بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مماتی کے پیچھے نماز پڑھنا


سوال

مماتیوں کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟

جواب

 واضح رہے کہ اہلِِ  سنت و الجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ رسولِ اکرم  ﷺ  اور  تمام  انبیاءِ کرام علیہم الصلوات و التسلیمات  وفات  کے بعد اپنی قبروں میں زندہ  ہیں، ان کو  روزی دی جاتی ہے، ان کے اَبدانِ مقدسہ بعینہا محفوظ ہیں اور   جسدِ عنصری  کے  ساتھ  عالمِ برزخ میں ان کو حیات حاصل ہے، اور  یہ حیات، حیاتِ دنیوی کے  مماثل، بلکہ بعض  وجوہ سے حیاتِ دنیوی سے زیادہ قوی تر ہے، البتہ اَحکامِ شرعیہ کے وہ مکلف نہیں ہیں،  روضہ اقدس میں جو درود پڑھا جاوے حضور  ﷺ اس کو خود بلا واسطہ سنتے ہیں۔

جو لوگ حیات النبیﷺ کا انکار کرتے ہیں ان کو  عرف میں"مماتی"   کہا جاتا ہے، اور یہ اہلِ سنت و الجماعت سے خارج ہیں؛ اس لیے  ان کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے، اگر کسی جگہ امام مماتی  (یعنی حیات الانبیاء علیہم السلام کا منکر) ہو تو اس کے پیچھے نماز پڑھنے کے بجائے کسی دوسری جگہ صحیح عقیدہ والے امام کے پیچھے نماز پڑھنی چاہیے، البتہ اگر وقت کی تنگی یا کسی عذر کی وجہ سے مماتی امام کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کی صورت میں جماعت کے چھوٹنے کا اندیشہ ہو تو پھر جماعت کی نماز چھوڑنے کے بجائے مجبورًا اسی امام کے پیچھے نماز پڑھ لینی چاہیے، جماعت ترک نہیں کرنی  چاہیے، چاہے دل لگتا ہو یا نہ لگتا ہو، اور جو نمازیں اب تک ادا کی گئی ہوں،  وہ بھی ادا ہوگئی ہیں، ان کو دُہرانے کی ضرورت نہیں ہے، البتہ ایک صحیح العقیدہ باشرع امام کی اقتدا میں نماز پڑھنے پر جتنا ثواب ملتا ہے،  وہ نہیں ملے گا۔

عقیدہ حیات النبی ﷺ سے متعلق تفصیلی فتویٰ درج ذیل لنک پر ملاحظہ کیجیے:

حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حیات انبیاء علیہم السلام سے متعلق اہل سنت والجماعت کا عقیدہ

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

المہند علی المفند میں ہے:

"عندنا و عند مشائخنا حضرة الرسالة صلي الله عليه وسلم حي في قبره الشريف و حيوٰته صلي الله عليه وسلم دنيوية من غير تكليف، و هي مخصوصة به صلي الله عليه وسلم و بجميع الأنبياء صلوات الله عليهم، لا برزخية كما هي حاصلة لسائر المؤمنين، بل لجميع الناس، كما نص عليه العلامة السيوطي في رسالة: "إنباء الأذكياء بحيوٰة الأنبياء" حيث قال: قال الشيخ تقي الدين السبكي: حيوٰة الأنبياء و الشهداء في القبر كحيوٰتهم في الدنيا، و يشهد له صلوٰة موسی عليه السلام في قبره؛ فإن الصلوٰة تستدعي جسداً حياً... الخ (ص: ادارة اسلاميات)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويكره ... إمامة عبد ... وفاسق ... ومبتدع ...

و فی الرد: وأما الفاسق فقد عللوا كراهة تقديمه بأنه لا يهتم لأمر دينه، وبأن في تقديمه للإمامة تعظيمه، وقد وجب عليهم إهانته شرعا، و لايخفى أنه إذا كان أعلم من غيره لاتزول العلة، فإنه لايؤمن أن يصلي بهم بغير طهارة فهو كالمبتدع تكره إمامته بكل حال، بل مشى في شرح المنية على أن كراهة تقديمه كراهة تحريم لما ذكرنا قال: و لذا لم تجز الصلاة خلفه أصلا عند مالك ورواية عن أحمد، فلذا حاول الشارح في عبارة المصنف وحمل الاستثناء على غير الفاسق، والله أعلم.

(قوله: أي صاحب بدعة) أي محرمة، وإلا فقد تكون واجبة، كنصب الأدلة للرد على أهل الفرق الضالة، وتعلم النحو المفهم للكتاب والسنة ومندوبة كإحداث نحو رباط ومدرسة وكل إحسان لم يكن في الصدر الأول، ومكروهة كزخرفة المساجد. ومباحة كالتوسع بلذيذ المآكل والمشارب والثياب كما في شرح الجامع الصغير للمناوي عن تهذيب النووي، وبمثله في الطريقة المحمدية للبركلي."

(1/ 559، کتاب الصلوٰۃ ، باب الامامۃ،ط: سعید)

أي صاحب بدعة، وهي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول لا بمعاندة بل بنوع شبهة، وكل من كان من قبلتنا (لا يكفر بها) حتى الخوارج الذين يستحلون دماءنا وأموالنا وسب الرسول، وينكرون صفاته تعالى وجواز رؤيته؛ لكونه عن تأويل وشبهة؛ بدليل قبول شهادتهم ... هذا إن وجد غيرهم وإلا فلا كراهة، بحر بحثاً. وفي النهر عن المحيط: صلى خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعة ... زاد ابن ملك: ومخالف كشافعي، لكن في وتر البحر: إن تيقن المراعاة لم يكره، أو عدمها لم يصح، وإن شك كره.

''حلبی کبیر '' میں ہے:

'' و لو قدّموا فاسقاً  يأثمون بناء علي أن كراهة تقديمه كراهة تحريم ؛ لعدم اعتنائه بأمور دينه، و تساهله في الإتيان بلوازمه...''الخ

( كتاب الصلوة، الأولی بالإمامة، ص: ٥١٣، ٥١٤ ط: سهيل اكيدمي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110201209

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں