بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

موبائل میں تلاوت کرنا


سوال

 کیا موبائل میں قرآنِ کریم پڑھنا جائز ہے ؟  میں اپنے موبائل پر تلاوت کرتا ہوں  مگر  مجھے دو بندوں نے ٹوکا کہ اس میں مت پڑھو ؛کیوں کہ اس کی مثال ایسی ہے کہ آپ لیٹرین میں یا کسی گندی جگہ پر بیٹھ کر قرآن پڑھ رہے ہیں!

جواب

موبائل میں قرآنِ کریم  کی تلاوت کرنا  جائز ہے،  البتہ موبائل کی اسکرین پر   قرآنِ کریم  کھلا ہوا ہو تو  اس  (اسکرین) کو  وضو کے بغیر چھونا جائز نہیں ہے، اس کے علاوہ  موبائل کے دیگر حصوں کو  مختلف  اطراف  سے وضو کے بغیر چھونے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

باقی قرآنِ مجید مصحف میں دیکھ کر پڑھنا افضل ہے، اس لیے مصحف کو دیکھنا، اس کو چھونا اور اس کو اٹھانا  یہ اس کا احترام ہے، اور اس میں معانی میں زیادہ تدبر کا موقع ملتا ہے، اور یہ سب ثواب کا ذریعہ ہے، ظاہر ہے کہ یہ سب باتیں موبائل میں مکمل  حاصل نہیں ہوتیں، اس لیے جہاں تک ہوسکے مصحف ہی سے پڑھا جائے، اگر کبھی ضرورت ہو تو موبائل سے پڑھ لیں، ورنہ عام حالات خصوصاً مسجد میں جہاں سہولت سے قرآن میسر بھی ہیں وہاں موبائل کے بجائے مصحف سے قرآنِ مجید پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔

باقی اسمارٹ فون کا صرف جائز استعمال کرنا چاہیے، اس  سے جان دار کی تصاویر لینا یا اس میں محفوظ رکھنا، یا جان دار کی ویڈیوز بنانا یا محفوظ رکھنا یا دیکھنا، یا فلمیں دیکھنا یا محفوظ رکھنا، یا موسیقی سننا یا محفوظ رکھنا سب ناجائز ہے، لہٰذا اپنے موبائل کو ان خرافات سے پاک رکھنا چاہیے، نہ یہ کہ ان اشیاء کو تو نہ چھوڑے اور قرآنِ پاک کی تلاوت  چھوڑ دے، اگر موبائل میں قرآنِ پاک کی تلاوت کیا کرے تو ممکن ہے کہ اس حیا کی وجہ سے فلم بینی چھوڑ دے کہ جس آلے کے ذریعے قرآنِ پاک کی تلاوت کرتا ہوں، اسی میں گناہ کی اشیاء کیوں دیکھوں!  

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) يحرم (به) أي بالأكبر (وبالأصغر) مس مصحف: أي ما فيه آية كدرهم وجدار، وهل مس نحو التوراة كذلك؟ ظاهر كلامهم لا (إلا بغلاف متجاف) غير مشرزأو بصرة به يفتى، 

(قوله: أي ما فيه آية إلخ) أي المراد مطلق ما كتب فيه قرآن مجازا، من إطلاق اسم الكل على الجزء، أو من باب الإطلاق والتقييد. قال ح: لكن لا يحرم في غير المصحف إلا بالمكتوب: أي موضع الكتابة كذا في باب الحيض من البحر، وقيد بالآية؛ لأنه لو كتب ما دونها لا يكره مسه كما في حيض القهستاني. وينبغي أن يجري هنا ما جرى في قراءة ما دون آية من الخلاف، والتفصيل المارين هناك بالأولى؛ لأن المس يحرم بالحدث ولو أصغر، بخلاف القراءة فكانت دونه تأمل".

(۱/ ۱۷۳، کتاب الطھارۃ، ط:ایچ ایم سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144204201291

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں