بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کرونا کی وجہ سے مصافحہ کے بجائے کہنی ملانا


سوال

آج کل کورونا کی  وجہ سے لوگ  ہاتھ ملانے کے بجائے کہنی سے کہنی ملاتے ہیں۔ کیا ایسا کرنا درست ہے؟

جواب

واضح رہے کہ سلام کرتے وقت مصافحہ کرنا سنت ہے اور حدیث شریف میں مصافحہ کو سلام کی تکمیل قرار دیا گیا ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جب دو مسلمان آپس میں ملتے ہیں اور ایک دوسرے سے مصافحہ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ پر یہ حق ہو جاتا ہے کہ ان کی دعاؤں کو سنے اور دونوں ہاتھوں کے الگ ہونے سے پہلے اُن کی مغفرت فرما دے۔(مجمع الزوائد:36/8، دارالکتب)

نیز مصافحہ دونوں ہاتھوں سے کرنا سنت اور افضل ہے ۔مصافحہ کرنے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں سے ایک دوسرے کی ہتھیلیاں آپس میں ملائی جائیں، اِمام بخاریؒ نے بخاری شریف میں دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کے ثبوت کے لیے باقاعدہ ایک ترجمۃ الباب قائم فرمایا ہے، اور اُس کے تحت حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت نقل فرمائی ہے جس میں آپ ﷺ کا دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنے کا ذکر ہے۔

لہذا  صورتِ  مسئولہ میں موجودہ زمانے میں   وبا سے احتیاط کے نام پربعض لوگوں نے باہم  ملاقات کے وقت کہنی سے کہنی ملانے کا  جو طریقہ اختیار کیا ہے،  یہ مصافحے کے مسنون طریقے کے خلاف ہے، اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ہاں   موجودہ حالات میں اگر کوئی شخص  مصافحہ ہی  نہ کرے ، بلکہ صرف  زبانی سلام پر   اکتفا  کر ے تو اس کی   گنجائش ہے ، بشرطیکہ مصافحہ کی سنیت (استحباب) کا منکر نہ ہو  اور  نہ ہی مصافحہ کو وبا   کے پھیلاؤ کا  سبب سمجھتا ہو۔

 شامی میں ہے:

"ويسلم على الواحد بلفظ الجماعة وكذا الرد، ولا يزيد الراد على وبركاته.

 (قوله: بلفظ الجماعة)؛ لأن مع كل واحد حافظين كراماً كاتبين، فكل واحد كأنه ثلاثة، تتارخانية (قوله: ولا يزيد الراد على وبركاته) قال في التتارخانية: والأفضل للمسلم أن يقول: السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، والمجيب كذلك يرد، ولا ينبغي أن يزاد على البركات شيء اهـ. ويأتي بواو العطف في وعليكم، وإن حذفها أجزأه وإن قال المبتدئ: سلام عليكم أو السلام عليكم، فللمجيب أن يقول في الصورتين سلام عليكم أو السلام عليكم ولكن الألف واللام أولى اهـ".

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 414)، ط: سعید)

و فیه أیضاً:

"(كالمصافحة) أي كما تجوز المصافحة؛ لأنها سنة قديمة متواترة؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: «من صافح أخاه المسلم وحرك يده تناثرت ذنوبه»، وإطلاق المصنف تبعاً للدرر والكنز والوقاية والنقاية والمجمع والملتقى وغيره يفيد جوازها مطلقاً ولو بعد العصر، وقولهم: إنه بدعة أي مباحة حسنة كما أفاده النووي في أذكاره وغيره في غيره، وعليه يحمل ما نقله عنه شارح المجمع من أنها بعد الفجر والعصر ليس بشيء توفيقاً فتأمله. وفي القنية: السنة في المصافحة بكلتا يديه، وتمامه فيما علقته على الملتقى.

 (قوله: لقوله عليه الصلاة والسلام  إلخ) كذا في الهداية، وفي شرحها للعيني: قال النبي صلى الله عليه وسلم : «إن المؤمن إذا لقي المؤمن فسلم عليه وأخذ بيده فصافحه تناثرت خطاياهما كما يتناثر ورق الشجر». رواه الطبراني والبيهقي.

(قوله: كما أفاده النووي في أذكاره) حيث قال: اعلم أن المصافحة مستحبة عند كل لقاء، وأما ما اعتاده الناس من المصافحة بعد صلاة الصبح والعصر، فلا أصل له في الشرع على هذا الوجه، ولكن لا بأس به؛ فإن أصل المصافحة سنة، وكونهم حافظوا عليها في بعض الأحوال، وفرطوا في كثير من الأحوال أو أكثرها لا يخرج ذلك البعض عن كونه من المصافحة التي ورد الشرع بأصلها اهـ قال الشيخ أبو الحسن البكري: وتقييده بما بعد الصبح والعصر على عادة كانت في زمنه، وإلا فعقب الصلوات كلها كذلك، كذا في رسالة الشرنبلالي في المصافحة ... (قوله: وتمامه إلخ) ونصه: وهي إلصاق صفحة الكف بالكف وإقبال الوجه بالوجه، فأخذ الأصابع ليس بمصافحة خلافاً للروافض، والسنة أن تكون بكلتا يديه، وبغير حائل من ثوب أو غيره وعند اللقاء بعد السلام وأن يأخذ الإبهام، فإن فيه عرقاً ينبت المحبة، كذا جاء في الحديث، ذكره القهستاني وغيره اهـ".

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 381)، ط: سعید)

صحیح بخاری میں ہے:

"باب الأخذ باليدين وصافح حماد بن زيد، ابن المبارك بيديه

حدثنا أبو نعيم، حدثنا سيف، قال: سمعت مجاهداً يقول: حدثني عبد الله بن سخبرة أبو معمر قال: سمعت ابن مسعود، يقول: علمني رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكفي بين كفيه، التشهد، كما يعلمني السورة من القرآن: «التحيات لله، والصلوات والطيبات، السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين، أشهد أن لاإله إلا الله، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله»، وهو بين ظهرانينا، فلما قبض قلنا: السلام - يعني - على النبي صلى الله عليه وسلم".

(صحيح البخاري (8/ 59)،رقم الحديث: 6265 ,  كِتَابُ الِاسْتِئْذَانِ، الناشر: دار طوق النجاة)

کوکب میں ہے:

"قوله : (الأخذ باليد) اللام فيه للجنس. فلا تثبت الوحدة، والحق فيه أن مضافحته ﷺ ثابتة باليد و باليدين، إلا أن المصافحة بيد واحدة لما كانت شعار أهل الأفرنج وجب تركه لذلك."

(الكوكب الدري (۳/۳۹۲،  ندوة العلماء لکهنو)

فقط واللہ اعلم

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر  فتاویٰ دیکھیے:

کیا مصافحہ کرنے سے وبا پھیل جائے گی یا نہیں؟

وبائی مرض میں باہم مصافحہ کرنا

سلام اور مصافحہ کا طریقہ اور آداب اور ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنے کا حکم


فتوی نمبر : 144210200974

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں