بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صرف ایک بیوی کو جائیداد کا مالک بنادینا


سوال

میرے دادا کی 3 بیویاں تھیں، پہلی بیوی سے ایک بیٹا ہے، دوسری بیوی سے ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے اور تیسری بیوی سے 5 بیٹے اور 3 بیٹیاں ہیں۔میرے دادا نے اپنی پوری جائیداد تیسری بیوی کے نام کردی تھی، اب وہ تیسری بیوی فوت ہوگئی تو  قانوناً وہ ساری جائیداد ان کے  5 بیٹوں اور 3 بیٹیوں کو چلی گئی۔اب وہ جائیداد وہی 5 بھائی اور 3 بہنیں آپس میں تقسیم کررہے ہیں۔

میرا سول یہ ہے کہ اسلام اور شریعت میں باقی دو بیویوں کے بچوں کا اس جائیداد میں سے کوئی حق بنتا ہے؟ اور اگر وہ لوگ ان کو حق نہیں دیتے تو کیا وہ گناہ کا ارتکاب کررہے ہیں ؟

جواب

اگر  آپ کے دادا نے زمین/ جائے داد اپنی صرف ایک بیوی کے نام کی (جیساکہ بعض اوقات قانونی تقاضوں یا دیگر مصالح کے پیش نظر کردیا جاتاہے) مالکانہ حقوق کے ساتھ قبضہ نہیں دیا تو صرف نام کرنے سے وہ ان  کی ملکیت نہیں ہوگی، بلکہ وہ مرحوم دادا  کی ملکیت شمار ہوکر ترکہ میں شامل ہوگی اور تمام ورثاء (بشمول پہلی دوبیویوں سے ہونے والی اولاد) کے شرعی حصوں کے حساب سے تقسیم ہوگی۔

اور اگر مرحوم دادا نے  مالکانہ حقوق کے ساتھ زمین/جائے داد پر تیسری بیوی کو مکمل قبضہ دے دیا تھا تو مذکورہ زمین /جائے داد ان کی تیسری بیوی کی ملکیت میں آگئی تھی، اور مرحومہ کے انتقال کے بعد پھر ان ہی کے شرعی ورثہ کے درمیان تقسیم کی جائے گی، اس صورت میں آپ کے دادا کی پہلی دو بیویوں کی اولاد اس میں حصہ دار نہیں ہوگی۔

لیکن زندگی میں بعض ورثہ کو محروم کرنے یا ان کا حصہ کم کرنے کے لیے کسی وارث کو زیادہ دینا یا بعض اولاد کو دینا اور بعض کو محروم کردینا یا کسی معقول وجہ کے بغیر کم دینا جائز نہیں ہے، احادیثِ مبارکہ میں ان دونوں صورتوں کی ممانعت موجود ہے، حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ کی  روایت میں ہے:

"وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»". (مشکاة المصابیح، 1/261، باب العطایا، ط: قدیمی)

ترجمہ:حضرت نعمان ابن بشیر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ……  آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔(مظاہر حق، 3/193، باب العطایا، ط: دارالاشاعت)

البتہ  کسی بیٹے یا  بیٹی کو  کسی معقول شرعی وجہ کی بنا پر  دوسروں کی بہ نسبت   کچھ زیادہ  دینا چاہے تو دےسکتا ہے،  یعنی کسی کی دین داری یا یا زیادہ خدمت گزار ہونے کی بنا پر اس کو  دوسروں کی بہ نسبت کچھ زیادہ دے تو اس کی اجازت ہے، لیکن بعض کو دینا اور بعض کو محروم رکھنا یا بلا وجہ کم زیادہ دینا یہ شرعاً سخت گناہ ہے، اس سے بچنا لازم ہے۔

لہذا آپ کے مرحوم داد ا نے اگر بقیہ اولاد اور بیویوں کو محروم کیا ہے تو ان کی زیادتی ہے اس  سلسلہ میں روز قیامت وہ جواب دہ ہوں گے ۔ سعادت مند اولاد کو چاہیے  برضا و رغبت اپنے والد  کی آخرت کو سنوارنے کے لیے ان کے ترکہ کو شرعی حصوں میں تقسیم کردیں اور ہبہ مکمل ہونے کی صورت میں اگرچہ یہ جائے داد، دادا کا ترکہ شمار نہیں ہوگا، تاہم انہیں آخرت کے مؤاخذے سے بچانے کے لیے ازسرِ نو شرعی وراثت کے اعتبار سے تقسیم کرلینی چاہیے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106201128

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں