بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

جاوید احمد غامدی سیاق وسباق کے آئینہ میں (سولہویں اور آخری قسط)

جاوید احمد غامدی سیاق وسباق کے آئینہ میں   (سولہویں اور آخری قسط)

جاوید احمد غامدی صاحب کا قلم  جاوید احمد غامدی صاحب ایک قادر الکلام صاحب قلم اسکالر ہیں۔ ادبی شہہ پاروں کے ضمن میں تلمیحات واشارات اور طنز وتشریحات وتاویلات کے اچھے خاصے ماہر ہیں۔ اپنے اس فن کے دائو پیچ میں وہ کبھی مخاطب کو اچھی خاصی گالی دے جاتے ہیں، مگر قلم کی صفائی سے کسی کو احساس نہیں ہونے دیتے۔ میں غامدی صاحب کے چند چیدہ چیدہ کلمات ان کی کتابوں سے چن کر قارئین کے سامنے رکھتا ہوں اور اپنے مخاطبین کو یہ احساس دلانا چاہتا ہوں کہ جاوید غامدی صاحب کے خلاف اگر کہیں کسی کے قلم میں سختی دکھائی دیتی ہے تو وہ اسی کے قلم کے عمل کا رد عمل ہوتاہے۔ حضرت ماعز q جاوید غامدی کے قلم کی زَد میں  جناب غامدی صاحب کے صحابی رسول کی تحقیر وتوہین کے کلمات سے پہلے ایک ضابطہ اور قاعدہ سمجھ لینا چاہیے، وہ یہ ہے کہ تکمیل شریعت کے لیے اور امت کو شریعت کا عملی نمونہ دکھانے کے لیے نبی اکرمa نے ان تمام اعمال وافعال پر خود عمل فرمایا ہے جو اعمال وافعال عصمتِ نبوت کے منافی نہیں تھے، اگرچہ عام ماحول میں وہ بہت ہی نا آشنا اور ثقیل سمجھے جاتے تھے، جیسے منہ بولے بیٹے کی مطلقہ بیوی سے نکاح کرنے کو عرب جاہلیت میں حرام سمجھتے تھے، چنانچہ اس رسم کو توڑنے کے لیے منہ بولے بیٹے حضرت زید بن حارثہq کی مطلقہ بیوی سے آپ a نے نکاح کرکے عرب جاہلیت کے ایک سخت ترین رواج کو توڑ ڈالا۔ یہ فعل چونکہ عصمت انبیاء کے منافی نہیں تھا، اس لیے آنحضرتa نے اپنی ذات مبارک کو اس کے توڑنے کے لیے پیش فرمایا۔ لیکن بعض افعال واعمال ایسے تھے کہ تکمیل شریعت کے لیے اس کا نمونہ پیش کرنااگرچہ ضروری تھا، جیسے چوری کی پاداش میں ہاتھ کٹ جانا، زنا کی پاداش میں شادی شدہ کے لیے سنگسار ہوجانا، شراب پینے پر اسی (۸۰)کوڑوں کی سزا دینا، حد قذف میں اسی (۸۰) کوڑے کھانا، یہ ایسے افعال تھے جن کا ارتکاب شانِ نبوت اور عصمتِ انبیاء کے خلاف تھا، آنحضرتa اس کا نمونہ خود پیش نہیں کرسکتے تھے اور تکمیل شریعت کے لیے اس کا عملی نمونہ نہایت ضروری تھا، اس لیے تکوینی طور پر بعض صحابہؓ اور بعض صحابیاتؓ سے ایسے افعال سرزد ہوگئے جن پر حد نافذ ہوگئی اور امت کو شریعت ِمقدسہ کا ایک عملی نمونہ مل گیا کہ شادی شدہ مرد کو اس طرح سنگسار کیا جاتا ہے، زانیہ عورت کو اس طرح سنگسار کیا جاتا ہے، غیر شادی شدہ مرد وعورت کو حد زنا، حد خمر اور حد قذف میں اس طرح کوڑے مارے جاتے ہیں، چور اور چورنی کا ہاتھ اس طرح کاٹا جاتا ہے، چنانچہ ان سزا یافتہ صحابہؓ وصحابیاتؓ کی یہ بڑی قربانی تھی، جنہوں نے گویا تکمیل شریعت کے لیے اپنے آپ کو پیش کیا، جس سے اسلامی شریعت کی تکمیل ہوگئی۔ اس پیارے منظر نامے سے ان سزا یافتہ صحابہؓ وصحابیاتؓ سے امت کے ہر سننے پڑھنے والے کے دل میں محبت اور عقیدت پیدا ہوجاتی ہے۔ میں جب حدیث میں ان حضرات کے اخلاص پر مبنی ان احادیث کوپڑھاتا ہوں تو بے اختیار خود بھی روتا ہوں اور طلبہ بھی روتے ہیں، اس کے برعکس جاوید غامدی صاحب نے ان صحابہؓ وصحابیاتؓ کو ’’غنڈے، اوباش، بدترین اشخاص، بڑے بد معاش، بدترین اوباش، انتہائی بدخصلت غنڈے، جنسی ہیجان کے غلبہ میں مہینوں عورتوں کا پیچھا کرنے والے‘‘ جیسے ناموں سے اپنی کتاب برھان میں یاد کیا ہے۔                                (دیکھئے: برھان، ص: ۸۳ تا ۹۱، طبع: ہفتم، دسمبر ۲۰۰۹ئ)  غامدی صاحب نے صحابہ کرامؓ کا جو نقشہ پیش کیا ہے، اس سے ان صحابہؓ سے دلوں میں نفرت پیدا ہوجاتی ہے اور آنحضرتa نے جو اُن کی مدح فرمائی ہے اور ان کے لیے جنت کی بشارت سنائی ہے، وہ سب مشکوک ہوجاتے ہیں۔ جن شارحین حدیث اور محدثین وفقہاء اور مدارس کے علماء نے ان صحابہؓ وصحابیاتؓ کے خلوص اور خوفِ آخرت اور گناہ پر ندامت اور نبی اکرم a کی طرف سے ان کے لیے جنت کی بشارت اور توبہ کی عظیم قبولیت کو بیان کیا ہے، ان تمام چیزوں کو جاویداحمد غامدی نے نہایت چالاکی سے رد کیا ہے ۔  اصل قصہ یہ ہے کہ جاوید غامدی، ان کے استاد امین اصلاحی اور ان کے استاد حمیدالدین فراہی رجم کی سزا کو نہیں مانتے، وہ کہتے ہیں کہ زانی کے لیے قرآن میں صرف کوڑے ہیں، خواہ زانی شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ ہو اور رجم کی احادیث سب غلط اور ناقابل اعتبار ہیں۔ اُدھر احادیث کی کتابوں بخاری ومسلم اور صحاحِ ستہ سے ثابت ہے کہ عہد نبوی میں رجم کے کئی واقعات پیش آئے ہیں، جو تواتر عملی اور اجماعِ صحابہؓ سے ثابت شدہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے، رجم کی سزا سے انکار وفرار کی وجہ سے غامدی صاحب، ان کے استاد امین احسن اصلاحی اور ان کے استاد حمید الدین فراہی صاحب نے ان واقعات کو ’’فساد فی الارض‘‘ قرار دیا اور پھر ان صحابہؓ وصحابیاتؓ پر فساد فی الارض اور بغاوت ومحاربہ کا دفعہ چسپاں کردیا۔بہرحال غامدی صاحب کی لمبی عبارت ملاحظہ کیجئے اور فیصلہ فرمائیں کہ صحابہؓ کے بارے میں ان کا اخلاقی معیار کس پیمانے پر ہے، برھان، ص: ۸۳ طبع: ہفتم، دسمبر ۲۰۰۹ء میں غامدی صاحب صحابی رسول حضرت ماعز اسلمیq کے متعلق لکھتے ہیں: ’’اس میں شبہ نہیں کہ ماعز qکے بارے میں یہ سب باتیں حدیث کی کتابوں میں بیان ہوئی ہیں، لیکن حق یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بات بھی ایسی نہیں ہے جس کی بنیاد پر اس کے اس کردار کی نفی کی جاسکے جو حضور a کی تقریر سے نمایاں ہوتا ہے۔ اعترافِ جرم اور ندامت سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ یہ کوئی مرد صالح تھا جس سے یہ جرم اتفاقاً سرزد ہوگیا۔ دنیا میں جرائم کی جو تاریخ اب تک رقم ہوئی ہے، اس سے دسیوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں کہ بدترین اوباش اور انتہائی بد خصلت غنڈے جو کسی طرح گرفت میں نہیں آسکتے تھے، ارتکابِ جرم کے فوراً بعد کسی وقت اس طرح قانون کے سامنے خود پیش ہوئے کہ ان کی ندامت پر لوگوں کے دلوں میں ان کے لیے ہمدردی کے جذبات اُمڈ آئے۔ نفسیاتِ جرم کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے محرکات کئی ہوسکتے ہیں: مجرم اس اندیشے میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ اب یہ جرم چھپا نہ رہے گا، اس لیے وہ خود آگے بڑھ کر اس خیال سے اپنے آپ کو قانون کے سامنے پیش کردیتا ہے کہ اس طرح شاید اُسے سخت سزا نہ دی جائے۔ جرم اس طریقے سے سرزد ہوتا ہے کہ اس کے افشاء کو روکنا فی الواقع ممکن نہیں رہتا، چنانچہ وہ سبقت کرکے اپنے آپ کو لوگوں کے رد عمل کی شدت سے بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ جنسی ہیجان کے غلبہ میں مہینوں عورتوں کا پیچھا کرنے والے جب پہلی مرتبہ زنا بالجبر کا ارتکاب کربیٹھتے ہیں تو بعض اوقات اس جرم کے نتیجے میں ہیجان کا ختم ہوجانا ہی انہیں اعترافِ جرم پر آمادہ کردیتا ہے۔ مجرم کے ماحول میں کسی غیر معمولی دینی شخصیت کا وجود بھی اس کا باعث بن جاتا ہے، جرم کے حالات‘ مثلاً مجرم کی درندگی کا شکار ہونے والی عورت یا بچے کی بے بسی بھی یہ نتیجہ پیدا کردیتی ہے۔ ضمیر کی خلش اور انسان کے اندر سے نفس لوامہ کی سرزنش بھی صرف بھولے بھالے مجرموں ہی میں احساسِ ندامت پیدا کرنے کا باعث نہیں بنتی، بڑے بڑے بدمعاش بھی بعض اوقات کسی خاص صورت حال میں اس سے متنبہ ہوجاتے ہیں اور پھر پورے خلوص کے ساتھ نہ صرف یہ اپنے جرم کا اعتراف کرلیتے ہیں، بلکہ اصرار کرتے ہیں کہ اُنہیں جلد سے جلد کیفر کردار کو پہنچادیا جائے۔ پروردگار اسے جنت میں بھی داخل کرسکتا ہے، اللہ کا رسول اگر دنیا میں موجود ہو اور اسے وحی کے ذریعے یہ بتایا جائے کہ مجرم کی مغفرت ہوگئی اور یہ معلوم ہوجانے کے بعد اس کی نماز جنازہ پڑھے اور لوگوں کو بھی اس کے حق میں دعا کی نصیحت کرے تو اس سے اس کردار کی نفی کس طرح ہوجائے گی جو توبہ واصلاح سے پہلے اس مجرم کا رہا؟ اس سے کیا یہ سمجھا جائے کہ کسی اوباش کو کبھی توبہ کی توفیق نہیں ملتی؟ اور جو شخص توبہ کرلے، اس کے بارے میں یہ باور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ کبھی اوباش بھی رہا تھا؟اسی طرح یہ بات تو بے شک صحیح ہے کہ کسی بدترین شخص کا ذکر بھی اس کے مرجانے کے بعد کبھی برے لفظوں میں نہیں کرنا چاہیے اور رسول اللہ a نے اسی بنا پر ان لوگوں کو تنبیہ کی جو ماعزq کے بارے میں یہ کہہ رہے تھے کہ اس کی شامت نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا، یہاں تک کہ کتے کی طرح سنگسار کردیا گیا، لیکن اس کے معنی کیا یہ ہیں کہ جس شخص کے بارے میں بغیر کسی ضرورت کے اس طرح کا تبصرہ کرنے سے لوگوں کو روکا جائے، وہ لازماً کوئی ہستی معصوم ہی ہوتا ہے؟ اور قانون وشریعت کی تحقیق کے لیے بھی اس کا کردار کبھی زیر بحث نہیں لایا جاسکتا؟ رہی یہ بات کہ حضور a نے اس سے مثلاً اس طرح کے سوالات کیے کہ کیا تم جانتے ہو کہ زنا کیا ہے؟ تو یہ وہ سوالات ہیں جو اعترافِ جرم کی صورت میں ہر عدالت کو لازماً کرنے چاہئیں، اس صورت میں چونکہ اس بات کا ہر وقت امکان ہوتا ہے کہ بعد میں کوئی شخص مجرم کے کسی مبہم بیان کی بنا پر عدالت کے فیصلے پر معترض ہو اور مدینہ کے ماحول میں جہاں منافقین صبح وشام اسی طرح کے فتنوں کے لیے سرگرم رہتے تھے، اس بات کا اندیشہ چونکہ اور بھی زیادہ تھا، اس وجہ سے آپ aنے اپنے سوالات کے ذریعے سے معاملے کا کوئی پہلو غیر واضح نہیں رہنے دیا۔ اس سے کوئی شخص اگر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ بے چارہ تو یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ زنا کیا ہے تو اس کے بارے میں پھر کیا عرض کیا جاسکتا ہے! حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے لوگ اگر زنا بالجبر کے متعلق یہ بھی کہتے ہیں کہ شرفا بھی کبھی کبھی اس کے مرتکب ہوجایا کرتے ہیں تو اس پر کچھ تعجب نہ کرنا چاہیے۔ عقل ودانش کی جو مقدار اب ہمارے مدرسوں میں باقی رہ گئی ہے، اس کے بل بوتے پر اس سے زیادہ کیا چیز ہے جس کی توقع ان لوگوں سے کی جاسکتی ہے؟ بہرحال یہ ہے ان سب باتوں کی حقیقت، لیکن اس کے باوجود اگر کوئی شخص اصرار کرتا ہے کہ ان روایات سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی ہستی معصوم تھا جو بس یونہی راہ چلتے کسی عورت سے بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھا تو اُسے پھر مان لینا چاہیے کہ اس صورت میں نہایت شدید قسم کا جو تناقض اس کے متعلق نبی a کی تقریر اور ان روایات کے مضمون میں پیدا ہوجائے گا، اس کی بنا پر کوئی حتمی بات اس مقدمے کے بارے میں بھی کسی شخص کے لیے کہنا ممکن نہ ہوگا۔‘‘(برہان، ص:۸۳تا۸۵، طبع ہفتم۲۰۰۹ئ) غامدی صاحب مزیدلکھتے ہیں: ’’یہ ہیں وہ روایتیں اور مقدمات جن کی بنیاد پر ہمارے فقہا قرآن مجید کے حکم میں تغیر کرتے اور زنا کے مجرموں کے لیے ان کے محض شادی شدہ ہونے کی بنا پر رجم کی سزا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سارے مواد پر جو تبصرہ ہم نے کیا ہے، اس کی روشنی میں پوری دیانت داری کے ساتھ اس کا جائزہ لیجیے، اس سے زیادہ سے زیادہ اگر کوئی بات معلوم ہوتی ہے تو بس یہ ہے کہ رسول اللہ a اور خلفائے راشدینs نے زنا کے بعض مجرموں کو رجم اور جلا وطنی کی سزا بھی دی ہے، لیکن کس قسم کے مجرموں کے لیے یہ سزا ہے اور حضور a اور آپa کے خلفائs نے کس طرح کے زانیوں کو یہ سزا دی؟ اس سوال کے جواب میں کوئی حتمی بات ان مقدمات کی رودادوں اور ان روایات کی بنیاد پر نہیں کہی جاسکتی ۔‘‘                                                                   (برہان ص: ۸۸)  حضرت ماعز q حمید الدین فراہی کے قلم کی زد میں  غامدی صاحب کہتے ہیں کہ : ’’اس سزا (رجم) کا مأخذ درحقیقت کیا ہے؟ یہی وہ عقدہ ہے جسے امام حمیدالدین فراہی نے اپنے رسالہ ’’احکام الاصول باحکام الرسول‘‘ میں حل کیا ہے۔ اپنے اصول کے مطابق انہوں نے ان مبہم اور متناقض روایات سے قرآن مجید کے حکم میںکوئی تغیر کرنے کے بجائے انہیں اس کتاب کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی ہے، چنانچہ ان کے نزدیک رجم اور جلاوطنی کی اس سزا کا مأخذ سورۂ مائدہ کی آیت محاربہ ہے۔  امام حمیدالدین فراہی کی اس تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ زانی کنوارا ہو یا شادی شدہ، اس کی اصل سزا تو سورۂ نور میں قرآن کے صریح حکم کی بنا پر سو کوڑے ہی ہے، لیکن مجرم اگر زنا بالجبر کا ارتکاب کرے یا بدکاری کو پیشہ بنالے یا کھلم کھلا اَوباشی پر اترآئے یا اپنی آوارہ منشی، بدمعاشی اور جنسی بے راہ روی کی بنا پر شریفوں کی عزت وناموس کے لیے خطرہ بن جائے یا مردہ عورتوں کی نعشیں قبروں سے نکال کر ان سے بدکاری کا مرتکب ہو یا اپنی دولت اور اقتدار کے نشے میں غربا کی بہو بیٹیوں کو سربازار برہنہ کرے یا کم سن بچیاں بھی اس کی درندگی سے محفوظ نہ رہیں تو مائدہ کی اس آیت محاربہ کی رو سے اُسے رجم کی سزا بھی دی جاسکتی ہے۔ اسی طرح مجرم کے حالات اور جرم کی نوعیت کے لحاظ سے جو دوسری سزائیں اس آیت میں بیان ہوئی ہیں، وہ بھی اگر عدالت مناسب سمجھے تو اس طرح کے مجرموں کو دے سکتی ہے۔ انہی سزائوں میں سے ایک سزا جلاوطنی ہے۔ رسول اللہ a نے ان مجرموں کو جو محض زنا ہی کے مجرم نہیں تھے، بلکہ اس کے ساتھ اپنی اوباشی کی بنا پر فساد فی الارض کے مجرم بھی تھے، یہ دونوں سزائیں دی ہیں، چنانچہ ان میں وہ مجرم جو اپنے حالات اور جرم کی نوعیت کے لحاظ سے رعایت کے مستحق تھے، انہیں آپ نے زنا کے جرم میں آیت نور کے تحت سو کوڑے مارنے کے بعد معاشرے کو ان کے شر وفساد سے بچانے کے لیے ان کی اوباشی کی پاداش میں مائدہ کی اسی آیت محاربہ کے تحت جلا وطنی کی سزا دی اور ان میں سے وہ مجرم جنہیں کوئی رعایت دینا ممکن نہ تھا، اسی آیت کے حکم ’’ أن یقتلو‘‘ کے تحت رجم کردیے گئے۔ ‘‘(برھان، ص:۹۱، طبع ہفتم)  حضرت ماعز q امین احسن اصلاحی کے قلم کی زد میں  امین احسن اصلاحی نے بھی حمیدالدین فراہی کی طرح سنگساری اور رجم کی سزا کو آیت محاربہ کے تحت داخل کیا ہے اور نام لیے بغیر حضرت ماعزq اور رجم کے سزایافتہ دیگر مرد وخواتین کو انہیں القاب سے یاد کیا جن سے حمیدالدین فراہی نے یاد کیا، چنانچہ سورۂ مائدہ کی آیتِ محاربہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:  ۱:۔۔۔۔۔۔’’اللہ اور رسول سے محاربہ یہ ہے کہ کوئی شخص یا گروہ یا جتھا جرأت وجسارت، ڈھٹائی اور بے باکی کے ساتھ اس نظامِ حق وعدل کو درہم برہم کرنے کی کوشش کرے جو اللہ اور رسول(a) نے قائم فرمایا ہے۔ اس طرح کی کوشش اگر بیرونی دشمنوں کی طرف سے ہو تو اس کے مقابلے کے لیے جنگ وجہاد کے احکام تفصیل کے ساتھ الگ بیان ہوئے ہیں۔ یہاں بیرونی دشمنوں کے بجائے اسلامی حکومت کی رعایا ہوتے ہوئے- عام اس سے کہ وہ مسلم ہیں یا غیر مسلم- اس کے قانون اور نظام کو چیلنج کریں۔ قانون کی خلاف ورزی کی ایک شکل تو یہ ہے کہ کسی شخص سے کوئی جرم صادر ہوجائے، اس صورت میں اس کے ساتھ شریعت کے عام ضابطۂ حدود وتعزیرات کے تحت کارروائی کی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی شخص یا گروہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرے، اپنے شر وفساد سے علاقے کے امن ونظم کو درہم برہم کردے، لوگ اس کے ہاتھوں اپنی جان، مال، عزت، آبرو کی طرف سے ہر وقت خطرے میں مبتلا رہیں۔ قتل، ڈکیتی، رہزنی، آتش زنی، اِغوا، زنا، تخریب، ترہیب اور اس نوع کے سنگین جرائم حکومت کے لیے لاء اور آرڈر کا مسئلہ پیدا کردیں۔ ایسے حالات سے نمٹنے کے لیے عام ضابطۂ حدود وتعزیرات کے بجائے اسلامی حکومت مندرجہ ذیل اقدامات کرنے کی مجاز ہے۔‘‘        (تدبر قرآن، ج:۲، ص:۵۰۵) ۲:۔۔۔۔۔’’ (قرآن میں تقتیل کا حکم مذکور ہے) اس سے اشارہ نکلتا ہے کہ ان کو عبرت انگیز اور سبق آموز طریقہ پر قتل کیا جائے جس سے دوسروں کو سبق ملے۔ صرف وہ طریقۂ قتل اس سے مستثنیٰ ہوگا جو شریعت میں ممنوع ہے، مثلاً: آگ میں جلانا، اس کے ماسوا دوسرے طریقے جو غنڈوں اور بدمعاشوں کو عبرت دلانے، ان کو دہشت زدہ کرنے اور لوگوں کے اندر قانون اور نظم کا احترام پیداکرنے کے لیے ضروری سمجھے جائیں، حکومت ان سب کو اختیار کرسکتی ہے۔ رجم یعنی سنگسار کرنا بھی ہمارے نزدیک تقتیل کے تحت داخل ہے۔‘‘                                                                (تدبر قرآن، ج: ۲، ص:۵۰۵)  ۳:۔۔۔۔۔اس وجہ سے وہ غنڈے اور بدمعاش جو شریفوں کی عزت وناموس کے لیے خطرہ بن جائیں، جو زنا اور اغوا کو پیشہ بنالیں، جو دن دَہاڑے لوگوں کی عزت و آبرو پر ڈاکہ ڈالیں اور کھلم کھلا زنا بالجبر کے مرتکب ہوں، ان کے لیے رجم کی سزا اس لفظ کے مفہوم میں داخل ہے۔ (تدبر قرآن، ج: ۲، ص:۵۰۴)  جن افراد کو عہد نبویؐ میں رجم کیا گیا، امین احسن اصلاحی کے نزدیک وہ سب غنڈے تھے، لکھتے ہیں:  ۴:۔۔۔۔۔’’اس عہد کی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بہت سے ڈیرے والیاں ہوتی تھیںجو پیشہ کراتی تھیں اور ان کی سرپرستی زیادہ تر یہودی کرتے تھے جو ان کی آمدنی سے فائدہ اٹھاتے تھے، اسلامی حکومت قائم ہونے کے بعد ان لوگوں کا بازار سرد پڑگیا، لیکن اس قسم کے جرائم پیشہ آسانی سے باز نہیں آتے، معلوم ہوتا ہے کہ اسی قماش کے کچھ مرد اور بعض عورتیں زیر زمین یہ پیشے کرتے رہے اور تنبیہ کے باوجود باز نہیں آئے، بالآخر جب وہ قانون کی گرفت میں آئے تو مائدہ کی اسی آیت کے تحت - جس کا حوالہ اوپر گزرا- آپ a نے رجم کرایا۔‘‘              (تدبر قرآن ج ۲ ص: ۵۰۶)  رجم سے متعلق حضرت عمر فاروقqکی حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے امین احسن اصلاحی صاحب لکھتے ہیں:  ’’بہرحال یہ روایت بالکل بے ہودہ ہے اور ستم یہ کہ اُسے حضرت عمرq کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔‘‘                                                   (تدبر قرآن، ص: ۵۰۳)  رجم شدہ صحابہؓ وصحابیاتؓ کو مغفرت کی بشارت  عہد نبویؐ میں جن صحابہؓ اور صحابیاتؓ پر رجم کا قانون شرعی نافذ کیا گیا، ان سے متعلق عقیدت ومغفرت اور نفرت وعداوت کے دونوں پہلو سامنے آسکتے تھے، اس لیے لسانِ نبوت سے ان کی مغفرت اور جنت کی بشارت بالکل واضح طور پر آگئی، تاکہ آئندہ ان سے متعلق کسی کی زبان سے غلط اورہتک آمیز جملہ صادر نہ ہوجائے، چنانچہ صحیح مسلم، ج:۲، ص:۶۸ پر حضرت بریدہq کی روایت میں ہے کہ آنحضرت a نے صحابہؓ سے فرمایا کہ ماعز بن مالکq کے لیے استغفار کی دعا کرو، لوگوں نے اس طرح دعا کی: ’’غَفَرَ اللّٰہُ لِمَاعِزِ بْنِ مَالِکٍ‘‘ اللہ تعالیٰ ماعز بن مالکq کی مغفرت فرمائے، پھر آنحضرت a نے فرمایا:’’ لَقَدْ تَابَ تَوْبَۃً لَوْ قُسِّمَتْ بَیْنَ أُمَّۃٍ لَوَسَعَتْھُمْ۔‘‘۔۔۔۔۔۔ ’’اس (ماعزq) نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر ایک امت پر تقسیم کردی جاتی تو پوری امت کو کافی ہوتی۔‘‘  نسائی میں بروایت ابوہریرہ q آنحضرت a کا ارشاد ہے:  ’’لَقَدْ رَأَیْتُہٗ بَیْنَ أَنْھَارِ الْجَنَّۃِ یَنْغَمِسُ۔‘‘          (فتح الباری، ج: ۱۲، ص:۱۳۰)  ترجمہ:’ میں نے ماعز (q) کو دیکھا کہ جنت کی نہروں میں غوطے لگارہا ہے۔‘‘  مسند احمد بروایت ابوذر q یہ ارشاد مروی ہے:  ’’قَدْ غَفَرَ اللّٰہُ لَہٗ وَأَدْخَلَ الْجَنَّۃَ۔‘‘               (فتح الباری، ج ۱۲، ص: ۱۳۰ )  ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ نے ماعز (q) کوبخش دیا اور اُسے جنت میں داخل کردیا ۔‘‘  صحیح ابوعوانہ میں بروایت جابرq یہ الفاظ ہیں:  ’’فَقَدْ رَأَیْتُہٗ یَتَخَضْخَضُ فِیْ أَنْھَارِ الْجَنَّۃِ۔‘‘            (فتح الباری، ج:۱۲، ص:۱۳۰)  ترجمہ:’’ میں نے ماعز(q) کو جنت کی نہروں میںغوطے لگاتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘  صحیح مسلم ج: ۲، ص: ۶۸ پر غامدیہ کا مشہورواقعہ بھی ہے، سنگساری کے دوران حضرت خالدq کے چہرہ پر غامدیہ کے خون کا چھینٹا آکر لگا توحضرت خالدq نے ان کو برا جملہ کہا تو آنحضرتa نے فرمایا:  ’’مَھْلًا یَا خَالِدُ! فَوَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَۃً لَوْ تَابَھَا صَاحِبُ مَکْسٍ لَغُفِرَلَہٗ۔‘‘ ترجمہ: ’’ اے خالد! برا بھلا کہنے سے باز رہو، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، اس غامدیہ نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر ایسی توبہ ٹیکس وصول کرنے والا کرتا تو اس کی بھی بخشش ہوجاتی۔‘‘ پھر آپ a نے اس پر نماز پڑھنے کا حکم فرمایا اور اُسے دفن کردیا گیا۔ صحیح مسلم جلد:۲، صفحہ:۶۹ پر مذکورہ غامدیہ خاتونt کے بارے میںآنحضرت a نے فرمایا: ’’اس غامدیہ نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر مدینہ کے ستر گناہ گاروں پر تقسیم کردی جائے تو ان کے لیے بھی کافی ہوجائے گی، کیا تمہیں اس سے افضل توبہ مل سکتی ہے کہ اس نے اللہ کی رضا کے لیے اپنی جان قربان کردی۔ ‘‘ قارئین حضرات غور فرمائیں! لسانِ نبوت سے ان صحابہؓ وصحابیاتؓ کے لیے کس قدر عظیم بشارت سنائی جارہی ہے اور کس قدر ان کی منزلت اور عظمت بتائی جارہی ہے اور دوسری طرف دیکھئے کہ غامدی صاحب اور ان کے استاد امین احسن اصلاحی اور ان کے استاد حمیدالدین فراہی کی طرف سے ان کے بارے میں کیا مغلظات سنائے جارہے ہیں، کم از کم یہ خیال تو کرتے کہ یہ آنحضرتa کے صحابہؓ ہیں یا یہ خیال کرتے کہ مرنے کے بعد کسی کو اس طرح یاد کرنے کی ممانعت ہے یا یہ سوچتے کہ ہم تو بڑے اخلاق کے دعویدار ہیں اور دوسروں سے اس کے طلب گار ہیں، لیکن افسوس ہے کہ ان دانشوروں کا لہجہ صحابہ کرامs اور احادیث کے بارے میں بالکل خوارج اور روافض کا ہے۔  خاتمۂ کلام  اس مضمون میں جو کچھ میں نے پیش کیا ہے، یہ تو غامدی صاحب کے منشور کے دفعات تھے، اس کے علاوہ غامدی صاحب کی مختلف کتابوں میں جو غلط نظریات موجود ہیں، اس کی ایک مختصر فہرست میں قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں، تاکہ بطور خلاصہ حوالہ جات کے ساتھ غامدی صاحب کے غلط نظریات مسلمانوں کے سامنے آجائیں، ان کے سارے غلط نظریات کا پیش کرنا تو بہت لمبا کام ہے، لیکن چند اہم غلطیوں کی نشاندہی بطور مشتے از نمونہ خروارے پیش خدمت ہے۔ یہ عبارات اور حوالہ جات میں نے ’’غامدی مذہب کیا ہے؟‘‘ سے نقل کیے ہیں۔ غامدی صاحب کے عقائد ونظریات کی ایک جھلک ملاحظہ ہو:  ۱:… قرآن کی صرف ایک ہی قراء ت درست ہے، باقی سب قراء تیں عجم کا فتنہ ہیں۔ (میزان، صفحہ: ۲۵، ۲۶، ۳۲، طبع دوم، اپریل ۲۰۰۲ء )  ۲:… سنت قرآن سے مقدم ہے۔ (میزان، صفحہ: ۵۲، طبع دوم، اپریل ۲۰۰۲ئ)  ۳:… سنت صرف افعال کا نام ہے۔ اس کی ابتدا حضرت محمد a سے نہیں، بلکہ حضرت ابراہیم m سے ہوتی ہے۔ (میزان، صفحہ: ۱۰، ۶۵، طبع دوم، اپریل، ۲۰۰۲ئ)  ۴:… سنت صرف ستائیس (۲۷) اعمال کانام ہے۔ (میزان، صفحہ:۱۰، طبع دوم، اپریل ۲۰۰۲ئ)  ۵:… حدیث سے کوئی اسلامی عقیدہ یا عمل ثابت نہیں ہوتا۔ (میزان، صفحہ: ۶۴، طبع دوم، اپریل ۲۰۰۲ئ)  ۶:… دین کے مصادر ومآخذ قرآن کے علاوہ دین فطرت کے حقائق، سنت ابراہیمی اور قدیم صحائف ہیں۔ (میزان، صفحہ: ۴۸، طبع دوم، اپریل ۲۰۰۲ئ)  ۷:… دین میں معروف اور منکر کا تعین فطرت انسانی کرتا ہے۔ (میزان، صفحہ:۴۹، طبع دوم، اپریل ۲۰۰۲ئ)  ۸:… نبی a کی رحلت کے بعد کسی شخص کو کافر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ (ماہنامہ اشراق، دسمبر ۲۰۰۲ئ، صفحہ: ۵۴، ۵۵)  ۹ :… زکوۃ کا نصاب منصوص اور مقرر نہیں ہے۔ (قانونِ عبادات، صفحہ: ۱۱۹، طبع: اپریل ۲۰۰۵ئ) ۱۰ :… اسلام میں موت کی سزا صرف دو جرائم (قتل نفس اور فساد فی الارض) پر دی جاسکتی ہے۔ (برہان، صفحہ:۱۴۳، طبع چہارم، جون ۲۰۰۶ئ)  ۱۱:… دیت کا قانون وقتی اور عارضی تھا۔ (برہان، صفحہ: ۱۸، ۱۹، طبع چہارم، جون، ۲۰۰۶ئ)  ۱۲ :… قتل خطأ میں دیت کی مقدار منصوص نہیں ہے اور یہ ہر زمانے میں تبدیل کی جاسکتی ہے۔ (برہان، صفحہ: ۱۸، ۱۹، طبع چہارم، جون ۲۰۰۶ئ)  ۱۳ :… عورت اور مرد کی دیت (Blood Money) برابر ہوگی۔ (برہان، صفحہ: ۱۸، طبع چہارم، جون ۲۰۰۶ئ)  ۱۴ :… مرتد کے لیے قتل کی سزا نہیں ہے۔ (برہان، صفحہ: ۱۴۰، طبع چہارم، جون ۲۰۰۶ئ)  ۱۵:… شادی شدہ اور کنوارے زانی دونوں کے لیے ایک ہی حد سو کوڑے ہے۔ (میزان، صفحہ: ۲۹۹، ۳۰۰، طبع دوم، اپریل ۲۰۰۲ئ)  ۱۶:… شراب نوشی پر کوئی شرعی سزا نہیں ہے۔ (برہان، صفحہ: ۱۳۸، طبع چہارم، جون ۲۰۰۶ئ)  ۱۷ :… غیر مسلم بھی مسلمانوں کے وارث ہوسکتے ہیں۔ (میزان، صفحہ: ۱۷۱، طبع دوم، اپریل ۲۰۰۲ئ)  ۱۸ :… سور کی کھال اور چربی وغیرہ کی تجارت اور ان کا استعمال شریعت میں ممنوع نہیں ہے۔ (ماہنامہ اشراق، اکتوبر ۱۹۹۸ئ، صفحہ: ۷۹۔ میزان، صفحہ: ۳۲۰، طبع دوم، اپریل ۲۰۰۲ئ)  ۱۹ :… عورت کے لیے دو پٹہ یا اوڑھنی پہننا شرعی حکم نہیں۔ (ماہنامہ اشراق، مئی ۲۰۰۲ئ، صفحہ: ۴۷)  ۲۰:… کھانے کی صرف چار چیزیں ہی حرام ہیں: خون، مردار، سور کا گوشت اور غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ۔ (میزان، صفحہ: ۳۱۱، طبع دوم، اپریل ۲۰۰۲ئ)  ۲۱:… بعض انبیاء قتل ہوئے ہیں، مگر کوئی رسول کبھی قتل نہیں ہوا۔ (میزان، حصہ اول، صفحہ: ۲۱، طبع ۱۹۸۵ئ)  ۲۲:… حضرت عیسیٰ m وفات پاچکے ہیں۔ (میزان، حصہ اول، صفحہ: ۲۲، ۲۳، ۲۴، طبع ۱۹۸۵ئ)  ۲۳:… یاجوج ماجوج اور دجال سے مراد مغربی اقوام ہیں۔ (ماہنامہ اشراق، جنوری، ۱۹۹۶ئ، صفحہ: ۶۱) ۲۴:… جانداروں کی تصویریں بنانا بالکل جائز ہے۔ (ادارہ المورد کی کتاب ’’تصویر کا مسئلہ‘‘ صفحہ: ۳۰)  ۲۵:… موسیقی اور گانا بجانا بھی جائز ہے۔ (ماہنامہ اشراق، مارچ، ۲۰۰۴ئ، صفحہ: ۱۸، ۱۹)  ۲۶:… عورت مردوں کی امامت کراسکتی ہے۔ (ماہنامہ اشراق، مئی ۲۰۰۵ئ، صفحہ: ۳۵ تا ۴۶)  ۲۷:… اسلام میںجہاد وقتال کا کوئی شرعی حکم نہیں۔ (میزان، صفحہ: ۲۶۴، طبع دوم، اپریل ۲۰۰۲ئ)  ۲۸ :… کفار کے خلاف جہاد کرنے کا حکم اب باقی نہیں رہا اور مفتوح کافروں سے جزیہ لینا جائز نہیں۔ (میزان، صفحہ: ۲۷۰، طبع دوم، اپریل ۲۰۰۲ئ)  اہل علم جانتے ہیں کہ مذکورہ بالا تمام عقائد ونظریات قرآن وسنت اور اجماعِ امت کے خلاف ہیں اور ان سے دین اسلام کے مسلمات کی نفی ہوتی ہے جو موجب کفر ہے۔                                 (ماخوذ از ’’غامدی مذہب کیا ہے؟‘‘ تالیف پروفیسر مولانا محمد رفیق صاحب، از صفحہ:۱۲ تا ۱۵) 

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین