بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈاڑھی کی شرعی حیثیت اور ڈاڑھی نہ رکھنے کا گناہ


سوال

کیا ڈاڑھی نہ رکھنے سے ہم چوبیس گھنٹے گناہ میں ہوتے ہیں یا اگر ڈاڑھی نہ رکھیں تو  جہنم کے چوتھے درجے میں شامل کیے جائیں گے؟  اصل میں آج جمعے میں امام صاحب نے یہ بات بولی تو میرا دل بس مانا نہیں، انہوں نے کوئی روایت یا حدیث نہیں بتائی۔

جواب

داڑھی تمام انبیائے کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کی سنت، مسلمانوں کا قومی شعار اور  مرد کی فطری اور طبعی چیزوں میں سے ہے، ا سی لیے رسول اللہ ﷺ نے اس شعار کو اپنانے کے لیے اپنی امت کو ہدایات دی ہیں اور اس کے رکھنے کا  حکم دیا ہے، اس لیے  جمہور علمائے امت کے نزدیک داڑھی رکھنا واجب اور اس کو کترواکریا منڈوا کر ایک مشت سےکم کرنا  حرام ہے اور کبیرہ گناہ ہے۔اور اس کا مرتکب فاسق اور گناہ گار ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے "امام مسلم" اور اصحابِ سنن نے روایت کیا ہے  کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دس چیزیں فطرت میں سے ہیں ( پیدائشی سنت ہیں) : ایک تو مونچھ خوب  کتروانا، دوسری داڑھی چھوڑنا، تیسری مسواک کرنا، چوتھی پانی سے ناک صاف کرنا، پانچویں ناخن کا ٹنا، چھٹی انگلیوں کے جوڑوں کو دھونا، ساتویں بغل کے بال اُکھاڑنا، آٹھویں زیرِ ناف کے بال مونڈنا، نویں پانی سے استنجا کرنا۔  زکریاؒ روای کہتے ہیں کہ مصعبؒ نے کہا: میں دسویں چیز بھول گیا، مگر یہ کہ یہ کلی ہوگی۔

 "عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " عشر من الفطرة: قص الشارب، وإعفاء اللحية، والسواك، واستنشاق الماء، وقص الأظفار، وغسل البراجم، ونتف الإبط، وحلق العانة، وانتقاص الماء " قال زكريا: قال مصعب: ونسيت العاشرة إلا أن تكون المضمضة". (صحيح مسلم ۔1/ 223)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے "بزار" نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مجوسیوں کی مخالفت کرتے ہوئے اپنی مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں بڑھاؤ۔

 "عن أنس أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: خالفوا على المجوس جزوا الشوارب وأوفوا اللحى". (مسند البزار = البحر الزخار ۔13/ 90)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے    کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں بڑھاؤ، مجوسیوں کی مخالفت کرو۔

" عن أبي هریرة رضي اللّٰه عنه قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: جُزُّوا الشوارب، وأرخوا اللحی، خالِفوا المجوس". (صحیح مسلم، کتاب الطهارة / باب خصال الفطرة ۱؍۱۲۹رقم:۲۶۰بیت الأفکار الدولیة)

مذکورہ بالا احادیث  میں صراحت سے داڑھی کے بڑھانے کا حکم ہے، اور رسول اللہ ﷺ کے صریح حکم کی خلاف ورزی ناجائز اور حرام ہے۔

اسی معنی کی مزید احادیث درج ذیل ہیں۔

" عن ابن عمر رضي اﷲ عنهما قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم: أحفوا الشوارب وأعفوا اللحی". ( جامع الترمذي، أبواب الأدب، باب ماجاء في إعفاء اللحیة، النسخة الهندیة ۲/ ۱۰۵، دارالسلام رقم:۲۷۶۳) 
سنن أبی داؤد شریف، کتاب الطهارة، باب السواک من الفطرة، النسخة الهندیة ۱/ ۸، دارالسلام رقم:۵۳.

"وعن ابن عمر رضي اللّٰه عنهما قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: انهکوا الشوارب وأعفوا اللحی". (صحیح البخاري، کتاب اللباس / باب إعفاء اللحی۲؍۸۷۵رقم:۵۸۹۳دار الفکر بیروت)

نیز داڑھی منڈوانا ایسا جرم ہے کہ اس کی حرمت پر ساری امت کا اجماع ہے، امت کا ایک فرد بھی اس قبیح فعل کے جواز کاقائل نہیں ہے۔

سنن ابو داوٴد کے شارح صاحب "المنہل العذب المورود“ علامہ سبکی رحمہ اللہ نے لکھا ہے:  داڑھی کا منڈانا سب ائمہ مجتہدین امام ابو حنیفہ ،امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل وغیرہ رحمہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک حرام ہے۔

”کان حلق اللحیة محرّماً عند ائمة المسلمین المجتهدین أبي حنیفة، ومالک، والشافعي، وأحمد وغیرهم -رحمهم الله تعالیٰ-“. (المنہل العذب المورود، کتاب الطہارۃ، أقوال العلماء فی حلق اللحیۃ واتفاقہم علی حرمتہ: 1/186، موٴسسۃالتاریخ العربی، بیروت، لبنان) 

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ ”بوادر النوادر “ میں لکھتے ہیں:

”قال العلائي في کتاب الصوم قبیل فصل العوارض:  ”إن الأخذ من اللحیة، وهي دون القبضة، کما یفعله بعضُ المغارِبة ومُخَنَّثة الرجالِ، لَم یُبِحْه أحدٌ، وأَخْذُ کلِّها فعلُ الیهود والهنودِ ومَجوس الأعاجِم․ اهـ“ فحیثُ أَدْمَن علی فعلِ هذا المحرَّمِ یفسُقُ، وإن لم یکن ممن یستخفونه ولا یعُدُّونَه قادحاً للعدالة والمروة، إلخ“․ (تنقیح الفتاویٰ الحامدیۃ، کتاب الشھادۃ: 4/238، مکتبۃ  رشیدیۃ، کوئٹۃ)

قلت(الأحقر): قوله:”لم یبحه أحد“ نصٌّ في الإجماع، فقط“․ (بوادر النوادر، پچپنواں نادرہ در اجماع بر حرمت اخذ لحیہ دون القبضہ،ص: 443،ادارہ اسلامیات لاہور)

علامہ علائی رحمہ اللہ کی مذکورہ عبارت کے آخر میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ: علامہ حصکفی رحمہ اللہ کا قول: ”لَمْ یُبِحْہ أحدٌ“داڑھی منڈانے کی حرمت پر اجماع کی صریح دلیل ہے۔

علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”وأما تقصیرُ اللحیة بحیثُ تصیرُ قصیرة من القبضة، فغیرُ جائزٍ فی المذاهب الأربعة“․ (العرف الشذی، کتاب الآداب، باب ما جاء فی تقلیم الأظفار، 4/162، دار الکتب العلمیۃ)

نیز اس کے صاف کرنے/ مشت سے کم کاٹنے کی حرمت اشارۃً قرآن مجید میں بھی موجود ہے، قرآن پاک میں اللہ تعالی نے  تغییر خلقِ اللہ یعنی انسانی اعضاء میں اللہ تعالی کی بنائی ہوئی  تخلیق میں تبدیلیاں کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد ہے:

﴿ وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَاٰمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ اٰذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَاٰمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ وَمَنْ يَتَّخِذِ الشَّيْطٰنَ وَلِيًّا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُبِينًا﴾ [النساء:119]

ترجمہ:اور میں ان کو گم راہ کروں گا اور میں ان کو ہوسیں دلاؤں گا اور میں ان کو تعلیم دوں گا جس میں وہ چوپایوں کے کانوں کو تراشا کریں گے اور میں ان کو تعلیم دوں گا جس سے وہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی صورت کو بگاڑا کریں گے  اور جو شخص خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا رفیق بناوے گا  وہ صریح نقصان میں واقع ہوگا۔

واضح رہے کہ کسی فعل کے حرام ہونے کے لیے قرآنِ مجید یا احادیثِ نبویہ میں لفظِ حرام کہہ کر اس کا حکم ''حرام'' بیان کرنا ضروری نہیں ہے، بلکہ بعض مرتبہ اشارۃً ایک حکم مذکور ہوتاہے اور اس کا حکم حرام یا فرض کا درجہ رکھتاہے، قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں بیان کردہ احکام کے مراتب ودرجات جاننے کا ذریعہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ان کے شاگردوں (تابعین رحمہم اللہ) کی تشریحات ہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے آثار سے احکامِ اسلام کا مرتبہ متعین ہوجاتاہے، کیوں کہ وہ آپ ﷺ کے براہِ راست شاگرد، وحی کے نزول کے شاہد اور کمال درجہ شوق کے ساتھ آپ ﷺ سے دین کو سیکھنے سمجھنے والے ہیں، انہیں کسی فعل میں آپ ﷺ سے رخصت ملی تو بلا کم وکاست پوری امانت داری کے ساتھ امت تک رخصت والا وہ عمل بھی پہنچایاہے، آپ ﷺ نے خود بھی داڑھی رکھی ،  تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے بھی داڑھی رکھی، اور آپﷺ نے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو داڑھی بڑھانے کاحکم دیا،اور کسی نبی علیہ السلام یا صحابی رضی اللہ عنہ سے داڑھی صاف کرنا ثابت نہیں، ہاں بعض  صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں اتنا آتاہے کہ وہ ایک مشت تک داڑھی کو درست کرتے تھے، اس سے کم داڑھی رکھنا کسی سے منقول نہیں ہے، اور درج بالا احادیث میں آپ نے ملاحظہ کیا کہ آپﷺ نے صاف اور دو ٹوک حکم دیا ہے کہ داڑھی بڑھاؤ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس سے وجوب ہی سمجھا، تب ہی خود بھی شدت سے عمل کیا اور آنے والی امت کو یہی امانت حوالہ کرکے گئے، ان کے شاگرد اور شاگردوں کے شاگردوں نے وہی امانت امت تک پہنچائی ہے، انہوں نے دین کے مسائل خود سے نہ بنائے ہیں اور نہ ہی خود سے احکام کے مراتب متعین کیے ہیں، فقہاءِ کرام رحمہم اللہ تب تک کسی چیز کا حکم اور اس حکم کا درجہ متعین نہیں کرتے جب تک کہ ان کے پاس قرآن وحدیث سے دلیل موجود نہ ہو، خواہ صراحتاً ہو یا اشارۃً۔

یہ بات بھی قرآنِ مجید اور احادیثِ نبویہ میں صراحتاً اور اشارۃً موجود ہے کہ  مسلمان اہلِ علم کا اجماع/ اتفاق مستقل حجتِ شرعیہ ہے، یعنی اگر قرآن وحدیث میں کوئی حکم صراحتاً موجود نہ ہو ،لیکن صحابہ کرام یا قرونِ اولیٰ کے اہلِ علم کسی آیت یا حدیث کی مراد پر متفق ہوجائیں تو یہ اجماع خود حجتِ شرعیہ ہے، اس اجماع سے ہی حکم کا درجہ متعین ہوجاتاہے، جب تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین وتبع تابعین اورفقہاء مجتہدین رحمہم اللہ قرآن وحدیث سے ایک مسئلے (داڑھی صاف کرنے یا ایک مشت سے کم کرنے ) کا حکم سمجھ کر اس کے درجے پر متفق ہیں تو ان حضرات کا اجماع ہی اس کی حرمت کی دلیل ہے، خواہ قرآن مجید اور احادیثِ نبویہ میں صراحتاً حرمت نہ بھی موجود ہو۔ چہ جائے کہ داڑھی بڑھانے کے وجوب پر صراحتاً دلالت کرنے والی احادیث موجود ہیں جن کی جانبِ مخالف (واجب کو ترک کرنا) حرام ہے۔

نیز ڈاڑھی منڈوانا درج ذیل گناہوں کا مجموعہ ہے:

(1) نبی کریم ﷺ کے حکم کی مخالفت۔ (2) انبیاء کرام کی سنت اور فطرت کی مخالفت۔ (3)اس گناہ کا اعلانیہ ہونا کہ ڈاڑھی ایسا گناہ ہے جو لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا، اور گناہ کی تشہیر خود ایک گناہ ہے۔ (4) اللہ کی فطری بنائی ہوئی خلقت میں تبدیلی اور مثلہ (چہرہ بگاڑنے) کا گناہ ۔ (5) کافروں سے مشابہت ۔(6) خواتین کے ساتھ  تشبہ، اور مردوں کے لیے ایسا عمل جس سے خواتین کے ساتھ مشابہت حدیث کی رو سے موجبِ لعنت ہے ۔ (7) مخنثین اور ہیجڑوں سے مشابہت ۔(8) گناہ کا تسلسل اور استمرار۔یعنی جب تک انسان  اس عمل کا مرتکب رہتا ہے اس وقت تک اس کا گناہ برابر جاری رہتا ہے۔ (9) اسلامی اور دینی شعائر کی خلاف ورزی۔

ڈاڑھی کے شرعی حکم سے متعلق حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ کے افادات میں ہے: 

" داڑھی قبضہ (ایک مشت) سے کم کرانا حرام ہے، بلکہ یہ دوسرے کبیرہ گناہوں سے بھی بدتر ہے؛ اس لیے اس کے اعلانیہ ہونے کی وجہ سے اس میں دینِ اسلام کی کھلی توہین ہے اور اعلانیہ گناہ کرنے والے معافی کے لائق نہیں، اور ڈاڑھی کٹانے کا گناہ ہر وقت ساتھ لگا  ہوا ہے حتی کے نماز وغیرہ عبادات  میں مشغول ہونے کی حالت میں بھی اس گناہ میں مبتلا ہے"۔( "ڈاڑھی منڈانا کبیرہ گناہ اور اس کا اس کا مذاق اڑانا کفر ہے"ص 10،مکتبہ حکیم الامت)

مذکورہ بالا تمام تفصیلات سے یقیناً  آپ کے سامنے شرعی حکم واضح ہوگیا ہوگا، اور آپ کی تسلی بھی ہوگئی ہوگی، اور اگر مزید تفصیل چاہتے ہیں تو اس پر مستقل رسالے اور کتابیں لکھی گئی ہیں ، مفتی  اعظم پاکستان مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ  کا  ڈاڑھی کے احکام سے متعلق رسالہ "جواہر الفقہ" 7 جلد میں موجود ہے، اسی طرح حکیم الامت تھانوی صاحب کے افادات "ڈاڑھی منڈانا کبیرہ گناہ اور اس کا اس کا مذاق اڑانا کفر ہے" ، اور حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ اور مولانا قاری طیب صاحب رحمہ اللہ کے رسالوں کا مطالعہ کیجیے۔

باقی داڑھی منڈوانے والے جہنم کے چوتھے درجے میں ہوں گے، یہ بات ہمیں نہیں مل سکی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200486

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں