بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجدکی چھت پر مؤذن کے لیے کمرہ بنانا


سوال

 زید ایک گاؤں کی مسجد میں امام اور مؤذن ہے، اس کا گھر دوسرے گاؤں میں ہے، وہ روزانہ اپنے گاؤں نہیں جا سکتا، اس نے اور لوگوں نے مسجد کی چھت پر اس کے  لیے ایک کمرہ بنانے کا انتظام کیا ہے، اس چھت پر نمازی بھی نماز ادا نہیں کرتے، تو  کیا امام اور مؤذن کے  لیے مسجد کی خالی چھت پر کمرہ بنانا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

مسجد  کی  چھت بھی مسجد ہی ہوتی ہے ،لہذا مسجد کی چھت پر امام یا مؤذن کے لیے مستقل رہائشی کمرے بنانا جائز نہیں، اگر مسجد کی چھت پر نماز نہیں ہوتی اور محض ان کے بیٹھنے یا آرام کے لیے کمرہ بنایاجائے تو اس میں مسجد کے آداب اور تقدس کا مکمل خیال رکھنا ہوگا ۔

مزید تفصیل کے  لیے درج ذیل لنک پر موجود فتویٰ ملاحظہ فرمائیں:

مسجد کے بیسمنٹ میں مدرسہ اور امام مسجد کا گھر بنانا

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 656):

"(و) كره تحريمًا (الوطء فوقه، والبول والتغوط)؛ لأنه مسجد إلى عنان السماء.

(قوله: إلى عنان السماء) بفتح العين، وكذا إلى تحت الثرى، كما في البيري عن الإسبيجابي."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 358):

" لو بنى فوقه بيتًا للإمام لايضر؛ لأنه من المصالح، أمّا لو تمت المسجدية، ثمّ أراد البناء منع، و لو قال: عنيت ذلك لم يصدق، تتارخانية. فإذا كان هذا في الواقف فكيف بغيره؛ فيجب هدمه و لو على جدار المسجد، و لايجوز أخذ الأجرة منه، و لا أن يجعل شيئًا منه مستغلًا و لا سكنى، بزازية.

[فرع بناء بيتا للإمام فوق المسجد]

(قوله: أما لو تمت المسجدية) أي بالقول على المفتى به أو بالصلاة فيه على قولهما ط و عبارة التتارخانية، و إن كان حين بناه خلى بينه و بين الناس ثم جاء بعد ذلك يبني لا بترك اهـ وبه علم أن قوله في النهر: "و أما لو تمت المسجدية، ثم أراد هدم ذلك البناء فإنه لا يمكن من ذلك " إلخ فيه نظر؛ لأنه ليس في عبارة التتارخانية ذكر الهدم وإن كان الظاهر أن الحكم كذلك (قوله: فإذا كان هذا في الواقف إلخ) من كلام البحر والإشارة إلى المنع من البناء (قوله: و لو على جدار المسجد) مع أنه لم يأخذ من هواء المسجد شيئًا. اهـ. ط و نقل في البحر قبله و لايوضع الجذع على جدار المسجد و إن كان من أوقافه. اهـ.

قلت: و به حكم ما يصنعه بعض جيران المسجد من وضع جذوع على جداره فإنه لايحلّ و لو دفع الأجرة (قوله: و لاأن يجعل إلخ) هذا ابتداء عبارة البزازية، و المراد بالمستغل أن يؤجر منه شيء لأجل عمارته و بالسكنى محلها و عبارة البزازية على ما في البحر، و لا مسكنًا و قد ردّ في الفتح ما بحثه في الخلاصة من أنه لو احتاج المسجد إلى نفقة تؤجر قطعة منه بقدر ما ينفق عليه، بأنه غير صحيح. قلت: وبهذا علم أيضا حرمة إحداث الخلوات في المساجد كالتي في رواق المسجد الأموي، ولا سيما ما يترتب على ذلك من تقذير المسجد بسبب الطبخ و الغسل و نحوه، و رأيت تأليفًا مستقلًا في المنع من ذلك."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200555

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں