بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

جاوید احمد غامدی سیاق وسباق کے آئینہ میں(گیارہویں قسط)

 

جاوید احمد غامدی سیاق وسباق کے آئینہ میں   (گیارہویں قسط)

موسیقی کے بارے میں علماء احناف کا فتویٰ پہلے بھی لکھا جاچکا ہے کہ ایک موسیقی ہے جو باجوں طبلوں کے ساتھ ہوتی ہے جو آج کل معروف ہے، یہ سب کے نزدیک حرام ہے۔ لوگوں کو التباس اس سے پیدا ہوجاتا ہے کہ صوفیوں کے محافل سماع پر بھی موسیقی کا گمان ہوجاتاہے۔مسئلہ سماع میں تو اختلاف ہے، مگر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ غنا ومزامیر میں بھی اختلاف ہے، یہ خیال غلط ہے۔ دوسرا التباس مجرد اشعار گانے سے بھی پیدا ہوجاتا ہے، اس کو بھی گانا کہا جاتا ہے، حالانکہ تنہا آدمی مجرد اشعار گاتا ہے اوروحشت دور کرتا ہے، اس کے جواز میں بھی اختلاف نہیں ہے، اگر چہ مالکیہ اس کو بھی پسند نہیں کرتے ہیں۔ اب علماء احناف کے مختصر فتاویٰ کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے، تاکہ مسئلہ صاف ہوجائے۔ بدائع الصنائع میں علامہ کاسانی vکا فتویٰ جس مغنی (گویّے)کے گرد لوگ گانے سے مزے لینے کے لیے جمع ہوجاتے ہوں وہ عادل نہیں، خواہ شراب نہ بھی پیتا ہو، کیونکہ وہ بدکاروں کا سرغنہ ہے۔ البتہ اگر وہی تنہائی میں وحشت دور کرنے کے لیے گائے تو کوئی مضائقہ نہیں، کیونکہ مجرد اشعار کے سماع سے دل میں رقت پیدا ہوتی ہے، البتہ فاسقانہ انداز میں مزے اُڑانے کو حلال نہیں کہا جاسکتا ہے۔ رہا وہ شخص جو کسی آلۂ موسیقی سے شغل کرتا ہو تو دیکھا جائے گا کہ وہ آلہ فی نفسہ برا ہے یا نہیں؟ اگر فی نفسہ برا نہ ہو جیسے بانس اور دف تو کوئی مضائقہ نہیں ہے اور وہ شخص عادل ہی رہے گا اور اگر وہ آلہ شنیع اور برا ہو جیسے عود اور باجے وغیرہ توا س شخص کی عدالت ختم ہوجائے گی، کیونکہ یہ (عود، وغیرہ) کسی حالت میں بھی جائز نہیں ہیں۔ (بدائع الصنائع، ج: ۶، ص: ۲۶۹) خلاصۃ الفتاویٰ کا فتویٰ علامہ محمد طاہر بن احمد بخاری v لکھتے ہیں: ’’فتاویٰ میں ہے کہ ملاہی جیسے بانسری وغیرہ کی آواز سننا حرام ہے، اس لیے کہ آنحضرت a کا ارشاد ہے کہ استماعِ ملاہی یعنی موسیقی سننا گناہ ہے اور اس کے لیے اہتمام سے بیٹھنا فسق ہے اور اس سے لطف اندوز ہونا کفر ہے (زجراً وتو بیخاً)۔                                  (خلاصۃ الفتاویٰ، ج: ۴، ص: ۳۵۴) صاحب ہدایہ علی بن ابی بکرvکا فتویٰ صاحب ہدایہ شیخ الاسلام علی بن ابی بکرv نے لکھا ہے کہ مغنی (گویّے) کی شہادت قبول نہیں کی جائے گی، کیونکہ وہ لوگوں کو گناہ کبیرہ کے ارتکاب کے لیے اکٹھا کر تا ہے ۔ (الہدایہ، کتاب الشہادات، ج: ۳، ص: ۱۶۲) اوپر کی عبارت کی شرح میں صاحب فتح القدیرv لکھتے ہیں کہ: فقہاء نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ لہو ولعب کے لیے یا مال کمانے کے لیے گانا گانا حرام ہے۔ البحرالرائق میں ابن نجیم v کا فتویٰ فتح القدیر کی اوپر والی عبارت کی مزید تشریح وتفصیل میں علامہ ابن نجیم v فرماتے ہیں کہ: بزازی v نے ’’مناقب‘‘ میں ایسے گانے کی حرمت پر اجماع نقل کیا ہے جو آلات موسیقی جیسے: عود وغیرہ کے ساتھ گایا جائے۔ غناء مجرد (خالی گانے) کے بارے میں اختلاف ہے۔ شارحین نے اس بارے میں (امام ابوحنیفہ v وصاحبین E سے) کوئی تصریح نقل نہیں کی ہے، البتہ ’’بنایہ‘‘ اور ’’نہایہ‘‘ میں ہے کہ لہو ولعب کے لیے گانا گانا تمام آسمانی شریعتوں میں حرام رہا ہے۔ اس روایت کی عربی عبارت اس طرح ہے: ’’الغناء حرام فی الأدیان کلھا‘‘ (البحرالرائق، ج: ۷، ص: ۹۶) خلاصۂ کلام ۱:-مذہب حنفی کی روایات اور مشائخ حنفیہ کے اقوال کا خلاصہ یہ نکلا کہ احناف کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جو آلات گانے کے بغیر بھی کیف ومستی پیدا کرتے ہوں وہ حرام ہیں، اسی حرمت میں وہ ’’دف‘‘ بھی داخل ہے جس میں گھنگھرو لگے ہوں ۔                             (کذا فی البحر ورد المختار) ۲:-مندرجہ ذیل چند شرائط کے ساتھ اپنے لیے گانا یعنی محض اشعار سننا جائز ہے: پہلی شرط یہ ہے کہ گانا محض لہو ولعب کے لیے نہ ہو بلکہ اچھا مقصد پیش نظر ہو، مثلاً: تنہائی میں وحشت دور کرنا، اونٹ کے لیے حدی خوانی کرنا، مسافت طے کرنا یا بچے کو سلانا مقصود ہو۔ دوسری شرط یہ ہے کہ گانا پیشہ ور مغنیوں اور قواعد موسیقی کا خیال رکھتے ہوئے نہ گایا جائے۔ تیسری شرط یہ ہے کہ اشعار کے مضمون میں کوئی مکروہ یا حرام بات نہ ہو، مثلاً: کسی کی غیبت واستہزاء مقصود نہ ہو۔ چوتھی شرط یہ ہے کہ گانے کی عادت نہ بنائی جائے بلکہ کبھی کبھار گایا جائے اور خیال رکھا جائے کہ اس کی وجہ سے کوئی واجب امر ترک نہ ہو یا کسی گناہ میں ابتلاء نہ ہوجائے۔ (اسلام اور موسیقی، ص:۲۷۶) موسیقی کے بارے میں شوافع کا فتویٰ شوافع کے علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اجنبی عورت یا امرد سے گانا سننا خواہ موسیقی کے بغیر ہی کیوں نہ ہو قطعاً حرام ہے، چنانچہ شیخ ابن حجر ہیثمی v جو شافعی مکتب فکر کے عالم ہیں حرمت غناء پر اپنی مشہور کتاب ’’کف الرعاع عن مسئلۃ الغنائ‘‘ میں لکھتے ہیں: کسی آزاد عورت یا اجنبی باندی کا گانا سننا ان لوگوں کے بقول ہمارے ہاں بھی حرام ہے جو یہ کہتے ہیں کہ عورت کی آواز کا بھی پردہ ہے، خواہ فتنہ کا اندیشہ ہو یا نہ ہو۔                                               (بحوالہ اسلام اور موسیقی، ص:۲۷۸) قاضی ابوطیب v نے جو فقہاء شافعیہ کے امام ہیں، اپنے مشائخ سے نقل کیا ہے کہ اجنبی عورت سے گانا سننا ہر حالت میں حرام ہے، خواہ عورت پردے کے پیچھے ہی کیوں نہ بیٹھی ہو۔ قاضی ابو الحسین v نے بھی اجنبی عورت سے گانا سننے کی حرمت کی تصریح کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ امام اذرعی v تفصیل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: اجنبی عورت یا امرد لڑکے سے گانا سننا کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہے۔ (حوالہ بالا) علمائے شافعیہ کا اتفاق ہے کہ جو غناء کسی واجب کے ترک کا سبب بنے یا جس کے ساتھ کوئی حرام یا مکروہ چیز مل جائے وہ حرام ہے۔ (کف الرعاع واحیاء علوم الدین) شوافع علماء کے نزدیک یہ بات بھی متفق علیہ ہے کہ جو آلات گانے کے بغیر بھی کیف ومستی پیدا کریں اور جنہیں بالعموم پیشہ ور گویّے ہی استعمال کرتے ہوں ان کا استعمال حرام ہے۔ (احیاء علوم الدین ) شوافع کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صاف ستھرے مضامین پر مشتمل اشعار کو خوش الحانی اور حسن صوت کے ساتھ پڑھنا جائز ہے، بشرطیکہ پیشہ ور گویّوں کی طرح بے جا تکلف سے کام نہ لیا جائے اور نہ ہی اتار چڑھائو، آہنگ کے زیروبم اور موسیقی کے فنی قواعد کا بقصد واختیار اہتمام کیا جائے۔ یہی ان احادیث کا محمل ہے جن سے گانے کی اباحت معلوم ہوتی ہے اور جن میں حضور اکرم a اور صحابہ کرامs سے اشعار کا گانا سننا ثابت ہوتا ہے۔              (کف الرعاع بحوالہ اسلام اور موسیقی،ص: ۲۸۱) خلاصہ یہ کہ شوافع کے ہاں مزامیر کے ساتھ موسیقی مطلقاً حرام ہے۔ یاد رہے اردو میں صرف اشعار پڑھنے کو بھی گانا گانے سے تعبیر کرتے ہیں، حالانکہ گانا بجانا ایک ایسا لفظ ہے جو خالی اشعار پڑھنے پر نہیں بولا جاتا ہے، بلکہ باجے اور سارنگی طبلے کا پورا مفہوم اس میں پڑا ہے، اس سے غلط فہمی میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ صحابہؓ نے گانا سنا ہے، کیونکہ وہ صرف اشعار کے گائے جانے کا اطلاق ہے جو وحشت دور کرنے کے لیے یا فن ادب میں مہارت پیدا کرنے کے لیے ہوتا ہے جو جائز ہے۔ اسی طرح لفظِ سماع بار بار استعمال کیا جاتا ہے اور کہاجاتا ہے کہ اس کے جواز میں اختلاف ہے، تو یاد رکھنا چاہیے کہ سماع صوفیاء کے ہاں الگ چیز ہے، اس کا معروف گانوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، پھر بھی جمہور کے نزدیک ممنوع ہے۔ بعض اس کے جواز کے قائل ہیں۔ حضرت جنید بغدادی vنے سماع کے بارے میں خوب فیصلہ سنایاہے، فرمایا کہ: ’’سماع کی کامل کو ضرورت نہیں، ناقص کو اجازت نہیں۔ ‘‘ موسیقی کے بارے میں مالکیہ کا فتویٰ فقہ مالکیہ کی مشہور کتاب ’’المدونۃ‘‘ میں ہے کہ امام مالک v دف اور باجے کو شادی بیاہ کے موقع پر بھی مکروہ سمجھتے تھے۔ میں نے خود امام مالکv سے اس بارے میں پوچھا تھا تو انہوں نے اس کی تضعیف کی تھی اور اسے ناپسند کیا تھا۔ ’’المدونۃ‘‘ کتاب ہی میں ’’کتاب الشھادات‘‘ کے تحت لکھا ہے: ’’نوحہ کرنے والی یا گانا گانے والی عورت کے بارے میں، میں نے امام مالک vسے اس کے سوا کچھ نہیں سنا کہ اگر وہ ان کاموں میں مشہور ہوں تو ان کی شہادت و گواہی قبول نہ کی جائے۔                                                           (بحوالہ اسلام اور موسیقی، ص: ۲۹۸) مالکی مذہب کے مشہور عالم علامہ شاطبی v ’’کتاب الاعتصام‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جہاں تک اشعار کا معاملہ ہے تو اس میں تفصیل یہ ہے کہ آدمی کے لیے ایسے اشعار پڑھنا جائز ہیں جو فحش گوئی اور دوسری معصیتوں سے خالی ہوں۔ اسی طرح دوسرے شخص سے سننا اس حد تک جائز ہے جس حد تک رسول اللہ a کے سامنے اشعار سنائے گئے ہیں یا صحابہ کرامؓ، تابعین عظامؒ اور دوسرے بزرگان دین کا اس بارے میں عمل رہا ہو، کیونکہ (خیر القرون میں) اشعار ہمیشہ کچھ فوائد اور منافع کے لیے ہی پڑھے اور سنے جاتے تھے، جن میں چند فائدے درج ذیل ہیں: ۱:۔۔۔۔۔رسول اللہ a اور دین اسلام اور اہل اسلام کی طرف سے کفار ومشرکین کو جواب دینا۔ ۲:۔۔۔۔۔ اپنی ضروریات اور حاجات کو اشعار میں بیان کیا کرتے تھے اور انہیں پورا کرنے کے لیے اشعار کو ذریعہ بنایا کرتے تھے۔ ۳:۔۔۔۔۔ سفر جہاد میں سفر کو مختصر کرنے کے لیے اور میدان جنگ میں دشمن کو مرعوب کرنے کے لیے پڑھتے تھے ۔ ۴:۔۔۔۔۔ اپنے آپ اشعار سے وعظ حاصل کرنے کے لیے اور دوسروں کو نصیحت کے لیے اور حکمتوں سے بھرے اشعار سے فائدہ لینے کے لیے پڑھا کرتے تھے، پھر وہ لوگ آواز بنا بنا کر اور خوبصورت دُھنوں کا لحاظ رکھ کر نہیں گایا کرتے تھے، بلکہ محض فطری سادگی کے ساتھ بناوٹ اور تصنع کے بغیر پڑھا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بعد میں آنے والوں کی روش کو علماء مکروہ کہتے تھے، حتیٰ کہ جب امام مالکv سے اہل مدینہ میں رائج غناء کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ: یہ تو فساق کا شیوہ ہے ۔ (اسلام اور موسیقی، ص: ۲۹۸  و  ۳۹۲) موسیقی کے بارے میں علماء حنابلہ کا فتویٰ علامہ ابن الجوزی v نہایت واضح انداز میں لکھتے ہیں کہ: باقی رہا وہ گانا جو آج کل معروف ومشہور ہے امام احمد بن حنبل v کے نزدیک ناجائز ہے، اگر ان کو معلوم ہوتا کہ لوگوں نے اس معاملے میں کیا کیا جدّتیں پیدا کی ہیں تو خدا جانے وہ کیا حکم دیتے۔                      (تلبیس ابلیس،ص: ۲۹۷) علامہ ابن جوزیv مزید لکھتے ہیں کہ: گانے کے بارے میں فقہاء حنابلہ کا قول یہ ہے کہ مغنی اور رقاص کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔                                         (بحوالہ اسلام اور موسیقی: ۳۱۵) مشہور حنبلی عالم علامہ علی بن سلمان مرادی مختلف فقہاء حنابلہ کے اقوال نقل کرکے لکھتے ہیں: مصنف رعایہ لکھتے ہیں کہ ایسا گانا اور نوحہ سننا جو آلات موسیقی کے ساتھ نہ ہو مکروہ ہے اور جو آلات موسیقی کے ساتھ ہو وہ حرام ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ گانے کا سننا آلات موسیقی کے بغیر خواہ مرد سے ہو یا عورت سے ہو مطلقاً حرام ہے۔ اگر کوئی شخص گانے پر مداومت اختیار کرے یا اس کو اپنا پیشہ بنالے یا اپنے غلام یا باندی کو بطور مغنی استعمال کرے اور لوگ اکھٹے ہوتے ہوں تو ایسے شخص کی شہادت مردود ہے۔ (الانصاف، ج: ۲،ص: ۵) مجموعۃ الحفید، صفحہ: ۱۹۹ پر لکھا ہے ،خلاصہ یہ ہے کہ تمام بلاد اسلامیہ کے علماء کا غناء ومزامیر کی کراہت اور ممانعت پر اجماع ہے، لہٰذا اس کے جواز اور رخصت کا دعویٰ وہی شخص کرسکتا ہے جو قلت ِعلم یا جہل مرکب اور خواہشات نفسانی کا شکار ہو ۔                                   (اسلام اور موسیقی: ۳۱۷) آلاتِ موسیقی کے بارے میں حنابلہ کا موقف بہت سخت ہے۔ خود امام احمد vنے ایک لڑکے کے ہاتھ میں طنبورہ دیکھا تو چھین کر اسے توڑ دیا۔ عمرو بن صالح v کہتے ہیں کہ میں نے احمد بن حنبلؒ کو دیکھا جب ان کے پاس ایک کھلا ہوا ستار لے جایا جارہا تھا تو آپ نے کھڑے ہوکر اسے توڑدیا۔ ابوبکر مروزیv کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل v  سے طنبورہ توڑنے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ ہاں اسے توڑدیا جائے گا۔ میں نے عرض کیا کہ وہ چھوٹا طنبورہ بھی جو چھوٹے بچوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے، فرمایا: ہاں! وہ بھی توڑا جائے گا، جب کبھی طنبورہ کھلا ہوا نظر آجائے تو اسے توڑ دو۔                                                          (اسلام اور موسیقی،ص: ۳۲۳) یحییٰ بن یزدان کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل v سے سوال کیا کہ ایک شخص عود، ستار طنبورہ، بانسری بجاتا ہے، کیا اس کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے گی؟ اور اگر معاملہ سلطان تک پہنچ جائے تو کس حد تک تعزیر دی جاسکتی ہے؟ امام احمد بن حنبل v نے جواب میں فرمایا: ہاں! اس کی تادیب کی جائے گی اور میں سمجھتا ہوں کہ تعزیر دس کوڑوں سے زیادہ نہ ہو۔     (اسلام اور موسیقی: ص: ۳۲۴) یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ گانا گانے کے لیے کبھی کبھی لفظ مکروہ استعمال کیا جاتا ہے تو اب یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ لفظ مکروہ کی کیا حیثیت ہے؟ متقدمین کے نزدیک اس کا کیا مفہوم تھا اور متأخرین کے نزدیک کیا مفہوم ہے؟ علامہ ابن قیم v نے اس پر عمدہ کلام کیا ہے، فرماتے ہیں کہ: امام احمد v کے کلام میں ’’أکرھہٗ‘‘ اور ’’لایعجبنی‘‘ کے الفاظ حرام کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور یہ استعمال بہت زیادہ ہے۔ فقہ حنبلی میں ایک چیز صریح حرام ہوتی ہے، لیکن امام احمدv اس کو مکروہ کے لفظ سے یاد کرتے ہیں تو اس سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے کہ اس نے غناء ومزامیر کو مکروہ لکھا ہے یا کسی اور امام نے مکروہ کے نام سے یاد کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سے حرمت غناء مراد لی جاتی ہے۔ (اسلام اور موسیقی،ص: ۳۲۰) آمدم برسر مطلب تصاویر اور موسیقی سے متعلق غامدی صاحب نے اپنے منشور ص: ۱۳ پر جو لکھا ہے کہ تصویر اور موسیقی اور دوسرے فنونِ لطیفہ کے بارے میں یہ حقیقت تسلیم کی جائے کہ ان میں سے کوئی بھی اصلاً ممنوع نہیں ہے۔جاوید غامدی صاحب کی اس ایک سطر کی گمراہ کن بات کے جواب میں میں نے بہت کچھ لکھ دیا۔ دو سطروں میں بھی اس کا جواب دیا جاسکتا تھا، لیکن میں نے ان دو موضوعات سے متعلق شریعت اور اسلام کا نقطہ نظر مسلمانوں کے سامنے کھول کر رکھا ہے۔ مجھے اس لکھنے میں جو شدید محنت اٹھانی پڑی ہے، میں اپنے رب سے اس کے ثواب کی یقینی امید رکھتا ہوں اور مجھے جو تکلیف پہنچی ہے اور وقت صرف ہوا ہے میں اس ایذا رسانی کا ذمہ دار جاوید غامدی صاحب کو قرار دیتا ہوں۔ اگر وہ دین اسلام کی سیدھی سیدھی بات لکھ دیتے تو دین کی خدمت ہوجاتی، مجھ جیسے ضعیف العمر کو تکلیف نہ پہنچتی اور مخلوق خدا کو فائدہ پہنچ جاتا، لیکن اس نے ٹیڑھی بات لکھ دی جس سے مخلوق خدا کو نقصان پہنچا۔ نیز میں اپنے بلاواسطہ یا بالواسطہ تمام شاگردوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ جاوید احمد غامدی کے فتنے سے اپنے آپ کو بچائیں اور مخلوق خدا کو بھی اس گمراہی سے بچائیں اورعلمی میدان میں اتر کر اس فتنے کا ہر جگہ علمی مقابلہ کریں اور اگر میرا کوئی شاگرد بلاواسطہ یا بالواسطہ اس فتنے کا شکار ہوچکا ہے تو وہ فوراً توبہ کرے۔                                               (جاری ہے)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین