاحب کا فہم حجت ہے۔وصیت کی آیت میں وصیت کا مفہوم غامدی صاحب نے پہلے پیغمبرؑ، اقوال صحابہؓ، اجماع اور تعامل امت سے اخذ کیا ۔۲۰۰۸ء میں مقامات میں وصیت کا فہم لغت عرب سے متعین فرمادیا ۔ ۳۸:…دانش پہلی وحی ہے:’’دانش خود دین کا حصہ ہے، یوں کہیں کہ دانش اللہ تعالیٰ کی پہلی وحی ہے اور قرآن دوسری وحی جن معاملات میںدانش کوآزاد چھوڑ دیا گیا ہے، وہاں وہ کام کرے گی‘‘۔ (ص: ۵۸، افضال ریحان کو غامدی صاحب کا انٹر ویو، اسلامی تہذیب بمقابلہ مغربی تہذیب، دارالتذکیر،لاہور،۲۰۰۴ئ) ۳۹:…نیا اصول، نبوت لازمی نہیں:’’ ہر وہ تہذیب اسلامی ہے جو تین اساسات قبول کرے۔ رسم و روایات، رہن سہن اور آداب و شعائر کے ہزار اختلافات کے باوجود ہم اسے اسلامی تہذیب قرار دے سکتے ہیں: ۱:… وحدتِ الہٰ ۔۲:…وحدتِ آدم۔۳:…عمل کی بنیاد پر ابدی مکافات۔اسی وجہ سے کسی خاص قالب کو اسلامی تہذیب نہیں قرار دینا چاہئے‘‘۔(ص: ۶۴،انٹر ویو افضال ریحان کو ، محولہ بالا)(ص: ۶۴ ، محولہ) جناب غامدی نے اسلامی تہذیب سے رسالت محمدیؐ کو خارج فرمایا۔ رسالت پرایمان کے بغیر توحید کی تصدیق کیسے ممکن ہوسکتی ہے؟ توحید اور احکامات الٰہی رسالت کے بغیر انسانوں تک کیسے پہنچ سکتے ہیں ؟۔ ۴۰:…المور د کے زیر اہتمام دانش سرا کے صدر ڈاکٹر فاروق خان کی کتاب ۱۹۹۶ء میں شائع ہوئی تو غامدی صاحب کے مکتب فکر کے ماخذاتِ دین اس کتاب میں شائع کئے گئے، آپ بھی پڑھئے، اس دور کے غامدی صاحب کے ماخذات دین درج ذیل ہیں: (۱) حضور صلی ا للہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا کہ قرآن مجید االلہ کا کلام ہے۔ قرآن مجید میزان اور فرقان، یعنی کسوٹی ہے۔ (۲)قرآن کے بعد حضور ؐ سے یہ دین ہمیں سنت ثابتہ کی شکل میں بھی ملا ہے۔ سنت ثابتہ حضور ؐ کا وہ عمل ہے جو انہوں نے التزام کے ساتھ امت میں جاری فرمایا ،پھر یہ عمل صحابہؓ کرام کے متواتر عمل اور اجماع کے ذریعے سے اس امت کو منتقل ہوا۔ ثبوت کے اعتبار سے اس میں اور قرآن مجید میں کوئی فرق نہیں۔ قرآن قولی تواتر کے ساتھ ہمیں منتقل ہوا ہے اور سنت ثابتہ عملی تواتر کے ساتھ ہمیں منتقل ہوئی ہے۔ (۳)حدیث، رسول اللہ ا کے قول، فعل اور تائید کو کہتے ہیں، جو ہمیں مختلف واسطوں سے ملی ہے۔ کسی روایت کو حضور ا کی بات تسلیم کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ بات قرآن مجید، سنت ثابتہ، اور عقل و فطرت کی پختہ بنیاد پر قائم ہو اور کسی پہلو سے ان کے منافی نہ ہو اور قابل اعتماد ذرائع سے ہم تک پہنچے۔ جو روایت اس معیار پر پوری اترے، وہ بھی ہر مسلمان کے لئے حجت ہے۔ (۴)اجتہاد قرآن و سنت سے ماورا کوئی چیز نہیں ہے، بلکہ اسی سے ماخوذ ہے۔جس اجتہاد کو امت مسلمہ کا ضمیر قبول کرے، وہ اپنی انفرادی زندگیوں میں اس کی پیروی شروع کردیں اور اپنی حقیقی مجالس قانون ساز (پارلیمنٹ) کے ذریعے سے اس کو اپنی اجتماعی زندگیوں پر نافذ کریں، وہی اجتہاد در اصل قانون ہے اور اس سے مختلف اجتہادات کی حیثیت ایک فتوے یا رائے کی سی ہے۔ (۵)اجماع:’’جب ہم کہتے ہیں کہ قرآن مجید خدا کا کلام ہے، جس میں ایک لفظ کی کمی بیشی خارج از امکان ہے، تو اس دعویٰ کی بنیاد یہ ہوتی ہے کہ صحابہؓ کرام نے بیک زبان یہ متفقہ شہادت دی کہ یہی قرآن انہوں نے حرف بحرف رسول اللہ ا سے سنا ہے۔ گویا، قرآن جس پر ہمارے دین کی بنیاد ہے ، ہمیں صحابہؓ کرام کے اجماع سے ملا ہے۔ اسی طرح سنت کو ہم اس لئے حضور ا کا طریقہ کہتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ نے متفقہ طور پر اپنے بعد میں آنے والوں کے سامنے یہ گواہی دی کہ انہوں نے ساری زندگی حضور ا کو یہی طرزِ عمل اپناتے دیکھا ہے اور آپ ا نے ہمیشہ اسی کا حکم دیا ہے۔ گویاسنت بھی ہمیں صحابہ کرامؓ کے اجماع سے ملی ہے،چنانچہ جب کہا جاتا ہے کہ اجماع حجت ہے ، تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ چونکہ قرآن و سنت ہمیں اجماع صحابہؓ سے ملے ہیں، اس لئے یہ حجت ہیں۔ سلف کے ہاں اجماع کا یہی مفہوم تھا، ظاہر ہے کہ اس معنی کے اعتبار سے اجماع یقیناً حجت ہے اور اسی پر دین کا دارومدار ہے،لیکن بعد میں خلف کے ہاں اجماع کو کچھ اور معنوں میں بھی استعمال کیا جانے لگا، جس کے معنی یہ تھے کہ اگر کسی معاملے میں کسی ایک تعبیر پر ایک خاص وقت میں تمام اہل علم متفق ہو جائیں تو وہ اجماع بن جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں دوسرا لفظ ’’جمہور‘‘ کا تھا، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی معاملے میں اہل علم کی اکثریت ایک خاص رائے پر متفق ہوتی تھی، تو اسے جمہور کی رائے کہا جاتا تھا۔اجماع کے اس مفہوم کو ہم نے بہت سادہ انداز میں بیان کردیا ہے، ورنہ اجماع کی تعریف میں بہت زیادہ اختلاف واقع ہوا ہے، اسی لئے اس مسئلے میں ہمیں فقہ کی کتابوں میں بہت سی اصطلاحات ملتی ہیں، مثلاً اجماع واقعی، اجماع ذاتی، اجماع عقلی، اجماع اجتہادی، اجماع قولی، اجماع سکوتی وغیرہ‘‘۔ (ڈاکٹر محمد فاروق خان، صدر دانش سرا پاکستان ،نائب صدر المورد ،جناب غامدی صاحب کے معتمد خاص جو دانش سرا کے ذریعے فکر غامدی کی تبلیغ و تشہیر کے ذمہ دار تھے، یہ اقتباسات ان کی کتاب اکیسویں صدی اور پاکستان ، ص: ۲۵۴ تا ۲۶۱، سن ۱۹۹۶ء ، المورد ، لاہور سے لئے گئے ہیں واضح رہے کہ یہ کتاب پہلے محمد صلاح الدین مدیر تکبیر نے مطبوعات تکبیر کے تحت شائع کی تھی، کتاب میں اس کا حوالہ درج نہیں ہے، اسے اشاعت اول ظاہر کیا گیا ہے۔ میزان کی اشاعت سے پہلے غامدی صاحب کی فکر ’’اسلام کیا ہے؟‘‘ کے نام سے پیش کی گئی تھی، ’’میزان‘‘ اسی کا چربہ ہے، اس کے مرتب ڈاکٹر صاحب تھے)۔ ۴۱:…۱۱ /اکتوبر ۱۹۹۸ء کے ’’زندگی‘‘ میں غامدی صاحب کا انٹر ویو شائع ہوا، جو بعد میں افضال ریحان کی کتاب مغربی تہذیب بمقابلہ اسلامی تہذیب ۲۰۰۴ء دارالتذکیر میں ص: ۱ ۳ تا ۶۹ پر شائع ہوا، اس انٹر ویو میں مغرب کے حوالے سے غامدی صاحب کے خیالات درج ذیل ہیں: ’’مغربی تہذیب اپنی اخلاقی اساسات کے لحاظ سے مسیحی علم الکلام سے پیدا ہوئی ہے ۔یہ سچا علم کلام ہے۔ ہمیں موحد بن کر مغرب سے بات کرنی چاہئے، یعنی جو چیز ہمارے اور ان کے درمیان مشترک ہے ‘‘۔(ص: ۳۱) ’’اہل مغرب خدا ، پیغمبروں ، آخرت اور مذہب کو ماننے والے لوگ ہیں، اس فکر پر اب ان کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی ہے‘‘۔(ص:۳۲) ’’آزادی و ہاں بحیثیت قدر کے مانی جاچکی ہے‘‘۔(ص:۳۳) ’’مسلمانوں نے ہزار برس تک جو کچھ کیا ہے ،مغرب اس کو ابھی تک چھو بھی نہیں سکا ہے ‘‘۔(ص:۴۶)’’عد ل کرو ،یہ تقویٰ کے قریب ہے، یہ ہے ہمارا بین الاقوامی قانون جو ایک ہزار سال تک مسلمانوں نے بالعموم اس کی پابندی کی‘‘۔ (ص: ۴۸)’’ مغرب جو باتیں آج کہہ رہا ہے، وہ ہم نے چودہ سو برس پہلے کہہ دیں ۔عمل کی دنیا میں مغرب بہت بلند ہے اور ہم بہت پست۔ (ص:۴۹)قرآن انسانی آزادی اور فلاح کے لئے آیا ہے۔ (ص:۵۲)’’ویزہ ، پاسپورٹ ہم نے نہیں، مغرب نے پیدا کیا۔(ص: ۶۱) ’’مغرب نے نیشنل ازم کی مذمت نہیں کی‘‘۔ (ص:۶۲) ’’مغربی تہذیب انسانی تمدن کے ارتقاء  ہی کی ایک منزل ہے۔ انسانی تمدن کے مسائل کے حل کے لئے مغربی تہذیب نے بہت کچھ اثاثہ جمع کرلیا ہے‘‘۔ (ص: ۶۲) ’’ہر وہ تہذیب اسلامی ہے جو وحدت الہٰ، وحدت آدم اور عمل سے ابدی امکانات کی قائل ہو ‘‘۔(ص:۶۴) ’’مغرب سے ہمارا تعلق داعی اور مدعو کا ہونا چاہئے‘‘۔ (ص:۶۸)  اس انٹر ویو کے بعد حضرت والا کا ارتقاء ہوگیا، لہٰذا اب مغرب کے بارے میں ان کے خیالات مقامات ۲۰۰۶ء میں پڑھئے: مغرب یا جوج ماجوج ہے: ۲۰۰۶ء تک غامدی  صاحب کا مغرب کے بارے میں اصولی نقطۂ نظر یہ تھا کہ مغرب یا جوج ماجوج ہے، دیوار برلن ٹوٹ گئی۔ اب امریکہ روس میں ہے اور روس امریکہ میں ۔یا جوج ماجوج نوح ؑ کے تیسرے بیٹے یا فث کی اولاد ہیں، ان کا وطن سواد روس ہے۔ قدیم زمانے میں یہی لوگ یورپ میں آباد ہوئے، پھر امریکا، آسٹریلیا پہنچے اور اب دنیا کے سارے پھاٹک ان کے قبضے میں ہیں۔ مغرب فیضان ابلیس ہے، وہ تہذیب جو اس سورج سے نمایاں ہوئی ایک آنکھ سے اندھی ہے، یہ دجال ہے، اس کے پاس دھواں اور دابۃ الارض ہے، اس کی پیشانی پر لکھا ہوا ہے کہ وہ کافر ہے، سو وقت قریب آلگا ہے، اٹھو! اپنے رب کی طرف دوڑو، دجال شہر عزیز میں پہنچ رہا ہے۔ یہ شاید تمہاری آخری جنگ ہے، جو تمہیں اس جنت کے لئے  زمین پر لڑنی ہے۔ اٹھو! اور اس کے لئے تیار ہو جاؤ۔ سوچو کہ تمہیں اس جنگ میں کھونا ہی کیا ہے؟ بس یہ دنیاجس کے کھودینے سے ہی تمہیں وہ دنیا (جنت) ملے گی۔ (مقامات ، ۲۰۰۶ء ، ص :۹۳،۹۴) اس عالم کا عقدہ کسی ما بعد الطبیعیاتی اساس کے بغیر بھی کھل سکتا ہے اور انسان کا مسئلہ خود اس کے بنانے والے کی رہنمائی کے بغیر بھی حل ہوسکتا ہے۔ یہی اصول ہے جس پر مغرب میں فلسفہ، سائنس اوردوسرے علوم و فنون کا ارتقاء پچھلی دو صدیوں میں ہوا ہے اور جسے ابھی تک مغربی فکر میں اصل اصول کی حیثیت حاصل ہے۔ مغرب کی فکر کا بنیادی مقدمہ اس انکار پر ہی استوار ہے۔ یہ کار خانۂ عالم بغیر کسی خالق کے وجود میں آتا ہے۔ انسان اس میں اپنی تقدیر خود بناتا ،خود بگاڑتا ہے۔ انسان کی تاریخ اس میں انسان سے شروع ہوتی اور انسان ہی پر ختم ہوتی ہے۔ ذات خدا وندی کے لئے اس میں نہ ابتداء میں کوئی جگہ ہے، نہ انتہا میں۔ انسان ہی ابتدائ، وہی انتہا اور وہی ظاہر و باطن ہے۔ (۱۴۱، ۱۴۲، محولہ بالا) اس کے بعد حضرت والا کا پھر ارتقاء ہوگیا اور مقامات، طبع اول ۲۰۰۸ء سے یاجوج ماجوج کا مضمون ہی خارج کردیا گیا، کیونکہ اب یا جوج ماجوج سے مصالحت ،مفاہمت، اشتراک عمل اور محبت و تعلق کا عہد شروع ہوگیا ہے۔ میرے محترم جناب غامدی صاحب کی خدمت میں ان دلائل کے بعد ان کی ہی ایک عبارت ادب کے ساتھ پیش خدمت ہے۔ ’’ لیکن حق بہر حال حق ہے اور اس کی حمیت کا تقاضا یہی ہے کہ اُسے ملامت کرنے والوں کی ملامت کی پروا کئے بغیر برملا ظاہر کردیا جائے۔ ہم میں سے ہر شخص کو ایک دن اس عدالت میں پیش ہونا ہے، جہاں ہمارے وجود کا باطن ہمارے ظاہر سے زیادہ برہنہ ہوگا اور خود ہمارا وجود بھی صاف انکا رکردے گا کہ وہ اسے چھپائے۔ ہماری زبان اس روز بھی معنی و مفہوم کو لفظوں کا جامہ پہناسکے گی، لیکن اس دن یہ جامہ کسی معنی کو چھپانے کی صلاحیت سے محروم ہوجائے گا۔ ہمارے ہاتھ اور پاؤں اس روز بھی ہمارے وجود کا حصہ ہوں گے،لیکن ہمارے ہر حکم کی تعمیل سے قاصر ہو جائیں گے۔ حقیقت اپنی آخری حد تک بے نقاب ہو جائے گی اور ہم میں سے کوئی شخص اس روز اسے کسی تاویل اور توجیہ کے پردوں میں چھپا نہ سکے گا۔ اس سے پہلے کہ انتہائی عجز اور انتہائی بے بسی کا یہ عالم ہمارے لئے پیدا ہو جائے، بہتر یہی ہے کہ ہم حق اور صرف حق کو اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیں، وما توفیقنا إلا باللّٰہ ‘‘۔         (ص: ۳۳، برہان ۱۹۹۲ئ)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین