بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چترال شندور پولوکھیل میں شرکت کا حکم


سوال

چترال میں شندور میلہ ہر سال منعقد ہوتا ہے،  جس میں چترالی اور گلگتی قوم کے افراد اپنے ثقافتی ورثہ کے لحاظ سے مختلف کرتب دکھاتے ہیں،  اور گھوڑدوڑ پولو کا مقابلہ ہوتا ہے،   مذکورہ میلہ میں شرکت کا کیا حکم ہے ؟

جواب

اصولی تمہید:

 دینِ اسلام کھیل اور تفریح سے مطلقاً منع نہیں کرتا، بلکہ اچھی اور صحت مند تفریح کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، چناچہ بعض کھیل ایسے ہیں  جن کی اجازت خود نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے،  جیساکہ سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن عقبة بن عامر قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن الله عز وجل يدخل بالسهم الواحد ثلاثة نفر الجنة، صانعه يحتسب في صنعته الخير، والرامي به، ومنبله. وارموا، واركبوا، وأن ترموا أحب إلي من أن تركبوا. ليس من اللهو إلا ثلاث: تأديب الرجل فرسه، وملاعبته أهله، ورميه بقوسه ونبله، ومن ترك الرمي بعد ما علمه رغبة عنه، فإنها نعمة تركها، « أو قال:» كفرها".

 (1/363، کتاب الجهاد، ط: رحمانیة)

         مذکورہ حدیث میں تین کھیلوں کو لہو لعب سے مستثنیٰ کیا گیا ہے، کیوں کہ  ”لہو “    تو اس  کام کو کہا جاتا  ہے، جس میں کوئی دینی یا دنیوی فائدہ نہ ہو ، جب کہ یہ تینوں  مفید کام ہیں جن سے بہت سے دینی اور دنیوی فوائد وابستہ ہیں ، تیراندازی اور گھوڑے کو سدہانا تو جہاد کی تیاری میں داخل ہے اور بیوی کے ساتھ  ملاعبت  توالد و تناسل کے مقصد کی تکمیل ہے، چناچہ فقہاءِ کرام نے  ذخیرہ احادیث کو سامنے رکھ کر   چند اصول مرتب کیے ہیں ،  جن پر غور کرنے سے موجودہ زمانے کے تمام کھیلوں کا حکم معلوم ہوجاتا ہے، وہ اصول درج ذیل ہیں:

1۔۔  وہ کھیل بذاتِ خود جائز ہو، اس میں کوئی ناجائز   بات نہ ہو۔

2۔۔اس کھیل میں کوئی دینی یا دینوی منفعت (مثلاً جسمانی  ورزش وغیرہ)  ہو، محض لہو لعب یا وقت گزاری کے لیے نہ کھیلا جائے۔

3۔۔ کھیل میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا  ہو۔

4۔۔کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے  کہ جس سے شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں چترال  شندور میلہ  میں اگر کسی ممنوع وغیر شرعی امور کاارتکاب نہ ہو ، جیسے کہ مرد وں اورعورتوں کا مخلوط اجتماع، موسیقی اور رقص وغیرہ، نماز و دیگر عبادات کا ضیاع، اور اس  کے علاوہ دیگر دینی اور دنیاوی واجبات میں کوتاہی نہ ہو  تو اس میں شرکت کرنا جائز ہوگا۔

         ارشادِ باری تعالی ہے:

"{وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ }."[لقمان: 6]

       روح المعانی میں ہے:

"ولهو الحديث على ما روي عن الحسن: كل ما شغلك عن عبادة الله تعالى وذكره من السمر والأضاحيك والخرافات والغناء ونحوها".

 (تفسیر آلوسیؒ (11 / 66)، سورۃ لقمان، ط:دار الکتب العلمیة)

         تکملۃ فتح الملہم میں ہے:

"فالضابط في هذا ... أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح  مفيد في المعاش ولا المعاد حرام أو مكروه تحريماً، ... وما كان فيه غرض  ومصلحة دينية أو دنيوية فإن ورد النهي  عنه من الكتاب  أو السنة ... كان حراماً أو مكروهاً تحريماً، ... وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس فهو بالنظر الفقهي على نوعين: الأول: ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه، ومفاسده أغلب على منافعه، وأنه من اشتغل  به ألهاه عن ذكر الله  وحده  وعن الصلاة والمساجد، التحق ذلك بالمنهي عنه؛ لاشتراك العلة، فكان حراماً أو مكروهاً. والثاني: ماليس كذلك، فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التهلي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح، بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه ... وعلى هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل على معصية أخرى، وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الإخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه". 

(تکملة فتح المهم، قبیل کتاب الرؤیا، (4/435) ط:  دارالعلوم کراتشی)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144501101567

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں