بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں قراءت میں غلطی کا حکم


سوال

مایجوز به الصلاة پڑھنے کے بعد قراء ت میں غلطی ہو جانے کا حکم بالتفصیل بتلا دیں۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر نماز کے دوران   قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے ہوئے  ایسی غلطی  ہوجائے جس سے نماز فاسد  نہ ہوتی ہو تو اس سے نماز میں کوئی فرق نہیں آئے گا،  بلکہ نماز ادا ہوجائے گی۔

اور اگر  ایسی غلطی  ہوجائے جس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے(مثلاً معنی میں تغیر فاحش ہوگیا)، پھر بعد میں کسی کے لقمہ دینے  سے یا از خود یاد آنے پر اس غلطی کی اصلاح کرلی تو  اگراسی رکعت میں اس غلطی کی اصلاح کرلی تو نماز  درست ہوجائے گی،  اعادہ لازم نہیں ہوگا  اور اگر  غلطی  کی اصلاح  نہیں کی ، یا اس رکعت کے علاوہ کسی اور رکعت میں  غلطی کی اصلاح کی تو ان دونوں صورتوں میں نماز درست نہیں ہوگی۔ خواہ یہ واجب مقدار تلاوت کے بعد غلطی کی ہو، البتہ اگر واجب مقدار قراءت کرلی ہو اور کوئی آیت یاد نہ آئے تو مقتدی کے لقمہ کا انتظار کیے بغیر رکوع کرلینا چاہیے۔

"قال في شرح المنیة الکبیر:"القاعدة عند المتقدمین أن ما غیره تغیراً یکون اعتقاده کفراً تفسد في جمیع ذلک سواء کان في القرآن أو لم یکن إلا ما کان من تبدیل الجمل مفصولاً بوقف تام، ثم قال بعد ذلک: فالأولی الأخذ بقول المتقدمین". (إمداد المفتین، ص ۳۰۳)

"وإن غیر المعنی تغیراً فاحشاً فإن قرأ: ” وعصی آدم ربه فغوی “ بنصب میم ” اٰدم “ ورفع باء ” ربه “……… وما أشبه ذلک لو تعمد به یکفر، وإذا قرأ خطأً فسدت صلاته..." الخ (الفتاوی الخانیة علی هامش الهندیة، ۱: ۱۶۸، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)

"ومنها: ذکر کلمة مکان کلمة علی وجه البدل إن کانت الکلمة التي قرأها مکان کلمة یقرب معناها وهي في القرآن لاتفسد صلاته، نحو إن قرأ مکان العلیم الحکیم …، وإن کان في القرآن، ولکن لاتتقاربان في المعنی نحو إن قرأ: "وعداً علینا إنا کنا غافلین" مکان {فاعلین} ونحوه مما لو اعتقده یکفر تفسد عند عامة مشایخنا،وهو الصحیح من مذهب أبي یوسف رحمه الله تعالی، هکذا في الخلاصة". (الفتاوی الهندیة، ۱: ۸۰،، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)

"وفي المضمرات: قرأ في الصلاة بخطإ فاحش ثم أعاد وقرأ صحیحاً فصلاته جائزة". (حاشیة الطحطاوي علی الدر المختار،۱: ۲۶۷ط: مکتبة الاتحاد دیوبند)

"ذکر في الفوائد: لو قرأ في الصلاة بخطإفاحش ثم رجع وقرأ صحیحاً ، قال: عندي صلاته جائزة". (الفتاوی الهندیة، ۱: ۸۲، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201295

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں