بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر کی تقسیم / مناسخہ


سوال

 ایک شخص مسمٰی ابوشاہ محمد کا انتقال ہوا ، ان کا متروکہ مال ایک مکان ہے، ورثاء میں تین بیٹے ( مشتاق احمد ، ممتاز احمد اورارشاد احمد ) اور دو بیٹیاں ( مریم اور زیتون ) چھوڑیں۔ مکان کی تقسیم سے قبل مریم کا انتقال ہوگیا، ان کے ورثاء میں شوہر(محمد بخش) ، اولادوں میں دو بیٹے(محمد اختر اورمحمد واصف) اور چاربیٹیاں (یاسمین،اسماء، آمنہ اور عابدہ) چھوڑیں۔ اس کے بعد زیتون کا بھی انتقال ہوگیا، ان کے ورثاء میں شوہر(بشیر)، اولادوں میں دو بیٹے (محمد سلیم اور محمد اسماعیل) اور تین بیٹیاں( سلمٰی ، صائمہ اور عائشہ) چھوڑیں۔ اس کے بعد مشتاق احمد کا بھی انتقال ہوگیا، ان کے ورثاء میں صرف ایک بیٹا (محمد زبیر) ہے، اس کے بعد مریم کے شوہر (محمد بخش) کا بھی انتقال ہوگیا۔اس کے بعد ممتاز احمد کا انتقال ہوا ، ان کے ورثاء میں ایک مطلّقہ بیوی اور ایک بیٹی (خدیجہ) اورایک بھائی (ارشاداحمد) ہے۔

مفتی صاحب موجودہ مکان میں دو ورثاء (ارشاد احمد اور محمد زبیر مع اپنی فیملی) رہائش پذیر ہیں۔ مکان کی موجودہ مالیت تقریباً کم وبیش ڈیڑھ کروڑ روپے ہے۔وارثوں کو ان کا شرعی حصّہ مکان کو فروخت کرکے ہی دیا جاسکتا ہے۔فروخت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سارے واجبات کی ادائیگی کی جائے اور مکان کے کاغذات اور دستاویزات مکمل کیے جائیں اور بیچنے کے لیے ایجنٹ اور بروکر کی ضرورت ہوتی ہے، اس کی خدمات حاصل کی جائیں،اسی طرح یوٹیلٹی بلز ، پراپرٹی ٹیکس، بروکر کی فیس اور روڈمیپ ٹیکس کی مکمل ادائیگی کی جائے۔ یہ بتائیں اس مکان میں ورثاء کا شرعی اور قانونی کیا حصہ ہوگا اور اخراجات تمام ورثاء کی ذمہ داری ہوگی یا صرف اس مکان میں رہنے والوں کی؟ یا بعض اخراجات تمام ورثاء برداشت کریں گے اور بعض صرف اس مکان میں رہنے والے؟یا اخراجات ان کے حصوں کے بقدر؟ آپ سے درخواست ہے واضح اور تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ گھر کے وہ اخراجات جو استعمال کی وجہ سے لازم ہوئے ہیں، جیسے یوٹیلٹی بلز  وغیرہ اس کی ادائیگی ان لوگوں کے ذمہ واجب ہے جو اس گھر میں رہ رہے ہیں، تمام ورثاء کے ذمے لازم نہیں، البتہ وہ اخراجات جو اس گھر کے بیچنے پر آئیں گےجیسے بروکری فیس وغیرہ وہ تمام ورثا کے ذمہ لازم ہوں گے، لہذا مکان بیچ کر پہلے یہ اخراجات ادا کیے جائیں اس کے بعد باقی رقم ورثا کے درمیان تقسیم کی جائے گی۔

مسمی ابو شاہ محمد کی جائیداد کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ مرحوم کے  حقوقِ متقدمہ کی ادائیگی کے بعدکل مال کے  448 حصے بنائیں گے، اس میں سے  ارشاد  کو  168 حصے، مریم کے ہر بیٹے کو  14 حصے، اس کی ہر بیٹی کو 7 حصے، زیتون کے شوہر کو   14 حصے، اس کے ہر بیٹے کو 12  حصے، اس کی ہر بیٹی کو  6  حصے، مشتاق کے بیٹے کو 112 حصے اور ممتاز کی بیٹی کو56 حصے ملیں گے۔

یعنی فی صد کے اعتبار سےابو شاہ محمد کے  زندہ بیٹے  ارشاد کو 37.5فی صد،مریم کے ہر ایک بیٹے کو  3.125فی صد، اس کی ہر ایک بیٹی کو 1.56فی صد،زیتون کے شوہر کو  3.125فی صد،اس کے ہر ایک بیٹے کو 2.67فی صد اور ہر ایک بیٹی کو 1.33فی صد،مشتاق کے بیٹے کو  25فی صد اور ممتاز احمد کی بیٹی کو 12.5فی صد حصہ ملے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

(وهو على عدد الرءوس) مطلقا لا الأنصباء خلافا لهما، قيد بالقاسم لأن أجرة الكيال والوزان بقدر الأنصباء إجماعا، وكذا سائر المؤن كأجرة الراعي والحمل والحفظ وغيرها شرح مجمع، زاد في الملتقى: إن لم يكن للقسمة، وإن كان لها فعلى الخلاف لكن ذكره في الهداية بلفظ قيل، وتمامه فيما علقته عليه.

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين ، كتاب القسمة 6/ 256 ط: سعيد) فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144001200517

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں