بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کتے کو گھر سے باہر اسٹور یا چھت پر شوقیہ طور پر پالنے کے لیے رکھنے کا حکم


سوال

کیا کتے کو گھر کے اندر رکھنے کے بجائے گھر کے پچھلے حصے (اسٹور یا لانڈری وغیرہ ) میں یا چھت پر شوقیہ طور پر پالنے کے لیے رکھ سکتے ہیں؟

 

جواب

محض شوقیہ طور پر ’’کتا‘‘ پالنا جائز نہیں ہے، خواہ اس کو گھر سے باہر رکھا جائے، حدیثِ مبارک  میں ہے:

 

"لاتدخل الملائکة بیتًا فیه صورة ولا کلب". (البخاري، رقم: ۴۰۰۲، ۵/۱۸، بیروت) 

ترجمہ : رحمت کے فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر ہو یا کتا۔

 ایک اور حدیثِ پاک میں ہے:

"عن أبي هريرة، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من اتخذ كلباً إلا كلب ماشية، أو صيد، أو زرع، انتقص من أجره كل يوم قيراط». هذا حديث صحيح". (سنن الترمذي (4 / 80)

 یعنی جس شخص نے جانور اور کھیتی وغیرہ کی حفاظت یا شکار کے علاوہ کسی اور مقصد سے کتا پالا، اس کے ثواب میں ہرروز ایک قیراط کم ہوگا۔ (ایک روایت میں دو قیراط کا ذکر ہے.)

"عن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من اقتنى كلباً أو اتخذ كلباً ليس بضارع ولا كلب ماشية نقص من أجره كل يوم قيراطان»". (ایضاً 4/79)
ان دو حدیثوں سے معلوم ہوا کہ شکار اور واقعی حفاظتی اغراض کے علاوہ محض شوقیہ کتا پالنا شرعاً ممنوع ہے، جس گھر میں اس طرح کا کتا ہوگا اس میں رحمت کے فرشتے داخل نہ ہوں گے، اور اس کے ثواب میں کمی ہوگی، اور اگر کھیت وغیرہ کی حفاظت یا شکار کے لیے کتا رکھا ہو تو اسے پالنا اور بقدرِ ضرورت ایسی جگہ جانا اور رہنا بھی جائز ہے۔
یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جو اس کے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے قابلِ اعتماد ذریعہ سے ہم تک پہنچا ہے، ایک مؤمن کی شان یہ ہے کہ اس پر عمل کرے، اس حکم کی علت  کیا ہے اس کے درپے نہ ہو، اللہ تعالیٰ احکم الحاکمین ہے، احکام کی حقیقی علتیں اللہ ہی کو معلوم ہیں، مؤمن کی شان احکام پر عمل کرنا ہے۔

 

باقی علماء نے قرآن وحدیث اور شریعت کے مزاج کی روشنی میں کتے کے حرام ہونے اور اس کے ساتھ اختلاط کے عدمِ جواز کی شرعی مصلحتیں بھی بیان کی ہیں؛ لیکن ان مصلحتوں کو ”ظن“ کے درجے میں رکھنا چاہیے، واقعی مصلحت کیا ہے، اسے اللہ کے حوالے کرنا چاہیے۔

”احکامِ اسلام عقل کی نظر میں“ میں ہے:

’’کتا باعتبارِ اوصافِ مذمومہ کے شیطان ہوتا ہے، چناں چہ اس کو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شیطان فرمایا ہے ․․․․ وہ اوصافِ ذمیمہ یہ ہیں کہ جتنا کتا خبیث ترین وذلیل ترین وخسیس ترین حیوانات سے ہے اس کی محبت پیٹ سے آگے نہیں گزرتی، اس کی شدتِ حرص میں ایک بات یہ ہے کہ جب وہ چلتا ہے تو شدتِ حرص کی وجہ سے ناک زمین پر رکھ کر زمین سونگھتا جاتا ہے اور اپنے جسم کے سارے اعضاء چھوڑکر ہمیشہ اپنی دبر (پاخانہ کی جگہ) سونگھتا ہے، اور جب اس کی طرف پتھر پھینکو تو وہ فرطِ حرص وغصہ کی وجہ سے اس کو کاٹتا ہے، الغرض یہ جانور بڑا حریص وذلیل ودنی ہمت ہوتا ہے، گندے مردار کو بہ نسبت تازے گوشت کے زیادہ پسند کرتا اور نجاست بہ نسبت حلوا کے بڑی رغبت سے کھاتا ہے، اور جب کسی ایسے مردار پر پہنچے جو صدہا کتوں کے لیے کافی ہو تو شدتِ حرص وبخل کی وجہ سے اس مردار سے دوسرے کتے کو ذرہ برابر کھانے نہیں دیتا ․․․ پس جب کتے کے ایسے اوصافِ مذمومہ ہیں تو جو شخص اس کو کھاتا ہے وہ بھی ان ہی اوصاف سے متصل ہوتا ہے؛ لہٰذا یہ جانور حرام ٹھہرایا گیا، اور چوں کہ کتا پالنے میں اس کے ساتھ زیادہ تلبس ہوتا ہے جیسا کہ مشاہدہ ہے؛ اس لیے بلاخاص ضرورت کی صورتوں میں اس کا پالنا بھی ممنوع قرار دیا گیا کہ ان کی صفاتِ خبیثہ اس شخص میں اثر کریں گی اور چوں کہ ان صفاتِ خبیثہ سے ملائکہ کو نفرت ہے تو اس شخص سے ملائکہ بعد اختیار کرتے ہیں، چناں چہ وہ ایسے گھر میں بھی نہیں آتے جہاں کتا ہوتا ہے، اور سیاست کے ملائکہ (انتظامِ عالم اسی طرح حفاظت اور عذاب وسزا والے فرشتے) اس سے مستثنیٰ ہیں‘‘۔ (احکامِ اسلام عقل کی نظر میں“ مولفہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ ص: ۲۸۵، ۲۸۶، ط: مکتبہ دارالعلوم) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200069

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں