بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میراث میں بہنوں کو کچھ حصہ دینےکا حکم


سوال

میت کے چار بیٹے  اور ایک بیٹی ہے، میراث میں ایک مکان اور  29 ایکڑ زمین تھی، جس میں سے بھائیوں نے پورا مکان اور آدھا ایکڑ زمین بہن کو دے کر باقی زمین بھائیوں نے بانٹ لی، ہر ایک بھائی کے حصے میں 7 ایکڑ 27 ڈسمل زمین آئی، جس پر سب قابض ہیں۔ چار بھائیوں میں سے ایک بھائی اپنی بہن کو اپنے حصے میں سے بہن کا جو حصہ بنتا ہے وہ دینا چاہتا ہے، باقی تین بھائیوں کا بہن کو حصہ دینے کا ارادہ نہیں ہے، جو بھی حصہ دینا چاہتا ہے وہ اپنی بہن کو کتنا حصہ دے؟ وہ بھائی اپنی زمین میں سے حصہ دے کر آخرت میں سبک دوش ہونا چاہتے ہے۔ نوٹ:- میت کی وراثت بانٹتے وقت مکان کی قیمت  3 لاکھ روپے تھی اور زمین کی قیمت تقریباً 5 لاکھ روپے ایکڑ تھی۔

جواب

واضح رہے کہ والدین کے ترکہ میں جس طرح ان کی نرینہ اولاد کا حق وحصہ ہوتا ہے اسی طرح بیٹیوں کا بھی اس میں شرعی حق وحصہ ہوتا ہے، والدین کے انتقال کے بعد ان کے ترکہ پر بیٹوں کا  قبضہ کرلینا اور بہنوں کو  ان کے شرعی حصے سے محروم کرنا یا مقررہ حصے سے کم دینا ناجائز اور سخت گناہ ہے، بھائیوں  پر لازم ہے  کہ بہنوں کو ان کا حق وحصہ  اس دنیا میں دے دیں، ورنہ آخرت میں دینا پڑے گا اور آخرت میں دینا آسان نہیں ہوگا ، حدیثِ مبارک میں اس پر  سخت وعیدیں آئی ہیں ، حضرت سعید  بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ  : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص( کسی کی ) بالشت بھر زمین  بھی  از راہِ ظلم لے گا،قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی  زمین اس کے گلے میں   طوق  کے طور پرڈالی  جائے گی،  حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی  میراث کاٹے گا،(یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا۔

صورتِ مسئولہ  میں اگر بھائیوں نے بہن کو میراث میں مکمل مکان اور آدھا ایکڑ زمین  یہ کہہ کر دی کہ بقیہ جائیداد میں تمہیں کچھ نہیں ملے گا اور بہن نے اس پر رضامندی کا اظہار کیا تھا تو بقیہ جائیداد بھائیوں کی ہے، اس میں بہن کا حصہ نہیں ، لہذا بقیہ  جائیداد بھائیوں کا آپس میں تقسیم کرنا درست تھا، ایسی صورت میں سائل کے ذمہ بہن کو کچھ دینا لازم نہیں۔

لیکن اگر بہن کو مکان اور آدھا ایکڑ زمین یہ کہہ کر نہیں دی گئی کہ بقیہ جائیداد میں سے حصہ نہیں ملے گا یا بہن اس پر راضی نہیں تھی تو بقیہ جائیداد میں بہن کا حصہ باقی ہے، بھائیوں کے لیے جائز نہیں تھا کہ وہ بہن کو بقیہ جائیداد سے محروم کریں، لہذا ہر بھائی پر لازم ہے کہ اس کے حصے میں بہن کی جائیداد کا جو حصہ آیا ہے وہ اسے واپس کریں یا جائیداد کی ازسرِ نو تقسیم کریں۔

مرحوم کی  جائیداد کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ مرحوم کی کل جائیدادمنقولہ و غیر منقولہ کونو  حصوں میں تقسیم کرکے دو دو حصے ہر بیٹے کو اور ایک حصہ بیٹی کو ملے گا، یعنی سو روپے میں سےہر بیٹے کو 22.22 روپے اور بیٹی کو 11.11 روپے ملیں گے۔

اگر زمینوں کی قیمت یکساں ہے تو کل جائیداد(ایک مکان اور 29 ایکڑ زمین) کی مالیت 14800000(ایک کروڑ،اڑتالیس لاکھ)روپےبنتی ہے،جس میں سےبیٹی کا حصہ 1644444.44 روپے ہےاور ہر بیٹے کا حصہ 3288888.88 روپے ہے،مرحوم کی بیٹی کو ایک مکان اور نصف ایکڑ زمین دی گئی ،جس کی مالیت 550000روپے بنتی ہے،  اس طرح بہن کو اس کے مقررہ حصے سے 1094444.44روپے کم ملے ہیں، لہذا اس کے حصے کی تکمیل کے لیے ہر بھائی کے ذمہ 273611.11 روپے دینا لازم ہے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين»".

(مشكاة المصابيح، 1/254، باب الغصب والعاریة، ط: قدیمی)

"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة» . رواه ابن ماجه".

 (باب الوصایا، الفصل الثالث،1/ 266 ط: قدیمی)فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144110200848

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں