بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کس عمر میں بچوں کو الگ بستر پر سلانا چاہیے؟


سوال

بچوں کو  کتنی عمر سے الگ بستر دیاجائے اس کے حوالے سے کوئی حدیث؟  اور کیا بچے اپنی خالہ پھوپھو کے ساتھ ایک بستر پے سو سکتے ہیں جب کہ وہ دس گیارہ سال کے ہوگئے ہوں؟

جواب

حدیث شریف میں آتا ہے:

مصنف ابن أبي شيبة (1/ 304):
"عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، قال: قال نبي الله صلى الله عليه وسلم: «مروا صبيانكم بالصلاة إذا بلغوا سبعاً، واضربوهم عليها إذا بلغوا عشراً، وفرقوا بينهم في المضاجع»".

یعنی سات سال کی عمر میں اپنے بچوں کو نماز کا حکم دو اور دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر پٹائی کرو اور ان کے بستر بھی علیحدہ کر دو۔

اس حدیث کی رو سے دس سال کی عمر کے بعد بچوں کو الگ بستر پر سلانے کا حکم ہے؛  لہذا اس عمر کے بعد بچے  کے لیے اپنی خالہ اور پھوپھی کے ساتھ ایک بستر پر سونے کی اجازت نہیں ہو گی۔

مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (2/ 278):

"قال المناوي في فتح القدير: أي: فرقوا بين أولادكم في مضاجعهم التي ينامون فيها إذا بلغوا عشراً، حذروا من غوائل الشهوة وإن كن أخوات. انتهى. قال الطيبي: إنما جمع بين الأمر بالصلاة والفرق بينهم في المضاجع في الطفولية تأديباً ومحافظة لأمر الله تعالى، لأن الصلاة أصل العبادات، وتعليماً لهم المعاشرة بين الخلق، وأن لايقفوا مواقف التهم، فيجتنبوا محارم الله كلها. انتهى". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201790

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں