بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

حضرت مدنی  ؒ کی رحلت دین و علمِ دین، مدرسہ وخانقاہ کا حادثۂ کبریٰ

 

حضرت مدنی  ؒ کی رحلت دین و علمِ دین، مدرسہ وخانقاہ کا حادثۂ کبریٰ

حضرت مدنی  ؒ کی رحلت

دین و علمِ دین، مدرسہ وخانقاہ کا حادثۂ کبریٰ

 

العارف أمابعد: مجاہدِ اُمت، محدثِ وقت شیخ العصر حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی  رحمۃ اللہ علیہ  کی حیاتِ مقدسہ کے اتنے مختلف گوشے ہیں کہ ہرایک گوشہ مستقل مضمون و مقالہ کا محتاج ہے اور باوجود اس کے نہ حق ادا ہوگا، نہ آئندہ نسلیں اس کا یقین کرسکتی ہیں کہ واقعی اس پُرفتن دور میں کوئی ایسی فوق العادۃ ہستی تھی۔ مسلمانوں کے زوال واِدبار کے دور میں اخلاق کی پستی کے عہد میں، اخلاص کے فقدان کے زمانہ میں، ایسی محیر العقول جامعِ کمالات شخصیت کا وجود اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ایک کرشمہ تھا۔ شاعری اور مبالغہ آمیزی کے دور میں حقائق وواقعات کی صحیح ترجمانی بے حد مشکل ہے۔ عام طور سے یہ ایک عادت بن گئی کہ مضمون نگار اس انداز سے قلم اُٹھاتا ہے کہ پڑھنے والا سب سے پہلے صاحبِ مضمون کے کمالِ فصاحت وبلاغت کا معترف ہو اور سب سے پہلے وہ خراجِ تحسین حاصل کرے۔ ظاہر ہے کہ شاعری کے اس دور میں کسی حقیقت کے چہرہ سے نقاب کشائی کیسی ہوسکتی ہے؟! غیر ذمہ دارانہ مبالغہ آمیزیوں سے اس دور میں حقائق اتنے مشتبہ ہوگئے ہیں کہ حقیقت کی سراغ رسانی اس زمانہ کے مقالات وتاریخوں میں عنقا ہوگئی ہے۔ اس زمانہ کی تاریخ کیا ہے؟ مصنف کے مخصوص زاویۂ نگاہ سے ایک حقیقت کے چہرہ پر مبالغہ آمیزی کا ایک اتنا انبار لگ جاتا ہے کہ اس کا ہٹانا اور واقعیت تک پہنچنا ہر شخص کا کام نہیں۔ 
حضرت کے سوانح نگار بہت کچھ لکھیں گے اور عقیدت مند بہت کچھ لکھ چکے ہیں، لیکن جو کمال کسی کو خود حاصل نہ ہو، اس کا صحیح ادراک کیونکر ہوگا؟! اور جب خود حقیقت تک رسائی نہ ہو اوروں کو کیا سمجھا جائے گا؟! مثلاً حضرت مرحومؒ کی باطنی نسبت اور تعلق مع اللہ کی کیفیت جسے خود یہ سعادت اس درجہ کی حاصل نہ ہو اس کی ترجمانی کیا کرے گا؟! محمد بن یحییٰ نیشاپوریؒ کا مقولہ: ’’لایَعرف قدرَ الغزالي، من جاء بعد الغزالي۔‘‘ اور صاحبِ طبقاتِ شافعیہ تاج الدین سبکی  ؒ نے اس پر اضافہ کیا ہے: ’’إلا أن یکون مثل الغزالي أو فوق الغزالي۔‘‘ اسی حکیمانہ مقولہ کی روشنی میں بلامبالغہ کہا جاسکتاہے کہ حضرتؒکا ادراکِ نسبت وادراکِ کمالاتِ حقیقت نہ ہم جیسے عقیدت مندوں کا منصب ہے، نہ مریدین وتلامذہ کے دائرۂ علم میں ہے۔ 
حضرت  رحمۃ اللہ علیہ  کی باطنی نسبت کا حق تو حضرت قطب حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ  کو، یا حضرت قطبِ عصر مولانا رشید احمد گنگوہیؒ   کو پہنچتا ہے کہ وہ بیان فرماتے۔ مولانا شبلی مرحوم نے مولانا روم کے سوانحِ حیات میں جب اُن کے باطنی کمالات وتصوف ومعرفت پر لکھنے کا ارادہ کیا تو صاف اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ: ’’میں اس کوچہ سے بالکل نابلد ہوں۔‘‘ انبیاء کے حقائق وکمالات کا ادراک اولیاء نہیں کر سکتے، اولیاء کے مدارج کا انکشاف غیر اولیاء کو نہیں ہوسکتا۔ ہم کچھ بھی لکھیں، نہ حقیقت تک رسائی، نہ حق ادا ہونے کا امکان:

حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

قدرت نے حضرت علیہ الرحمۃ میں ایسے مختلف الانواع کمالات رکھے تھے اور ایسے اضداد جمع کیے تھے کہ حقیقت افسانہ معلوم ہوتی ہے، اس پر مجھے ایک واقعہ یاد آیا، اب سے ٹھیک بیس برس قبل جامعہ ازہر قاہرہ کی طرف سے علماء ازہر کا ایک وفد ہندوستان کے علمی اداروں کے معائنہ اور علمی روابط پیدا کرنے آیا تھا۔ وفد کے رئیس الشیخ ابراہیم الجبالی تھے جو ممتاز عالم تھے اور نہایت ذکی اور بے مثل خطیب تھے۔ شیخ جبالی اپنے رفقاء الاستاذ عبد الوہاب النجار اور الشیخ احمد العدوی کے ساتھ دارالعلوم دیوبند بھی پہنچے، یہ وہ دور تھا کہ حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی  ؒ دارالعلوم کے صدر تھے اور حضرت مولانا مدنی  رحمۃ اللہ علیہ  ایک ماہ کی رخصت پر تھے اور ہندوستان کا دورہ کررہے تھے۔ اس زمانہ میں سیاسی معرکہ آرائی کا بازار گرم تھا۔ مسلم لیگ کا عروج شروع ہوگیا تھا اور مسلم لیگ کی مخالفت یا ناموافقت کفر سے کم جرم نہ تھا۔
دارالعلوم دیوبند میں حضرت مولانا عثمانی  ؒنے ان کے شایانِ شان استقبال کیا۔ حضرت مولانا مدنی  ؒ کو بھی اپنا دورہ ملتوی کرنے کے لیے تاردیا کہ وہ تشریف لائیں، لیکن حضرتؒ نے اپنے دورہ کو جاری رکھنا ضروری سمجھا اور حاضری کے لیے معذرت پیش کی۔ اس وجہ سے شیخ جبالی مرحوم کی ملاقات حضرت علیہ الرحمۃ سے نہ ہوسکی۔ میں اس زمانہ میں جامعہ اسلامیہ ڈابھیل میں تھا اور اسی زمانہ میں مجلسِ علمی ڈابھیل کی طرف سے بمعیت مولانا سید احمد رضا صاحب بجنوری ایک علمی خدمت کے سلسلہ میں مصر کا سفر پیش آیا، قاہرہ پہنچے تو شیخ جبالی سے ملاقات ہوئی، بے حداکرام سے پیش آئے اور پُرتکلف دعوتِ طعام سے تواضع کی، ملاقات کے دوران میں نے چند مشاہیر کے بارے میں ان کی رائے دریافت کی اور پھر حضرت مولانا مدنی  ؒ کے بارے میں دریافت کیا کہ حضرت کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ فرمایا کہ: میری ملاقات خود براہِ راست موصوف سے نہ ہوسکی، تاکہ میں خود کوئی رائے قائم کرتا، لیکن ان کے مخالفین اور ان کے معتقدین دونوں سے ایسے متضاد بیان سنے ہیں کہ ان بیانات کے پیشِ نظر یہ رائے قائم کی ہے: ’’ہُوَ إِمَّا مَلَکٌ وَإِمَّا شَیْطَانٌ۔‘‘ پھر فرمایا کہ: تم فیصلہ کرو کہ دونوں میں کون سا فیصلہ صحیح ہے؟ میں نے عرض کیا:’’ نَعَمْ ہُوَ مَلَکٌ‘‘ (جی ہاں! وہ فرشتہ تھے) اس تنقید وتبصرہ کی حقیقت سمجھانے کے لیے مجھے امامِ حدیث ابو عمر ابن عبد البر مالکی قرطبیؒ کی ایک بات یاد آئی۔ حافظ ابن عبد البر مالکیؒ نے ائمہ ثلاثہ ابو حنیفہؒ، مالکؒ، الشافعیؒ کے مناقب وحالات میں ایک کتاب لکھی ہے، جس کا نام ہے: ’’الانتفاء في الأئمۃ الثلاثۃ الفقہاء‘‘ فرماتے ہیں کہ: کسی انسان کے باکمال ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کے موافق ومخالف دونوں انتہاء تک پہنچیں۔ فرماتے ہیں کہ: امام ابوحنیفہؒ    کی مثال حضرت علیؓ  جیسی ہے : ’’ہَلَکَ فیہِ رَجُلان: مُحِبٌّ مُفْرِطٌ ومُبْغِضٌ مُفَرِّطٌ‘‘ جن میںدونوں گروہ ہلاک ہوئے، یعنی حق سے بعید ہوئے: محبت میں غلو کرنے والے (جیسے شیعہ) اور بغض میں انتہاء تک پہنچنے والے (جیسے خوارج)۔
 اس تاریخی حقیقت کے پیشِ نظر حضرت علیہ الرحمۃ کی جامعیت وکمالات کے پیشِ نظر یہ مختصر وبلیغ جملہ رہنمائی کرتا ہے، اس لیے میں جب حضرت علیہ الرحمۃ کی ذاتِ گرامی کا تصور کرتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ کیا لکھوں؟! نہ دماغ وادراک کی اتنی بساط ہے، نہ قلم میں اتنا زور ہے، نہ فرصت میں اتنی گنجائش ہے۔ وہ کیا تھے؟ انسانیت کے زوال کے دور میں اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کا نمونہ تھے۔ وہ کیا تھے؟ اللہ تعالیٰ کی رحمت تھی جو ہم سے چھن گئی، وہ علم وتقویٰ واخلاق کے ایک پیکر تھے جن کی نظیر صدیوں میں پیدا ہوتی ہے، خانقاہ مدرسہ وسیاسی کمالات کے دو آبہ نہیں سہ آبہ تھے، جن کی شان قرونِ متأخرہ میں دنیا کے کسی گوشے میں ڈھونڈھنے میں بھی نہیں ملتی۔ حضرت مولانا محمد عزیر صاحب (عزیر گل) کو میں نے نامۂ تعزیت لکھا تھا، رفقاء مالٹا سب سے زیادہ تعزیت کے مستحق تھے، موصوف نے جو جواب لکھا ہے اس کے چند کلمات نقل کرتا ہوں، جو اختصار کے ساتھ نہایت جامع وبلیغ ہیں، فرماتے ہیں:
’’مرحوم کے اوصاف ذکر کرکے صبر کو متزلزل کرتا ہے، اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ مرحوم کیا تھے، اُسی کے بنائے ہوئے تھے اور رحمت تھے۔ اب دیکھئے پس ماندگان کے لیے کیا بندوبست ہوتا ہے، وہ قادر ہے سب کچھ کرسکتا ہے۔ دین کے ہرشعبہ میں خلا واقع ہوگیا۔‘‘
دارالعلوم دیوبند میں ایک مرتبہ طلبہ بستی والوں میں فساد کی صورت پیدا ہوگئی۔ طلبہ مظلوم تھے، اس لیے ان کو انتقام کی فکر تھی۔ جذبات اتنے مشتعل تھے کہ ان پر قابو پانا طاقت سے باہر تھا۔ حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی  رحمۃ اللہ علیہ  کی صدارت میں اساتذہ وطلبہ کا ایک اجتماع ہوا، اس موقع پر حضرتؒ نے ایک تقریرفرمائی ہے، ظاہر ہے کہ حضرت صرف خطابت کی حیثیت سے ایسے ممتاز خطیب نہ تھے کہ صرف زورِ خطابت سے مجمع پر قابو پاتے، لیکن قدرت نے جو روحانی طاقت دی تھی ایسے موقع پر جو اس کا ظہور ہوا اور جس مؤثرانداز میں تقریر فرمائی، آج پندرہ سال بعد بھی اس کی آواز میری سامعہ میں گونج رہی ہے۔ موضوعِ تقریر یہ تھا کہ مظلوم بننا کتنا مفید ہے اور انتقام اگرچہ برحق ہو اس حق کو چھوڑنا اللہ تعالیٰ کی کن رحمتوں کا ذریعہ بنتا ہے!۔ میں نے دسیوں تقریریں حضرتؒ کی سنی تھیں، لیکن زندگی میں پہلی مرتبہ مشکل ترین وقت میں جہاں لوگوں کے حوصلے ختم ہوچکے تھے، ایسی مؤثر ترین فرمائی، ایسا محسوس ہورہا تھا کہ آگ پر آسمان سے پانی برس رہا ہے۔ ایک گھنٹہ کی تقریر میں سارے مشتعل جذبات ایسے سرد پڑگئے کہ گویا ایک شیطانی طلسم تھا، فرشتوں کے ظہور سے ایک آن میں ٹوٹ گیا، ہرطرف سکون ہی سکون تھا۔ حضرت مولانا عثمانی  رحمۃ اللہ علیہ  نے حضرت علیہ الرحمۃ کی تقریر کے بعد کھڑے ہوکر فرمایا کہ: ’’بھائیو! اس سے زیادہ میں کیا کہہ سکتا ہوں؟! میرے علم میں بسیطِ ارض پر شریعت وطریقت وحقیقت کا حضرت مولانا مدنی سے بڑا کوئی عالم موجود نہیں۔‘‘ غالباً الفاظ یہی تھے یا اس کے قریب۔ جب وقت کے بڑے محقق واہلِ کمال حضرت علیہ الرحمۃ کو اپنی خصوصیات وکمالات میں آیۃٌ من آیات اللہ اور حجۃ اللہ علی الخلق سمجھتے تھے، میری بساط ہی کیا ہے کہ کچھ کہا جاسکے۔ بہرحال اتنا کہہ سکتا ہوں کہ دارالعلوم دیوبند کی مسندِ صدارت پر تقریباً ایک صدی سے جو قوی النسبۃ عارفین محدث جلوہ افروز تھے، حضرت مولانا علیہ الرحمۃ اس کی آخری شخصیت تھے۔ اکابرِ دیوبند کے قافلے کے آخری مسافر تھے جو دنیا سے چل بسے۔ إنا للّٰہ
حضرت کا وجود ہندوستان کے اہلِ علم اور اہلِ اسلام کے لیے عالمِ اسباب میں آخری سہارا تھا جو نہیں رہا۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ اگر چلے گئے تو شاہ عبد العزیزؒ وشاہ رفیع الدینؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ جیسے خلف چھوڑ گئے۔ اگر حضرت مولانا قاسم صاحبؒ گئے تو حضرت گنگوہیؒ اور حضرت شیخ الہندؒ جیسی ہستیاں جگہ پُر کرنے کے لیے زندہ تھے۔ حضرت شیخ الہندؒ گئے تو حضرت تھانویؒ، حضرت مدنیؒ، حضرت مولانا انور شاہؒ، حضرت مولاناخلیل احمد صاحبؒ جیسے حضرات جانشین موجود تھے، لیکن آہ! حضرت مدنی علیہ الرحمۃ ایسی حالت میں اُمت کو چھوڑ گئے کہ ان کے کمالات میں کسی ایک کمال میں ان کا کسی درجہ میں جانشین نظر نہیں آتا۔ یہی وہ چیز ہے جو اُمتِ اسلامیہ کے لیے صبر آزما حالت ہے۔
سعید بن جبیر  رحمۃ اللہ علیہ  کو حجاج نے جب شہید کیا تھا تو خواب میں حجاج کو کسی نے دیکھا تھا، کہا کہ ہر شہید کے قتل کے عوض مجھے ایک ایک مرتبہ قتل کیاگیا، لیکن سعید بن جبیر کے قتل پر مجھے ستر مرتبہ قتل کیا گیا۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ  سے کسی نے سوال کیا کہ حجاج نے تو صحابہؓ    کو بھی قتل کیا تھا اور سعید بن جبیرؒ  تو تابعی تھے؟ یعنی اس فضیلت کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا کہ: حجاج نے سعید بن جبیرؒ   کو ایسے زمانہ میں قتل کیا کہ روئے زمین پر ایسا کوئی نہ تھا جو سعید بن جبیرؒ کے علم کا محتاج نہ ہو۔ درحقیقت ہندوستان کے مسلمان اور اہلِ علم، خانقاہ ومدرسہ والے آج یتیم ہوگئے، فإنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون، اللّٰہم اغفر لہ، اللّٰہم ارحمہ، اللّٰہم ارفع درجاتہ ، آمین !
 

(ماخوذ از  ہفت روزہ ’’الجمعیۃ‘‘ دہلی ، ’’شیخ الاسلامؒ   نمبر ‘‘)