بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لاک ڈاؤن کے سبب آٹھ رکعت تراویح پڑھنا


سوال

لاک ڈاؤن میں وقت کی کمی کی وجہ سے آٹھ رکعات تراویح پڑھنا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ مساجد میں با جماعت تراویح ادا کرنا سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے، یعنی اگر سب مسلمانوں نے مساجد میں تراویح کی ادائیگی کو ترک کردیا تو سارا مسلم معاشرہ گناہ گار ہوگا، اور گھروں میں انفرادی یا اجتماعی طور پر تراویح ادا کرنے والے بھی ثواب سے محروم ہوں گے، البتہ اگر مساجد میں باجماعت تراویح  ادا کی جا رہی ہو (اگرچہ حکومتی احکامات کے پیشِ نظر محدود تعداد ہو) تو مسجد آباد رکھنے کی سنت علی الکفایہ اہلِ محلہ کی طرف سے ادا ہوجائے گی، اس صورت میں باقی لوگ اپنے اپنے گھروں میں با جماعت تراویح کا اہتمام کریں تو کرسکتے ہیں۔

 موجودہ حالات میں اگر کسی ملک، یا شہر میں مساجد میں تراویح کی نماز ادا کرنے پر مکمل یا جزوی پابندی ہو، تو اس صورت میں گھروں میں  با جماعت  تراویح ادا کری لی جائے۔

پس صورتِ  مسئولہ میں  اگر مساجد میں بیس رکعت تراویح مکمل کرنا لاک ڈاؤن کے سبب ممکن نہ ہو تو  آٹھ رکعت مساجد میں ادا کرنے کے بعد  بقیہ بارہ رکعات انفرادی طور پر یا با جماعت گھروں میں ادا کرلی جائے،  صرف  آٹھ  رکعت پر اکتفا  نہ کیا جائے، اکتفا  کرنے کی صورت میں بیس رکعت تراویح کی فضیلت سے محرومی کا باعث ہوگا۔

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ کیجیے:

تراویح کی رکعات کی تعداد آٹھ ہے یا بیس؟

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع  میں ہے:

"(فَصْلٌ) :

وَأَمَّا سُنَنُهَا فَمِنْهَا الْجَمَاعَةُ وَالْمَسْجِدُ؛ لِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْرَ مَا صَلَّى مِنْ التَّرَاوِيحِ صَلَّى بِجَمَاعَةٍ فِي الْمَسْجِدِ، فَكَذَا الصَّحَابَةُ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ - صَلَّوْهَا بِجَمَاعَةٍ فِي الْمَسْجِدِ فَكَانَ أَدَاؤُهَا بِالْجَمَاعَةِ فِي الْمَسْجِدِ سُنَّةً، ثُمَّ اخْتَلَفَ الْمَشَايِخُ فِي كَيْفِيَّةِ سُنَّةِ الْجَمَاعَةِ، وَالْمَسْجِدِ، أَنَّهَا سُنَّةُ عَيْنٍ أَمْ سُنَّةُ كِفَايَةٍ؟ قَالَ بَعْضُهُمْ: إنَّهَا سُنَّةٌ عَلَى سَبِيلِ الْكِفَايَةِ إذَا قَامَ بِهَا بَعْضُ أَهْلِ الْمَسْجِدِ فِي الْمَسْجِدِ بِجَمَاعَةٍ سَقَطَ عَنْ الْبَاقِينَ.

وَلَوْ تَرَكَ أَهْلُ الْمَسْجِدِ كُلُّهُمْ إقَامَتَهَا فِي الْمَسْجِدِ بِجَمَاعَةٍ فَقَدْ أَسَاءُوا وَأَثِمُوا، وَمَنْ صَلَّاهَا فِي بَيْتِهِ وَحْدَهُ، أَوْ بِجَمَاعَةٍ لَا يَكُونُ لَهُ ثَوَابُ سُنَّةِ التَّرَاوِيحِ لِتَرْكِهِ ثَوَابَ سُنَّةِ الْجَمَاعَةِ وَالْمَسْجِدِ\". ( ١ / ٢٨٨)  

مزید تفصیل کے  لیے دیکھیے:

کیا بیس رکعت تراویح احادیث سے ثابت ہے؟

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208201354

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں