الحمد للہ وسلامٌ علٰی عبادہ الذین اصطفٰی
۸؍فروری ۲۰۲۴ ء بظاہر انتخابات کی تاریخ مقرر ہوچکی ہے، اور الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابات کا مکمل شیڈول بھی سامنے آچکا ہے، جس کی بنا پر امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتا ل شروع ہے۔ اور ۱۳ ؍ جنوری تک حتمی امیدواروں کی فہرستیں سامنے آجائیں گی، لیکن دوسری طرف ملکی امن وامان کی صورتِ حال، ملک کے شمالی اور بالائی علاقوں میں سخت سردی اور برف باری ، سیاسی قائدین پر حملوں اور انتخابی مہم میں رکاوٹوں کے باعث مقرر ہ تاریخ پر انتخابات کا انعقاد اگرچہ سوالیہ نشان بن چکا ہے، لیکن مقتدر حلقے بار بار اس بات کی یقین دہانی کروارہے ہیں کہ انتخابات اپنے وقت پر ہوں گے، اسی لیے انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں، ان کے امیدوار ان، ملک کی مقتدرہ اور اپنے ووٹ کی طاقت کا استعمال کرنے والی عوام کی خدمت میں چند اہم ضروری گزارشات پیش کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے :
’’الدِّيْنُ النَّصِيْحَۃُ، قُلْنَا: لِـمَنْ؟ قَالَ: لِلہِ وَلِكِتَابِہٖ وَ لِرَسُوْلِہٖ وَلِأئِمَّۃِ الْمُسْلِمِيْنَ وَعَامَّتِھِمْ۔‘‘ (مسلم، ج:۱، ص:۵۴، ط:قدیمی )
’’دین خیر خواہی کانام ہے۔ صحابہ ؓ نے پوچھا :یہ خیر خواہی کس کےلیے ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے لیے، اللہ کی کتاب کے لیے، اللہ کے رسول کے لیے، مسلمانوں کے ائمہ کےلیے، اور تمام مسلمانوں کے لیے۔‘‘
اس جذبۂ خیر خواہی کے تحت عرض کرناچاہیںگے کہ پاکستان‘ ایک نظریہ کے تحت وجود میں آیا تھا، قیامِ پا کستان میں نفاذِاسلام بطور نعرہ استعمال ہوا، اور ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا إلٰہ إلا اللہ‘‘کی گونج میں ایک آزاد اسلامی نظریاتی مملکت وجود میں آئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان کے معرضِ وجود میں آتے ہی یہاں اسلامی نظام نافذ کردیا جاتا ، لیکن اس کے برعکس ہوا یہ کہ نفاذِاسلام کے نام پر یہ ملک کبھی صدارتی نظامِ حکومت اور کبھی فوجی مارشل لاؤں کی بھینٹ چڑھتا رہا، ہر آنے والا حکمران عوام کے سامنے اس خوش نما نعرے کی للکار میں اقتدار پر براجمان ہوتا اور اپنا وقت پورا کرکے چلتا بنا، عوام ایک بار پھر نئے آنے والے سے توقعات باندھ لیتے۔
ہر پانچ سال بعد انتخابی مہم کا ڈول ڈالا جاتاہے اور عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والوں کو پانچ سال کے لیے ملک کا مستقبل سنوارنے کا موقع دیا جاتا ہے، انتخابی مہم شروع ہوتے ہی عام طور پر سیاسی جماعتوں کا ہر امیدوار خود کو کامیاب بنانے کے لیے کبھی ڈراتا دھمکاتا ہے، اور کبھی منتیں ترلے کرتا ہے، کبھی بلند بانگ ارادے ظاہر کرتا ہے، کبھی جھوٹے وعدوں کے سبز باغ دکھاتا ہے، جب کہ جھوٹے وعدہ کرنے والوں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَۃِ يُرْفَعُ لَہٗ بِقَدْرِ غَدْرِہٖ ألَا وَلَا غادِرَ اَعْظَمُ مِنْ أمِيْرِ عَامَّۃٍ۔‘‘ (رواہ مسلم، بحوالہ مشکاۃ، ص:۳۲۳، ط:قدیمی)
ترجمہ: ’’ہر بد عہدی کرنے والے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہوگا جو اس کی بد عہدی کے بقدر اس کے لیے اونچا کیا جائے گا۔ سنو ! عوام کا حکمران اگر بد عہدی کرے تو اس سے بڑھ کر کوئی بدعہدی نہیں۔ ‘‘
بد عہدی سے مراد ہے : کسی کے ساتھ کوئی معاہدہ کرکے اس کو توڑدینا اور کسی کے ساتھ وعدہ کرکے اسے پورا نہ کرنا۔ عہد شکنی اور وعدہ خلافی بہت ہی بڑا گناہ ہے۔ یوں تو بدعہدی اور بے وفائی سب کے لیے بری چیز ہے، لیکن اگر اس عہد شکنی اور بے وفائی کا اظہار حکمرانوں کی طرف سے ہوتو یہ بہت زیادہ سنگین جرم ہے اور اس کی سزا بھی اسی نسبت سے شدید ترین ہوگی۔ انتخابی مہم چلانے والے امیدوار وں کو ہمہ وقت ان فرامینِ نبوی کا استحضار رکھنا چاہیے کہ ان کے منہ سے کوئی ایسا وعدہ نہ نکلے، جس کی وہ پاسداری نہ کرسکیں، ورنہ آخرت میں ذلت ورسوائی ان کا مقدر بن جائے گی۔
حکمرانی کے خواہش مندوں کو یہ حقیقت ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ سدا حکمرانی صرف اللہ تعالیٰ کی ہے، اس لیے کہ تخت پر براجمان ہونے والوں کا مقدر تختہ دار یا سلاخوں کے پیچھے بنتے دیر نہیں لگتی۔ درسِ موعظت و عبرت ہے کہ کل تک ایک دہائی مطلق العنانی کا خواب دیکھنے والے قیدی بنا دیے گئے اور ماضی میں قید کاٹنے والے آئندہ حکمرانی کےلیے مضبوط اُمیدار بن کر سامنے آرہے ہیں۔ آئندہ حکمرانوں کو بھی اس سےسبق حاصل کرنا چاہیے کہ جانے کب کس وقت وہ عزت کی ثریا سے ذلت کے پاتال میں پھینک دیے جائیں، اس لیے کبھی بڑے بول بولنے، تکبرانہ سوچ رکھنے اور بس خود ہی کو ناگزیر سمجھنے کی خوش فہمی کا شکار نہیں بننا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کے امیدواران جتنا حقیقت شناس ہوں گے، اتناہی ان کے حق میں بہتر ہوگا۔
ووٹ ڈالنے والے عوام پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دیکھ بھال کر، سوچ سمجھ کر، اور چھان پھٹک کر، ایسے لوگوں کو حکمرانی کےلیے منتخب کریں، جو دینِ اسلام کے وفادار اور اپنے ملک عزیز پاکستان کے جاں نثار ہوں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کے تحفظ پر یقین رکھتے ہوں، عوامی خدمت جن کا شعار اور خدا کی عبادت کرنا جن کامعمول ہو، خلقِ خدا کی ایذا رسانی سے ڈرتے ہوں، قول وعمل کے کھرے ہوں، خصوصاً بین الاقوامی اور ملّی ودینی معاملات میں غیرت وحمیت سے سرشار ہوں، چنانچہ پاکستان کے عوام کی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ اپنے حقِ انتخاب کی طاقت کا درست اور صحیح استعمال کریں اور ایسے امیدواروں کو کامیاب کرائیں جو عالمی سطح پر امتیازی شان کے ساتھ اسلامی ملّی مسائل میں مؤثر اور قائدانہ کردار ادا کرسکیں۔
ہمارے عوام کو بھولنا نہیں چاہیے کہ ہمارے علماء کے ہاں ووٹ ایک شہادت ہے۔ ووٹ ڈالنے والا اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ جس کو منتخب کرنے جارہا ہوں ، یہ واقعی اس کا اہل ہے۔ خدا نخواستہ اگر کسی نااہل کو منتخب کیا تو یہی ووٹ ہمارے خلاف شہادت بن سکتا ہے۔ ووٹ کی پرچی ایک طرح سے اپنی حکمرانی کے لیے کسی نمائندہ پر اعتماد کا اظہار اور اسے اپنی بیعت کا یقین دلانا بھی ہے۔ اپنا سیاسی امام چنتے وقت خدائی معیار کو بھی مدِ نظر رکھناچاہیے، قرآن کریم میں ارشادِ الٰہی ہے: ’’اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىکُمْ‘‘ (الحجرات :۳۱) ترجمہ: ’’تحقیق عزت اللہ کے ہاں اسی کو بڑی جس کو ادب بڑا۔ ‘‘ اس آیتِ کریمہ کے تحت مولانا سید محمد میاںؒ لکھتے ہیں : ’’ــسیاسی نظام میں چوٹی کا فرد یعنی سربراہ وہ ہونا چاہیے جو سب سے زیادہ متقی ہو، یعنی تزکیۂ نفس میں بڑھا ہوا ہو۔ اللہ کے یہاں سب سے زیادہ مستحقِ احترام وہ ہے جو سب سے زیادہ خدا ترس اور پرہیزگار ہو۔ (سیرتِ محمد رسول اللہ، ص: ۵۶۶)
یعنی مسلمانوں کا سربراہ وہ ہونا چاہیے جو سب سے زیادہ متقی ہو، خدا ترس اور پرہیزگار ہو، خدا خوفی اس کا وطیرہ ہو۔ جب ملک کا حکمران ان صلاحیتوں سے معمور ہو گا تو مالی بدعنوانی اور بددیانتی جو آج ہمارے معاشرے کا ناسور اور ملک کو کرپشن کی صورت میں دیمک کی طرح کھا رہی ہے، اس سے بچے گا اور عوام کا پیسہ ان کی فلاح وبہبود اور ملکی مسائل کی ترقی پر خرچ کرے گا۔
بعض لوگ ووٹ کا استعمال ہی نہیں کرتےاور کہا یہ جاتا ہے کہ ہماری نظرمیں کوئی صحیح نہیں توکیوں ووٹ دیں ؟یہ کم ہمتی اور پست حوصلگی ہے ، اس سے بچنا چاہیے، اس لیے کہ بندے کے ذمے کوشش اور اپنے طور پر صحیح آدمی کو ووٹ دینا ہے، نتیجہ اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے، ہمیں اپنی ذمہ داری کو ضرور پورا کرنا چاہیے۔ ووٹ کا درست استعمال کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ سے مانگے کہ یا اللہ !میں نے اپنی سمجھ کے مطابق درست امید وار کا انتخاب کیا ہے، اگر میں غلط ہو ں تو مجھے معاف فرما اور اس کے شر سے ہم سب کی حفاظت فرما۔ اور اگر میں درست ہوں تو اس کے ثمرات سے پوری پاکستانی قوم کو مستفید فرما۔ اسی طرح بعض لوگ شبہات پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ موجوہ طریقۂ انتخابات اور سیاسی نظام مکمل غیر اسلامی اور غیر شرعی ہے اور اس میں حصہ لینے والے نعوذباللہ ! کفر کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ یہ سوچ بھی اسلام سے ہم آہنگ نہیں ہے، اس لیے کہ اس کا فائدہ غیر سیاسی اور غیر جمہوری طاقتیں اٹھاتی ہیں جو عالمی سامراج امریکا و برطانیہ کی پٹھو ہیں ۔ مشاہدہ ہے کہ اس قسم کے خیالات رکھنے والے عام طور پر بادشاہی، صدارتی اور فوجی نظام کے حامی ہوتے ہیں جو دراصل ڈکٹیٹر شپ اور شخصی حکومتیں ہوتی ہیں ، اور بیرونی قوتوں کو ان سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ایک شخص سے کبھی دھمکی اور کبھی لالچ سے اپنی بات منوانا آسان ہوتا ہے، بنسبت ایک منتخب حکومت کے ، جیسا کہ نائن الیون کے بعد اس وقت کے ڈکٹیٹر پرویز مشرف سے امریکا نے دھمکی کے ذریعے جو چاہا ، منوالیا، اسی لیے اسلام میں شخصی حکومت کی گنجائش نہیں، بلکہ اسلام مشاورت کے ساتھ حکومت بنانے، قائم رکھنے اور چلانے کا حکم دیتا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے :
۱:’’وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ‘‘(آل عمران :۱۵۹) :’’اوران سے مشورہ لے کام میں۔ ‘‘
۲:’’وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰى بَیْنَہُمْ‘‘ (الشوری :۳۸ ) ’’اور کام کرتے ہیں مشورے سے آپس کے۔ ‘‘
یہ ضرور ہے کہ موجودہ جمہوری سیاسی نظام میںبہت کچھ خرابیاں ہیں ، جن کی اصلاح ضروری ہے، لیکن اس پورے نظام کو یکلخت غیر شرعی اور غلط قرار دینا بھی صحیح اور درست نہیں ، بلکہ ایک طرح سے مطلق العنان آمریت اور فسطائیت کی راہ ہموار کرنے کے مترادف ہے، حال اور ماضی کے کئی واقعات اس پر شاہد ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ آئندہ انتخابات ملک وقوم کے لیے نیک شگون ثابت ہوں اور یہ انتخابات دینی ودنیاوی ترقی اور اُخروی عزت وسرخروئی کا سبب اور ذریعہ بنیں، آمین بجاہ سید المرسلین !
وصلی اللہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد و علٰی آلہٖ و صحبہٖ أجمعین