بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

بھینس کی قربانی!

بھینس کی قربانی!

    کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ :     بھینس کی قربانی قرآن وحدیث سے ثابت ہے؟ بعض حضرات اس کی قربانی کو ناجائز کہتے ہیں ، لیکن خیرات کرنے کو جائز کہتے ہیں ۔                         والسلام:محمد زکریا، کراچی الجواب حامدًا ومصلیًا     واضح رہے کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں فقہائ، مفسرین وائمہ کرام w کے نزدیک بھینس ‘ گائے کی نوع میں شامل ہے اور اس وجہ سے اس کی قربانی بھی درست ہے۔قرآن مجید میں ارشاد ہے: ’’أُحِلَّتْ لَکُمْ بَہِیْمَۃُ الْأَنْعَامِ إِلاَّ مَا یُتْلٰی عَلَیْکُمْ  الخ۔‘‘ (المائدہ:۱)     اس آیت کی تفسیر میں مفتی محمد شفیع صاحب v لکھتے ہیں: ’’پالتو جانور جیسے اونٹ، گائے، بھینس، بکری وغیرہ جن کی آٹھ قسمیں سورۂ انعام میں بیان فرمائی گئی ہیں ان کو  ’’  أَنْعَام ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس جملہ میں اُس خاص معاہدہ کا بیان آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے اونٹ، بکری، گائے، بھینس وغیرہ کو حلال کردیا ہے، ان کو شرعی قاعدہ کے موافق ذبح کرکے کھا سکتے ہیں۔‘‘(معارف القرآن، ج:۳،ص:۱۳)     تمام علماء کا اس مسئلہ میں اجماع ہے کہ سب ’’بہیمۃ الأنعام‘‘ (چرنے چگنے والے چوپایوں) کی قربانی جائز ہے، کم از کم بھینس کی قربانی میں کوئی شک نہیں ہے۔     نیز جہاں قرآن مجید میں حرام چیزوں کی فہرست دی ہے، وہاں یہ الفاظ ہیں: ’’قُلْ لاَّ أَجِدُ فِیْ مَا أُوْحِیَ إِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُہٗ إِلَّا أَنْ یَّکُوْنَ مَیْتَتًا أَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا۔‘‘                                                          (الانعام:۱۴۵)     درج بالا دونوں آیات میں تمام چرنے والے جانوروں کی حلت کا عام حکم ہے، اس میں بھینس بھی شامل ہے، کیونکہ وہ بھی چرنے والے جانوروں میں سے ہے، اسی طرح ’’بہیمۃ الأنعام‘‘ کی حلت میں بھی بھینس بصراحت شامل ہے، اس کا گوشت اور دودھ‘ گائے کے گوشت اور دودھ کی طرح حلال وطیب ہے، کیونکہ یہ دونوں ایک ہی جنس سے ہیں۔ اگر بھینس کو گائے کی جنس سے مانا جائے یا عمومِ بہیمۃ الانعام پر نظر ڈالی جائے تو حکمِ جوازِ قربانی کے لیے یہ علت کافی ہے۔ شرعاً بھینس چوپایہ جانوروں میں سے ہے اور ’’بقر‘‘ (گائے) میں شامل ہے، گائے کی قربانی جائز ہے اس لیے بھینس کی قربانی بھی جائز ودرست ہے۔ اس دلیل کو اگرنہ مانا جائے تو گائے کی ہم جنس بھینس کے دودھ اور اس کے گوشت کے حلال ہونے کی بھی دلیل مشکوک ہوجائے گی۔ حدیث مبارکہ میں ہے:     حضرت ابوہریرہq سے روایت ہے کہ رسول اللہ a نے فرمایا: ’’کل ذی ناب من السباع، فأکلہٗ حرام‘‘ ہر کچلی (نوک دار دانت جو اگلے دانتوں کے متصل ہوتے ہیں) والے درندے کا کھانا حرام ہے۔‘‘ (صحیح مسلم ،کتاب الصید والذبائح وما یؤکل من  الحیوان، ص:۱۴۷) اور بھینس یقینا شریعت کے اس اصول کے تحت بھی نہیں آتی، کیونکہ یہ ’’ذی ناب من السباع‘‘ میں سے نہیں ہے۔ درحقیقت بنیادی طور پر تین اقسام کے جانور ہیں جن کے بارے میں فقہاء نے لکھا ہے کہ یہ قربانی کے لیے قابل قبول ہیں:     1:۔۔۔۔۔۔۔ ’’غنم‘‘ میں اس کی انواع اور نرومادہ شامل ہیں، یعنی بھیڑ اور بکری۔     2:۔۔۔۔۔۔۔’’إبل‘‘ سے مراد اونٹ نر ومادہ۔     3:۔۔۔۔۔۔۔’’بقر‘‘ میں بھی اس کی انواع اور نر ومادہ شامل ہیں، یعنی گائے اور بھینس۔     چنانچہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے: ’’واضح ہو کہ جنس واجب میں یہ ہونا چاہیے کہ قربانی کا جانور اونٹ، گائے اور غنم تین اجناس سے ہو اور ہر جنس میں اس کی نوع نر ومادہ اور خصی وفحل سب داخل ہیں، کیونکہ اسم جنس کا ان سب پر اطلاق کیا جاتا ہے اور ’’معز‘‘ (بھیڑ) نوعِ غنم ہے اور ’’جاموس‘‘ (بھینس) نوعِ بقر ہے۔ قربانی کے جانوروں میں سے کوئی وحشی جائز نہیں ہے۔‘‘         (فتاویٰ ہندیہ، ج:۵، ۲۹۷، طبع: رشیدیہ۔ بدائع الصنائع،ج:۵،ص:۶۹، دار الکتاب العربی بیروت)     ہدایہ میں ہے: ’’ویدخل فی البقر الجاموس لأنہٗ من جنسہٖ۔‘‘    (الہدایہ، ج:۲،ص:۴۴۷، باب الأضحیۃ)     امام ابن المنذر v فرماتے ہیں:  ’’ تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع واتفاق ہے کہ بھینس کا حکم گائے والا ہے۔‘‘                                                           (الاجماع لابن المنذر،ص::۴۸)     حافظ ابن قدامہ المقدسی لکھتے ہیں:  ’’ہمیں ا س میں اختلاف کا علم نہیں ہے، ابن المنذرv نے اس بات پر اہل علم کا اجماع نقل کیا ہے، نیز بھینس ‘ گائے کی ایک نوع ہے۔‘‘  (المغنی لابن قدامہ،ج:۲،ص:۵۹۴)     امام حسن بصریv بھی یہی کہا کرتے تھے کہ:  ’’بھینس گائے کی طرح ہی ہے۔‘‘             (مصنف ابن ابی شیبہ،ج:۳،ص:۲۱۹، وسندہ صحیح)     لہٰذا اس بات پر جمہور علماء اور ائمہ اسلام کا اجماع واتفاق ہے کہ بھینس کی قربانی کا وہی حکم ہے جو گائے کا ہے، بھینس کو گائے کے ساتھ شامل وشمار کیا جائے گا۔ بکری اورگائے کی طرح بھینس کی قربانی اور خیرات کرنا شرعاً جائز اور قبول ہے۔ فقط واللہ اعلم          الجواب صحیح              الجواب صحیح                         کتبہ         محمد انعام الحق             شعیب عالم                      محمد انس انور                                            دار الافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی  

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین