بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

جاوید احمد غامدی سیاق وسباق کے آئینہ میں ( چوتھی قسط )

جاوید احمد غامدی سیاق وسباق کے آئینہ میں        (چوتھی قسط)

تاریخ فتنۂ انکار حدیث اور اس کے اسباب کے بارہ میں محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری نور اللہ مرقدہٗ لکھتے ہیں: ’’۱:…پہلا سبب     یہ ایک حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ امت محمدیہ میں سب سے پہلا فتنہ جس نے سراٹھایا وہ خارجیوں کا فتنہ ہے۔ اسی فتنہ سے ٹکرا کر مسلمانوں کے اتحاد کی چٹان ٹکڑے ٹکڑے ہوئی۔ چنانچہ ان خارجیوں نے رسول اللہ a کے بڑے بڑے صحابہ sسے بے تعلقی کا صاف اعلان کردیا اور حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، شرکاء جنگ جمل اور تحکیم (ثالثی) کو تسلیم کرنے والے تمام صحابہ کرام s کو کافر قرار دے دیا۔ اس تکفیر کے نتیجہ میں ان تمام صحابہ s کی احادیث جو انہوں نے رسول اللہa سے روایت کی ہیں، ان کو صحیح ماننے سے بھی انکار کردیا (کہ راویِ حدیث کے لیے مسلمان ہونا اولین شرط ہے اور یہ سب کافر ہیں) اور اس طرح انکار حدیث وسنت کی تخم ریزی شروع ہوگئی۔ ۲:…دوسرا سبب     پھر اس خارجیوںکے فتنہ کے بالمقابل شیعیت کے فتنہ نے سراٹھایا، حالانکہ شیعیت کا فتنہ ایک سیاسی ہتھکنڈا (اسٹنٹ) تھا (کہ حبّ آلِ رسول کے نام سے ہی اقتدار کی باگ ڈور کسی طرح شیعوں کے ہاتھ آجائے) پھر انہی شیعوں میں سے سبائی رافضیوں کا گروہ منظر عام پر آیا، انہوں نے حضرت علیq کے ماسوا تینوں خلفاء راشدین s کو اور چند طرفدارانِ علیؓ جن کی تعداد میں خود شیعوں کا بھی اختلاف ہے کے علاوہ باقی تمام صحابہ s کو کافر قرار دے دیا۔ اس فتنہ کا فطری نتیجہ تھا کہ انہوں نے ان چند رواۃ کے علاوہ جو ان کے حامی اور طرفدار تھے، باقی تمام صحابہ s کی حدیثوں کو ماننے سے انکار کردیا (کہ یہ سب کافر ہیں)۔ ۳:…تیسرا سبب     اس کے بعد (۲ہجری کے آخر میں) اعتزال (عقل پرستی) کا دور آیا، چنانچہ اس عقل پرستی کے تسلط نے معتزلہ کو ان تمام حدیثوں میں تاویلیں کرنے پر (اور تاویل نہ ہوسکنے کی صورت میں ان کو صحیح ماننے سے انکارکرنے پر) مجبور کردیا، جن کو انہوں نے اپنے عقلی معتقدات کے خلاف محسوس کیا۔ عباسی خلیفہ مامون کے عہد میں جبکہ یونانی فلسفہ کی کتابیں عربی میں ترجمہ ہوکر منظر عام پر آئیں، مذہب اعتزال نے مامون کی سرپرستی میں بڑا فروغ حاصل کیا۔ ۴:…چوتھا سبب     جب خوارج اور معتزلہ دونوں نے اپنے اپنے معتقدات میں غلو کی بنا پر اعمال کو ایمان کا جزء اور رکن قرار دے دیا تو ردعمل کے طور پر ان کے مقابلہ میں مرجئہ کا گروہ اور ارجاء کا عقیدہ منظر عام پر آیا، مرجئہ نے اس عقیدہ میں اتنا غلو کیا کہ صاف کہہ دیا: ’’لاتضر مع الإیمان معصیۃ کما لاتنفع مع الکفر طاعۃ‘‘ ۔۔۔۔۔ ترجمہ: … ’’ایمان کے ہوتے ہوئے معصیت ضرر نہیں پہنچاتی، جیسے کہ کفر کے ہوتے ہوئے کوئی بھی طاعت نفع نہیں پہنچاتی‘‘۔ اس عقیدہ کے نتیجہ میں مرجئہ نے رسول اللہ a کی ان تمام حدیثوں کو ماننے سے انکار کردیا جن میں کبیرہ گناہوں اور معصیتوں کے ارتکاب پر عذاب جہنم کی وعیدیں مذکور ہیں۔ ۵:…پانچواں سبب     اسی زمانہ میں مشہور گمراہ اور غالی شخص جہم بن الصفوان الراسبی جو بعد میں قتل کردیا گیا کا متبع فرقہ جہمیہ منظر عام پر آیا اور صفات باری تعالیٰ پر مشتمل احادیث کا اور روزانہ وجود میں آنے والی جزئیات اور حوادث وواقعات سے متعلق باری تعالیٰ کے علم قبل از وقوع کی احادیث کا انکار کردیا۔ خلق قرآن (قرآن کریم کے مخلوق ہونے) کا فتنہ اور جبر (بندہ کے مجبور محض ہونے) کا عقیدہ بڑے زور وشور سے منظر عام پرآیا، نیز انہوں نے کفار کے ’’خلود فی النار‘‘ (دائمی طور پر جہنمی ہونے)کا بھی جو امت کا اجماعی عقیدہ تھا صاف انکار کردیا۔     الغرض یہ خارجی قدری (معتزلی) شیعہ، مرجئہ، اور جہمیہ وہ بڑے بڑے گمراہ فرقے ہیں جواسلام کے ابتدائی دور میں نمودار ہوئے اور انہوں نے اسلامی عقائد کی وحدت کو پارہ پارہ کردیا۔ انہی فرقوں نے اپنے اپنے اعتقادات کی حمایت کی غرض سے اپنے معتقدات کے مخالف احادیث صحیحہ کو ماننے سے انکار کردیا اور انہی کی بدولت انکارِ حدیث کا فتنہ ایک مستقل فتنہ کی صورت میں وبا کی طرح پھیل گیا۔ یہ ہے انکارِ سنت وحدیث کی یا ان میں تحریف وتصرف اور خود ساختہ تاویلوں کا دروازہ کھولنے کی تاریخ اور اس کے وجوہ واسباب۔ ان خارجیوں، قدریوں، شیعوں، جہمیوں وغیرہ فرقوں نے ساری ہی حدیثوں کا انکار نہیں کیا، نہ ہی ان کے لیے یہ ممکن تھا (کیونکہ یہ فرقے اپنے اپنے مسلک اور معتقدات کو حدیثوں سے ہی ثابت کرنے کی کوشش کرتے تھے، بلکہ یہ فرقے صرف اپنے خلاف حدیثوں ہی کا انکار کرتے تھے) لیکن انہوں نے ایک ایسے راستے کی داغ بیل ڈال دی جس پر چل کر ملحدوں اور زندیقوں نے دینی عقائد واحکام سے گلوخلاصی حاصل کرنے کی غرض سے علی الاعلان تمام ہی حدیثوں کا انکار کرنے اور الحاد وبے دینی کو فروغ دینے کا دروازہ چوپٹ کھول دیا۔ (دور حاضر کے فتنے،ص:۱۶۱) فتنۂ مغربیت     ’’مجمع الزوائد‘‘ میں حافظ نور الدین ہیثمی v نے بحوالہ ’’معجم طبرانی‘‘ ایک حدیث بروایت عصمۃ بن قیس سلمی صحابیؓ    نقل کی ہے: ’’إنہٗ کان یتعوّذ من فتنۃ المشرق، قیل: فکیف فتنۃ المغرب؟ قال: تلک أعظم وأعظم‘‘۔ ترجمہ:…’’نبی کریم a فتنۂ مشرق سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ آپ a سے دریافت کیاگیا کہ مغرب میں بھی فتنہ ہوگا؟ آپ aنے فرمایا کہ: وہ تو بہت ہی بڑا ہے، بہت ہی بڑا ہے‘‘۔     یقین سے تو نہیں کہا جاسکتا کہ آپ aکی مراد فتنۂ مغرب سے کیا ہے؟ ہوسکتا ہے کہ سقوطِ اندلس کی طرف اشارہ ہو کہ وہاں اسلام کا پورا بیڑہ ہی غرق ہوگیا اور نام کا مسلمان بھی کوئی اس ملک میں نہ رہا، تمام ملک پر کفر کا استیلاء ہوگیا، لیکن ہوسکتا ہے کہ بلادِ مغرب کے اس ’’فتنۂ استشراق‘‘ کی طرف بھی اشارہ ہو کہ الحاد وتحریف کا یہ فتنہ مغربی دروازوں سے ہی تمام دنیا کے مسلمان ملکوں میں داخل ہوگا، جو سب فتنوں سے زیادہ خطرناک اور عالم گیر ہوگا، بہرحال الفاظِ حدیث کے عموم میں تو یہ داخل ہے ہی۔     الغرض اس دور میں یہ علمی وعملی فتنے پورے زور وشور اور طاقت وقوت کے ساتھ اسلامی ممالک میں پھیل رہے ہیں، ہمارا ملک نسبتاً ان سے مأمون ومحفوظ تھا، لیکن کچھ تو جدید تعلیم کے اثرات سے کچھ مستشرقین کی وسیسہ کاریوں سے نیز مواصلات کی آسانیوں سے اور مال ودولت کی فراوانی سے اب تو یہ ملک کچھ بعید نہیں کہ اس معاملہ میں دوسرے ملکوں سے گوئے سبقت لے جائے۔ (دور حاضر کے فتنے،ص:۹۹)     عصر حاضر میں تو دنیائے اسلام کے گوشے گوشے میں فتنوں کا ایک ’’سیلاب‘‘ اُمڈ آیا ہے۔ علمی، عملی، دینی، اخلاقی، معاشرتی اور تمدنی اتنے فتنے ظاہر ہوچکے ہیں کہ عقل حیران ہے اور حضرت نبی کریم a کا وہ ارشاد ہے: ’’لتتبعُن سننَ من کان قبلکم ذراعًا بذراع وشبرًا بشبرٍ حتی لو دخل أحدہم جحر ضب لدخلتموہ۔‘‘                                                   (مشکوٰۃ)     یعنی تم بھی پہلی امتوں: یہود ونصاریٰ اور مشرکین کے نقش قدم پر چل کررہوگے اور ان کے اتباع میں اتنا غلو ہوجائے گا کہ اگر بالفرض کوئی کسی گوہ کے سوراخ میں گھسا ہے تو تم بھی اس میں ضرور داخل ہوگے، یعنی فضول ولایعنی اور عبث حرکات میں بھی ان کا اتباع کروگے۔     آج جب ہم دنیائے اسلام کا جائزہ لیتے اور مسلمانوں کے تمدن ومعاشرت کو دیکھتے ہیں تو حضرت رسول اللہ a کی اس حدیث کی پوری تصدیق ہوجاتی ہے۔ مسلمانوں کے موجودہ معاشرے کو جب دیکھتے ہیں، خصوصاً بلاد عربیہ اسلامیہ کا جب جائزہ لیتے ہیں تو بے حد افسوس ہوتا ہے کہ بمشکل کوئی خد وخال ایسا نظر آتا ہے جس سے یہ اندازہ ہوسکے کہ یہ مسلمان ہیں۔ ’’مغربیت‘‘ کے اس سیلاب میں اس طرح بہہ جانا انتہائی دردناک ہے۔ پھر کاش! یہ مغربیت اور یورپ پرستی ظاہر تک ہی منحصر ہوتی، اب تو یہ زہر ظاہر سے تجاوز کرکے باطن تک سرایت کرچکا ہے۔ خیالات، افکار، نظریات، احساسات سب ہی میں یورپ کا چربہ اتارا جانے لگا ہے، مسلمان ملکوں کی یہ تباہی وبربادی دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے، ہم صرف یہ کہہ سکتے ہیں: لمثل ہٰذا یذوب القلب عن کمد إن کان فی القلب إسلام وإیمان     ترجمہ:…’’اگر دل میں ذرا بھی ایمان واسلام ہو تو ان جیسے حالات کو دیکھ کر غم سے دل پگھل کر ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا ہے۔‘‘                     (ماخوذ از عصر حاضر کے فتنے: علامہ سید محمد یوسف بنوریؒ ،ص:۱۶) دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے کیا جاوید احمد غامدی کو اجتہاد کا حق حاصل ہے؟ ہر آدمی پر وساوس کی کثرت سے ایک رنگ چڑھ جاتا ہے، پھر یہ وساوس اس شخص کے خیالات اور اس کے تفکرات اور رجحانات کو متأثر کردیتے ہیں، پھر وہ شخص عُجب، پندار اور خود پسندی کا شکار ہوجاتا ہے، اس موقع پر مرکزِ وساوس شیطان لعین اس کا پیچھا کرتا ہے اور اس کے دل ودماغ میں دن رات ایسے ایسے جدید نکتے اور جدید علمی حقائق القاء کرتا رہتا ہے، جس کی وجہ سے یہ شخص سمجھ بیٹھتا ہے کہ وہ اجتہاد کے کسی اعلیٰ مقام پر پہنچ گیا ہے، پھر وہ قلم اٹھاتا ہے اور قرآن وحدیث کے نصوص اور احکام کو تختۂ مشق بناتا ہے اور ابلیس لعین اپنے القاء ات کو مزید تیز کرتا رہتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’وَإِنَّ الشَّیَاطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ إِلٰی أَوْلِیَائِ ھِمْ لِیُجَادِلُوْکُمْ، وَإِنْ أَطَعْتُمُوْھُمْ إِنَّکُمْ لَمُشْرِکُوْنَ۔‘‘                                                           (الانعام:۱۲۱) ترجمہ:۔۔۔’’ اور شیاطین اپنے دوستوں کو القاء ات کرتے رہتے ہیں، تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں اور اگر تم نے شیاطین کی اطاعت کی تو بے شک تم مشرک بن جائوگے۔‘‘      پھر یہ شخص دین اسلام کے مسلمات کو نیا رخ دے کر نئے ڈھب پر لاتا ہے اور ایک فتنہ کھڑا کردیتا ہے۔ جاوید احمد غامدی اور ان کے شاگردوں کے ساتھ یہی کچھ ہوا ہے اور ان کے پیشرو اس قسم کے وسواسی لوگوں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا ہے۔ اس قسم کے لوگ اپنے بارے میں بہت بڑی خودرائی، پندار اور اعجاب بالرائے کے شکار ہوتے ہیں، یہاں تک کہ درجۂ اجتہاد کے منصب سے بڑھ کر ان میں سے بعض نے تو نبوت کا دعویٰ کیا۔ حکایت:     ہمارے ہاں بٹگرام میں ایک شخص کا نام فیض محمد ہے، مالی پریشانیوں نے جب اس کو بہت تنگ کیا تو وہ وساوس کا شکار ہوگیا اور اس نے علی الاعلان کہہ دیا کہ میں ’’گورنمنٹ ہوں‘‘ میں نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں کاغذ کے ٹکڑے ہوتے تھے اور وہ اس پر لکھتا رہتا تھا کہ میں وزیر اعلیٰ کو حکم دیتا ہوں کہ اتنے کروڑ روپے فلاں کو دیدو اور اتنے کروڑ فلاں کو دیدو، وہ خط نہیں لکھ سکتا تھا، صرف انگریزی میں ہندسے لکھ کر آرڈر جاری کرتا تھا، گائوں کے لوگوں کے ہاں اس کا نام ہی گورنمنٹ چچا پڑگیا، اب وہ شخص لاہور میں کہیں چوکیدار ہوگیا ہے۔ میں غامدی صاحب سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ بھی گورنمنٹ چچا نہ بنو، وقت کے سارے علمائ، عقلائ، عرفاء اور ارباب نظر کہتے ہیں کہ آپ غلط راستے پر چل پڑے ہیں اور آپ بضد ہیں کہ میں صحیح راستہ پر ہوں۔ ادھر دنیا کے سارے اہل باطل نے آپ کو خوش آمدید کہا ہے۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ واقعی غلطی کر رہے ہیں۔ علماء کی نصیحت کے باوجود باز آجانے کے بجائے آپ مزید غلطیوں میں غوطے کھارہے ہیں اور دوسروں کو غلط کہہ رہے ہیں اور دین اسلام کو لاوارث لاش سمجھ کر اُسے بھنبھوڑرہے ہیں، لیکن یاد رکھو! یہ دین لاوارث نہیں ہے، اس کی حفاظت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے جو اس کا محافظ ہے: ’’اِنَّ لِلْإِسْلَامِ رَبًّا یَحْمِیْہِ۔‘‘ ایک ضابطہ علماء نے لکھا ہے کہ جب عمل میں آدمی غلطی کر تا ہے تو وہ کسی وقت توبہ کرکے ہدایت پر آسکتا ہے، لیکن جب علم غلط ہوجاتا ہے تو آدمی ایسا گمراہ ہوجاتا ہے کہ ہدایت پر آنے کا امکان ختم ہوجاتا ہے۔ دیکھو روافض کا علم غلط ہوگیا ہے، قادیانیوں اور آغاخانیوں کا علم غلط ہوگیا ہے، ذکریوں کا علم غلط ہوگیا ہے، ہندئووں اور سکھوں کا علم غلط ہوگیا ہے تو وہ اپنی گمراہی سے پیچھے ہٹنے کا نام ہی نہیں لیتے ہیں۔ غامدی صاحب اور ان کے شاگردوں کا اجتہاد کے میدان میں علم غلط ہوگیا ہے، دین اسلام کے ابتدائی اساسی نقشہ میں بھی ان کا علم غلط ہوگیا ہے اور انہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ یہ دین بے شک دین برحق ہے، لیکن اس کے بہت سارے احکامات دور اول کے صحابہ کرام s کے لیے تھے، ہمیشہ کے لیے نہیں اور اصل رسالت حضرت ابراہیمmکی ہے، محمد a بطور مجدد تشریف لائے ہیں، اس قسم کے دیگر خطرناک دعاوی بھی ہیں جو میں آئندہ لکھوں گا، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ غامدی صاحب اپنے آپ کو مجتہد سمجھتے ہیں اور اپنے اجتہاد پر جمے ہوئے ہیں، لہٰذا سردست اجتہاد کی تعریف وشرائط اور اس کے مقام کو واضح کرنا ضروری ہے۔ اجتہاد کا مقام شریعت میں اجتہاد کا بہت بڑا مقام ہے، لیکن اجتہاد کا ایک تعارف اور پہچان ہے اور اس کے لیے چند شرائط ہیں، ہر آدمی اجتہاد کی اہلیت نہیں رکھتا، اگر چہ وہ بزعم خود اپنے آپ کو بڑا مجتہد سمجھتا ہو۔ چنانچہ ’’الوجیز‘‘ میں اجتہاد کی تعریف یہ لکھی ہے : ’’ ھو بذل المجتھد وسعہٗ فی طلب العلم بالأحکام الشرعیۃ بطریق الاستنباط۔‘‘ ترجمہ: ’’ بطور استنباط احکام شرعیہ کے حاصل کرنے میں مجتہد کی پوری کوشش کا نام اجتہاد ہے۔‘‘  ’’قواعد الفقہ، صفحہ:۱۶۰ ‘‘میں اجتہاد کی تعریف اس طرح ہے: ’’ھو فی الاصطلاح استفراغ الفقیہ الوسع لیحصل بہ الظن بحکم شرعی۔‘‘ ترجمہ:’’ فقیہ کا انتہائی کوشش کرنا، تاکہ اس کو شرعی حکم کا ظن غالب حاصل ہوجائے۔ ‘‘ ’’قاموس الوحید‘‘ میں علامہ وحیدالزمان کیرانوی vنے اجتہاد کی اردوتعریف اس طرح کی ہے: ’’اجتہاد ماہر فقیہ کی اس آخری کوشش کا نام ہے جو کسی معاملہ میں حکم شرعی کا ظن غالب حاصل کرنے کے لیے کی جائے۔ ‘‘                           (القاموس الوحید:ص: ۲۹۰) ان تعریفات میں حکم شرعی حاصل کرنے کی قید لگی ہوئی ہے۔ اگر کوئی شخص حکم شرعی کی غرض سے نہیں بلکہ لغوی حسی یا عقلی احکام سے واقفیت حاصل کرنے کی غرض سے اجتہاد کرتا ہے تو وہ اجتہاد ناقابل اعتبار ہوگا۔ آج کل ماڈرن طبقہ اجتہاد کرنے کا زور لگاتا ہے۔ ان کا مقصد حکم شرعی حاصل کرنا نہیں ہوتا، بلکہ غیر شرعی حکم تلاش کرنے کے لیے اجتہاد کا دروازہ کھلا رکھناچاہتا ہے۔ غامدی صاحب اور ان کے شاگرد اجتہاد کی اسی وادی میں سرپٹ دوڑ رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے اس مکروہ اجتہاد کے ذریعہ سے دسیوں غیر شرعی احکامات کا استنباط کیا ہے۔ تعجب اس پر ہے کہ غامدی صاحب اور ان کے شاگردوں کو دین اسلام میں نقب زنی اور اس کے احکام کی تغلیط ہی نظر آرہی ہے، جب بھی قلم اٹھاتے ہیں کسی اسلامی حکم کے خلاف ہی لکھتے ہیں۔ کیا اسلام کی خدمت کا یہی پہلو ان کو نظر آرہا ہے؟ خدمت کا کوئی اچھا پہلو اُن کو نظر کیوں نہیں آتا؟ چنانچہ غامدی صاحب نے اپنی کتاب ’’میزان‘‘ کا تعارف اس طرح کیا ہے:  ’’اسلام کو جس طرح میں نے سمجھا ہے، یہ اس کا بیان ہے۔‘‘ (غامدی علماء کی نظر میں، ص: ۴۱)  غامدی نے مزید لکھا ہے کہ : ’’کم وبیش ربع صدی کے مطالعہ وتحقیق سے میں نے اس دین کو جو کچھ سمجھا ہے، وہ اپنی کتاب میزان میں بیان کردیا ہے۔ اس کی ہر محکم بات کو پرودگار کی عنایت اور میرے جلیل القدر استاد امام امین احسن اصلاحی کے فیض تربیت کا نتیجہ سمجھئے۔‘‘            (دیباچہ اخلاقیات)  اِنہیں نا اہل لوگوں کے مجتہدبن بیٹھنے کے بارے میں علامہ ابن خلدون vنے اپنے مقدمہ میں اجتہاد سے متعلق فیصلہ کن رائے لکھی ہے، فرماتے ہیں:  ’’ اسلامی ممالک میں لوگوں نے انہیں چاروں اماموں کی تقلید پر قناعت کیا ہے اور دیگر اماموں کی تقلید کرنے والوں کا نام ونشان باقی نہ رہا، لوگوں نے اختلافِ مسالک کا دروازہ بند کردیا، کیونکہ علوم کی اصطلاحات کی کثرت ہوگئی اور اجتہاد کے مقام تک پہنچنے کے لیے لوگوں میں صلاحیت نہیں رہی اور اس لیے بھی کہ ہر کس وناکس مجتہد نہ بن بیٹھے۔ اس لیے صراحت سے کہہ دیا کہ اب لوگ اجتہاد کی صلاحیت سے عاجز ہیںاور سب تقلید کے لیے مجبور ہیں۔ ‘‘   (مترجم مقدمہ ابن خلدون) علامہ مزید لکھتے ہیں: ’’ آج فقہ کا بس اتنا ہی مفہوم ہے، اگر آج کوئی مجتہد بن بیٹھے تو اس کے اجتہاد کو کوئی تسلیم نہیں کرے گا اور نہ اس کی تقلید پر کوئی آمادہ ہوگا، آج دنیا کے تمام مسلمان انہیں چار اماموں کی تقلید کی طرف لوٹ گئے ہیں۔‘‘                           (مقدمہ ابن خلدون مترجم: ۳۴۳) علامہ ابن خلدون v کی ایک عربی عبارت ملاحظہ ہو، فرماتے ہیں:  ’’ومدعی الاجتھاد لھذا العھد مردود علی عقبہ ومھجور تقلیدہٗ وقد صار أھل الإسلام الیوم علی تقلید ھؤلاء الائمۃ الأربعۃ ۔‘‘        (مقدمہ ابن خلدون، ج :۱، ص: ۴۴۸) ترجمہ:۔۔۔’’ اس دور میں اجتہاد کا دعویٰ کرنے والا پیچھے دھکیل دیا گیا ہے اور اس کی تقلید ترک کردی گئی ہے اور آج کے مسلمان ائمہ اربعہ کی تقلید پر جمع ہوچکے ہیں۔ ‘‘ ابن خلدون vکے کلام سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ اب اجتہاد کا دروازہ بند ہوچکا ہے اور اس پر سینکڑوں سال سے پہلے اجماع منعقد ہوچکا ہے۔ علماء امت اور فقہاء ملت نے اجتہاد کی اہلیت کے لیے جو شرائط مقرر کی ہیں، اس کی کچھ تفصیل اس طرح ہے: ۱:…عربی زبان میں مہارت: اس شرط کی ضرورت اس لیے ہے کہ اسلامی شریعت کی زبان عربی ہے اور قرآن وحدیث کی زبانِ فصاحت وبلاغت آسمانِ عروج پر ہے، اس لیے جب تک کوئی مجتہد عربی زبان کے مختلف اسالیب، محاورات اور ضرب الامثال کو اچھی طرح نہیں سمجھتا، وہ قرآن وحدیث کے مفاہیم اور عبارتوں کی تلمیحات واشارات وامثال کو کیسے سمجھ سکتا ہے؟ ۲:…قرآن حکیم کا علم:اجتہاد کے لیے یہ شرط اس لیے ضروری ہے کہ قرآن کریم ہی اصل الاصول ہے اور ہر دلیل کا مرجع ہے۔ قرآن کے علم کا مطلب یہ ہے کہ مجتہد کو یہ معلوم ہو کہ قرآن حکیم میں کتنی آیات احکام سے متعلق ہیں، ناسخ اور منسوخ کیا ہے اور احکامات کے اسباب نزول کیا ہیں۔ ۳:…سنت کا علم: اس کا مطلب یہ ہے کہ مجتہد کو احادیث میں صحیح اور ضعیف کی پہچان ہو، راویوں کا حال جانتا ہو، جرح وتعدیل کا علم رکھتا ہو، احادیث کو ایک دوسرے پر ترجیح کے قواعد کا علم رکھتا ہو اور ناسخ ومنسوخ کے اصول کو جانتا ہو۔ ۴:…اصول فقہ کا علم : مجتہد کے لیے اصول فقہ کا علم اس لیے ضروری ہے کہ اس علم کے ذریعہ سے وہ شرعی دلائل اور اس کے مآخذ ومصادر اور احکام کے استنباط کے طریقے جان لیتا ہے۔ ۵:…مواقع اجماع کا علم: یہ شرط اس لیے ضروری ہے تاکہ مجتہد کی نظر اس پر ہو کہ شرعی احکام میں کہاں کہاں علماء کا اجماع منعقد ہوا ہے، تاکہ یہ مجتہد ایسے حکم کا استنباط نہ کرے جو علماء کے اجماع کے خلاف ہو۔ ۶:…مقاصد شریعت کا علم: یہ شرط اس لیے ضروری ہے کہ شریعت میں احکام کی علتوں اور لوگوں کی مصلحتوں کا جو خیال رکھا گیا ہے وہ مجتہد کی نظر میں ہو، وہ عوام کے عرف وعادت سے واقف ہو، کیونکہ لوگوں کے مصالح کی رعایت ان چیزوں کے جاننے کے بغیر ممکن نہیں ہے اور لوگوں کے مصالح کی رعایت شریعت کے مقاصد میں سے ہے۔ ۷:… فطری استعداد: یہ شرط اس لیے ہے کہ فطری صلاحیت اگر مجتہد میں نہ ہو، صرف علمی ردّوکد سے وہ مقاصد حاصل نہیں ہوسکتے ہیں جو ایک مجتہد کے لیے ضروری ہے، یہاں زورِ قلم اور قلمکاری ومضمون نگاری نہیں، بلکہ ٹھوس اور سلیم فطرت کی ضرورت پڑتی ہے۔ مندرجہ بالا سات شرائط عام فقہائے کرام نے مقرر کی ہیں، لیکن علامہ آمدی vنے ’’مناھج الاجتہاد ،ص: ۳۶۱‘‘ پر ایک بنیادی شرط لکھی ہے، وہ یہ کہ مجتہد کے لیے ضروری ہے کہ اس کا اللہ تعالیٰ پر اس کے رسولa پر اور یوم آخرت پر کامل اور مکمل ایمان ہو اور اس کو ضروریاتِ دین کے تمام امور کا علم ہو اور وہ جانتا ہو کہ اس کے بغیر آدمی مسلمان نہیں ہوسکتا ہے۔ امام غزالی v نے ایک اضافی شرط لکھی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ: مجتہد کے لیے ضروری ہے کہ وہ متقی اور پر ہیزگار ہو، عادل ہو اور ہر ایسی بات سے بچنے والا ہو جو افتاء اور قضاء کے منصب پر فائز کسی بھی شخص کو مجروح ومتہم کرنے والی ہو۔ بہرحال ان شرائط اور تعریفات کا اکثر حصہ مولانا ڈاکٹر محمدمیاں صدیقی کی کتاب ’’ائمہ اربعہ کے اصول اجتہاد،باب: ۵ ،صفحہ: ۱۶۰ تا صفحہ: ۱۶۷ ‘‘سے بطور خلاصہ لیا گیا ہے۔ اس بحث کے لکھنے سے میرا مقصد یہ ہے کہ آج کل اجتہاد کے شوقین دعویداروں کی آنکھیں کھل جائیں کہ اجتہاد کا میدان کیا ہے اور یہ بے چارے کس گلی میں بند پڑے ہیں ۔ واللّٰہ الموفق وھو یھدی السبیل۔         (جاری ہے)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین