بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسلمان کے لباس کی خصوصیات اور تشبہ کی حقیقت / ڈبل کالر، پینٹ شرٹ اور کالا کپڑا پہننا


سوال

 قرآن وسنّت میں جو لباس کے اصول ہیں ان کے مطابق ایک مسلمان کا لباس کس طرح کا ہو اور اِس میں کیا خصوصیات پائی جائیں؟

نیز ازروائے شریعت کیا:

1) ڈبل کالر 2) پینٹ شرٹ 3) پائجامہ 4) کالا کپڑا(علاوہ محرم الحرام) پہنا جاسکتا ہے؟ دلیل کے ساتھ مطمئن کرنے کی درخواست کے ساتھ تفصیلی جواب درکار ہے!

جواب

ذخیرہ  حدیث  میں  کتاب اللباس  اور شمائلِ نبوی کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس اور  عادی طور و طریقوں میں بھی  انبیاءِ  کرام علیہم السلام  کی اتباع  اور وحی و الہام کا عنصر  غالب تھا، عرب میں قدیم زمانے سے  چادر اور تہہ بند کا دستور چلا آرہا تھا،  حضرت اسماعیل ؑ  کا یہی لباس تھا جیساکہ حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے آذربائجان  کے عربوں کو حلہ (ازار  اور  چادر) پہننے  کی یہ کہہ کر  ترغیب دی  کہ وہ تمہارے باپ          اسماعیل علیہ السلام کا  لباس ہے:

"أما بعد! فاتزروا و ارتدوا و انتعلوا، و ألقوا الخفاف و السراويلات، و عليكم بلباس أبيكم إسماعيل، و إياكم و التنعم و زي العجم."

(فتح الباري لابن حجر (10 / 286) باب لبس الحریر، ط؛ دارالمعرفہ ،بیروت)

نیز اللہ  کے نبی کی طبعی آداب  میں بھی  وحی اور الہام  سے  راہ نمائی کی جاتی ہے،  اور اللہ کی وحی اور  اس کے حکم سے  ہی وہ قوم کو  عقائد، اخلاق، اعمال، عبادات،  اور معاملات سب کے متعلق ہدایت جاری کرتا ہے، یہاں تک کہ  بول وبراز  ( پیشاب، پاخانہ) کے آداب بھی ان کو سکھاتا ہے، یہ ناممکن ہے کہ نبی عام لوگوں کے  رسم و رواج کی پیروی  پر اکتفا  کرے۔

         حضور ﷺ نے لباس کے متعلق بھی احکام جاری فرمائے  کہ فلاں جائز ہے، فلاں حرام ہے، یہاں تک کہ مسلماسنوں اور کافروں کے لباس میں امتیاز ہوگیا، اور بے شمار  احادیث ِ نبویہ سے ثابت ہے کہ  نبی کریم ﷺ نے کافروں کی مشابہت سے ممانعت فرمائی ہے اور ان کی مخالفت کا حکم دیا ہے، اور جو لباس دشمنانِ خدا سے مشابہت کا سبب بنے ایسے لباس کو ممنوع قرار دیا ہے۔

         جیساکہ حدیثِ مبارک  میں ہے:

"إن فرق ما بيننا و بين المشركين العمائم على القلانس."

(سنن ترمذی،1/441، باب العمائم علی القلانس،ط؛ رحمانیہ)

ترجمہ: ہمارے  اور مشرکین کے درمیان فرق یہ ہے کہ ہم عمامہ ٹوپیوں پر باندھتے ہیں۔

       ایک اور حدیثِ  مبارک  میں ہے:

" قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم .... من تشبه بقوم فهو منهم."

(المسند الجامع، (الجھاد)، 10/716 ،رقم الحدیث؛8127،  دار الجیل، بیروت)

ترجمہ : حضورﷺ کا ارشاد ہے؛  جس شخص نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی  تو وہ شخص اسی قوم میں شمار ہوگا۔

ایک اور حدیث ِ مبارک  میں ہے:

إن هذه من ثیاب الکفار فلاتلبسها."

(مسلم، 3/1648، باب النھی عن لبس الرجل الثوب المعصفر،ط؛ داراحیاء التراث)

یعنی یہ کافروں کے(جیسے)  کپڑے ہیں ، پس ان کو نہ پہننا۔

پس  ثابت ہوگیا کہ  حضور ﷺ کا  لباس  اور آپ کی وضع قطع وحی الٰہی کے تابع تھی۔

         نیز  یہ بات بھی ذہن نشین رہے  کہ اللہ تعالیٰ نے زمین سے لے کر آسمان تک  خواہ  حیوانات ہوں یا نباتات یا جمادات، سب کو ایک ہی مادہ سے پیدا کیا ہے، مگر اس کے باوجود  ہر چیز کی صورت اور  شکل مختلف بنائی تاکہ ان میں امتیاز قائم رہے، کیوں کہ امتیاز کا ذریعہ یہی ظاہری  شکل و صورت ہے،  اور جس طرح  دنیا کی  قومیں  ایک دوسرے سے  معنوی خصائص اور باطنی امتیازات کے ذریعہ جدا  ہیں ، اس طرح ہر قوم کا الگ تمدن اور اس کی تہذیب اور اس کا طرزِ لباس  بھی اس کو دوسری قوم سے ممتاز کرتا ہے، عبادات کی  ان ہی خاص  شکلوں کی  وجہ  سے  ایک  مسلم،  موحد، مشرک  اور  بت پرست سے جدا ہے، اور  ایک عیسائی  ایک  پارسی  سے جدا ہے، غرض قوموں میں امتیاز کا ذریعہ  یہی قومی خصوصیات ہیں، جب تک ان مخصوص شکلوں اور  ہیئتوں کی حفاظت نہ کی جائے تو قوموں کا امتیاز باقی نہیں رہتا۔

         دینِ  اسلام ایک کامل اور مکمل مذہب ہے، تمام ملتوں اور شریعتوں کا ناسخ بن کر آیا ہے، وہ اپنے پیروکاروں کو اس  کی اجازت نہیں دیتا  کہ وہ ناقص  اور منسوخ ملتوں کے پیروکاروں کی مشابہت اختیار کریں، جس طرح اسلام معتقدات  اور  عبادات  میں  مستقل  ہے کسی کا تابع نہیں ہے، اسی طرح اسلام اپنے معاشرتی آداب اور  عادات  میں بھی مستقل ہے، کسی دوسرے کا تابع اور  مقلد نہیں  ہے۔

حضرت مولانا ادریس کاندھلوی ؒ  تشبہ کی حقیقت بیان کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں؛

"تشبہ کی تعریف  سنیے؛ تاکہ  آپ تشبہ کی قباحتوں اور مضرتوں کا اندازہ  لگاسکیں!!

1۔ اپنی حقیقت ، اپنی صورت اور  وجود کو چھوڑ کر   دوسری قوم کی حقیقت ، اس کی صورت اور اس کے وجود  میں مدغم ہونے کا نام تشبہ  ہے۔

2۔ یا اپنی ہستی کو دوسرے کی ہستی میں فنا کردینے کا نام تشبہ ہے۔

3۔ اپنی ہیئت اور  وضع کو تبدیل کرکے دوسری قوم کی وضع اور ہیئت  اختیار کرلینے کا نام تشبہ ہے۔

4۔اپنی شانِ امتیازی کو چھوڑ کر  دوسری قوم کی شانِ امتیازی کو اختیار کرلینے کا نام تشبہ ہے۔

5۔ اپنی اور اپنوں کی صورت اور سیرت کو چھوڑ کر غیروں اور پرایوں کی صورت اور سیرت کو اپنالینے کا نام تشبہ ہے۔

اس لیے شریعت  حکم  دیتی ہے کہ مسلمان قوم دوسری قوموں سے ظاہری طور پر ممتاز اور جدا ہونی چاہیے اور وضع و قطع میں بھی۔

(سیرتِ مصطفیٰ، 3/306، تشبہ کی تعریف، ط؛ مکتبۃ الحسن)

         شریعت میں تشبہ   (دوسروں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے) کی ممانعت  کسی تعصب پر مبنی نہیں ہے، بلکہ غیرت،  حمیت اور اسلامی خصوصیات وامتیازات کے تحفظ کے لیے ہے، اس لیے کہ کوئی قوم اس وقت تک قوم  نہیں کہلاسکتی جب تک اس کی خصوصیات اور امتیازات پائیدار اور مستقل نہ ہوں۔

         نیز یہود ونصاریٰ اور کافروں کو دوست بنانے یا ان کی مشابہت اختیار کرنے سے مسلمانوں کے دل بھی ان کی طرح سخت ہوجاتے ہیں ، اور احکامِ شریعت کو قبول کرنے  اور اس پر عمل کرنے کی صلاحیت   ختم ہوجاتی ہے،  جیساکہ علامہ ابن حجر مکی ہیثمی نے  اپنی کتاب  "الزواجر عن اقتراف الکبائر"  میں  مالک بن دینار ؒ کی روایت سے ایک نبی کی یہ وحی نقل کی ہے:

"قال مالك بن دینار:  أوحی الله إلی النبي من الأنبیاء أن قل لقومك: لایدخلوا مداخل أعدائي و لایلبسوا ملابس أعدائي و لایرکبوا مراکب أعدائي و لایطعموا مطاعم أعدائي فیکونوا أعدائي کما هم أعدائي."

(1/15، مقدمہ، ط؛ دارالمعرفۃ،   بیروت)

ترجمہ:مالک  بن دینار کہتے ہیں کہ انبیاءِ سابقین میں سے ایک  نبی کی طرف اللہ کی یہ وحی آئی کہ آپ اپنی قوم سے کہہ دیں کہ نہ میرے  دشمنوں کی  گھسنے کی  جگہ میں گھسیں اور نہ  میرے  دشمنوں جیسا لباس پہنیں   اور نہ ہی میرے دشمنوں  جیسے کھانے کھائیں  اور نہ ہی  میرے  دشمنوں جیسی  سواریوں پر سوار ہوں ( یعنی ہر چیز میں  ان سے ممتاز اور جدا رہیں) ایسا نہ ہوکہ یہ بھی میرے  دشمنوں کی طرح میرے دشمن بن جائیں۔ ( از فتاویٰ بینات، 4/372)

نیز یہ  کہ غیروں کی وضع قطع اور ان جیسا لباس اختیار کرنے میں بہت سے مفاسد ہیں :

  1. پہلا نتیجہ تو یہ ہوگا  کہ مسلمان اور کافر میں ظاہری کوئی امتیاز باقی نہیں رہے گا، حقیقت یہ ہے کہ  تشبہ بالکفار  اہل ِ کفر میں دلچسپی اور ان کی قربت کا  زینہ ہے۔
  2.  غیروں کی مشابہت اختیار کرنا غیرت کے بھی  خلاف ہے۔
  3. کافروں کا لباس اختیار کرنا  درحقیقت ان کی سیادت اور برتری کو  تسلیم کرنا ہے۔
  4. اور یہ اپنی کمتری اور  غلامی کا اقرار اور اعلان ہے جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا، کیوں کہ اسلام غالب ہوتا ہے، تابع اور مغلوب نہیں ہوتا۔

نیز  اس تشبہ کا نتیجہ یہ ہوگا  کہ  رفتہ رفتہ کافروں  سے مشابہت کا دل میں میلان اور داعیہ پیدا ہوگا جو صراحۃ ممنوع ہو۔       ارشادِ باری تعالیٰ ہے: 

{وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ } [هود: 113]

ترجمہ: اور مت جھکو ان کی طرف جو ظالم ہیں، پھر تم کو لگے گی آگ، اور کوئی نہیں تمہارا  اللہ کے سوا مددگار ،  پھر کہیں مدد نہ پاؤگے۔ (ترجمہ از شیخ الہند)

 جہاں تک پینٹ شرٹ کی بات ہے تو آج کل  تقریبًا ہر خاص و عام  یہ دعوی کرتا ہے کہ   پینٹ  شرٹ  مسلم اور غیر مسلم دونوں کاہی  لباس ہے  ، اب تو ہر جگہ مسلمان بھی پہنتے ہیں ، تو عرض ہے کہ یہ  بات ہمیں تسلیم نہیں، بلکہ  شرٹ اور پتلون  غیر مسلموں کا ہی لباس تھا ، پھر جب اسلامی سلطنتوں کے فرماں روا    اقتدار  کے نشے  میں عیش پرستی کا شکار بن گئے تو  نتیجہ یہ ہوا کہ اسلامی حکومتیں زوال پذیر ہوگئیں، اور  مسلمانوں سے شکست خوردہ  قومیں برسرِ اقتدار آگئیں،  چند روز تک مسلمانوں کو اپنی شکست اور ذلت کا احساس رہا،  پھر رفتہ رفتہ   مسلمانوں نے ان  کے معاشرے ، تمدن اور وضع قطع کو قبول کرنا شروع کردیا ،یہاں تک کہ نوبت یہاں تک پہنچ  گئی کی اسلامی  ممالک کے باشندے  اپنے من و تن میں غیروں کے رنگ  میں ایسے رنگے گئے کہ اپنے اور پرائے ، مسلم اور غیر مسلم کا بادی النظر  میں کوئی فرق ہی نہ  رہا۔

         اگر یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ موجودہ زمانے میں پینٹ شرٹ کے کثرتِ استعمال اور معاشرے میں اس کے عام ہونے کے سبب  یہ کسی غیر قوم کا شعار تو نہیں رہا، اس  لیے اس میں غیر اقوام  کے شعار ہونے کی حد تک  تو  تشبہ باقی نہیں رہا،  مگر اس کی کوئی تاویل ممکن نہیں ہے کہ  یہ فساق و فجار  اور غیر صلحاء کا لباس  ہے ، اور جس طرح غیر مسلموں سے مشابہت ممنوع ہے اسی طرح فساق و فجار اور غیر صلحاء سے  مشابہت بھی ممنوع ہے۔

مذکورہ تفصیل کی روشنی میں آپ کے سوالات کا جوابات کا  خلاصہ یہ ہے کہ جس  لباس کی شریعت میں ممانعت نہ آئی ہو  اور  ان میں کفار وفساق سے تشبہ نہ ہو ،اور  صلحا ء اور علماء وہ لباس پہنتے ہوں، وہ لباس شرع میں مستحسن کہلائے گا ، اور جس لباس کی شریعت میں ممانعت آئی ہو، یا ان میں کفار یا فساق سے تشبہ ہو ، وہ لباس شرع میں ناپسندیدہ کہلائے گا۔

     اور مشابہت کی شناعت میں زمان اور مکان کے لحاظ سے  سختی یا نرمی  کی بات ممکن ہے، جس علاقہ میں جتنی زیادہ مشابہت متصور ہوگی  اسی حساب سے کراہتِ تحریمیہ، تنزیہیہ، اور خلافِ اولیٰ ہونے کا حکم  لگے گا۔

         اور پینٹ شرٹ کے بارے میں  پاکستان کے لیے تو علی الاطلاق یہ حکم لگانا بھی درست نہیں ہے کہ کثرتِ استعمال کی وجہ  سے مشابہت بالکل ختم ہوگئی ہے، اس لیے کہ اگرچہ پاکستان کے اکثر شہری علاقوں اور بعض دیہاتی علاقوں میں اس کو بطورِ لباس استعمال کیا جاتا ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ  بہت سارے علاقے بالخصوص  قبائلی علاقوں  اور  گاؤں دیہاتوں میں  اب بھی اس کو کفار یا کم از کم  فساق و فجار اور غیر صلحاء کا لباس تصور کیا جاتا ہے اور اپنے قومی و علاقائی لباس  کو اس لباس(پینٹ شرٹ) پر ترجیح دی جاتی ہے، لہذا جس علاقے میں جس قدر مشابہت متصور ہوگی،  اسی حساب سے کراہت کا حکم لاگو ہوگا۔

  یہ ملحوظ رہے کہ ماقبل میں  جو  پتلون پہننے  کی  "کراہت"  کا حکم بیان ہوا   یہ ایسی پتلون کے بارے میں ہے جو  ڈھیلی  ڈھالی ہو، اس لیے کہ چست اور تنگ پتلون   اور لبا س پہننا جس میں جسم کے قابلِ ستر حصوں کی نمائش ہوتی ہو    ناجائز اور حرام ہے۔

 باقی  کالر دار قمیص اور بڑے پائنچوں کے پاجامہ کا اب مسلمانوں میں  بکثرت رواج ہوجانے کی وجہ سے یہ  کفار یا فساق کا شعار نہیں تو نہیں رہا ، اس لیے یہ تشبہ ممنوع میں داخل نہیں،  لیکن اب بھی اس سے اجتناب ہی کرنا بہتر ہے ، اِس  لیے کہ یہ صلحاء کے  لِباس کا طریقہ نہیں ہے ، یہی وجہ ہے کہ امّت کے  علماء ، صلحاء اور متقی و پرہیز گار لوگ ایسے کالَر کا استعمال نہیں کرتے ، وہ شیروانی کالَر استعمال کرتے ہیں ، اِس  لیے اُن ہی کے طریقے کو اپنانا  چاہیے، تاکہ بروزِ قیامت صلحاء کے ساتھ حشر ہو۔

عام حالات میں سیاہ لباس پہننا  ناجائز نہیں ہے، لیکن جب یہ کسی خاص جماعت کا شعار ہوتو تب اس سے احتراز کرنا  چاہیے، لہذا محرم وغیرہ میں چوں کہ یہ روافض کا شعار ہوتا ہے؛  اس لیے ان دنوں میں اسے نہ پہنا جائے۔

مسلمانوں کو  چاہیے کہ  صالحین ، دین دار، اور نیکوکاروں کے لباس کو اختیار کریں اور فساق وفجار اور کفار کے  لباس اور طور طریق سے حتی المقدور پرہیز کریں۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201472

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں