بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی کے گوشت سے ہوٹل سے کھانا بنوانا، اوریو بسکٹ کا حکم اور کھڑے ہوکر کھانا کھانا


سوال

1۔ آج کل جو بقرعید کے ایام میں قربانی کے گوشت کے کھانے ہوٹل سے بنواتے ہیں، کیا یہ جائزہے؟ جب کہ اس میں سب کے گوشت مکس کر دیے جاتے ہیں اور جو گوشت ہم دیتے ہیں وہ ہمیں واپس نہیں ملتا؟

2۔ کیا "اوریو" بسکٹ حلال ہے؟

3۔ اکر کسی جگہ بیٹھنے کی جگہ نہ ہوتو کیا وہاں کھڑے ہوکر کھانا جائز ہے؟

جواب

1۔ ہوٹل والے کو گوشت دے کر اس سے کھانا بنوانے کی چند صورتیں ہیں:

(الف): اگر ہوٹل  کی انتظامیہ نے گوشت دے کر کھانا پکانے والوں سے اس بات کی  اجازت نہ لی ہو کہ ہم آپ کے گوشت کا الگ حساب نہیں رکھیں گے، تمام گاہکوں کے گوشت ایک ساتھ اکٹھا جمع کریں گے، جس کی وجہ سے گوشت خلط ہوجائے گا اور کھانا پکنے کے بعد آپ کو آپ کے وزن کے مطابق گوشت واپس کریں گے، تو کھانا بنوانے کے لیے ضروری ہے کہ وہ پکانے کے لیے گوشت دینےسے پہلے اس بات کی تاکید کرے کہ وہ آپ کے ہی گوشت سے آپ کے لیے کھانا پکائیں، ایسی صورت میں ہوٹل والے کا کسی اور  شخص کے گوشت سے آپ کے لیے کھانا پکانا اور آپ کے لیے وہ کھانا لینا جائز نہیں  ہوگا۔

(ب):   اگر گوشت وصول کرنے والوں سے مذکورہ اجازت لی گئی ہے اور ہوٹل کی انتظامیہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کا گوشت علیحدہ رکھتی ہے، خلط نہیں کرتی اور کھانا بھی علیحدہ بناتی ہے تو گوشت دینے والے کے لیے اپنی دی ہوئی مقدار میں گوشت لینا جائز ہوگا۔

(ج):     اگر گوشت دینے والے نے اجازت دی ہے، لیکن ہوٹل انتظامیہ کے بارے میں یقین ہے کہ وہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کا گوشت خلط کردیتی ہے تو اس سے کھانا بنانا درست نہیں۔

(د):      اگر گوشت دینے والے نے اس کی اجازت دی ہے اور ہوٹل انتظامیہ کے بارے میں شک ہے کہ وہ مسلمانوں اور غیرمسلموں کے گوشت خلط کرتی ہے تو اس شک کا اعتبار نہیں، کھانا بنوا سکتے ہیں۔

2۔اوریو بسکٹ کے متعلق سوال کا جواب معلوم کرنے کے لیے یہ بتانا ضروری ہے کہ سوال کس ملک کے برانڈ اور کون سے فلیور کے متعلق ہے۔

3۔  بلا عذر کھڑے ہو کر کھانا کھانا مکروہ ہے، لیکن اگرکسی ایسی جگہ کھانا کھانے کی نوبت آجائے جہاں بیٹھنے کی جگہ ہی نہ ہو، یا جگہ تو ہو لیکن گندگی یا کسی عذر کی وجہ سے بیٹھنا مشکل ہو تو بوجہمجبوری کھڑے ہو کر کھانا کھانے کی گنجائش ہے، صحیح مسلم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے کھڑے ہو کر پانی پینے کو منع فرمایا ہے، راوی کہتے ہیں کہ : ہم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا: کھانا (کا کیا حکم ہے)؟، انہوں نے جواب دیا کہ : وہ تو زیادہ نقصان دہ اور برا ہے۔

صحيح مسلم (6 / 110):

"عن أنس عن النبى صلى الله عليه وسلم أنه نهى أن يشرب الرجل قائماً. قال قتادة: فقلنا: فالأكل؟ فقال: ذاك أشر أو أخبث".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (5 / 99):

" إذ لو اختلط بحيث لايتميز يملكه ملكاً خبيثاً، لكن لايحل له التصرف فيه ما لم يؤد بدله، كما حققناه".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (6 / 347):

"(قوله: ولو أخبر عدل بطهارته إلخ) أقول: ذكر شراح الهداية عن كفاية المنتهى لصاحب الهداية: رجل دخل على قوم يأكلون ويشربون فدعوه إليهم فقال له مسلم عدل: اللحم ذبيحة مجوسي، والشراب خالطه خمر، فقالوا: لا بل هو حلال، ينظر في حالهم؛ فإن عدولاً أخذ بقولهم وإن متهمين لايتناول شيئاً، ولو فيهم ثقتان أخذ بقولهما أو واحد عمل بأكبر رأيه، فإن لا رأي واستوى الحالان عنده فلا بأس أن يأكل ويشرب ويتوضأ، فإن أخبره بأحد الأمرين مملوكان ثقتان أخذ بقولهما؛ لاستواء الحر والعبد في الخبر الديني، وترجح المثنى ولو أخبره بأحدهما عبد ثقة وبالآخر حر تحرى للمعارضة، وإن أخبره بأحدهما حران ثقتان وبالآخر مملوكان ثقتان أخذ بقول الحرين، لأن قولهما حجة في الديانة والحكم جميعا فترجحا وإن أخبره بأحدهما ثلاثة عبيد ثقات وبالآخر مملوكان ثقتان أخذ بقول العبيد، وكذا إذا أخبر بأحدهما رجل وامرأتان وبالآخر رجلان أخذ بالأول.

فالحاصل في جنس هذه المسائل: أن خبر العبد والحر في الأمر الديني على السواء بعد الاستواء في العدالة، فيرجح أولاً بالعدد، ثم بكونه حجةً في الأحكام بالجملة، ثم بالتحري اهـ ومثله في الذخيرة وغيرها، فقد اعتبروا التحري بعد تحقق المعارضة بالتساوي بين الخبرين بلا فرق بين الذبيحة والماء، فتأمل. (قوله: وتعتبر الغلبة إلخ) أقول: حاصل ما ذكره في الذخيرة البرهانية: أنه في الأواني إن غلب الطاهر تحرى في حالتي الاضطرار والاختيار للشرب والوضوء، وإلا بأن غلب النجس أو تساويا ففي الاختيار لايتحرى أصلاً، وفي الاضطرار يتحرى للشرب لا الوضوء، وفي الذكية والميتة يتحرى في الاضطرار مطلقاً، وفي الاختيار وإن غلبت الميتة أو تساويا لايتحرى، وكذا في الثياب يتحرى في الاضطرار مطلقاً وفي الاختيار إن غلب الطاهر وإلا لا اهـ. وحاصله: أنه إن غلب الطاهر تحرى في الحالتين في الكل اعتباراً للغالب، وإلا ففي حالة الاختيار لايتحرى في الكل، وفي الاضطرار يتحرى في الكل إلا في الأواني للوضوء؛ إذ له خلف وهو التيمم، بخلاف ستر العورة والأكل والشرب إذ لا خلف له. وسيأتي مثله في مسائل شتى آخر الكتاب، وبه يظهر ما في كلامه من الإيجاز البالغ حد الإلغاز، فلو قال فإن الأغلب طاهراً تحرى مطلقاً وإلا فلا إلا حالة الضرورة لغير وضوء، لكان أخصر وأظهر، فتدبر! نعم كلامه هنا موافق لما قدمه قبيل كتاب الصلاة تبعاً لنور الإيضاح قبيل باب زكاة المال، فتأمل".

فتاوی محمودیہ میں ہے:

’’سوال: اگر کسی شئی حلال میں کوئی شئی حرام با اعتبارِ امر خارجی آپس میں بالکل مخلوط ہوجائے تو اتنی مقدار کے نکالنے کے بعد ما بقی کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اگر حلال ہے تو با کراہت یا بلا کراہت؟ مثلاً دو گلاس شربت میں ایک گلاس شربت چوری یا غصب کا مل گیا تو ایک ایک گلاس شربت نکال دینے کے بعد باقی دو گلاس شربت کے بارے میں کیا حکم ہے؟

الجواب حامداً و مصلیاً: حقِ غیر اگر اپنے حق کے ساتھ مخلوط ہوجائے تو بقدرِ حقِ غیر  اس سے الگ کرکے مالک کو دے دیا جائے، پھر باقی حلال ہے‘‘۔ ( باب المال الحرام و مصرفہ، ١٨ / ٤٤٠، ط: فاروقیہ) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201399

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں