بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

امامِ اہلِ سنت، امام الہُدیٰ، امام ابومنصور ماتریدی رحمہ اللہ

امامِ اہلِ سنت، امام الہُدیٰ، امام ابومنصور ماتریدی رحمہ اللہ

(ولادت:۲۳۸ - وفات:۳۳۳ھ)

’’اہلِ سنت والجماعت کے عقائد کی کلامی تعبیرات کے اعتبار سے دو شاخیں شمار ہوتی ہیں: ایک شاخ ’’اشاعرہ‘‘ کہلاتی ہے، جبکہ دوسری شاخ ’’ماتریدیہ‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ ماتریدی طرزِ کلام امام ابومنصور ماتریدی رحمہ اللہ  کی طرف منسوب ہے، جو کہ فقہ اور فروع میں امام ابوحنیفہ  رحمہ اللہ  کے پیروکار تھے، اس لیے عقائد اورکلام کی تعبیرات اور اسلوبِ بیان میں امام ماتریدی رحمہ اللہ  فقہاء احناف کے کلامی ترجمان کے درجہ پر سمجھے جاتے ہیں، مگر آج کل بالعموم طلبائے علم امام ماتریدیؒ سے زیادہ متعارف نہیں ہوتے۔ درج ذیل مضمون میں امام ابومنصور ماتریدیؒ کے احوال ذکر کیے جارہے ہیں، ان شاء اللہ! یہ مضمون امام ماتریدیؒ کے تعارف کے لیے مفید ثابت ہوگا۔‘‘  (ادارہ)

 

نام و نسب

محمد بن محمد بن محمود، کنیت ابو منصور، اور نسبت ’’ماتریدی‘‘ اور ’’سمرقندی‘‘ ہے۔ ’’سمرقندی‘‘ شہرِ سمرقند کی طرف نسبت ہے اور ’’ماتریدی‘‘ اُس بستی کی طرف نسبت ہے جہاں ان کی پیدائش ہوئی۔ بعض اہلِ علم مثلاً: علامہ بیاضی حنفی  ؒ نے آپ کا نسب مشہور صحابی حضرت سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ  تک پہنچایا ہے، مگر دیگر کسی اور معتبر اور قدیم ماخذ سے اس کی تائید نہیں ہوسکی ہے۔ 
ماترید: میں تا پر ضمہ بھی پڑھاگیا ہے اور فتح بھی یعنی : ماتُرید اور ماتَرید۔ جب کہ بعض لوگ ماتریت بھی پڑھتے ہیں۔ علامہ عبدالکریم السمعانی  ؒ نے اس محلے کی متعدد بار زیارت کی اور اس کے بارے میں اپنا یہ تبصرہ نقل کیا :
’’قد تخرج منہا جماعۃ من الفضلاء۔‘‘ (الانساب للسمعانی، ص:۴۹۸) 
’’اس محلے سے فاضل اہلِ علم کی ایک بڑی جماعت پیدا ہوئی ہے۔ ‘‘
پھر یہی بات علامہ یاقوت حمویؒ نے ’’معجم البلدان‘‘ میں اور علامہ ابن الاثیر الجزریؒ نے ’’اللباب‘‘ میں بھی نقل کی ہے۔ 
جب کہ سمرقند ماوراء النہر کے مشہور ترین قدیم شہروں میں سے ایک ہے۔ بعض تاریخی روایات کے مطابق اسکندر مقدونی نے اپنے زمانے میں اس کی تعمیرِ نو کی تھی، اور بعض سیاح مؤرخین نے تو یہاں تک لکھا ہے:
’’کل ما سمعت عن محاسنہا صحیح باستثناء أنہا أجمل مما تصورت۔‘‘
’’اس شہر کی خوبصورتی کے بارے میں جو کچھ بھی سنا تھا سب صحیح ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کی خوبصورتی میرے تصور سے بھی زیادہ تھی۔ ‘‘

ولادت

امام ماتریدی رحمہ اللہ   کی ولادت کے بارے میں محققین کا راجح قول سنہ ۲۳۸ھ کا ہے۔ 

اساتذہ

امام ماتریدیؒ نے چونکہ ایک ایسے علاقے میں آنکھ کھولی جو علم و فقہ کی سرگرمیوں سے خوب آباد تھا، خصوصاً امام ابوحنیفہ  رحمہ اللہ  کے سلسلے کے علماء کرام وہاں بکثرت تھے اور اپنی علمی تگ و دو سے پورے علاقے کو روشن کیے ہوئے تھے تو یہ وہ ماحول تھا جس نے امام ماتریدیؒ کو اپنی خداداد صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ بہترین اساتذہ کی بدولت درجۂ امتیاز عطا کردیا تھا اور آپ کی علمی کاوشوں نے آگے چل کر ایسی مقبولیت حاصل کی کہ بالعموم علمائے احناف نے عقائد کی مباحث و مسائل اور تحقیقاتی اسلوب میں انہی کی پیروی کی اور یوں علمائے ماتریدیہ اہلِ سنت و الجماعت کا ایک علمی ترجمان حلقہ بن کر تاریخی حقیقت بن گیا۔ 
امام ماتریدی رحمہ اللہ  کی یہ خوش قسمتی ہے کہ وہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ  کی کتابوں کو خصوصاً عقائد سے متعلق رسائل کو اپنے اساتذہ کے توسط سے سندِ متصل کے ساتھ روایت کرنے والے اور ان کی ترویج و اشاعت کرنے والے ہیں، چنانچہ امام ماتریدیؒ نے امام ابوحنیفہؒ کے عقائد سے متعلق رسائل :’’ الفقہ الأبسط، رسالۃ إلٰی عثمان البتی، العالم و المتعلم، یوسف بن خالد کے نام وصیت ‘‘ کو اپنے شیخ ابونصر احمد بن عباس العیاضیؒ، شیخ احمد بن اسحاق الجوزجانیؒ اور شیخ نصیر بن یحییٰ البلخی ؒسے روایت کیا ہے اور یہ تینوں شیوخ ان کتابوں کو اپنے شیخ ابو سلیمان الجوزجانیؒ سے روایت کرتے ہیں اور شیخ ابو سلیمان الجوزجانی ؒ روایت کرتے ہیں اپنے شیخ محمد بن حسن شیبانی ؒسے اور امام محمدؒ انہیں روایت کرتے ہیں امام اعظم ابوحنیفہؒ سے۔ 
یہ سندِ متصل اس بات کی دلیل اور شاہد ہے کہ امام ماتریدی رحمہ اللہ  نے عقائد کے مسائل و مباحث اور اسلوبِ تحقیق میں جو بھی کاوشیں کی ہیں ان کی بنیاد و اساس وہی فکر ہے، جس کی بنیاد امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ  نے رکھی، اور امام ابوحنیفہؒ کے حالات پر نظر رکھنے والوں سے یہ مخفی نہیں کہ جس طرح آپ فقہ کی تاسیس رکھنے والے ہیں، اسی طرح گمراہ فرقوں کے ظہور کی وجہ سے اہلِ سنت و الجماعت کی ترجمانی کرتے ہوئے عقائد کی مباحث و مسائل کو بھی ایک مستقل علم و فن کی حیثیت دینے والے ہیں، اگرچہ آپ پر بعد ازاں فقہ کا رنگ غالب آگیا اور یہی چیز آپ کی پہچان بن گئی اور عقائد والی مباحث کو پھر آپ کے شاگرد در شاگرد اِمام ماتریدی رحمہ اللہ  نے پوری توجہ سے بڑھایا اور اسی سبب سے پھر یہ علمی نسبت امام ابوحنیفہؒ کے بجائے امام ماتریدیؒ کی طرف ہوگئی۔ و اللہ اعلم

مشہور اساتذہ

امام ماتریدی رحمہ اللہ  نے چند نامور اساتذہ کرام کا مختصر تذکرہ بھی ملاحظہ فرمالیجیے:

۱:…اِمام محمد بن مقاتل الرازی رحمہ اللہ 

علامہ عبدالحی لکھنویؒ نے ’’الفوائد البہیۃ في تراجم الحنفیۃ‘‘ میں آپ کو امام ماتریدیؒ کے اساتذہ میں ذکر کیا ہے۔ 
آپ ایک فقیہ بھی تھے اور محدث بھی، اور دیگر علومِ اسلامیہ میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ علمِ حدیث امام وکیع بن الجراحؒ اوران کے طبقے کے دیگر اہلِ علم سے حاصل کیا تھا۔ علامہ کمال پاشاؒ نے آپ کے حالات لکھے ہیں اور اس میں یہ صراحت کی ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کے عقائد میں جو شاگرد اور ان کا سلسلہ چلا ہے، تو یہ اس میں چوتھے طبقے میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ ایک مدت تک ’’رے‘‘ کی قضا کے منصب پر فائز رہے۔
آپ کی وفات کے بارے میں دو قول ہیں: ایک قول کے مطابق وفات ۲۴۲ھ میں ہوئی جب کہ راجح یہ ہے کہ ان کی وفات سنہ۲۴۸ھ میں ہوئی، قریبی زمانے کے نامور محقق عالم دین شیخ محمد زاہد الکوثریؒ نے اسی کو ذکرکیا ہے اور اسے ہی راجح قرار دیا ہے۔ (مقدمہ العالم و المتعلم) 

 ۲:… اِمام اَبو نصر احمد العیاضی رحمہ اللہ 

آپ امام ماتریدیؒ کے اُن اساتذہ میں سے ہیں، جن سے آپ کو خصوصی تعلق تھا، چنانچہ شاید یہی وجہ ہے کہ علامہ محدث قاسم بن قطلوبغا نے آپ کے اساتذہ میں سے صرف انہی کا ذکر کیا ہے۔ علاوہ ازیں دیگر تمام طبقاتِ حنفیہ میں بھی امام ماتریدیؒ کے اساتذہ میں ان کا نام شامل ہے۔ علامہ محمد مرتضیٰ زبیدیؒ نے بھی امام ماتریدیؒ کے اساتذہ میں ان کا ذکرکیا ہے اور آپ کا نسب اس طرح بتایا ہے:
’’أحمد بن عباس بن حسین بن جبلۃ بن جابر بن نوفل بن عیاض بن یحیٰی بن قیس بن سعد بن عبادۃ الأنصاري الفقیہ السمرقندي۔‘‘
اس نسب سے واضح ہوتا ہے کہ آپ مشہور صحابی رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) حضرت سعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ  کے خاندان سے تھے۔ 
آپ نے علاقہ ماوراء النہر کے معروف حنفی فقیہ شیخ ابوبکر احمد بن اسحاق جوزجانی ؒسے علم حاصل کیا تھا۔ موصوف حددرجہ بہادر اور جرأت مند تھے۔ جہاد میں بے دریغ شریک ہوتے تھے اور پھر اسی راہِ جہاد میں احمد بن اسد بن سامان کے عہدِ ولایت میں ایک معرکے میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ علم و فضل میں اس قدر بلند مرتبے رکھتے تھے کہ علماء سیر نے یہاں تک تحریر کیا:
’’إِن الدلیل علٰی صحۃ مذھب أبي حنیفۃ کون الإمام أحمد العیاضي علٰی مذھبہٖ۔‘‘                                  (ذیل الجواہر المضیئۃ لابن ابی الوفاء،ج:۲،ص:۵۶۲ ) 
’’امام احمد العیاضیؒ جیسے شخص کا امام ابوحنیفہؒ کے مذہب پر ہونا، امام ابوحنیفہؒ کے مذہب کے صحیح ہونے کی دلیل ہے۔ ‘‘

۳:…ابوبکر احمد بن اسحاق الجوزجانی رحمہ اللہ 

علامہ عبدالحی لکھنویؒ، علامہ تمیمیؒ اور علامہ زبیدیؒ سب نے ان کو امام ماتریدیؒ کے اساتذہ میں ذکر کیا ہے اور سب نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ:
’’کان عالمًا جامعًا بین الأصول و الفروع و قد أخذ العلم عن أبي سلیمان الجوزجاني۔‘‘
’’موصوف ایک بڑے عالم اور اصول وفروع دونوں میں مہارت رکھتے تھے اور (امام محمد کے نامور شاگرد) امام ابو سلیمان الجوزجانی  ؒسے علم حاصل کیا تھا۔ ‘‘
ان کی دوکتابوں کے نام ملتے ہیں: ۱:- الفرق و التمییز، ۲:-کتاب التوبۃ ۔

۴:-نصیر بن یحییٰ البلخی رحمہ اللہ 

’’اتحاف السادۃ المتقین في شرح إحیاء علوم الدین‘‘ میں علامہ زبیدیؒ نے انہیں امام ماتریدیؒ کے اساتذہ میں ذکر کیا ہے۔ ابومطیع حکم بن عبد اللہؒ، ابو مقاتل حفص بن مسلم السمرقندیؒ اور ابوسلیمان الجوزجانی ؒآپ کے شیوخ میں سے ہیں۔ موصوف فقہ حنفی اور علم کلام میں ماہرتھے اور سنہ۲۶۸ھ میں وفات پائی۔ 

علمی مقام ومرتبہ

امام ماتریدی رحمہ اللہ  کا علمی مقام ومرتبہ تین باتوں سے سمجھا جاسکتا ہے:
۱:- آپ کی تالیفات        ۲:-آپ کے شاگردوں اور استفادہ کنندگان کا سلسلہ
۳:-سیرت نگار علماء و محققین کی طرف سے آپ کے لیے ذکر کیے گئے القاب۔
پہلے ہم تیسرے نکتے کوذکر کرتے ہیں، چنانچہ سیرت نگاروں نے آپ کے لیے جو القاب ذکر کیے ہیں وہ سب کے سب آپ کے بلند پایہ علمی مقام اور درجۂ اِمامت کو واضح کررہے ہیں، چنانچہ درج ذیل تین القابات دیکھئے: ’’۱:-اِمَامُ الہُدیٰ، ۲:-اِمَامُ الْمُتَکَلِّمِیْن، ۳:-مُصَحِّحُ عَقَائِدِ الْمُسْلِمِینَ‘‘ (مسلمانوں کے عقائد کو درست کرنے والے) ۔
جب کہ آپ کی تالیفات کی عمدگی اور کمال کی گواہی دینے والے سب ہی وہ علماء ہیں جنہوں نے آپ کی تالیفات دیکھیں، اور ان کا مطالعہ کیا، چنانچہ اب بھی جو کتابیں خاص کر آپ کی ضخیم تفسیر بنام ’’تأویلات أہل السنۃ‘‘ اور علم التوحید پر ضخیم اور دقیق کتاب بنام ’’کتاب التوحید‘‘ شائع ہوچکی ہیں اور عرب و عجم کے اہلِ علم کی توجہات کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔ خصوصاً ’’تفسیرماتریدی‘‘ کو تو متعدد اہلِ علم نے اپنی تحقیق کی جولانگاہ بنایا ہے اور اس کے متعدد تحقیقی ایڈیشنز شائع ہوچکے ہیں اور شنید ہے کہ پاکستان کے بعض ادارے اس کے اردو ترجمے کی طرف بھی پیش رفت کرچکے ہیں۔ 
علامہ بیاضی حنفی  ؒ آپ کی تالیفات کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’و حقق في کتبہ المسائل بقواطع الأدلۃ و أتقن التفاریع بلوامع البراہین الیقینیۃ۔‘‘                                                     (اِشارات المرام، ص:۲) 
’’امام ماتریدیؒ نے اپنی کتابوں میں مسائل کو قطعی دلائل سے پایہ تحقیق کو پہنچایا ہے اور تفریعات کو روشن براہین سے مستحکم کردیا ہے۔‘‘
یہ بات محققین کے لیے بہت ہی واضح اور کافی ہے جب کہ عام آدمی کے لیے یہ بات کافی ہونی چاہیے کہ عالم اسلام کے مایہ ناز اور قدیم ترین علمی و تعلیمی ادارے : مصر کا جامعہ الازہر، مغرب کا جامعہ الزیتونہ اور جامع القرویین، ماوراء النہر کے علمی ادارے اور پاک و ہند و افغانستان کے تعلیمی اداروں میں صدیوں سے امام ماتریدیؒ کے اسلوبِ فکر والے عقائد کو درسی نصاب کا حصہ بنایاگیا ہے اور جلیل القدر علمائے کرام انہیں پڑھتے اور پڑھاتے چلے آرہے ہیں۔ چنانچہ عقیدۂ نسفیہ جو ماتریدی اُسلوبِ فکر کا نمائندہ اور مختصر ترین رسالہ ہے اور اس کی شرح جو علامہ ثانی سعدالدین التفتازانی  ؒ نے تحریر کی ہے، وہ اوپر ذکرکردہ دینی جامعات میں داخل نصاب رہی ہے یا درسی نصاب میں بطور معاون کتاب کے پڑھی اور پڑھائی جاتی رہی ہے۔ 

امام ماتریدیؒ کے تلامذہ


امام ماتریدیؒ کی علمی سرگرمیوں اور علمی مقام دونوں سے واقفیت کے لیے ان کے تلامذہ پر بھی ایک نظر ہونی چاہیے۔ اس لیے ذیل میں ان کے چند نامور تلامذہ کا ذکر کیاجاتا ہے:

ا:-ابوالقاسم السمرقندی رحمہ اللہ 

اپنے وقت میں علم فقہ اور علم کلام امام ماتریدیؒ سے حاصل کیا اور بلخ کے مشایخ سے علمِ تصوف حاصل کیا اور اس میں اس قدر ترقی ہوئی کہ ’’الحکیم‘‘ ان کا لقب پڑگیا۔ سمرقند کے قاضی بھی مقرر ہوئے اور اچھی سیرت وکردار کے مالک تھے۔ سمرقند میں سنہ۳۴۲ھ میں وفات پائی۔ دوکتابیں یادگار چھوڑیں: ’’الرد علی أصحاب الہوی‘‘، اور ’’کتاب الإیمان جزء من العمل‘‘ ۔

۲:-شیخ علی الرستغنی رحمہ اللہ 

ابوالحسن علی بن سعد الرستغنیؒ ان کا پورا نام ہے۔ سیرت نگاروں نے آپ کو امام ماتریدیؒ کے جلیل القدر تلامذہ میں بتلایا ہے۔ یادگارکتابوں میں ’’إرشاد المہتدي‘‘ اور ’’الزوائد و الفوائد في أنواع العلوم‘‘ کے نام ملتے ہیں۔ 

۳:-ابومحمد عبدالکریم بن موسیٰ البزدوی رحمہ اللہ 

آپ علمائے حنفیہ میں سے دو مشہور شخصیات : امام ابوالعسر البزدویؒ اور امام ابوالیسر البزدویؒ کے دادا ہیں۔ یہ پورا خاندان علمی خاندان ہے، سنہ ۳۹۰ھ میں وفات پائی۔ 

امام ماتریدی رحمہ اللہ  کی وفات

آپ کی وفات میں اہلِ علم کا تھوڑا سا اختلاف ہے، مگر جو راجح ہے وہ سنہ ۳۳۳ھ ہے اور آپ کی قبر سمرقند میں ہے اور مشہور ہے۔ 

امام ماتریدی رحمہ اللہ  کی زندگی کے عمومی نقوش

امام ماتریدیؒ کے زمانے میں ماوراء النہر کے علاقے میں جو گمراہ فرقے تھوڑی یا زیادہ تعداد میں موجود تھے، ان میں سے تین قابل ذکر ہیں: معتزلہ، شیعہ اور کرامیہ، جب کہ غیر مسلموں میں سے فلاسفہ کی کتب کے عربی تراجم ہونے کی وجہ سے ان کا نام بھی عالم اسلام میں کافی گونج رہاتھا۔ چنانچہ امام ماتریدیؒ نے ان سب کے خلاف اہلِ سنت کی ترجمانی اور دفاع کا محاذ سنبھالا اور اسی لیے ’’امام الہدیٰ‘‘ ان کا لقب قرار پایا۔ اسی لیے ’’تفسیرِ ماتریدی‘‘ کا مطالعہ کرنے والا جابجا اس حقیقت کا مشاہدہ کرتا ہے کہ امام ماتریدیؒ بڑی وضاحت و صراحت اور قوت کے ساتھ ان گمراہ فرقوں کی تردید کرتے ہیں اور شاید ہی کوئی ایسا مقام ہو جہاں ان فرقوں کی تردید کی نوبت آئے اور امام ماتریدیؒ خاموشی سے گزر جائیں۔ امام ماتریدیؒ کی تفسیر گویا اس حوالے سے منفرد حیثیت رکھتی ہے کہ آپ نے آیاتِ قرآنیہ کی تفسیر و تاویل میں اہلِ سنت کے نظریے کو بھی بیان کیا ہے اور ساتھ ساتھ گمراہ فرقوں کے نظریات اور ان کی تردید کو بھی سامنے رکھا ہے، اس طرح یہ عظیم کتاب ’’تقابلی مطالعے‘‘ کا ایک بہترین اور شاہکار نمونہ قرار پاتی ہے اورجو لوگ سمجھتے ہیں کہ تقابلی مطالعے کی روایت عصرِ حاضر میں پڑی ہے اور متقدمین اہلِ علم اس ضروری پہلو سے ناواقف تھے، ان کی غلط فہمی بھی اس کے بعد دور ہوجانی چاہیے۔ 

تالیفات

۱:- تأویلات أہل السنۃ

جو ’’تفسیرِ ماتریدی‘‘ کے نام سے بھی مشہور ہے۔ اس تفسیر میں امام ماتریدیؒ کے طرزِ تفسیر کو درج ذیل نکات میں دیکھاجاسکتا ہے:
تفسیر القرآن بالقرآن:چنانچہ امام ماتریدیؒ کے ہاں اس کا خاص اہتمام نظر آتا ہے کہ آپ جہاں ایک آیت کی تفسیر دوسری آیت میں دیکھتے ہیں یا دونوں کے مقاصد کو یکجا دیکھتے ہیں تو اس کی طرف ضرور رہنمائی فرمادیتے ہیں۔
تفسیر القرآن بالسنۃ النبویۃ: امام ماتریدیؒ کی زندگی میں اگرچہ علم حدیث سے بہت زیادہ لگاؤ کا سراغ نہیں ملتا، کیوں کہ آپ کے حالاتِ زندگی بہت ہی کم دستیاب ہیں، مگر تفسیر دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے پاس احادیث و آثار کا بھی کافی ذخیرہ موجود تھا، چنانچہ راقم السطور نے ملاحظہ کیا تو کم وبیش ہرصفحے دو صفحے بعد متعدد احادیث و آثار مل جاتے ہیں۔ 
تفسیر القرآن باللغۃ العربیۃ: متعدد مقامات پر نہایت اہتمام کے ساتھ عتبی اور عوسج کے حوالے سے لغات کا بھی ذکرکرتے ہیں اور کئی مقامات پر اس مقصد کے لیے باقاعدہ عربی اشعار بھی بطور حوالہ پیش کرتے ہیں۔ 
فقہی اختلافات کا بیان: اگرچہ امام ماتریدیؒ نے اس موضوع کا زیادہ اہتمام نہیں کیا، مگر پھر بھی جہاں ضرورت محسوس ہوئی کہ فقہ حنفی کا استدلال واضح کیاجائے، وہاں فقہ حنفی کے استدلال اور اس کی ترجیح کو بڑی خوبی سے بیان کیا ہے اور کئی مقامات پر بعض ایسے فقہی استدلالات پیش کیے ہیں جو دیگر متداول کتب میں کم ہی نظر آتے ہیں۔ 
گمراہ فرقوں کی تردید: یہ تو امام ماتریدیؒ کا خاص موضوع ہے، چنانچہ کسی بھی آیت سے اگر معتزلہ نے، یا کرامیہ نے، یا باطنیہ نے، یا فلاسفہ نے، یا روافض نے کوئی استدلال کیا ہے تو امام ماتریدیؒ ان کے استدلال کے غلط ہونے کو واضح کرتے ہیں اور پھر جن جن قرآنی آیات سے ان کے نظریات کا باطل ہونا معلوم ہوتا ہے، وہاں بھی اس پر پوری پوری تنبیہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ 
تفسیر کا مجموعی انداز قدرے دقیق ہے، مگر تسلسل سے مطالعہ کیا جائے تو انداز و اسلوب سمجھ آجانے کے بعد استفادہ کافی آسان سے آسان تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ تفسیر متعدد محققین کی تحقیق سے شائع ہوچکی ہے۔ راقم السطور کے پاس اس کا وہ نسخہ ہے جو پانچ جلدوں میں ہے اور محترمہ فاطمہ یوسف الخیمی کی تحقیق سے شائع ہوا ہے۔
 اس تفسیر کے بارے میں علامہ عبدالقادر القرشیؒ نے ’’الجواہر المضیئۃ‘‘ میں جو تبصرہ کیا ہے وہ قابلِ ذکر ہے اور اس کتاب کی اہمیت پر پورا پورا شاہد ہے:
’’بأنہ کتاب لایوازیہ فیہ کتاب بل لایدانیہ شیء من تصانیف من سبقہ في ذلک الفن۔‘‘                                          (الجواہر المضیئۃ،ج:۲،ص:۱۳۰) 
’’یہ ایسی کتاب ہے کہ کوئی اور کتاب اس کی ہم پلہ نہیں، بلکہ سابقین کی کوئی کتاب اس کے قریب بھی نہیں پہنچ پاتی۔ ‘‘
جب کہ علامہ محمد زاہد بن حسن الکوثریؒ کا تبصرہ یہ ہے:
’’کتاب لانظیرلہ في بابہ۔‘‘ (مقدمۃ اشارات المرام،ص:۷) 
’’اس باب میں اس کتاب کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ ‘‘

۲:-کتاب الجدل         ۳:-ماخذ الشرائع

یہ دونوں کتابیں اُصولِ فقہ پر ہیں، اور بعض اہلِ علم کے مطابق چھٹی صدی ہجری تک علمائے احناف کے ہاں یہ کتابیں مروج رہیں، بعد میں جب پانچویں صدی ہجری میں ابوزید عمر الدبوسیؒ کی ’’تقویم الأدلۃ‘‘، فخر الاسلام بزدویؒ کی ’’کنز الأصول في معرفۃ الأصول‘‘ اور شمس الائمۃ سرخسیؒ کی ’’کتاب الأصول‘‘ سامنے آئیں تو تسہیل و ترتیبِ جدید وغیرہ کے پیشِ نظر یہ کتابیں مقبول ہوگئیں اور دقت وپیچیدگی کی وجہ سے امام ماتریدیؒ کی کتابیں پردۂ خفا میں چلی گئیں۔ (کشف الظنون للحاجی خلیفہ،ج:۱،ص:۱۱۰) 
چنانچہ اب بھی علمائے حنفیہ کی اصولی کتب میں اور پھر خود امام ماتریدیؒ کی تفسیر میں کئی مقامات پر اصولِ فقہ کی مباحث موجود ملتی ہیں، جو اس بات کی دلیل ہیں کہ امام صاحبؒ فقط علم کلام اور علم عقائد کے ہی ماہر نہ تھے، بلکہ اصولِ فقہ میں بھی ان کا اپنا خاص اور منفرد مقام تھا اور بعض مستقل آراء تھیں۔ 

۴:-کتاب التوحید

امام ماتریدیؒ نے عقائد کے باب میں خصوصاً الٰہیات کے باب میں یہ کتاب تحریر کی ہے اور اس کا نام ’’کتاب التوحید‘‘ رکھ کر یہ واضح کیا ہے کہ دین اسلام کا اساسی پیغام توحید ہے اور دینِ اسلام سے باہر کے فرقے ہوں، مثلاً: فلاسفہ و ثنویہ اور مانویہ وغیرہ یا اسلام کے اندر موجود گمراہ فرقے ہوں، وہ سب کے سب ابتدائی طور پر جو ٹھوکر کھاتے ہیں، وہ اسی توحید کے کسی نہ کسی پہلوسے متعلق ہوتی ہے۔ 
اسی لیے اس کتاب میں مصنف نے صرف اسلام کے نظریۂ توحید کو بیان کرنے پر اکتفاء نہیں کیا، بلکہ پوری تفصیل کے ساتھ دیگر ادیان اور گمراہ فرقوں کے مقالات کی تردید کو پیشِ نظر رکھا ہے، اسی لیے اس کتاب میں ان فرقوں کے مقالات بھی کافی مقدار میں سامنے آجاتے ہیں، چنانچہ حافظ ابن عساکر ؒ ’’تبیین کذب المفتري‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’إن مقالات تلک الفرق مبسوطۃ في کتب الأشعري و الماتریدي و الاسفرائیني۔‘‘                                            (تبیین کذب المفتری، ص:۲۰) 
’’ان فرقوں کے اَقوال‘ امام اشعریؒ، امام ماتریدیؒ اور امام اسفرائینیؒ کی کتابوں میں تفصیل سے موجود ہیں۔ ‘‘
اس کتاب میں امام ماتریدیؒ نے جو مباحث ذکر کی ہیں، وہ درج ذیل ہیں :نظریۂ معرفت کی وضاحت، عقیدۂ اُلوہیت کی اہمیت اور اس کے دلائل،دہریہ کا رد، سمنیہ کا رد، سوفسطائی کا رد، ثنویہ کا رد، دیصانیہ کا رد، مرقونیۃ کا رد، مسئلہ قضاء وقدر کی بحث، مسئلہ ایمان کی بحث، مسئلہ شفاعت اور مسئلہ ارجاء کی بحث، ایمان اور اسلام کی بحث۔
اس کتاب کے بارے میں امام ابوالیسر البزدویؒ کا یہ تبصرہ قابلِ توجہ ہے:
’’إن بہٖ قلیل انغلاق و تطویلا و في ترتیبہٖ نوع تعسیر و إنہٗ لولا ذٰلک لاکتفینا بہٖ۔‘‘                                                  (اصول الدین لابی الیسر البزدوی) 
’’اس کتاب میں قدرے پیچیدگی، طوالت اور ترتیب بھی کچھ مشکل ہے، اگر یہ باتیں نہ ہوتیں تو ہم اسی کتاب کو کافی سمجھتے (اور خود سے اس موضوع پر کوئی کتاب تحریر نہ کرتے) ۔‘‘ 
امام ماتریدیؒ کی اس کتاب اور اس موضوع سے متعلق آراء و افکار کی اہمیت کا اس سے بھی اندازہ لگائیے کہ علامہ ابن الہمامؒ کی ’’المسایرۃ‘‘، ’’العقیدۃ النسفیۃ‘‘ اور اس کی شروحات، علامہ بیاضی حنفیؒ کی ’’إشارات المرام‘‘، علامہ ابوالیسر بزدویؒ کی ’’أصول الدین‘‘ حافظ ابوالبرکات نسفیؒ صاحب کنزالدقائق کی کتاب ’’العقیدۃ‘‘، وغیرہ میں امام ماتریدیؒ کے اسلوب کی پیروی کی گئی ہے اور ان کی آراء کو اہتمام کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ یہ کتاب عصرِحاضر میں ترکی کے ایک محقق کی کاوش سے شائع ہو کر عرب و عجم میں اہلِ علم کی توجہ کا مرکز بن چکی ہے۔ الحمد للہ!

۵:-شرح الفقہ الأکبر

 اس نام سے چونکہ امام ماتریدیؒ کی طرف کتاب منسوب ہو کر شائع ہوئی ہے، اس لیے اس کا ذکر کردیا، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب امام ماتریدیؒ کی تالیف نہیں ہے اور کہیں بھی سیرت نگاروں نے اس نام کی کتاب ان کی طرف منسوب نہیں کی۔ عصرِ حاضر میں جس ادارے نے بھی اسے شائع کیا ہے، انہیں یقینا اس بارے میں کوئی سہواور غلط فہمی ہوئی ہے۔ بلکہ حقیقت میں یہ کتاب امام ابواللیث سمرقندیؒ (متوفیٰ:۳۷۳ھ) کی تالیف ہے۔ امام زاہد الکوثریؒ اور امام محمد ابوزہرہؒ کی یہی تحقیق ہے، اس لیے اہلِ علم اس نکتے پر متنبہ رہیں۔ 

۶:-مقالات الماتریدي رحمۃ اللہ علیہ 

 اس کتاب میں بھی امام صاحبؒ نے مختلف فرقوں کے نظریات کا جائزہ پیش کیا ہے۔ علامہ طاش کبری زادہؒ، علامہ بغدادیؒ، علامہ عبدالقادر القرشیؒ، علامہ مرتضیٰ زبیدیؒ اور علامہ عبدالحی لکھنویؒ نے امام ماتریدیؒ کی تالیفات میں اس کتاب کا ذکر کیا ہے۔ 

۷:-الدرر في أصول الدین

’’کشف الظنون‘‘ اور ’’ہدیۃ العارفین‘‘ میں اس کا ذکر ملتا ہے۔ 

۸:-العقیدۃ الماتریدیۃ

’’ہدیۃ العارفین‘‘ میں اس کا ذکر ملتا ہے، مگر علماء کی رائے یہ ہے کہ یہ عقیدہ ان کی طرف منسوب کردیا گیا ہے، ان کی تالیف ہے نہیں۔ 

۹:-بیان وہم المعتزلۃ

 ’’کشف الظنون، مفتاح السادۃ، ھدیۃ العارفین‘‘ اور ’’الجواہر المضیئۃ‘‘ وغیرہ میں اس کا ذکر ملتا ہے، مگرغالب گمان یہ ہے کہ یہ کتاب بھی اب مفقود ہے۔ 

۱۰:-ردّ تہذیب الجدل

علامہ طاش کبری زادہؒ، حاجی خلیفہؒ، اور اسماعیل باشاؒ نے اس کا ذکر کیا ہے۔ ابوالقاسم الکعبی المعتزلی (متوفیٰ:۳۱۹ھ) نے ’’تہذیب الجدل‘‘ کے نام سے کتاب لکھی تھی،یہ اسی کتاب کا ر د ہے اور اب یہ کتاب بھی مفقود ہے۔ 

۱۱:-ردّ وعید الفساق
 

یہ کتاب بھی ابوالقاسم الکعبی المعتزلی کی کتاب ’’وعید الفساق‘‘ کا ردّ ہے۔ یہ کتاب بھی مفقود ہے۔

۱۲:-ردّ أوائل الأدلۃ

 یہ کتاب بھی ابوالقاسم الکعبی المعتزلی کی کتاب ’’أوائل الأدلۃ‘‘ کا ردّ ہے، اور اب مفقود ہے۔ 

۱۳:- ردّ الأصول الخمسۃ 

’’الأصول الخمسۃ‘‘ ابو محمد الباہلی(متوفیٰ۳۰۰ھ) کی کتاب تھی، جس کا امام ماتریدیؒ نے رد لکھا۔ 

۱۴:- الردّ علی القرامطۃ

۱۵:-الردّ علی فروع القرامطۃ
۱۶:-ردّالإمامۃ۔ (یہ کسی رافضی کی کتاب ’’الإمامۃ‘‘ کا رد ہے)
۱۷:-وصایا و مناجاۃ(فارسی زبان میں ہے)
۱۸:-رسالۃ فیما لایجوز الوقوف علیہ في القرأٰن

یہ آخری سب کتابیں بھی مفقود ہیں۔ 

اختتامیہ

امام ماتریدیؒ کی حیات و خدمات کا تقاضا یہ ہے کہ اس پر مستقل اور مفصل کام ہو، اور دوسروں کو تو چھوڑئیے ہم خود اور ہمارے اکابر جن کی طرف اپنی نسبت فخر سے فرمایا کرتے تھے تو ان کا حق بنتا ہے کہ ہم ان کے علوم و فیوض سے خود بھی مستفید ہوں اور دیگر طالبانِ علم کے سامنے بھی ان کے علوم وفیوض کا خوان پیش کریں۔ یہ بات اگرچہ کسی حد تک بجا ہے کہ اب تک امام ماتریدیؒ کے اصل علمی خزائن مخطوطات کی شکل میں محدود تھے اور ان سے استفادہ آسان نہ تھا، مگر اب جب کہ آپ کی دو اہم ترین کتابیں: تفسیر اور کتاب التوحید شائع ہوچکی ہیں، تو ان سے بھرپور استفادہ کیاجائے اور امام ماتریدیؒ کی علمی آراء اور نظریاتی تحقیقات کو سامنے لایاجائے۔ 
امام ماتریدیؒ کی فکر کے اعتدال اور جامعیت کا نمونہ دیکھنے کے لیے ’’کتاب التوحید‘‘ میں ذکر کردہ ان کا یہ ضابطہ دیکھ لیاجائے جو اُن کی فکر میں اساس کی حیثیت رکھتا ہے، فرماتے ہیں:
’’أصل ما یعرف بہ الدین وجہان: أحدھما السمع والآخر العقل۔‘‘ (کتاب التوحید،ص:۴) 
’’دین جن طریقوں سے پہچاناجاتا ہے اس کی اصل دو چیزیں ہیں: ۱:شریعت، ۲:عقل۔‘‘
اب آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ بندہ ناچیز کی یہ سطور اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے، اپنے بندے ابومنصور ماتریدیؒ کو ان کی علمی و دینی خدمات کااجر عظیم عطا فرمائے اور ان کی ان خدمات کو ان کے لیے تا قیامت صدقۂ جاریہ بنائے۔ آمین برحمتک یا أرحم الراحمین !
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین