بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وبا والے علاقہ میں رہنے والے لوگوں کے لئے شرعی حکم


سوال

 کسی علاقہ میں وباء پھیل جائے تو وہاں کے لوگوں کے بارے میں کیا احکامات ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ اس دنیا میں اللہ نے بہت سی چیزوں کو اسباب کے ساتھ جوڑا ہے، لیکن حقیقت میں سارے اسباب اپنا اثر دکھانے میں اللہ کے حکم کے پابند ہیں؛ لہذا نبی کریمﷺ نے دو مختلف موقعوں پر ایسا عمل کیا جس سے یہ دونوں باتیں واضح ہوجاتی ہیں۔ ایک مرتبہ نبی کریمﷺکے پاس ایک مجذوم (جذام کی بیماری والا شخص، جس بیماری کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ پھیلتی ہے)آیا تو آپﷺ نے اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا تناول فرمایا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیمار آدمی سے یقینی طور پر بیماری لگ جانے کا اعتقاد درست نہیں ہے۔ دوسرے موقع پر ایک مجذوم آپﷺ سے بیعت ہونے کے لیے آیا تو نبی کریمﷺ نے ہاتھ ملائے بغیر ہی اسے بیعت کرلیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ احتیاط کے درجہ میں بیماری کے ظاہری اسباب سے بچناجائز ہے۔

مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ ظاہری سبب کے طور پر پھیلنے والی بیماری کی جگہ یا شخص سے بچنا جائز ہے، تاہم یہ عقیدہ نہ ہو کہ ایسی جگہ میں جانے سے یا رہنے سے یا ایسے شخص کے قرب سے بیماری کا لگنا یقینی ہے۔

اور اگر کسی علاقے میں کوئی وبا (مثلاً طاعون وغیرہ) پھیل جائے تو اس حوالے سے مختلف کتبِ حدیث میں روایات منقول  ہیں کہ جس جگہ طاعون کا مرض پھیل جائے وہاں جانے سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا، اور جہاں آدمی موجود ہو، اور وہاں طاعون کا مرض پھیل جائے تو ڈر کر وہاں سے بھاگنے سے منع فرمایا۔  یہ روایات صحیح اسناد سے ثابت ہیں،  ملاحظہ فرمائیں،

بخاری شریف میں ہے:

"حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ وَعَنْ أَبِي النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ سَمِعَهُ يَسْأَلُ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ مَاذَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الطَّاعُونِ فَقَالَ أُسَامَةُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الطَّاعُونُ رِجْسٌ أُرْسِلَ عَلَى طَائِفَةٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَوْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ فَإِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ بِأَرْضٍ فَلَا تَقْدَمُوا عَلَيْهِ وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلَا تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُ قَالَ أَبُو النَّضْرِ لَا يُخْرِجْكُمْ إِلَّا فِرَارًا مِنْهُ". (صحیح البخاری ، باب من انتظر حتی تدفن:۴/۱۷۵، ط: دارطوق النجاۃ)

اسی طرح کی روایت صحیح مسلم ، سنن ابو داؤد ، سنن ترمذی وغیرہ میں موجود ہے ۔اور روایت بھی صحیح درجہ کی ہے.

اس کی وضاحت کرتے ہوئے علماء فرماتے ہیں  کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جہاں طاعون پھیلا ہو ، وہاں مت جاؤ ؛ کیوں کہ وہاں جانے کی صورت میں وبائی مرض کے بارے میں اللہ کے سامنے جرأت کا اظہار کرنا ہے اور جہاں موجود ہو وہاں سے ڈر اور خوف کی وجہ سے نکلنا چاہے، تو یہ تقدیر سے بھاگنا ہے جس کاکوئی فائدہ نہیں ہے ، اس لیے یہ دونوں کام درست نہیں۔ البتہ یہ ممانعت اس صورت میں ہے جب کوئی اس وبا سے بھاگنا چاہتا ہو؛ لہٰذا اگر کسی کام سے جارہا ہو تو  اس وبائی جگہ سے نکلنے میں حرج نہیں ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:

"وفي رواية أخرى: فلاتدخلوا عليه أي يحرم عليكم ذلك؛ لأن الإقدام عليه جراءة على خطر وإيقاع للنفس في التهلكة والشرع ناه عن ذلك، قال تعالى: {ولاتلقوا بأيديكم إلى التهلكة} ( وإذا وقع ) أي الطاعون ( وأنتم ) أي والحال أنتم ( بها ) بذلك الأرض ( فرارًا ) أي بقصد الفرار ( منه )؛ فإن ذلك حرام؛ لأنه فرار من القدر وهو لاينفع، والثبات تسليم لما لم يسبق منه اختيار فيه، فإن لم يقصد فرارًا بل خرج لنحو حاجة لم يحرم، قاله المناوي في التيسير". (عون المعبود ، باب الخروج من الطاعون : ۸/۲۵۵)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (4 / 1711):
" فر من المجذوم فرارك من الأسد " فإنه محمول على بيان الجواز أو لئلا يقع شيء منه بخلق الله فينسب إلى الإعداء بالطبع ليقع في محذور اعتقاد التأثير لغير الله، وقد عمل النبي - صلى الله عليه وسلم - بالأمرين ليشير إلى الجوابين عن قضية الحديث فإنه جاءه مجذوم فأكل معه قائلا: بسم الله ثقة بالله وتوكلا عليه، وجاءه مجذوم آخر ليبايعه فلم يمد إليه يده وقال: قد بايعت، فأولا نظر إلى المسبب وثانيا نظر إلى السبب في مقام الفرق وبين أن كلا من المقامين حق، نعم الأفضل لمن غلب عليه التوكل أو وصل إلى مقام الجمع هو الأول والثاني لغيره ۔ 

اور علماء نے طاعون سے وبا مراد لی ہے ، ملاحظہ فرمائیں:
"الطاعون بوزن فاعول من الطعن عدلوا به عن أصله ووضعوه دالاً على الموت العام كالوباء، ويقال: طعن فهو مطعون وطعين إذا أصابه الطاعون وإذا أصابه الطعن بالرمح فهو مطعون، هذا كلام الجوهري. وقال الخليل: الطاعون الوباء". (عون المعبود ، باب الخروج من الطاعون : ۸/۲۵۵)۔

اس لیے اگر کہیں وبا پھیل جائے تو  اس سے بھاگنے کے بجائے ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200168

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں