بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

جاوید احمد غامدی سیاق و سباق کے آئینہ میں (چودہویں قسط)

جاوید احمد غامدی سیاق و سباق کے آئینہ میں   (چودہویں قسط)

جاوید غامدی صاحب نے مرتد کی شرعی سزا کو کالعدم قرار دیا ’’حدود اور تعزیرات‘‘ کے بڑے عنوان کے تحت دفعہ: ۴ کے ضمن میں غامدی صاحب منشور کے صفحہ: ۱۸ پر مرتد کی شرعی سزا کو کالعدم قراردیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اسی طرح ارتداد کے بارے میں یہ حقیقت تسلیم کی جائے کہ اس کی جو سزا بالعموم بیان کی جاتی ہے وہ قرآن مجید کی رو سے نبی a کی قوم (بنی اسماعیل) ہی کے ساتھ خاص تھی۔ ان کے بعد یہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوئی، چنانچہ اب اگر کوئی شخص اسلام کو چھوڑ کر کفر اختیار کرے اور اس کے ساتھ کسی فساد کا مرتکب نہ ہو تو محض اس بنا پر اُسے کوئی سزا نہیں دی جاسکتی ہے۔‘‘             (منشور:۱۸)     تبصرہ:۔۔۔۔۔سب سے پہلے تو یہ پوچھنا ہے کہ جاوید غامدی صاحب کی پوزیشن اور اتھارٹی کیا ہے جو یہ حکم صادر فرما رہے ہیں کہ ’’ارتداد کے بارے میں یہ حقیقت تسلیم کی جائے‘‘ وہ کس کو مخاطب بنارہاہے اور مخاطب کو کونسی حقیقت تسلیم کروارہا ہے یا خود جج بنا ہوا ہے اور خود فیصلہ سنارہا ہے۔ دوسری بات غامدی صاحب نے یہ کہی ہے کہ ’’ارتداد کی سزا قرآن کی رو سے نبی m کی قوم بنی اسماعیل کے ساتھ خاص ہے۔‘‘ قرآن مجید کے بارے میں غامدی صاحب نے غلط بیانی سے کام لیا ہے، قرآن عظیم میں کوئی آیت ایسی نہیں ہے جس نے ارتداد کی سزا کو عرب یا بنی اسماعیل کے ساتھ خاص کیا ہو، البتہ ارتداد پر وعید شدید اور عذاب جحیم کی سزا قرآن مجید میں اس طرح بیان کی گئی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’وَمَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَیَمُتْ وَھُوَ کَافِرٌ فَأُولٓئُکِ حَبِطَتْ أَعْمَالُھُمْ فِیْ الدُّنْیَا وَالْأٰخِرَۃِ وَأُولٓئِکَ أَصْحَابُ النَّارِ ھُمْ فِیْھَا خَالِدُوْنَ۔‘‘         (البقرۃ: ۲۱۷) ترجمہ:’’ اور جو کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھرے گا اور کفر کی حالت ہی میں مرے گا تو اس کے سارے اعمال دنیا اور آخرت میں ضائع ہوجائیں گے، ایسے لوگ دوزخی ہوں گے اور ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔ ‘‘ مندرجہ بالا آیت‘ ارتداد سے متعلق قیامت تک کے لیے ایک عام سزا بیان کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص دین اسلام سے مرتد ہوگیا اور پھر اسی ارتداد پر مرا تو اس کے سابقہ ولاحقہ تمام اعمال باطل ہوگئے اور جان ومال بھی محفوظ نہ رہا، نکاح بھی ٹوٹ گیا۔ علامہ شبیر احمد عثمانی v اس آیت کے تحت لکھتے ہیں: ’’یعنی دین اسلام سے پھر جانا اور اسی حالت پر اخیر تک قائم رہنا ایسی سخت بلا ہے کہ عمر بھر کے نیک کام ان کے ضائع ہوجاتے ہیں کہ کسی بھلائی کے مستحق نہیں رہتے۔ دنیا میں نہ ان کی جان ومال محفوظ رہے، نہ نکاح قائم رہے، نہ ان کو میراث ملے، نہ آخرت میں ثواب ملے اور نہ کبھی جہنم سے نجات نصیب ہو ۔‘‘                        (تفسیر عثمانی :۴۲) قرآن مجید کی رو سے اور آیت کی تفسیر اور حکم تو یہی ہے جو لکھا گیا، نہ معلوم غامدی صاحب کے پاس کونسا قرآن ہے جس میں مرتد کے لیے کوئی خاص حکم نازل ہوا ہے۔ احادیث کے مطابق مرتد کی سزا بخاری شریف میں حدیث ہے جو اس آیت کی تفسیر بھی ہے اور مرتد کی سزا کا واضح حکم بھی ہے، آنحضرتa نے فرمایا کہ : ’’من بدل دینہٗ فاقتلوہ۔ ‘‘ (بخاری، باب حکم المرتد والمرتدۃ، حدیث نمبر:۶۹۲۲) ۔۔۔۔۔۔۔’’ جو مسلمان اپنا دین بدل دے تو اسے قتل کردو۔‘‘ ارتداد اور مرتد کی سزا سے متعلق دوسری حدیث ملاحظہ ہو: ’’عن عبداللّٰہ رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا یحل دم امریء مسلم یشھد أن لا إلٰہ إلا اللّٰہ وأنی رسول اللّٰہ إلا بإحدٰی ثلاث: النفس بالنفس والثیب الزانی والمفارق لدینہ التارک للجماعۃ۔‘‘ (بخاری، باب قول اللہ تعالیٰ: ان النفس بالنفس الخ، حدیث نمبر:۶۴۸۴۔مسلم ، کتاب القسامۃ، باب یباح بہ دم المسلم،حدیث: ۱۶۷۶) ’’حضرت عبداللہ بن مسعود q فرماتے ہیں کہ: رسول اللہa نے فرمایا: کسی مسلمان کا خون بہانا جائز نہیں جو یہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں ماسوائے تین صورتوں کے: ایک یہ کہ اس نے کسی کو قتل کیا ہو، دوسری یہ کہ وہ شادی شدہ زانی ہو، اور تیسری یہ کہ وہ اپنا دین چھوڑ کر مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہوجائے۔ ‘‘ اسی مضمون کی بہت ساری احادیث صحیحہ سے یہ بات ثابت ہے کہ اسلام میں مرتد شخص کی سزا قتل ہے، ان احادیث کی وجہ سے جمہور فقہاء کا بھی فتویٰ ہے کہ مرتد کی سزا قتل ہے، چنانچہ فقہاء اربعہ کے چند فتاویٰ لکھ دیتا ہوں، الگ الگ سارے فتاویٰ کا جمع کرنا بہت دشوار ہے۔ فقہاء اربعہ کے ہاں مرتد کی سزا قتل ہے ۱:۔۔۔۔۔ مذاہب اربعہ پر لکھی گئی مستند کتاب ’’الفقہ علی المذاہب الأربعۃ‘‘ میں اس کے مؤلف عبدالرحمن جزیری v لکھتے ہیں: ’’واتفق الائمۃ الأربعۃ رحمھم اللّٰہ علٰی أن من ثبت ارتدادہٗ عن الإسلام والعیاذ باللّٰہ وجب قتلہٗ واھدر دمہٗ ۔‘‘              (الفقہ علی المذاھب الاربعۃ، ج:۵، ص: ۴۲۳) ’’ائمہ اربعہ کا اس پر اتفاق ہے کہ جو شخص اسلام سے پھر جائے -اللہ اس سے بچائے- اس کا قتل واجب ہے اور اس کا خون رائیگاں ہے۔ ‘‘ ۲:۔۔۔۔۔موسوعۃ الاجماع ،جلد:۱، صفحہ:۴۳۶میں ہے: ’’اتفقوا علٰی أن من کان رجلا مسلماً حراً ثم ارتد إلی دین کفرٍ انہ حل دمہٗ۔‘‘ ’’اس پر تمام فقہاء اسلام کا اتفاق ہے کہ آزاد مسلمان مرد اگر مرتد ہوجائے تواس کا خون بہانا جائز ہے۔ ‘‘ ۳:۔۔۔۔۔اسلامی فقہ کی مشہور کتاب ’’الفقہ الإسلامی وأدلتہٗ‘‘ میں ڈاکٹر وھبہ الزحیلیv نے ’’أحکام المرتد‘‘ میں فقہاء اربعہؒ کا فتویٰ دلیل کے ساتھ نقل کیا ہے، لکھتے ہیں: ’’اتفق العلماء علٰی وجوب قتل المرتد لقولہٖ علیہ السلام: من بدل دینہٗ فاقتلوہ وقولہٖ علیہ السلام: لا یحل دم امریٔ مسلم إلا بإحدٰی ثلاث: الثیب الزانی والنفس بالنفس والتارک لدینہٖ المفارق للجماعۃ وأجمع أھل العلم علٰی وجوب قتل المرتد۔‘‘                             (الفقہ الإسلامی وأدلتہ،ج:۶، ص:۱۸۶) یعنی ’’علماء نے مرتد کے قتل پر اتفاق کیا ہے اور دو صحیح حدیثوں کی وجہ سے مرتد کے قتل پر اہل علم نے اجماع کیا ہے۔‘‘قرآن کریم و حدیث طیبہ کی تصریحات کے بعد اور فقہاء کے اجماعی فتاویٰ کے بعد آدمی حیران رہ جاتا ہے کہ جاوید احمد غامدی صاحب پر یہ فیصلے کیسے مخفی رہے ہیں؟ بس یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ غامدی صاحب نے گمراہی کا راستہ کسی غلط فہمی سے نہیں، بلکہ دیدہ ودانستہ اختیار کیا ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ اسی دفعہ کی اگلی عبارت میں غامدی صاحب کہتے ہیں کہ اب ارتداد کی سزا ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی۔ ہم غامدی صاحب سے پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ آپ کے پاس کونسی دلیل ہے کہ یہ سزا ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی؟ اور آپ کس بنیاد پر کہتے ہیں کہ یہ سزا ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی؟ کیا کوئی نئی وحی آگئی یا آسمان سے کوئی الہام ہوگیا؟ غامدی صاحب کو ذرابھی لحاظ نہ آیا کہ وہ اتنے بڑے بڑے فقہاء اور مفسرین کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:’’ من بدل دینہٗ فاقتلوہ ‘‘ کی حدیث کے سمجھنے میں فقہاء کو غلطی ہوگئی اور انہوں نے اس کو عام کرکے مرتد کی سزا موت قرار دی اور اس طرح اسلامی حدود وتعزیرات میں ایک ایسی سزا کا اضافہ کردیا جس کا وجود ہی اسلامی شریعت میں ثابت نہیں ہے۔ اسی طرح کی گفتگو غامدی صاحب نے اپنی کتاب ’’برہان‘‘ میں کی ہے، یہاں منشور میں البتہ غامدی صاحب نے یہ لکھا ہے کہ اگر مرتد کسی فساد کا مرتکب نہیں ہوا ہے تو محض مرتد ہونے سے اس کو قتل کی سزا نہیں دی جاسکتی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ غامدی صاحب! آپ بتائیں، ایک شخص دین اسلام کو چھوڑ کر اس کو بدنام کرتا ہے، پھر اگر ہندو بنا تو وہ کروڑوں دیوتائوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتا ہے، اگر یہودی اور عیسائی بنا تو اللہ تعالیٰ کے لیے بیٹا ثابت کرنے لگتا ہے، اگر مشرک بنا تو فرﷲشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتا ہے اور ارتداد کے بعد اسلام کے حق میں گستاخی کرتاہے، قرآن عظیم کو غلط کہتا ہے، کیا یہ قبیح اعمال وافعال واقوال فساد نہیں ہیں؟ اور شریعت کے مسلّمہ احکام پر اتنا بڑا حملہ کیا فساد نہیں؟ ایسا لگتا ہے کہ غامدی صاحب کو تکوینی طور پر رسوا ہونا تھا جو رسوا ہوگیا : چوں خدا خواہد کہ پردئہ کس درد

میلش اندر طعنۂ پاکاں بُرد ’’جب اللہ تعالیٰ کسی کا پردہ چاک کرنا چاہتا ہے تو اس کا میلان نیک لوگوں کی برائی کی طرف کردیتا ہے۔‘‘  غامدی صاحب نے شاید اپنے ارتداد کے ارتکاب کے خوف سے یہ نیا فتویٰ اور نئی فقہ ایجاد کی، تاکہ ان کی طرف کوئی خطرہ متوجہ نہ ہوجائے، حالانکہ اصل خطرہ تو آخرت کا ہے، دنیا تو فانی جگہ ہے۔ غامدی صاحب کو چاہیے تھاکہ وہ سکھوں پر لکھتے کہ ان میں جو کوئی مسلمان ہوجاتا ہے تو اس کا قتل کرنا ان کے نزدیک واجب ہے، بلکہ پانچ سال تک اگر وہ شخص دنیا کے کسی کونے میں کسی بھی سکھ کو مل جائے سکھ اس کو قتل کرسکتا ہے۔ ہندئووں کے ہاں قانونِ ارتداد اس سے بھی زیادہ سخت ہے۔ دنیا کی فوج کا قانون دیکھ لیجئے! اگر کوئی آدمی وقت سے پہلے فوج سے ملازمت چھوڑ دیتا ہے اور بھاگ جاتا ہے تو اس کا کورٹ مارشل ہوجاتا ہے، ان سب کے لیے غامدی صاحب نے کچھ بھی نہیں لکھا، اگر لکھا تو اسلام پر لکھا کہ اس کا قانون ارتداد صحیح نہیں ہے، کسی وقت جزوی طور پر تھا، اب مکمل ختم ہوگیا ہے۔ غامدی صاحب کا نظریۂ تخصیصِ احکام جناب جاوید غامدی صاحب بڑا بننے کی پوری کوشش کرتے ہیں، اپنے آپ کو مجتہد، اسکالر اور دانشور دکھانے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں اور تجدد کا ہر نیا راستہ دین میں نکال لاتے ہیں، ان کا ایک خطرناک نظریہ ’’تخصیص احکام‘‘ کا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ غامدی صاحب کے نزدیک دین اسلام کے بہت سارے احکام ایسے ہیں جو رہتی دنیا کے لیے عام ضابطہ نہیں، بلکہ اسلام کے دورِ اول کی وقتی مصلحت تھی اور معاشرہ کی وقتی ضرورت تھی یا نبی اکرم a کی ذاتی حیثیت تھی یا صحابہ کرام sکے معروضی احوال کے پیش نظر چند احکام آئے اور پھر موقوف ہوگئے، جیسے دیت کی مقدار کا قانون احوال کے پیش نظر تھا، ارتداد کی سزا قتل اس وقت کے بنی اسماعیل ؑکے ساتھ خاص تھی، حد خمر کی سزا مخصوص انداز سے اس وقت کے ساتھ خاص تھی، نبی اکرم a کی وفات کے بعد کسی کو کافر قرار نہیں دیا جاسکتا، معروف اور منکر کا تعین وحی نہیں، بلکہ انسانی فطرت اور خاص ماحول کرتا ہے، کفار کے خلاف جہاد وقتال اس وقت کی خاص ضرورت تھی، جہاد ہمیشہ کے لیے نہیں تھا۔ یہ اور اس قسم کے کئی احکام غامدی صاحب کے نزدیک اسلام کے دور اول کے ساتھ خاص تھے، آئندہ ادوار سے اس کا تعلق نہیں ہے۔ غامدی صاحب سے پوچھا جائے کہ نبی آخر الزمانa اور دین اسلام قیامت تک کے لیے ہے یا اس میں رد وبدل کا امکان ہے؟ اگر دین اسلام قیامت تک کے لیے ہے اور یقینا ایسا ہی ہے تو پھر اس کے احکامات کو دور اول کے ساتھ کیوں خاص کیا جاتا ہے؟ اور جب غامدی صاحب کا نظریہ ’’تخصیص احکام‘‘ کا بن گیا تو پھر چند احکامات کی تخصیص کیوں؟ پھر تو نبی آخر الزمانa کی نبوت کو بھی عرب اُمیین کے ساتھ خاص کردینا چاہیے جس طرح یہود ونصاریٰ کا دعویٰ ہے، اسی طرح قرآن کریم کو بھی دور اول کے عرب کے ساتھ خاص کردو اور کہہ دو کہ عجم کی یہ زبان نہیں ہے، نمازوں کو بھی اس معاشرہ کے ساتھ خاص مانو، روزہ اور زکوٰۃ اور حج کو بھی خاص کردو اور حرام وحلال جائز وناجائز کو بھی اس معاشرہ کی ضرورت کے ساتھ خاص کردو اور دین اسلام سے لوگوں کی چھٹی کرادو اور یہ اعلان کردو کہ اب یہ دور قلم کا دور ہے، مضمون نگاری اور قلم کاری کا دور ہے، دانشوری کا دور ہے، جدید دور ہے، ماڈرن دور ہے، پرانے قصے کہانیاں ختم کرنے کا دور ہے، آزادی کا دور ہے اور اِن اشعار کے پڑھنے کا دور ہے : آزادیِ جمہور کا آتا ہے زمانہ جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹادو فتویٰ ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے دنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر قانونِ شہادت سے متعلق غامدی صاحب کا نظریہ ’’حدود وتعزیرات ‘‘ کے بڑے عنوان کے تحت دفعہ:۵ کے ضمن میں قانونِ شہادت کے متعلق اپنے منشور کے ص:۱۸ پر جناب غامدی صاحب لکھتے ہیں کہ:  ’’شہادت کے معاملے میں بھی یہ حقیقت تسلیم کی جائے کہ حدود وتعزیرات، قصاص ودیت، مالی حقوق، نکاح وطلاق، غرض یہ کہ تمام معاملات میں یہ قاضی کی صواب دید پر ہے کہ وہ کس کی گواہی قبول کرتا ہے اور کس کی گواہی قبول نہیں کرتا، اس میں عورت اور مرد کی کوئی تخصیص نہیں ہے، عورت اگر اپنے بیان میں اُلجھے بغیر واضح طریقے پر گواہی دیتی ہے تو اسے محض اس وجہ سے رد نہیں کردیا جائے گا کہ اس کے ساتھ کوئی دوسری عورت یا مرد نہیں ہے اور مرد کی گواہی میں اگر اضطراب وابہام ہے تو اسے محض اس وجہ سے قبول نہیں کیا جائے گا کہ وہ مرد ہے، عدالت اگر گواہوں کے بیانات اور دوسرے قرائن وحالات کی بنا پر مطمئن ہوجاتی ہے کہ مقدمہ ثابت ہے تو وہ لامحالہ اسے ثابت قرار دے گی اور وہ اگر مطمئن نہیں ہوتی تو اسے یہ حق بے شک حاصل ہے کہ وہ دس مردوں کی گواہی کو بھی قبول کرنے سے انکار کردے۔            (منشور: ص: ۱۸)     تبصرہ: ۔۔۔۔۔غامدی صاحب نے اپنے منشور کی مذکورہ عبارت میں واضح طور پر مسلمانوں کے سارے اسلامی احکام اور معاملات کو ججوں کے حوالے کردیا ہے اور ججوں کو کسی شریعت وقانون کا پابند نہیں رکھا، بلکہ سب کچھ ان کی صواب دید پر چھوڑ دیا ہے کہ جج جو کچھ کرنا چاہتا ہے اس کو مکمل اختیار ہے کہ کسی کی گواہی قبول کرے یا رد کرے، گواہ عورت ہو یا مرد ہو کوئی فرق نہیں ہے، یہ غامدی صاحب کی بہت بڑی گمراہی ہے، اس طرح اس نے شریعت مقدسہ کے اصول وقواعد کو معطل کرکے پارہ پارہ کردیا ہے، حالانکہ قاضی مسلمانوں کے اسلامی حاکم کی طرف سے شریعت کے اسلامی فیصلوں پر مقرر ہوتا ہے اور شریعت کے ہر ضابطے کا پابند ہوتا ہے، اس کا منصب اتنا حساس ہے کہ وہ غصہ کی حالت میں یا قضاء حاجت کی ضرورت کی حالت میں یا بھوک وپیاس کی حالت میں فیصلہ نہیں سناسکتا ہے، کیونکہ ان احوال میں اس کی گرفت شرعی مسئلہ پر مضبوط نہیں ہوتی ہے، مبادا غلط فیصلہ نہ کربیٹھے، قاضی کو شریعت نے قطعاً آزاد نہیں چھوڑا ہے کہ وہ اپنی صواب دید پر فیصلے سنایا کرے، بلکہ اس کو سب سے پہلے قرآن، پھر سنت، پھر اجماعِ امت کے فیصلوں کا پابند بنایا ہے، چنانچہ ترمذی اور ابودائود کی روایت اس طرح ہے : ’’عن معاذ بن جبل رضی اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لما بعثہٗ إلی الیمن قال: کیف تقضی إذا عرض لک قضائ؟ قال: أقضی بکتاب اللّٰہ، قال: فإن لم تجد فی کتاب اللّٰہ؟ قال فبسنۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال: فإن لم تجد فی سنۃ رسول اللّٰہ؟ قال أجتھد برائیٖ ولا آلُو، قال: فضرب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علٰی صدرہٖ وقال: الحمد للّٰہ الذی وفق رسولَ رسولِ اللّٰہ لما یرضٰی بہ رسولُ اللّٰہ۔‘‘(رواہ الترمذی ، باب ماجاء فی القاضی کیف یقضی، ج:۳،ص:۶۱۶، ط:داراحیاء التراث العربی، بیروت) ’’حضرت معاذ بن جبل qسے روایت ہے کہ جب رسول اللہ a نے ان کو (قاضی بناکر) یمن بھیجا تو ان سے پوچھا کہ جب تمہارے سامنے کوئی قضیہ پیش ہوگا تو تم کس طرح فیصلہ کروگے؟ انہوں نے کہا کہ: میں کتاب اللہ کے موافق فیصلہ کروں گا، آنحضرتa نے فرمایا کہ: تمہیں اگر وہ مسئلہ (صراحۃً) کتاب اللہ میں نہ ملا؟ انہوں نے فرمایا کہ پھر سنت رسول اللہ (حدیث نبویl) کے مطابق فیصلہ کروں گا، فرمایا کہ: اگر تمہیں وہ مسئلہ سنت رسول اللہ (l)میں بھی (صراحۃً) نہ ملا؟ انہوں نے کہا کہ پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور اس میں کوتاہی نہیں کروں گا، حضرت معاذq فرماتے ہیں کہ: آنحضرت a نے اپنا دست مبارک اُن کے سینے پر مارا اور فرمایا: تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے رسول اللہ(a) کے قاصد (معاذq) کو اس چیز کی توفیق عطا کی جس سے اللہ کا رسول(a) راضی ہوا ۔‘‘ اس حدیث سے قاضیوں کے فیصلوں کا مأخذ معلوم ہوا جس سے ظاہر ہوا کہ قاضی کی اپنی کوئی صواب دید نہیں ہے، وہ اپنے فیصلوں میں قرآن وسنت اور اس کی روشنی میں صحیح اجتہاد اور اجماعِ امت کا پابند ہے، غامدی صاحب نے غلط کہا ہے اور غلط لکھا ہے، اب چند حدیثوں کا ترجمہ نقل کرتا ہوں، تاکہ معلوم ہوجائے کہ حق کو چھوڑ کر قاضی نے اگر غلط فیصلہ کیا تو دوزخ میں جائے گا۔ ۱:۔۔۔۔۔ حضرت ابوہریرہ q فرماتے ہیں کہ: رسول کریم a نے فرمایا کہ: جو شخص مسلمانوں کے منصب قضاء کا طالب اور خواستگار ہوا، یہاں تک کہ اس نے اس کو حاصل بھی کرلیا اور پھر اپنے فرائض منصبی میں اس کا عدل وانصاف ظلم پر غالب رہا تو وہ جنت کا مستحق ہوگا اور جس قاضی کا ظلم اس کے عدل وانصاف پر غالب رہا تو وہ دوزخ کا سزاوار ہوگا۔ (ابوداود، باب فی القاضی یخطیٔ، ج:۳،ص:۳۲۵، ط: دارالکتاب العربی، بیروت) ۲:۔۔۔۔۔ حضرت بریدہ q سے روایت ہے کہ رسول کریم a نے فرمایا کہ: قاضی تین قسم کے ہوتے ہیں، ایک قسم کے تو جنت میں جائیں گے اور دو قسم کے دوزخ میں جائیں گے، پس جنت میں جانے والاتو وہ قاضی ہے جس نے حق کو پہچانا اور پھر حق ہی کے مطابق فیصلہ کیا اور جس نے حق کو پہچانا مگر اپنے فیصلے میں حق سے تجاوز کیا وہ دوزخ میں جائے گا اور جس نے جہالت کی وجہ سے حق کو نہیں پہچانا اور پھر بھی لوگوں کے تنازعات میں (غلط) فیصلہ کیا، وہ بھی دوزخ میں ہے۔ ‘‘(ابوداود، باب فی القاضی یخطیٔ، ج:۳،ص:۳۲۴، ط: دارالکتاب العربی، بیروت) ۳:۔۔۔۔۔ ایک اور حدیث میں ہے حضرت ابوہریرہq سے روایت ہے کہ آنحضرت a نے فرمایا کہ: جو شخص لوگوں کے درمیان قاضی مقرر کیا گیا (گویا) اس کو بغیر چھری کے ذبح کیا گیا۔ (ترمذی ، باب ماجاء عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی القاضی ، ج:۳،ص:۶۱۴، ط:داراحیاء التراث العربی، بیروت)   ان تمام احادیث سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ قاضی اپنے فیصلوں میں خود مختار نہیں ہوتا، بلکہ وہ شریعت کے قواعد کا پابند ہوتا ہے، اگر اس نے پابندی نہیں کی اور غلط فیصلے کیے تو دوزخ میں جائے گا، اگر حقیقت یہی ہے اور یقینا یہی ہے تو غامدی صاحب کا یہ کہنا غلط ہے کہ تمام معاملات قاضی کی صواب دید پر ہیں، وہ کسی کی گواہی قبول کرے یا نہ کرے، وہ اس ضابطہ کی پابندی بھی نہ کرے کہ گواہی دینے والا مرد ہے یا عورت ہے، پھر ایک عورت ہے یا دو ہیں، ایک مرد ہے یاد س ہیں، بلکہ خود قاضی کا مطمئن ہونا کافی ہے۔ گویا غامدی صاحب کے نزدیک شریعت کا کوئی ضابطہ اور قانون نہیں ہے، پوری شریعت قاضی کے تابع ہے، قاضی شریعت کا تابع نہیں ہے۔ اس طرح غامدی صاحب نے اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کے رسول محمد رسول اللہa کی شریعت کو قاضیوں اور ججوں کے حوالہ کردیا ہے کہ وہ جو کچھ کریں، ان کی مرضی ہے۔ اوپر منشور کی ظاہری عبارت یہی ہے جو سب کے سامنے ہے۔ غامدی صاحب کے دل کو ہم نہیں جانتے کہ اس کے دل میں کیا ہے، عبارت کی روشنی میںتو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ غامدی صاحب شریعت سے منحرف اور پکا گمراہ ہے۔ فقہاء کرام نے تعزیرات میں بے شک قاضیوں کی صواب دید کی بات کی ہے، لیکن غامدی صاحب تو تعزیرات کے بالکل منکر ہیں، وہ برہان میں لکھتے ہیں: ’’ یہ ایک بے معنی بات ہے کہ جرم کے ثبوت اور عدم ثبوت کے درمیان کوئی حالت مانی جائے اور پھر یہ کہا جائے کہ جرم اگر اتنا ثابت ہو تو حد اور اتنا ثابت ہو تو اس پر تعزیر جاری کی جائے گی، عقل سلیم پوری شدت کے ساتھ اسے رد کرتی ہے۔‘‘ (برہان، ص: ۳۴) اسی دفعہ کی اگلی عبارت میں غامدی صاحب نے ایک نیا گمراہ کن شوشہ چھوڑا کہ مرد اور عورت کی گواہی میں تعداد کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے، ایک مرد اور دو عورتوں کو مساوی بنانا اور عورت کی گواہی مردوں کے مقابلے میں نصف بتانا یہ ہمارے فقہاء کی غلطی ہے، چنانچہ ان کی کتاب برہان میں اس کی وضاحت ہے، وہ پہلے سورۂ بقرہ کی اس آیت کو ذکر کرتے ہیں جس میں مرد اور عورت کی گواہی میں فرق ہے اور پھر اس آیت میں تحریف اور باطل تاویل کرتے ہیں، آیت یہ ہے: ’’وَاسْتَشْھِدُوْا شَھِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِکُمْ فَإِنْ لَّمْ یَکُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَّامْرَأَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّھَدَائِ أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاھُمَا فَتُذَکِّرَ إِحْدَاھُمَا الْأُخْرٰی۔‘‘ (البقرۃ:۲۸۲) ترجمہ:’’ اور گواہ کرو دو شاہد اپنے مردوں میں سے، پھر اگر نہ ہوں دو مرد تو ایک مرد اور دو عورتیں ان لوگوں میں سے کہ جن کو تم پسند کرتے ہو گواہوں میں، تاکہ اگر بھول جائے ایک (عورت) ان میں سے تو یاد دلادے اس کو دوسری۔‘‘ شیخ الہند v ترجمہ کے بعد اس آیت کی مختصر تفسیر میں اس طرح فرماتے ہیں:’’ اور تم کو چاہیے کہ اس معاملہ پر کم سے کم دو گواہ مردوں میں سے یا ایک مرد اور دو عورتیں گواہ بنائی جائیں اور گواہ قابل پسند یعنی لائق اعتبار اور اعتماد ہوں۔ ‘‘(تفسیر عثمانی، ص: ۶۱) قرآن عظیم کی یہ واضح آیت ہے جس میں مرد اور عورت کی گواہی کا معیار بیان ہوا ہے، تمام مفسرین نے اس کی تفسیر میں کوئی شک نہیں کیا اور نہ اس میں شقیں بناکر اس فرق کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے، نہ محدثین نے مردوں اور عورتوں کی گواہی کے اس فرق کا انکار کیا ہے اور نہ فقہاء کرام نے شہادت کے اس نصاب پر کلام کیا ہے، آخر میں غامدی صاحب تشریف لائے تو انہوں نے مغرب اور یورپ کو خوش کرنے کے لیے ان واضح آیات میں اگر چہ مگرچہ اور ایں چنیں وآںچناں شروع کردیا اور باطل تاویلیں اختیار کیں اور فقہاء کرام پر ناسمجھی کا فتویٰ لگادیا اور کہا کہ اس آیت سے فقہاء کا استدلال ہمارے نزدیک دو وجوہ سے محل نظر ہے، ایک یہ کہ واقعاتی شہادت کے ساتھ اس آیت کا سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں، یہ دستاویزی شہادت سے متعلق ہے۔      (برھان: ص: ۲۹)     تبصرہ: ۔۔۔۔۔سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ غامدی کون ہے اور اس کے ’’نزدیک‘‘ کیا ہے؟ جو لکھتا ہے کہ ’’ہمارے نزدیک‘‘۔ بھائی غامدی صاحب!!! آپ اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ آپ کی الگ فقہ ہو اور آپ کی تمام امت کے برعکس کوئی قابل احترام رائے ہو، علماء اور فقہاء کی تفسیر وتحقیق کی اتباع کرو، اس پر چلو، بھلائی اسی میں ہے، کیونکہ فقہاء کرام کی تحقیق قرآن وحدیث کے عین مطابق ہے، غلطی آپ کی ہے، فقہاء کو غلط نہ کہو، شاعر نے کہا: چوں بشنوی سخنِ اہل دل مگو کہ خطأ است سخن شناس نہ ای جانِ من! خطأ ایں جا است یعنی جب اہل اللہ علماء وفقہاء کی بات سنو تو یہ نہ کہو کہ یہ غلط ہے، میرے پیارے! بزرگوں کی بات نہ سمجھنا ہی آپ کی بڑی غلطی ہے۔ غامدی صاحب نے یہاں آیت میں یہ تاویل کی ہے کہ اس شہادت کا تعلق دستاویزی شہادت سے ہے، میں ان سے پوچھتا ہوں کہ دستاویزی شہادت ہو یا واقعاتی شہادت کی آپ کی منطق ہو، آخر کار مقدمہ تو عدالت ہی کے پاس جائے گا، وہ وہاں جانچ پڑتال کرے گی کہ نصاب شہادت قرآن وحدیث کے مطابق مکمل ہے یا مکمل نہیں ہے؟ جب معاملہ ایسا ہے تو غامدی صاحب الگ الگ شقیں بنانے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں؟ اور اگر چہ مگر چہ اور ایں چنیں اور آں چناں سے کام کیوں لے رہے ہیں؟ غامدی صاحب دوسری تاویل کرکے لکھتے ہیں کہ: آیت کے موقع ومحل اور اسلوبِ بیان میں اس بات کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ اسے قانون وعدالت سے متعلق قرار دیا جائے، اس میں عدالت کو مخاطب کرکے یہ بات نہیں کہی گئی کہ اس طرح کا کوئی مقدمہ اگر پیش کیا جائے تو مدعی سے اس نصاب کے مطابق گواہ طلب کرو۔ (برہان، ص: ۳۰)     تبصرہ:۔۔۔۔۔ میں غامدی صاحب سے پوچھتا ہوں کہ اس آیت میں قرآن مجید کی مخاطب اگر عدالت نہیں ہے تو آپ ہمیں بتائیں وہ کون لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ شرعی قضاء کا حکم دے رہا ہے؟ اور پھر نصابِ شہادت کی رہنمائی فرما رہا ہے؟ کیا غامدی صاحب نے اس سے یہ سمجھ لیا ہے کہ یہ ان کے دفتر اور آفس کا معاملہ ہے؟ غور کرو! یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جس کا تعلق خالص عدالت سے ہے، گواہوں کی بات ہے، قاضیوں کو حکم ہے اور پھر نصاب شہادت کے پورا ہونے کی بات ہے، اگر مردوں سے یہ نصاب پورا نہیں ہوتا ہے تو پھر دو عورتوں سے اس نصاب کو پورا کیا گیا ہے، پھر اس کی وجہ بھی بتلائی گئی ہے کہ دو عورتیں ایک مرد کے مساوی کیوں ہیں، اس میں عورت کی تخلیقی کمزوری کی طرف اشارہ بھی کیا گیا ہے، جس کی پوری تفصیل بخاری ومسلم کی اس حدیث میں موجود ہے جس میں آنحضرت a نے عورتوں کو ناقصات عقل قرار دیا تو عورتوں میں سے ایک ہوشیار عورت کھڑی ہوگئی اور اس نے اس کی وجہ پوچھی تو آنحضرتa نے فرمایا کہ: کیا دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر نہیں ہے؟ عورتوں نے کہا: ہاں! اسی طرح ہے، تو آنحضرتa نے فرمایا کہ: یہ ان کی عقل کی کمزوری کی دلیل ہے۔ میںجناب غامدی صاحب سے کہوں گا کہ خدا نہ بنو، خدا کے بندے بنو، رسول نہ بنو رسول کے امتی بنو، مجتہد نہ بنو مجتہد کے مقلد بنو، دسیوں پریشانیوں سے نجات پالوگے، زیادہ بلند پرواز نہ رکھو، کہیں زیادہ بلندی سے گر نہ جائو۔ قدر لرجلک قبل الخطو موضعھا فمن علا زلقا عن غرۃ زلجا اپنی مٹی پہ ہی چلنے کا سلیقہ سیکھو سنگ مرمر پہ چلو گے  تو پھسل جائو گے           (جاری ہے)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین