بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مرحوم کی طرف سے صدقہ کرنا


سوال

مرحوم کا صدقہ دے سکتے ہیں؟

 

جواب

میت کو مالی صدقات، قرآنِ مجید کی تلاوت ، درود شریف، استغفار اور ذکرو اذکار کا ثواب پہنچتا ہے، لہٰذا مرحوم کی طرف سے نفلی صدقہ کرنا جائز ہے، یہ بات بہت سی احادیث سے ثابت ہے:

مشكاة المصابيح (1/ 597):

"وعن سعد بن عبادة قال: يا رسول الله إن أم سعد ماتت، فأي الصدقة أفضل؟ قال: «الماء». فحفر بئراً وقال: هذه لأم سعد. رواه أبو داود والنسائي".

ترجمہ: حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ سعد کی (یعنی میری) والدہ کا انتقال ہوگیا ہے، ان کی طرف سے بہترین صدقہ کون سا ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: پانی۔ چناں چہ سعد رضی اللہ عنہ نے ایک کنواں کھدوادیا، اور یوں کہا: یہ سعد کی والدہ کے (ایصالِ ثواب کے) لیے ہے۔

صحيح مسلم (3/ 1254) میں ہے:

"عن أبي هريرة، أن رجلاً قال للنبي صلى الله عليه وسلم: إن أبي مات وترك مالاً، ولم يوص، فهل يكفر عنه أن أتصدق عنه؟ قال: «نعم»".

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی علیہ السلام سے عرض کیا: میرے والد کا انتقال ہوگیا ہے اور انہوں نے اپنے پیچھے مال چھوڑا ہے، لیکن کوئی وصیت نہیں کی، اگر میں ان کی جانب سے صدقہ خیرات کردوں، کیا ان کے گناہوں کے لیے معافی کا ذریعہ ہوجائے گا؟ فرمایا: ہاں! (یعنی تمہارے صدقات سے ان کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔)

مجمع الزوائد میں ہے:

"عن أنس بن مالك رضي الله عنه قال: إن النبي صلى الله عليه وسلم قال: سبع يجري للعبد أجرهن وهو في قبره بعد موته: من عَلّم علماً، أو کریٰ نهراً، أو حفر بئراً، أو غرس نخلاً، أو بنى مسجداً، أو ورّث مصحفاً، أو ترك ولداً يستغفر له بعد موته". ( مجمع الزوائد و منبع الفوائد ، کتاب العلم ، ١ / ١٦٨ ، دار الکتاب العربی ، بیروت )

(صحیح الجامع الصغیر و زیادته ، حدیث : ٣٦٠٢ ، المکتب الاسلامی ، بیروت )

ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سات اعمال ایسے ہیں جن کا اجر و ثواب بندے کو مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے ، حال آں کہ وہ قبر میں ہوتاہے :
(1) جس نے علم سکھایا ، (2) یا نہر کھدوائی ، (3) یا کنواں کھودا (یا کھدوایا)، (4) یا کوئی درخت لگایا ، (5) یا کوئی مسجد تعمیر کی، (6) یا قرآن شریف ترکے میں چھوڑا، (7) یا ایسی اولاد چھوڑ کر دنیا سے گیا جو مرنے کے بعد اس کے لیے دعائے مغفرت کرے ۔

سنن ابی داؤد میں ہے:

"حدثنا العباس بن الوليد بن مزيد أخبرني أبي حدثنا الأوزاعي حدثني حسان بن عطية عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن العاص بن وائل أوصى أن يعتق عنه مائة رقبة فأعتق ابنه هشام خمسين رقبةً، فأراد ابنه عمرو أن يعتق عنه الخمسين الباقية، فقال حتى أسأل رسول الله صلى الله عليه وسلم فأتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله! إنّ أبي أوصى بعتق مائة رقبة وإنّ هشامًا أعتق عنه خمسين وبقيت عليه خمسون رقبةً، أفأعتق عنه؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: « إنه لو كان مسلمًا فأعتقتم عنه أو تصدقتم عنه أو حججتم عنه بلغه ذلك ». (سنن أبي داؤد، باب ما جاء في وصية الحر يسلم وليه أيلزمه أن ینفذها : ۳/۷۸،ط:دارالکتاب العربی بیروت)

یعنی حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر تمہارا باپ اسلام کی حالت میں مرا ہوتا، پھر اگر تم اس کی طرف سے غلام آزاد کرتے، یا اس کی طرف سے صدقہ دیتے یا اس کی طرف سے حج کرتے تو اسے اس کا ثواب ضرور پہنچتا۔

فتاوی شامی میں ہے:

وَفِي الْبَحْرِ: مَنْ صَامَ أَوْ صَلَّى أَوْ تَصَدَّقَ وَجَعَلَ ثَوَابَهُ لِغَيْرِهِ مِنْ الْأَمْوَاتِ وَالْأَحْيَاءِ جَازَ، وَيَصِلُ ثَوَابُهَا إلَيْهِمْ عِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ كَذَا فِي الْبَدَائِعِ". (ج؛2/ص:243 ،   مطلب فی القراءۃ للمیت واھداء ثوابھا لہ، ط: سعید)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200196

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں