بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

جاوید احمد غامدی سیاق وسباق کے آئینہ میں ( نویں قسط )

جاوید احمد غامدی سیاق وسباق کے آئینہ میں        (نویں قسط)

موسیقی سے متعلق غامدی کا گمراہ کن نیا مذہب ماقبل میں تصویر سے متعلق غامدی صاحب کے منشور کا جو حصہ پیش کیا گیا ہے، اسی دفعہ: ۱۲ کے ذیل میں غامدی صاحب لکھتے ہیں کہ: ’’ موسیقی اور دوسرے فنون لطیفہ کے بارے میں یہ حقیقت تسلیم کی جائے کہ ان میں سے کوئی بھی اصلاً ممنوع نہیں ہے، بلکہ یہ ان کی نوعیت اور ان کا استعمال ہے جو بعض حالات میں ان کی ممانعت کا سبب بن جاتا ہے اور (وہ بھی) اس طرح از روئے تشریع نہیں بلکہ از روئے قضاء بعض صورتوں میں ان کی حرمت کا حکم ہے۔‘‘          (منشور: ۱۳) تبصرہ: غامدی صاحب نے موسیقی کے جواز کا جو فتویٰ دیا ہے یہ ان کی کسی غلط فہمی یا اجتہاد یا تحقیق میں لغزش کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ یہ غامدی صاحب نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حق کے مقابلے میں ایک گمراہ کن راستے اور نئے مذہب کا انتخاب کیا ہے۔ موسیقی کا عمل اور موسیقار لوگوں کا کردار معاشرے میں ہر کس وناکس کی نظروں میں اخلاقی اعتبار سے ایک گھٹیا کام ہے، کوئی شریف آدمی سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہ غلط حرکات اور یہ غلط کام شریعت کا حصہ ہوسکتے ہیں۔ سوچنے کا مقام ہے جو کام کسی مسجد ومدرسہ کے قریب بھی برداشت نہیں کیا جاتا ہے، بلکہ شرافت کی محفلوں میںبھی اس کو گوارا نہیں کیا جاتا ہے، اس قبیح عمل کے بارے میں غامدی صاحب اپنے منشور میں لکھتے ہیں کہ: شریعت میں یہ اصلاً ممنوع نہیں ہے اور اگر خارجی اور عارضی وجوہات سے اس کو برا مان کر حرام کہا جاتا ہے تو وہ بھی شرعی اعتبار سے نہیں بلکہ کسی آدمی کے فیصلے کے اعتبار سے ہوگا، گویا شریعت نے کبھی بھی موسیقی کو حرام اور ممنوع نہیں کہا ہے۔ غور فرمالیجئے کہ غامدی صاحب کے ہاں تصاویر اور آڈیو ویڈیو فلمیں اور باجے گاجے، آرمونیم اور طبلے، سارنگیاں اور رقص وسرود سے اچھا معاشرہ تشکیل پاتا ہے، اس لیے انہوںنے اس کو اپنے منشور کا بنیادی حصہ بنادیا۔ موسیقار، فلمسٹار، اداکار جیسے لوگوں کے یہ مخرب اخلاق افعال اور اخلاق باختہ لوگوں کی یہ ناشائستہ حرکات خبیثہ کو غامدی صاحب نے فنونِ لطیفہ کے نام سے یاد کیا ہے۔ درحقیقت یہ فنون لطیفہ نہیں ہیں، بلکہ فنون خبیثہ ہیں جو نفوسِ خبیثہ کا محبوب مشغلہ ہے۔ غامدی صاحب نے ان قبیح افعال کو اپنی قلم کاری اور مضمون نگاری اور اپنی ہوشیاری وعیاری ومکاری ودعاری وشطاری کے زور سے دو حصوں میں تقسیم کیا ہے: ایک اس کا تشریعی مقام ہے، اس میں تو یہ بالکل جائز ہے۔ دوسرا اس کا مقام قضاء ہے جو کسی قاضی کا اپنا فیصلہ ہوتا ہے تو قاضی کے فیصلے اور حکمت ومصلحت کے اعتبار سے کسی صورت کو حرام کہا جاسکتا ہے، ورنہ نہیں۔ سبحان اللہ! کسی حرام عمل کو جائز کے زمرے میں لانے کے لیے غامدی صاحب کتنی محنت کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے غامدی صاحب کو زور قلم عطا فرمایا، قوت گویائی عطا فرمائی، مضمون نگاری کا سلیقہ عطا فرمایا، کاش! اگر غامدی صاحب راہِ راست پر چلنے لگتے اور ان کی یہ محنت حق کی حمایت کے لیے ہوتی۔ میں پوچھتا ہوں تصویر و موسیقی اور فنونِ لطیفہ کے اختیار کرنے میں آزاد منش اور اخلاق باختہ لوگ غامدی صاحب کے کسی فتویٰ کے انتظار میں تو بیٹھے ہوئے نہیں تھے جس نے غامدی صاحب کو موسیقی کے جواز کے فتویٰ دینے پر مجبور کیا؟ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ غامدی صاحب کو اس خلافِ شرع فتویٰ صادر کرنے کے لیے اس کی اسی گمراہ ذہنیت نے مجبور کیا جو امین احسن اصلاحی اور حمیدالدین فراہی سے ان کو میراث میں ملی ہے اور پھر غامدی صاحب نے اپنے پیروکاروں کے سپرد کردی ہے: ’’والولد شر الثلاثۃ‘‘ ۔ اب میں قرآن وحدیث، اجماع امت اور فقہاء کے فتووں کی روشنی میں موسیقی سے متعلق کچھ مختصر عرض کرنا چاہتا ہوں، اگر چہ موسیقی کا مسئلہ بہت وسیع اور تفصیل طلب ہے، لیکن میرے پاس نہ اتنا وقت ہے اور نہ یہاں زیادہ ضرورت ہے۔ موسیقی کی حرمت وممانعت پر قرآن کی آیات غنا اور مزامیر اور گانے بجانے کی حرمت سے متعلق قرآن عظیم میں چار آیات ہیں، میں یہاں صرف دو آیتوں کو نقل کرتا ہوں، پہلی آیت سورۂ لقمان میں ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد عالی ہے: ’’ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَھْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّیَتَّخِذَھَا ھُزُوًا أُولٰئِکَ لَھُمْ عَذَابٌ مُّھِیْنٌ۔‘‘                                        (لقمان : ۶) ترجمہ:’’ بعض لوگ ایسے ہیں جو ان باتوں کے خریدار ہیں جو اللہ سے غافل کرنے والی ہیں، تاکہ بے سمجھے بوجھے اللہ کی راہ سے بھٹکائیں اور اس راہ کی ہنسی اڑائیں، ایسے لوگوں کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔ ‘‘ تفسیر:۔۔۔۔۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی v تفسیر عثمانی میں لکھتے ہیں کہ سعدائے مفلحین کے مقابلہ میں یہ ان اشقیاء کا ذکر ہے جو اپنی جہالت اور ناعاقبت اندیشی سے قرآن کریم کو چھوڑ کر ناچ، رنگ، کھیل تماشے، یا دوسری واہیات وخرافات میں مستغرق ہیں، چاہتے ہیں کہ دوسروں کو بھی انہیں مشاغل و تفریحات میں لگاکر اللہ کے دین اور اس کی یاد سے برگشتہ کردیں اور دین کی باتوں پر خوب ہنسی مذاق اڑائیں۔  حضرت حسن بصریv ’’لھوالحدیث‘‘ کے متعلق فرماتے ہیں: ’’ھو کل ما شغلک عن عبادۃ اللّٰہ وذکرہٖ من السمر والأضاحیک والخرافات والغناء ونحوھا۔‘‘                                        (روح المعانی) ’’ لہو الحدیث ہر وہ چیز ہے جو اللہ کی عبادت اور یاد سے ہٹانے والی ہو، مثلاً فضول قصہ گوئی، ہنسی مذاق کی باتیں، واہیات مشغلے اور گانا بجانا وغیرہ ‘‘۔ روایات میں ہے کہ نضر بن حارث نے ایک گانے والی لونڈی خرید کی تھی جس کو دیکھتا کہ اس کا دل نرم ہوا اور اسلام کی طرف جھکا، اس کے پاس لے جاتا اور کہہ دیتا کہ اسے کھلا پلا اور گانا سنا ، یہ اس سے بہتر ہے جدھر محمد بلاتے ہیں ۔                              (تفسیر عثمانی: ۵۴۷ کاخلاصہ) سنن بیہقی اور مستدرک حاکم اور تفسیر ابن جریر میں حضرت عبداللہ بن مسعودq نے ’’لھو الحدیث‘‘ کی تفسیر میں فرمایا :’’ھو واللّٰہ الغنائ‘‘ یعنی ’’خدا کی قسم! اس سے مراد گانا ہی ہے۔‘‘ حضرت ابن عباس q ’’لھوالحدیث‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں :’’ ھو الغناء وأشباھہ۔‘‘ یعنی ’’لھوالحدیث‘‘ سے مراد گانا اور اسی قسم کی چیزیں ہیں۔ ‘‘ امام تفسیر حضرت مجاہد v فرماتے ہیں:’’ ھو اشتراء المغنی والمغنیۃ والاستماع إلیہ وإلی مثلہ من الباطل۔ ‘‘یعنی ’’لہو الحدیث‘‘ سے گانے والے غلام اور گانے والی لونڈی کا خریدنا اور اس کا گانا سننا مراد ہے اور اس جیسی دیگر خرافات کا سننا مراد ہے۔ ‘‘                             (بحوالہ اسلام اور موسیقی، تألیف: مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع v : ۹۱، ۹۲) گانا اور طبلے باجے کی حرمت پر دوسری آیت سورۂ بنی اسرائیل میں ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:  ’’وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْھُمْ بِصَوْتِکَ۔‘‘                       (بنی اسرائیل: ۶۴) ترجمہ:’’ ان میں سے جس پر تو قابو پائے اسے اپنی آواز کے ذریعے (راہ راست سے) ہٹادے۔ ‘‘ تفسیر :اس آیت میں ’’بصوتک‘‘ کے الفاظ ہیں، اس کی تفسیر میں مفسرین نے لکھا ہے کہ اس سے گانا مراد ہے، چنانچہ روح المعانی ج: ۱۵،ص: ۱۱۱ میں اس طرح ہے: ’’ قال ابن جریرؒ: ’’بصوتک‘‘ قال: باللھو والغنا‘‘ یعنی ’’صوت سے مراد لہو ولعب اور گانا ہے۔ ‘‘علامہ سیوطیv اپنی تفسیر ’’الاکلیل‘‘ میں مجاہدv کے حوالہ سے لکھتے ہیں: ’’قال مجاھدؒ: صوت الغناء والمزامیر وقال الحسنؒ: الدف‘‘ یعنی ’’مجاہدv نے صوت کی تفسیر گانے اور آلات غنا سے کی ہے اور حسن بصریv نے صوت سے دف مراد لیا ہے۔‘‘ ابن ابی حاتمv نے اپنی تفسیر ’’إغاثۃ اللہفان، ج:۱، ص:۲۵۵‘‘ پر ابن عباسq کی روایت میں’’ بصوتک‘‘ کی تفسیر یہ نقل کی ہے کہ اس سے مراد ہر وہ چیز ہے جو گناہ اور نافرمانی کی طرف بلائے اور یہ بات معلوم ہے کہ گناہ کی طرف بلانے والی چیزوں میں سب سے بڑھ کر گانا ہے۔ اور اسی وجہ سے شیطان کی آواز کی تفسیر گانے سے کی گئی ہے اور حضرت مولانا مفتی محمد شفیعv ان آیات کی تفاسیر کے بعد فرماتے ہیں کہ مذکورہ بالا آیات سے ان تفاسیر کی روشنی میں بظاہر یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ غنا ومزامیر مطلقاً حرام ہیں۔              (بحوالہ اسلام اور موسیقی،ص: ۱۰۳) راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ سوچنے کا مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی عظیم کتاب قرآن مجید میں آلات لہو ولعب اور طبلے وباجے کو گمراہی کا سبب بتایا اور اس کی ممانعت کو بیان فرمایا، اس کے مرتکب کو اللہ تعالیٰ کے راستے یعنی دین اسلام اور راہ حق سے گمراہ کرنے والا قرار دیا اور اس کے لیے ذلت آمیز عذاب کا وعدہ فرمایا، باجے گاجے اور طبلے سارنگیوں کو شیطان کی ملعون آواز قرار دیا جس سے وہ لوگوں کو کھینچ کر گمراہ کرتا ہے۔ ان آلات لہو ولعب اور باجوں گاجوں کی محافل کو بے ہودہ اور بدترین جھوٹ قرار دیا، جس میں داخل ہونے والے اچھے لوگ نہیں ہوتے ہیں، ایک طرف تو موسیقی کی اتنی شدید وعید اور شدید ممانعت کو دیکھئے اور دوسری طرف غامدی صاحب کو دیکھ لیجئے، وہ اس کو فنون لطیفہ کہتے ہیں جو اصلاً ممنوع نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ممنوع ہیں، غامدی صاحب کہتے ہیں: ممنوع نہیں ہیں۔ یہ بات انتہائی خطرناک ہے۔ پھر سوال یہ ہے کہ غامدی صاحب ایک ناجائز کام کو جائز کہہ کر اسلام اور مسلمانوں کی کونسی خدمت کر رہے ہیں؟ اس لکھنے کا فائدہ کیا ہے؟ اور پھر منشور کا دفعہ بناکر اس کو اتنا اہم کیوں بناتے ہیں؟ بس صرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس شخص کی رگ وریشہ میں گمراہی گھر کر چکی ہے، اب ہر جگہ اس کو رحمن کے نظام کے مقابلے میں شیطان کا نظام اچھا لگتا ہے ۔ شیطان کی آواز کی تفصیل سورۂ بنی اسرائیل کی آیت میں ’’صوتک‘‘ سے تمام مفسرین نے شیطان کی آواز مراد لی ہے اور شیطان کی آواز سے گانے اور باجے وغیرہ مراد لیے ہے۔ شیطان چونکہ اللہ تعالیٰ کا دشمن ہے، اس نے کھل کر بغاوت کی اور پھر قسم کھا کر بغاوت کے راستے کو اختیار کرنے اور لوگوں کو اس پر چلانے کا اعلان کیا، اللہ تعالیٰ نے نبی آخرالزمانa کے ذریعہ سے شیطان کے ہر راستے کو مسدود کرنے کا انتظام فرمایا، چونکہ شیطان اللہ تعالیٰ کا دشمن ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ کو شیطان کی آواز بہت بری لگتی ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن وحدیث میں شیطان کی آواز سے بھر پور نفرت کا اظہار کیا گیا ہے اور جہاں جہاں شیطان کی آواز سے مشابہ کوئی آواز اٹھتی ہے، اللہ تعالیٰ اس کو ممنوع اور حرام قرار دیتے ہیں۔  شیطان کی آواز اگر کسی نے نہیں سنی ہے تو جن لوگوں پر جنات چڑھ آتے ہیں وہ لوگ ابتدا میں ایک پتلی اونچی چیخ مارتے ہیں جس سے ہر سننے والا خوفزدہ ہوجاتا ہے، یہی شیطان کی آواز ہے۔ کیونکہ جنات اور شیاطین ایک ہی نوع ہے، فرق اتنا ہے کہ جو کم شرارتی ہوں وہ جنات ہیں، جو انتہائی شرارتی ہوں وہ شیاطین ہیں اور جن میں شرارت نہ ہو وہ پریاں ہیں۔ تو جنات کی آواز اور شیطان کی آواز ایک طرز پر ہے، گویّے اور ڈوم جب گانا گاتے ہیں تو ان کی آواز شیطان کی طرح ہوتی ہے، آرمونیم اور باجے ،بانسری کی آواز اسی طرح ہوتی ہے، اسی لیے قرآن وسنت میں ان آوازوں کو شیطان کی آواز کہہ کر حرام قرار دیا ہے۔ سورۂ بنی اسرائیل کی آیت میں جو ’’بصوتک‘‘ کا کلمہ ہے، مفسرین نے شیطان کی آواز ہی کو گانا قرار دیا ہے۔ مفتی محمد شفیع v فرماتے ہیں: معلوم ہوا گانا بجانا شیطان کا ہتھیار ہے، جس کے ذریعہ سے وہ نوعِ انسان کو سیدھے راستے سے بھٹکانے کا کام لیتا ہے۔     اسی طرح مصیبت کے وقت میت پر نوحہ اور بین کرنے کو حرام قرار دیا گیا ہے، کیونکہ نوحہ خوانی اور سوز خوانی میں بھی شیطان کی آواز کی طرح آواز ہوتی ہے۔ عمدۃ القاری نے ایک روایت نقل کی ہے، الفاظ یہ ہیں :’’ ولایغنی إلا الشیطان‘‘۔ ۔۔ ’ ’گاناصرف شیطان گاتا ہے۔‘‘ بہرحال شیطان کے مشابہ افعال اور شیطان کے مشابہ اصوات واقوال سے اسلام منع کرتا ہے۔            (جاری ہے)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین