بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کھانا کھانے کے بعد پانی پینا


سوال

کیاکھانے کے آخر میں پانی پیناخلاف سنت ہے؟

جواب

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کھانے کے بعد پانی کاپینابھی ثابت ہے اور نہ پینا بھی، دونوں طرح کاعمل نقل کیا گیا ہے۔چنانچہ مسلم شریف کی روایت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے :

' 'خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم أو ليلة فإذا هو بأبي بكر وعمر، فقال: ما أخرجكما من بيوتكما هذه الساعة؟ قالا: الجوع يا رسول الله! قال: وأنا والذي نفسي بيده لأخرجني الذي أخرجكما، قوموا! فقاموا معه فأتى رجلاً من الأنصار فإذا هو ليس في بيته، فلما رأته المرأة قالت: مرحباً وأهلاً فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: أين فلان؟ قالت: ذهب يستعذب لنا من الماء، إذ جاء الأنصاري فنظر إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وصاحبيه، ثم قال: الحمد لله ما أحد اليوم أكرم أضيافاً مني! قال: فانطلق فجاءهم بعذق فيه بسر وتمر ورطب، فقال: كلوا من هذه وأخذ المدية، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: إياك والحلوب! فذبح لهم فأكلوا من الشاة ومن ذلك العذق وشربوا، فلما أن شبعوا ورووا قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لأبي بكر وعمر: والذي نفسي بيده لتسألن عن هذا النعيم يوم القيامة، أخرجكم من بيوتكم الجوع ثم لم ترجعوا حتى أصابكم هذا النعيم''۔(صحیح مسلم،باب جواز استتباعه غيره إلى دار من يثق برضاه بذلك وبتحققه تحققا تاما واستحباب الاجتماع على الطعام،2/177،ط:قدیمی)

یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکروعمررضی اللہ عنہما کے ہمراہ ایک انصاری صحابی کے گھرتشریف لے گئے انہوں نے بکری ذبح کی اور کھانے کااہتمام کیا،ان حضرات نے بکری کاگوشت  اور کھجوریں تناول فرمائیں اورپانی پیا۔

اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کھانے کے بعد پانی نوش فرمانا ثابت ہوا۔

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے''مدارج النبوۃ،جلد اول ،باب یازدھم درعبادات وطعام وشراب'' ص:466 پر لکھا ہے :

''وآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  آب برطعام نمی خورد کہ مفسد ست،وتاطعام ہانہضام نیایدآب نبایدخورد''۔(مدارج النبوۃ،جلد اول ،ط:مطبع نول کشور لکھنو)

یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کھانے کے بعد پانی نوش نہ فرماتے ؛ کیوں کہ یہ مفسدِ ہضم ہے؛ لہذا جب تک کھاناہاضمے کے قریب نہ ہو  پانی نہیں پیناچاہیے۔

ا س تفصیل سے معلوم ہوا کہ  نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہمیشہ یہ معمول نہیں تھا کہ کھانے کے بعد پانی نہ پیتے ہوں،بلکہ جب تقاضا ہوا آپ نے پانی نوش فرمایااورتقاضا نہ ہواتو ترک فرمادیا؛ اس لیے کھانے کے بعد پانی پینے کو خلافِ سنت نہیں کہاجاسکتا۔

البتہ اگر طبی لحاظ سے کھانے کے بعد فوراً زیادہ پانی پینامضر ہوتو یک دم زیادہ مقدار میں پانی پینے کے بجائے تھوڑی تھوڑی مقدارمیں پی لیاجائے اس سے معدہ نقصان سے محفوظ رہے گا۔جیساکہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے "زادالمعاد " میں تحریرفرمایاہے:

'' والماء العذب نافع للمرضى والاصحاء، والبارد منه أنفع والذ، ولا ينبغى شربه على الريق ولا عقيب الجماع ولا الانتباه من النوم ولا عقيب الحمام ولا عقيب اكل الفاكهة وقد تقدم، واما على الطعام فلا بأس به إذا اضطر إليه بل يتعين ولا يكثر منه بل يتمصصه مصاً فإنه لا يضره البتة بل يقوى المعدة وينهض الشهوة ويزيل العطش''۔(1/304،ط:دارالفکر)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143903200097

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں