بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

امام شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ اور حنفیت

 

امام شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ اور حنفیت

امام شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ اور حنفیت

 

محدث العصرحضرت علامہ محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ تحقیقی مقالہ آج سے تقریباً ۷۸؍برس قبل ۱۳۵۹ھ -۱۹۴۰ء میں بریلی سے مولانا محمد منظور نعمانی رحمۃ اللہ علیہ کی زیرادارت شائع ہونے والے ماہنامہ ’’الفرقان‘‘ کی خصوصی اشاعت برائے امام شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے لیے تحریر فرمایا تھا، حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ اس وقت جامعہ اسلامیہ ڈابھیل میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ افادیت کے پیش نظر یہ تحقیقی مقالہ قندِ مکررکے طور پر شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔ (ادارہ)

حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی قدس سرہٗ، سرزمین ہند کے ان اکابر میں سے ہیں جن کی نظیر نہ صرف اپنے عصر میں اور نہ صرف ہندوستان میں بلکہ بہت سے قرون اور ممالکِ اسلامیہ میں ڈھونڈنے سے نہیں ملتی۔ حضرت موصوف، بقول حضرت حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی -بانی دارالعلوم دیوبند- ان افرادِ امت میں سے ہیں کہ سرزمین ہندمیں اگر صرف شاہ ولی اللہ ہی پیداہوتے تو ہندوستان کے لیے یہ فخر کافی تھا۔  حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی اور علمی و عملی کمالات کے اتنے گوشے ہیں کہ ہرایک مستقل تصنیف کا محتاج ہے، مثلاً : حضرت ممدوح کی جامعیت اور تبحر، دقتِ نظر، ظاہری و باطنی علو م کا حیرت انگیز اجتماع، مکاشفات و کرامات، تصنیف و تالیف، ترجمۂ قرآن کی بنیاد، نصابِ حدیث کی تاسیس، درس کی اصلاح، اسرارِ شریعت کی دل نشین اور مؤثر تشریح، کلام، تصوف، فلسفہ، اخلاق اور نظام حکومت میں ان کے خاص خاص قابل قدر نظریات، اُصولِ تفسیر و اُصولِ حدیث میں خاص خاص تحقیقات، جہاد کا جوش، حکومت اسلامیہ کی خلافت راشدہ کے اصولوں پر تشکیل و تاسیس، وغیرہ وغیرہ، اتنے کمالات و خصائص ہیں جو اہلِ نظر و فکر کے لیے اور اہلِ دل و اہلِ ذوق اربابِ قلم کے لیے کافی جولان گاہِ تحقیق و تدقیق ہیں۔  حضرت موصوف کیا تھے؟ خدائے تعالیٰ کی ایک حجتِ قاطعہ تھی جو بارہویں صدی میں ہندوستان میں ظاہر ہوئی۔ میری بساط ہی کیا ہے کہ میں اربابِ نظر کے لیے شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے کمالات کے کسی شعبہ پرایسا لکھ سکوں کہ حق ادا ہوسکے، تاہم حصولِ سعادت کے لیے ایک موضوع پر کچھ اظہارِ رائے کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، عصر حاضر کے ذوق کے پیش نظر مجھے کوئی دلچسپ موضوع اختیار کرنا چاہیے تھا، مگر مندرجہ ذیل امور نے مجھے عنوان مندرجہ بالا پر کچھ اظہار کرنے کے لیے مجبور کیا: ۱:-حنفیت حقیقت میں ایک شرعی نظامِ قانون ہے جس کو اصحابِ درایت اور ائمہ مذہب نے نظامِ عالم کے لیے اصح ترین قانون سمجھا اور آخرت کے لیے ایک نافع ترین ذریعۂ نجات و وسیلۂ سعادت خیال کیا۔ ۲:- ہند اور بیرونِ ہند کے مخالف تقلید حضرات نے حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کو بھی امام ابن حزم ظاہری،علامہ ابن القیم اور خاص شوکانی کی طرح عدم تقلید کے لیے ایک رکن رکین سمجھا، بلکہ تقلید اور بالخصوص حنفیت کا دشمن ظاہر کیا ہے۔ ۳:-حضرت موصوف کی بعض تالیفات میں بعض ایسی عبارات بھی موجودہیں جس سے ایک سطحی النظر شخص دیانت داری کے ساتھ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق یہ رائے قائم کرسکتا ہے۔ اس موقع پر مناسب ہوتا کہ کچھ تفصیلی نظر اجتہاد و تقلید پر ڈال سکتا، تاکہ کسی قدر واضح ہوجاتا کہ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ مجتہد تھے یا مقلد؟ لیکن مضمون بہت طویل ہوجائے گا، اس لیے اس کے متعلق چند ارشادات ہی پر اکتفا کرتا ہوں،اور وہ ارشادات بھی نہایت مجمل ہوں گے، لیکن ان شاء اللہ! اہلِ علم کے لیے وہ کافی بھی ہوں گے۔ ۱:…اگر قدماء میں سے قاضی بکار اور امام طحاوی اور ابوبکر خصاف اور ابوبکر جصاص، قاضی ابوزید دبوسی،شمس الائمہ سرخسی رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ وغیرہ اور متاخرین میں سے امیر کاتب اتقانی، علاء الدین ماردینی، ابن الہمام،ابن امیر الحاج، قاسم بن قطلو بغا رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ مقلدِ ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہوسکتے ہیں، حالانکہ یہ حضرات بھی اپنے خصوصی مختارات رکھتے ہیں تو پھر حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا انہی کی طرح حنفی ہونا کیوں مستبعد ہے ؟! نیز جبکہ قاضی اسماعیل، حافظ ابن عبدالبر،قاضی ابوبکر ابن عربی، حافظ اصیلی، ابن رشد کبیر رحمۃ اللہ علیہم مالکی ہوسکتے ہیں اور دارقطنی، بیہقی، خطابی، ابوالمعالی، امام الحرمین، غزالی،عز ابن عبدالسلام، ابن دقیق العید رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ شافعی ہوسکتے ہیں اور علیٰ ہذا جبکہ ابن جوزی، ابن قدامۃ، ابن تیمیہ، ابن قیم رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ حنبلی ہوسکتے ہیں تو پھر اسی درجہ میں حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو مقلد ِمذہب حنفی ماننے میں کیا اشکال ہوسکتا ہے؟! ۲:…اصولاًکسی امام صاحبِ مذہب کا متبع چند جزئی مسائل میں اگر اپنے امام کے خلاف رائے قائم کرے تو علمائے امت میں اس کو اتباع و تقلید کے منافی نہیں سمجھا جاتا، قریباً سب مذاہب کے علماء میں کثرت سے خاص خاص مسائل میں بہت سے اختیارات اپنے ائمہ کے خلاف ملتے ہیں۔ ۳:… پس اگر آپ نے تقلید کی وسیع حدود کو ان ارشادات اور امثلہ سے کچھ سمجھ لیا ہے تو پھر حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی عبارات و ملفوظات سے یہ سمجھنا آپ کے لیے آسان ہوجائے گا کہ حضرت ممدوح حنفی تھے یا غیر حنفی۔ ۴:…اجتہادو تقلید کے سمجھنے کے لیے ایک حد تک حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تالیف’’ عقد الجید فی الاجتہاد والتقلید‘‘ عربی میں اور اردو میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’الاقتصاد فی التقلید والاجتہاد‘‘ اور شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن قدس سرہٗ کی کتاب ’’إیضاح الأدلۃ‘‘ کی دفعہ پنجم کافی و شافی ہیں۔ ۵:…ہر محدث کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ فقیہ بھی ہو، جیسا کہ ہر فقیہ کا محدث ہونا ضروری نہیں، نیز تفقہ کا مرحلہ تحدیث سے کہیں زیادہ مشکل ہے، اس کی وضاحت کے لیے مندرجہ ذیل دو واقعے پیش کرتا ہوں: ۱:-حافظ حدیث ابوعمرابن عبدالبر مالکی اندلسی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی ۴۶۳ھ)اپنی کتاب ’’جامع بیان العلم‘‘ میں فرماتے ہیں کہ :امام حدیث اعمش (سلیمان بن مہران رحمۃ اللہ علیہ )کی مجلس میں ایک شخص آیا اور اعمشؒ سے کوئی مسئلہ دریافت کیا، آپ کوئی جواب نہ دے سکے، دیکھا کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ تشریف رکھتے ہیں، فرمایا کہ: کہئے نعمان!کیا ہے جواب؟ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے فوراً جواب دے دیا ۔ امام اعمشؒ نے پوچھا: ابوحنیفہ! تم نے کہاں سے یہ جواب دیا؟ ابوحنیفہؒ نے فرمایا : آپ ہی نے تو مجھے فلاں حدیث اپنی سند سے بیان کی تھی، اسی سے یہ مسئلہ اس طرح نکلتاہے الخ۔ امام اعمشؒ یہ دیکھ کر بے ساختہ فرمانے لگے: ’’نحن الصیادلۃ وأنتم الأطباء ۔‘‘ (مختصر جامع بیان العلم،ص:۱۸۲) ترجمہ:’’ہم تو عطار ہیں، طبیب تو آپ لوگ ہیں۔‘‘ نیز امام ابن عبدالبرؒ ‘ اسی کتاب میں نقل فرماتے ہیں کہ:ایک دفعہ اعمشؒ نے امام ابویوسفؒ سے ایک مسئلہ دریافت فرمایا، ابویوسفؒ نے جواب دے دیا، آپ نے فرمایا:یعقوب!(امام ابویوسفؒ کانام ہے)تم نے یہ کہاں سے کہا؟ فرمایا:اس فلاں حدیث سے جو آپ نے ہی مجھے بیان فرمائی ہے۔ اعمش فرمانے لگے: ’’یایعقوب! إنی لأحفظ ھٰذا الحدیث من قبل أن یجتمع أبواک ماعرفت تاویلہٗ إلی الآن۔‘‘ (مختصر جامع بیان العلم، ص:۱۸۲) ترجمہ:’’یعقوب! یہ حدیث تو مجھے اس وقت سے یاد ہے کہ آپ کے والدین جمع بھی نہ ہوئے ہوں گے، لیکن آج تک مجھے اس کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا تھا۔‘‘ اور یہ اعمشؒ وہ جلیل القدر امام ہیں جن کے متعلق امام بخاریؒ کے استاذ علی بن المدینیؒ فرماتے ہیں: ’’حفظ العلم علی أمَّۃِ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم ستۃٌ: عمرو بن دینار بمکۃ، والزھری بالمدینۃ، وأبواسحاق السبیعی، والأعمش بالکوفۃ، وقتادۃ ویحیی بن أبی کثیر بالبصرۃ۔‘‘ (تہذیب التہذیب لابن حجرؒ،ص :۴۲۴،ج:۲) ترجمہ :’’اُمتِ محمدیہ کے لیے چھ محدثوں نے علم محفوظ کیا۔ عمرو بن دینار نے مکہ میں، زہری نے مدینہ میں اور ابواسحاق و اعمش نے کوفہ میں اور قتادہ و یحییٰ بن ابی کثیر نے بصرہ میں۔‘‘ ۲:- امام حدیث ابو محمد رامہرمزیؒ اپنی کتاب ’’المحدث الفاصل ‘‘میں فرماتے ہیں: ’’عن أنس بن سیرین أتیت الکوفۃ فرأیت فیھا أربعۃ آلاف یطلبون الحدیث و أربعمائۃ قد فقھوا الخ۔‘‘ (مقدمہ نصب الرایۃ، ص:۳۵،مطبوعہ مجلس علمی ) ترجمہ:’’انس بن سیرینؒ فرماتے ہیں کہ: میں کوفہ آیا تو مشتغلین بالحدیث چار ہزار پائے اور علم فقہ صرف چار سوکو آیا تھا۔‘‘ اب توشاید ہر منصف کو معلوم ہوگیا ہوگاکہ فقہ کتنی مشکل چیز ہے اور صرف محدث بننے سے فقیہ نہیں بن سکتا، اس قسم کے سینکڑوں نہیں، ہزاروں واقعات سے اسلام کا علمی ذخیرہ بھرا پڑا ہے، اس تمہید کے بعد اصلی مقصد کی طرف آرہا ہوں۔ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک ان کی تالیفات کی روشنی میں ۱:…تفہیماتِ الٰہیہ،ص:۱۴۸ و۱۴۹،ج:۱، میں فرماتے ہیں : ’’إن تشعبَ الدینِ طرقاً و مذاھب وکون الأمۃ فیھا أحزابا متحزبۃ أمر عظیم ھال خاصتھم وعامتھم، فمن أھل اللّٰہ من کشف لہ عن ارتباط کل قول نطق بہ فقیہ من فقھاء الإسلام بالشریعۃ المحمدیۃ علی صاحبھا الصلوات والتسلیمات، ولم یکشف لہ عن الجادۃ القویمۃ التی أقامھا اللّٰہ تعالٰی لعبادہٖ ورضی لھم، فسکت عن ترجیح بعض الأقوال علی بعض وحمل اختلافھا علی العزیمۃ والرخصۃ۔۔۔۔ ومن أھل اللّٰہ من یتراآی لہ الجادۃ القویمۃ التی تودی إلٰی ظاھر الشریعۃ والتی توارثھا جماھیرُ المسلمین عن جھابذۃ التابعین عن کبارالصحابۃؓ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم أخذا ظاھرا کالتناول بالید، أولم یتوارثوا عین ذلک ولکنہ أشبہ بشیئٍ بما توارثوہ۔۔۔ فرأی المتکلم فی ترجیح الراجح نصرًا للدین وذباًّ عنہ کأکثرالفقھاء المحدثین فإنھم قد بالغوا فیہ۔ ومن أھل اللّٰہ من کشف لہ عن الأمرین فسلمھا کلہا علی معنی أنھا من دائرۃ الشرع وأن المتعبد بھا فی فسحۃ من دینہٖ متدین للّٰہ تعالٰی معذور عندہٗ غیر أن الفضل للجادۃ القویمۃ وھی المرضیۃ عنداللّٰہ تعالٰی کل الرضا۔ ومن أعظم نعم اللّٰہ تعالٰی علی أن جعلنی من الحزب الثالث، وکشف لی عن أصل الشریعۃ وعن تبیانھا الحاصل علی لسان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ثم عن تبیان تبیانھا الحاصل علی سنۃ الصحابۃؓ والتابعینؒ، ثم عن إیضاحھا وتدوین أصولھا وفروعھا الحاصل علی أیدی المجتھدین المتقدمین ۔۔۔۔ ثم عن شرح مذاھبھم وأقاویلھم والتخریج علی قواعدھم الحاصل علی أیدی المتاخرین من الفقھاء فی کل مذھب، فکشف لی عن کل ذلک بترتیبہ الواقع فی نفس الأمرکأنی أراہ ببصری، فرأیت کل قول قیل فی الدین مرتبطاً بأصل الشریعۃ بواسطۃ أوبغیر واسطۃ۔‘‘ ۲:…پھر صفحہ:۱۵۲،جلد اول میں فرماتے ہیں : ’’فکان من أعظم نعم اللّٰہ علی أن کشف لی عن حقیقۃ حال المذاہب، وحال المتقید ببعضھا، وحال من أراد الانتقال إلٰی مذہب بعد ما کان متقیدا بمذہب آخر، وحال من أخذ فی بعض المسائل بمذہب وفی البعض الآخر بمذہب آخر، وھل خیّر الشارع أو ألزم لکل واحد أن یلتزم مذھباً واحداً۔‘‘ ۳:… پھر صفحہ: ۱۵۳، ج: ۱، میں فرماتے ہیں : ’’وکشف لی أن الاختلاف علی أربعۃ منازل: ۱:…اختلاف مردود، لیس لقائلہٖ ولا لمقلدہٖ من بعدہٖ عذر، وھٰذا قلیل الوجود فی المذاھب الأربعۃ المدونۃ، ۲:…واختلاف مردود ولقائلہٖ عذر ما لم یبلغہ حدیث صحیح دال علی خلافہٖ فإذا بلغہٗ فلا عذر لہٗ، ۳:… واختلاف مقبول قد خیر الشارع المکلفین فی طرفیہ تخییراً ظاہراً مطلقاً کالأحرف السبعۃ من القرآن، ۴:… واختلاف أدرکنا کون طرفیہ مقبولین اجتہاداً واستنباطاً من بعض کلام الشارع صلوات اللّٰہ وسلامہٗ علیہ، والإنسان مکلف بہٖ لا مطلقاً بل بشرط الاجتھاد وتأکد الظن وتقلید من حصل لہٗ ذٰلک ۔‘‘ ۴:…اور’’ فیوض الحرمین ‘‘ صفحہ:۶۲ میں فرماتے ہیں: ’’سألتہٗ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سوالاً روحانیاً فنفح إلی نفحۃ ونفح نفحۃ أخری فبین أن المراد الحق فیک أن یجمع شملا من شمل الأمۃ المرحومۃ بک، فإیاک۔۔۔ وإیاک أن تخالف القوم فی الفروع فإنہٗ مناقضۃ المراد الحق، ثم کشف أنموذجا ظھر لی منہ کیفیۃ وتطبیق السنۃ بفقہ الحنفیۃ من الأخذ بقول أحد الثلاثۃ، وتخصیص عموماتھم والوقوف علی مقاصدھم والاقتصار علی مایفھم من لفظ السنۃ، ولیس فیہ تاویل بعید، ولا ضرب بعض الأحادیث بعضا، ولا رفضا لحدیث صحیح بقول أحد من الأمۃ،وھذہ الطریقۃ أن أتمہا اللّٰہ وأکملھا فہی الکبریت الأحمر والأکسیر الأعظم، الخ۔‘‘ ۵:…پھر صفحہ :۴۸میں فرماتے ہیں: ’’عرفنی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن فی المذھب الحنفی طریقۃ أنیقۃ ھی أوفق الطرق بالسنۃ المعروفۃ التی جمعت ونقحت فی زمان البخاری وأصحابہ وذلک أن یؤخذ من أقوال الثلاثۃ قول أقربھم بھا فی المسألۃ، ثم بعد ذلک یتبع اختیارات الفقھاء الحنفیین الذین کانوا من علماء الحدیث، (۱) فرب شیء سکت عنہ الثلاثۃ فی الأصول وما تعرضون لنفیہ ودلت الأحادیث علیہ فلیس بد من إثباتہٖ والکل مذہب حنفی ، الخ۔‘‘ عقد الجید میں صفحہ:۳۱ سے لے کر دور تک اسی مضمون کو نہایت وضاحت و تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ ۶:…پھر صفحہ:۶۴-۶۵ میں فرماتے ہیں : ’’واستفدت منہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ثلاثۃ أمور خلاف ماکان عندی ۔۔۔ وثانیھا الوصاۃ بالتقید بھذہ المذاھب الأربعۃ لا أخرج منھا، والتوفیق ما استطعت وجبلتی تأبی التقلید وتأنف منہ رأسا و لکن شیء طلب منی التعبد بہٖ بخلاف نفسی، الخ۔‘‘ ۷:…پھر اسی کے صفحہ:۱۰۲میں فرماتے ہیں : ’’اعلم أن الملل والمذاہب بالحقیقۃ یقال ملۃ حقۃ ۔۔۔۔ معنیین: أحدھما جلی والآخر دقیق، یری من بعد ۔۔۔۔ وکذلک معنی حقیۃ المذہب أن یکون أحکامہٗ مطابقۃ لما قالہٗ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی نفس الأمر ولما کان علیہ القرون المشہود لھا بالخیر، وإن کانت المسألۃ لا نص فیھا ولا روایۃ فحقیقتہا أن تکون محفوفۃ بقرائن تورث غالب الظن بأن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لو تکلم فی المسألۃ لما نطق بغیر ھذا القول ۔۔۔۔ وکذلک المذھب ربما یکون العنایۃ المتوجہۃ إلٰی حفظ ملۃ حقۃ متوجہۃ بحسب معدات إلٰی حفظ مذہب خاص بأن یکون حفظۃ المذہب یومئذ ھم القائمین بالذب عن الملۃ ۔ وھذا المعنی الدقیق لا یوقف علیہ إلا بالنور النبوی۔۔۔۔ فنقول: تراأٰی لی أن فی المذھب الحنفی سرا غامضا ثم لم أزل اتحدث فی ھذا السر الغامض حتی شاہدت أن لھذا المذھب یومنا ھذا رجحاناً علی سائر المذاھب بحسب ھذا المعنی الدقیق، الخ۔‘‘ ۸:…اور حجۃ اللہ البالغہ، ص:۴۴۲ تا ۴۴۴،ج:۱میں فرماتے ہیں : ’’ومما یناسب ھذا المقام التنبیہ علی مسائل ضلت فی بوادیھا الأفھام، وزلت الأقدام، وطغت الأقلام، منھا:أن ھٰذہٖ المذاھب الأربعۃ المدونۃ المحررۃ قد اجتمعت الأمۃ، أو من یعتد بہٖ، منھا علی جواز تقلیدھا إلی یومنا ھذا، وفی ذلک من المصالح ما لا یخفی، لا سیما فی ھذہ الأیام التی قصرت فیھا الھمم جدا، وأشربت النفوس الھوی، وأعجب کل ذی رأی برأیہ فما ذھب إلیہ ابن حزم حیث قال: التقلید حرام لا یحل لأحد أن یأخذ قول أحد غیر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بلا برھان ۔۔۔۔ إنما یتم فیمن لہ ضرب من الاجتھاد ولو فی مسألۃ واحدۃ، وفیمن ظھر علیہ ظھوراً بیّناً أن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم أمر بکذا، ونھی عن کذا أنہ لیس بمنسوخ، الخ۔‘‘ ۹:…اور حجۃ اللہ، ص :۴۴۷ -۴۴۸، ج:۱ میں فرماتے ہیں: ’’ ومنھا أن التخریج علٰی کلام الفقھائ، وتتبع لفظ الحدیث لکل منھما أصل أصیل فی الدین، ولم یزل المحققون من العلماء فی کل عصر یأخذون بھما، فمنھم من یقل من ذا ویکثر من ذاک ۔۔۔۔ فلا ینبغی أن یھمل أمر واحد منھما ۔۔۔۔ وإنما الحق البحت أن یطابق أحدھما بالآخر، الخ ۔‘‘ ۱۰:…اور تفہیماتِ الٰہیہ، ص :۲۰۲، جلد ثانی میں فرماتے ہیں:  ’’ونحن نأخذ من الفروع ما اتفق علیہ العلماء لاسیما ھاتان الفرقتان العظیمتان الحنفیۃ والشافعیۃ وخصوصاً فی الطھارۃ والصلاۃ فإن لم یتیسرالاتفاق واختلفوا فنأخذ بما یشھد لہٗ ظاھر الحدیث و معروفہٗ ونحن لانزدری أحدا من العلماء فالکل طالبوا الحق ولا نعتقد العصمۃ فی أحد غیرالنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم الخ۔‘‘ ۱۱:…اور تفہیمات الٰہیہ، ص: ۲۰۲،جلدثانی میں فرماتے ہیں: ’’ لیس منا من لم یتدبرکتاب اللّٰہ ولم یتفھم حدیث نبیہٖ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، لیس منا من ترک ملازمۃ العلماء أعنی الصوفیۃ الذین لھم حظ من الکتاب والسنۃ، أوالراسخین فی العلم الذین لھم حظ من التصوف، أوالمحدثین الذین لھم حظ من الفقہ، أوالفقھاء الذین لھم حظ من الحدیث۔‘‘ نیز تفہیمات، ص:۲۴۰،جلدثانی میں ایک وصیت کے ذیل میں فرماتے ہیں: ۱۲:…’’و در فروع پیرویِ علماء محدثین کہ جامع باشند میانِ فقہ و حدیث کردن و دائما تفریعاتِ فقہیہ بر کتاب و سنت عرض نمودن، آنچہ موافق باشد درحیز قبول آوردن و الا کالائے بدبریش خاوند دادن،الخ۔‘‘ نیز اسی تفہیمات، ص:۱۱۸، جلدثانی میں فرماتے ہیں: ۱۳… ’’فإذا رفع إلیہ قضیۃ فلہ أن یجتھد فیھا برأیہ ویتحری الصواب فإن کان قدسبق فیھا حکم لجماعۃ فعلیہ أن لایجاوزہٗ وھی القیاس والإجماع، الخ۔‘‘ فائدہ: … اس عبارت سے ایک خاص بات یہ معلوم ہوئی کہ حضرت شاہ صاحبؒ کے نزدیک جو اہل اجتہاد بھی ہو‘ اگر اس کے سامنے بھی کوئی ایسا نیا قضیہ پیش کیا جائے کہ علماء سابقین کا اس کے متعلق کوئی حکم موجود ہو اس سے تجاوز نہ کرے۔ ۱۴:… نیز اسی صفحہ میں فرماتے ہیں: ’’وإذا تحمل رجل أمراً ووافق ظنک فلا تجاوز عنہ وھوالإجماع دلیلاً ظنیاً ولا قیاس ولاإجماع فی ماسوٰی ذٰلک۔ ‘‘ ۱۵:…اور اسی تفہیمات کے ص: ۲۱۵،جلد:۱ میں فرماتے ہیں: ’’وإن قصرت أفھامکم فاستعینوا برأی من مضی من العلماء ماتروہ أحق وأصرح وأوفق بالسنۃ۔‘‘ ۱۶:…اورحجۃ اللہ البالغہ، ص: ۴۴-۴۵، ج:۱ میں حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنے مسلک کی وضاحت مندجہ ذیل الفاظ میں فرماتے ہیں: ’’ وھا أنا بریء من کل مقالۃ صدرت مخالفۃ لآیۃ من کتاب اللّٰہ، أوسنۃ قائمۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، أوإجماع القرون المشھود لھا بالخیر، أوما اختارہٗ جمھور المجتھدین و معظم سوادالمسلمین، فإن وقع شیء فإنہٗ خطأ رحم اللّٰہ من أیقظنا من سنتنا، أونبّھنا من غفلتنا، أما ھولاء الباحثون بالتخریج والاستنباط من کلام الأوائل المنتحلون مذھب المناظرۃ والمجادلۃ فلایجب علینا أن نوافقھم فی کل مایتفوھون بہ، ونحن رجال وھم رجال، والأمر بیننا وبینھم سجال، الخ۔‘‘ ان تمام مذکورہ اقتباسات سے باآسانی ہم عمومی طور پر حسب ذیل نتائج اخذ کرسکتے ہیں: ۱:… مذاہب اربعہ کی تقلید کرنا چاہیے، بالخصوص شر و فساد کے اس دور اور اتباعِ ہویٰ کے اس زمانہ میں اس شخص کے لیے جو براہِ راست کتاب و سنت سے استنباط نہ کرسکتاہو، ان مذاہب کی تقلید میں بہت سے مصالح ہیں۔ ۲:…کسی فقہی قیاسی مسئلہ میں اگرسلف کا کوئی قول موجو دہو اور اس کے علم میں کسی صحیح حدیث سے مخالف نہ ہو تو اسے ماننا ضروری ہوگا۔ ۳:…اگر ائمہ کے اقوال یا کسی ایک امام کے اقوال میں اختلاف ہو تو جو مسلک کتاب و سنت سے زیادہ قریب ہو اس کو اختیار کرنا چاہیے۔ ۴:…مذاہب اربعہ میں بہت کم ایساکوئی مسئلہ ملے گا جس کی کوئی دلیل موجود نہ ہو یا اس کے قائل یا اس کے مقلد کو معذور نہ سمجھ سکیں۔ ۵:…غور سے یہی معلوم ہوا کہ حنفی مذہب آج کل باقی مذاہب سے زیادہ بہتر ہے۔ ۶:…حنفی مذہب کی تقلید میں بہترین طریقہ یہ ہے کہ ابوحنیفہؒ، ابویوسفؒ، محمد بن الحسنؒ، تینوں ائمہ کے اقوال میں سے اس کو لیاجائے جو حدیث سے زیادہ قریب ہو اور یہ مذہب حنفی کی تقلید کے مخالف نہیں۔ ۷:…صرف حدیث پر ہی قناعت کرکے فقہ سے بے بہرہ رہنا یا صرف فقہ پر کفایت کرکے حدیث سے محروم رہنا یہ غلو ہے، افراط و تفریط ہے، جو درست نہیں،دونوں کوملانا اور ان سے تطبیق دینا ضروری ہے اور یہی بہترین طریقہ ہے۔ ۸:…کسی دلیل قوی کی وجہ سے اگر کوئی مقلد اپنے امام کا مسلک چند مسائل میں ترک کردے تو یہ تقلید کے منافی نہیں۔ ۹:…اگرکوئی مسئلہ فقہ حنفی کی کتب ظاہرالروایۃ میں موجود نہ ہو اور حدیث میں مذکور ہے تو اس کو ضرور لینا ہوگا اور یہ مذہب حنفی کی تقلید کے خلاف نہ ہوگا۔  ایک مثال سے اس کی وضاحت چنانچہ شاہ صاحب حجۃ اللہ البالغہ، ص:۱۱، ج:۲میں فرماتے ہیں: ’’ومن قال مذھب أبی حنیفۃ رحمہ اللّٰہ ترک الإشارۃ بالمسبحۃ فقد أخطأ، ولا یعضدہٗ روایۃ ولا درایۃ قالہ ابن الھمام ، نعم لم یذکرہ محمد فی الأصل وذکرہٗ فی الموطأ ووجدت بعضھم لایمیز بین قولنا: لیست الإشارۃ فی ظاھر المذہب، وقولنا ظاھرالمذھب أنھا لیست۔‘‘ یعنی ’’جس شخص نے یہ کہا کہ ابوحنیفہؒ کا مذہب یہ ہے کہ تشہد میں اشارہ بالسبابہ نہ کرنا چاہیے،اس نے غلطی کی، کیونکہ یہ عقل و نقل دونوں کے خلاف ہے، جیسا کہ ابن الہمامؒ نے فرمایا،ہاں!امام محمدؒ نے اس مسئلہ کو مبسوط میں ذکر نہیں کیا، جو ظاہرالروایۃ کی کتابوں میں سے ہے، لیکن مؤطا میں اس کا ذکر فرمایا اور دیکھتا ہوں کہ بعض لوگ فقہاء کی ان دو تعبیروں میں فرق نہیں کرسکتے:۱:-اشارہ ظاہر مذہب میں نہیں،۲:-ظاہر مذہب یہ ہے کہ اشارہ نہیں۔‘‘ حضرت شاہ صاحبؒ کا مسلک یہ تو شاہ صاحبؒ کی مذکورہ بالا عبارات کے عمومی نتائج یا آپ کے اصولی نظریات تھے، ان کے علاوہ انہی اقتباسات سے ہم حضرت شاہ صاحبؒ کے مسلک کے بارے میں خصوصی طور پر مندرجہ ذیل نتائج پر بھی پہنچتے ہیں: ۱:-ائمہ اربعہ کے اختلافات کے بارے میں آپ کی پوری تشفی ہوگئی ہے اور اس کا صحیح منشأ بھی سمجھ گئے ہیں۔ ۲:-نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو وصیت فرمائی ہے کہ مذاہب اربعہ کے دائرے سے باہر نہ نکلیں اور جہاں تک ممکن ہو ان میں تطبیق دیں۔ ۳:-آپ کواپنے طبعی رجحان یا میلان کے خلاف ان مذاہب کی تقلید پر مامور کیا گیا۔ ۴:-آپ کو حکم دیا گیا کہ فروعی مسائل میں بھی حنفیہ کے خلاف نہ کریں، جب تک صراحۃً کسی حدیث کی مخالفت نہ ہو۔ ۵:-اللہ تعالیٰ نے آپ کو اتنے علم و فہم سے نوازا جس کے ذریعہ ہندوستان میں رائج حنفیت کی اصلاح کرسکیں،عام حنفی علماء کے غلو سے جو اس کے حقیقی خدوخال چھپ گئے ہیں اس کو واضح کرسکیں۔ ۶:-حنفیہ اور شافعیہ جس پر متفق ہوں اس پر آپ ضرور عمل کرتے ہیں۔ اگر ان میں اختلاف ہو تو اس جانب کو اختیار کرتے ہیں ، جس کی تائید حدیث سے ہوتی ہو۔ ۷:-آپ مجتہدین کی اتباع ضرور کرتے ہیں، متاخرین کی تخریجات جو وہ قدماء کے کلام سے کرتے ہیں، یہ ضروری نہیں کہ اسے بھی آپ قبول کریں۔ ان نتائج میں غور کرنے سے یہی معلوم ہوا کہ حضرت شاہ صاحبؒ ایک فقیہ النفس حنفی محدث ہیں اور ان فقہاء محدثین کے زمرے میں ہیں جو قوی و ضعیف، صحیح و غلط اور راجح و مرجوح میں پوری بصیرت کے ساتھ فیصلہ کرسکتے ہیں۔ یہ ظاہرہے کہ ہندوستان میں اس درجہ کا کوئی حنفی محدث اور فقیہ النفس محقق دوسرا پیدا نہیں ہوا۔ حتیٰ الوسع آپ حنفی مذہب ہی میں اس قول کو اختیارکرتے جو حدیث اور دوسرے مذاہب سے متفق ہو۔ اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ فقہاء حنفیہ میں شیخ ابن الہمام صاحبِ فتح القدیر اور آپ کے دو محقق شاگرد حافظ حدیث قاسم بن قطلوبغا اور محقق ابن امیر الحاجؒ جو تفقہ نفس کے ساتھ تبحرِ حدیث، اطلاعِ رجال،فنِ جرح و تعدیل اور اصولِ فقہ وغیرہ میں پوری دستگاہ رکھتے ہیں اور بہت سے فروعی مسائل میں اپنی اپنی خاص رائے رکھتے ہیں، اسی طبقہ میں حضرت شاہ صاحبؒ کا بھی شمار ہونا چاہیے۔ بعض مسائل میں ان حضرات کا حنفیہ سے خلاف کرنا جسے مذہب حنفی کے خلاف نہیں سمجھا جاتا اور ا س کے باوجود ان کو فقہاء حنفیہ ہی میں شمار کیا جاتا ہے، اسی طرح بعضے مسائل و احکام میں مذہب حنفی کے خلاف شاہ صاحبؒ کا رجحان نفس حنفی مذہب کے خلاف نہیں کہا جاسکتا ہے۔ ہندوستان کا عام مذہب حنفی تھا اور فتوحات ِاسلامیہ سے لے کر سلطان محمد شاہ کے آخری وقت تک یہی قانونی مذہب رہا۔ سلطان عالمگیر اورنگزیب رحمۃ اللہ علیہ نے ’’فتاویٰ عالمگیریہ‘‘ تدوین کرایا، ان کے مدونین میں جیسا کہ ناظرین کو معلوم ہوگا حضرت شاہ صاحبؒ کے والد ماجد شاہ عبدالرحیم بھی شامل تھے اور آخری اسلامی دور کا یہی ہندوستان میں قانون رہا۔ ہندوستان کے حنفی محدثین میں شیخ محمد عابد سندھی صاحبِ ’’المواھب اللطیفۃ علی مسند أبی حنیفۃؒ‘‘ و’’طوالع الأنوار شرح الدرالمختار‘‘ وغیرہ و شیخ محمد ہاشم سندھیؒ، شیخ عبدالغفور سندھیؒ، شیخ محمد قائم سندھیؒ، شیخ ابوالحسن سندھیؒ اور حضرت شاہ صاحبؒ کے تلامذہ میں آپ کے جانشین شاہ عبدالعزیزؒ اور قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ اور السید مرتضی بلگرامی زبیدیؒ جو تبحرِ حدیث وغیرہ میں کچھ کم نہیں، سب حنفی المذہب ہی ہیں۔ حضرت شاہ صاحبؒ کے بعد شاہ عبدالعزیز حنفی محدثؒ آپ کے جانشین رہے اور شاہ عبدالعزیزؒ کی جانشینی شاہ محمد اسحاقؒ آپ کے نواسے نے کی، اور شاہ اسحاقؒ کے مسند نشین شیخ عبدالغنی مجددیؒ ہوئے، یہ سب بھی حنفی المسلک محدث تھے۔ شاہ صاحبؒ کے فقہی مسلک کے سمجھنے کے لیے آپ کی علمی تاریخ کا پیش نظر ہونا بھی ضروری ہے، جس کا مختصر خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ممدوح نے شروع میں حضرت والد ماجد شاہ عبدالرحیمؒ وغیرہ علماء سے علوم حاصل کیے اور فقہ حنفی پڑھا اور جب تک ہندوستان میں تھے اور حرمین شریفین کی زیارت کو نہیں گئے تھے، آپ پر فقہ حنفی کا اثر تھا۔ ۱۱۴۵ھ میں جب مدینہ منورہ پہنچے اور شیخ ابوطاہر کردی شافعیؒ سے تلمذ ہوا تو اس کے بعد فقہ شافعی کا اثر بھی ساتھ آتا گیا اور ’’کتاب الأم‘‘ جو امام شافعیؒ کی کتاب ہے، اس کے مطالعہ سے فقہ شافعی کا اثر اور بڑھتا گیا،آ خر میں امام مالکؒ کی کتاب ’’مؤطا‘‘ کی طرف بہت توجہ ہوئی اور اس کی عربی و فارسی میں دو شرحیں مختصر لکھیں اور اس کی وجہ سے مذہب مالکی کا اثر بھی آپ پر چڑھا، لیکن آپ اکثر امام مالکؒ کا مذہب مؤطا کی روایتوں ہی کو ٹھہراتے ہیں، حالانکہ مالکیہ میں بہت سے مؤطا کے اقوال مہجور ہیں اور مذہب میں داخل نہیں۔ امام احمدؒ کا مذہب حقیقت میں امام شافعیؒ کے مذہب کی فرع ہے، بلکہ ظاہریت و اجتہاد میں ایک برزخ ہے۔ مشکل سے امام احمدؒ کاکوئی ایسا قول ملے گا جو مذہب شافعی میں کوئی روایت اس کے مطابق نہ ہو۔ غرض اس طرح سے آپ کی طبیعت پر مذاہب اربعہ کی فقہ اثر انداز ہوتی گئی اور اس کی خواہش ہوئی کہ ایک ایسا جامع مسلک اختیار کیا جائے جس کے ذریعہ مذاہب میں تطبیق و توفیق ہوجائے۔ سارے احکام کے ذخیرہ میں بیس مسئلے ایسے نہیں ملیں گے جس میں امام ابوحنیفہؒ متفرد ہوں، یا ابوحنیفہؒ کا کوئی قول یا ابویوسفؒ و محمدؒ کا کوئی قول امام شافعیؒ کے موافق موجود نہ ہو، اس لیے آپ نے جامعیت مذاہب کا یہ مسلک اختیار کیا، لیکن اس طرح پر کہ اس جامعیت کو اختیار کرکے بھی آپ حنفی رہ سکیں، کیونکہ’’ وإیاک أن تخالف القوم فی الفروع‘‘ (خبردار! اپنی قوم یعنی اہل ملک کی فروعی مسائل میں مخالفت نہ کرنا) آپ کو سرکارِ مدینہ کا حکم مل چکا تھا، جیسا کہ ’’فیوض الحرمین‘‘ کے مذکورہ بالا اقتباسات میں گزرچکا۔ یہاں تک لکھ چکا تھا کہ شاہ صاحبؒ کا ایک مکتوب ’’کلماتِ طیبات ‘‘کے ص :۱۲۱ پر دیکھا، جو کچھ میں لکھ چکا ہوں اس مکتوب سے اس کی تائید نکلتی ہے۔ ممکن ہے کسی کو کچھ غلط فہمی ہوجائے، اس لیے نقل کرکے چند جملے عرض کروں گا: ’’سوال آنکہ عمل تو در مسائل فقہیہ بر کدام مذہب است؟ گفتم بقدرِ امکان جمع می کنم در مذاہب مشہورہ مثلاً صوم و صلاۃ و وضوء و غسل و حج بوضعے واقع می شود کہ ہمہ اہل مذاہب صحیح دانند وعند تعذر الجمع باقوی مذاہب از روئے دلیل و موافقت صریح حدیث عمل می نمایم و خدائے تعالیٰ ایں قدرعلم دادہ است کہ فرق میانِ ضعیف و قوی کردہ شود ودر فتویٰ بحال مستفتی کارمی کنم مقلد ہر مذہبی کہ باشداورا از ہماں مذہب جواب می گویم، خدائے تعالیٰ بہر مذہبے ازمذاہب مشہورہ معرفتے دادہ است، الحمدللہ تعالیٰ۔‘‘ اس سے صاف ظاہرہورہا ہے کہ آپ مجتہد مطلق نہ تھے، بلکہ ان محدثین و فقہاء امت میں سے تھے جو مذاہب کے احکام وادلہ سامنے رکھ کر قوی و ضعیف کا فیصلہ بخوبی کرسکتے ہیں،ورنہ جو شخص درجہ اجتہاد مطلق کو پہنچ جائے اس پر تقلید دوسرے کی حرام ہوجاتی ہے۔ وہاں تو اس کی گنجائش نہیں نکلتی کہ بناء بر احتیاط مذاہب میں تطبیق و توفیق دیتے ہیں۔ پس یہ جامعیت کا مسلک ہی خود ہمیں بتلا رہا ہے کہ آپ مجتہد نہ تھے، ورنہ جواب میں صاف فرمادیتے کہ میں اپنے عصر کا خود مجتہد ہوں، کسی خاص مذہب کا پابندنہیں بلکہ غور سے کچھ یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ بجائے کسی ایک مذہب کے اتباع کے مذاہب اربعہ اور بالخصوص حنفیہ و شافعیہ سب کا اتباع ایک حد تک ضروری سمجھتے ہیں۔ نیز یہ معلوم ہوا کہ عوام امت کے لیے اپنے اپنے مذاہب کی تقلید ہی ضروری جانتے ہیں، اس لیے استفتاء میں مستفتی کا خیال کرتے ہیں اور اس کو اسی کے مذہب کے مطابق فتویٰ دیتے ہیں۔ اگر آپ مجتہد ہوتے تو اپنی رائے کے مطابق جس کو صحیح خیال فرماتے، وہی جواب دیتے۔ بہرحال مدارکِ اجتہاد کا سمجھنا بھی ہم جیسوں کا کام نہیں۔ حضرت شاہ صاحبؒ کے لیے یہ فخر کافی ہے کہ مختلف فضائل و کمالات کے ساتھ مدارکِ اجتہادِ ائمہ کے منشاء اختلاف کو وہ سمجھتے ہیں اور ترجیح و تمییز پر بصیرت کے ساتھ قادر ہیں۔خلاصہ یہ ہے کہ آپ مفتی فقیہ اور فقیہ محدث کے درجہ میں ایک جلیل القدر،دقیق النظر فقیہ، واسع الاطلاع محدث ہیں۔  اس موضوع کے اطراف و جوانب ابھی بہت کچھ تشنۂ تحقیق ہیں۔ نیز حضرت شاہ صاحبؒ کے مسلک کے متعلق آپ کی تصنیفات میں بہت کچھ ذخیرہ اس کے علاوہ بھی موجود ہے۔ لیکن اس وقت اس فرصت میں اسی مختصر مضمون پر کفایت کرتا ہوں۔ توقع ہے کہ اہل علم و طلبہ کے لیے بصیرت سے خالی نہ ہوگا۔

 (بشکریہ:الفرقان (بریلی، انڈیا)شاہ ولی اللہؒ نمبر)