بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شریعت کا نفاذ اورعام آدمی کی ذمہ داری


سوال

شریعت کے نفاذ کے حوالے سے ایک عام آدمی کی ذمہ داری کیا بنتی ہے؟

جواب

اللہ تعالی نے ہر انسا ن کو اس کی وسعت کے بقدر ہی مکلف بنایا ہے، اور وسعت سے زیادہ انسان نہ مکلف ہے اور نہ ہی آخرت میں اس پر اس کی گرفت ومواخذہ ہوگا،امر بالمعروف یعنی نیک کاموں کا حکم دینا اور نہی عن المنکریعنی  برائیوں کی روک تھام یہ ایک اجتماعی ذمہ داری ہے، جس میں حکم رانوں  اور عوام کا اپنا  اپنا دائرہ کار ہے، اس حوالے سے ایک فرد کی ذمہ داری  یہ ہے کہ وہ اپنی وسعت کے مطابق امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کو ادا کرتا رہے، اور اس بارے میں شریعت کے آداب واصولِ تبلیغ کو پیش نظر رکھے، اور برائی کی روک تھام کے لیے خود کسی برائی کا مرتکب نہ ہو۔ عام فرد کا اس مقصد کے لیے طاقت کا استعمال جائز نہیں ہے،  البتہ برائی کی شناعت کے پیشِ نظر اربابِ اقتدار کو بزور روکنے کا اختیار حاصل ہے،  بشرطیکہ اس بنیاد پر شریعت کے دیگر احکام کی پامالی نہ ہو۔ چناں چہ مشکاۃ شریف کی روایت میں ہے:

’’ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ  وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" تم میں سے جو شخص کسی خلافِ شرع امر کو دیکھے تو اس کو چاہیے کہ اس چیز کو اپنے ہاتھوں سے بدل ڈالے اور اگر وہ( خلافِ شرع امر کے مرتکب کے زیادہ قوی ہونے کی وجہ سے یا بزورِ طاقت روکنا خلافِ مصلحلت ہونے کی وجہ سے ہاتھوں کے ذریعہ )اس امر کو انجام دینے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو زبان کے ذریعہ اس امر کو انجام دے  اور اگر اس کی بھی  طاقت نہ رکھتا ہو تو اس کو دل سے برا جانے  اور یہ (آخری درجہ) ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔‘‘ (مسلم)

علامہ نواب قطب الدین خان دہلوی رحمہ اللہ اس حدیث مبارکہ کی تشریح میں لکھتے ہیں:

’’ اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ برائیوں کے پھیلنے سے روکنے اور ان کا قلع قمع کرنے کی جو ذمہ داری اہلِ ایمان پر عائد ہوتی ہے اس سے عہدہ برآ،ہونے کے تین درجے بیان کیے گئے ہیں: پہلا درجہ یہ ہے کہ ہر برائی کا سر طاقت کے ذریعہ کچل دیا جائے بشرطیکہ اس طرح کی طاقت میسر ہو اور اگر یہ طاقت حاصل نہ ہو تو دوسرا درجہ یہ ہے کہ اس برائی کو روکنے کا فریضہ زبان کے ذریعہ ادا کیا جائے اور تیسرا درجہ یہ ہے کہ اگر زبان کے ذریعہ بھی کسی برائی کی مذمت کرنے اور اس کو ختم کرنے کی ہمت نہ ہو تو پھر دل سے اس فریضہ کو انجام دیا جائے۔ یعنی کسی خلافِ شرع امر کو دیکھ کر اسے دل سے برا جانے ۔۔۔ ، اس درجہ کو ایمان کا سب سے کمزور درجہ قرار دیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ جب اہلِ ایمان اس درجہ کمزور ہو جائیں کہ وہ کسی برائی کو مٹانے کے لیے ہاتھ اور زبان کی طاقت سے محروم ہوں تو سمجھا جائے کہ یہ ایمان کے لیے سب سے کمزور زمانہ ہے کہ اگر اہلِ ایمان طاقتور ہوتے تو وہ کسی برائی کو اپنی قولی و فعلی طاقت کے ذریعہ مٹانے کی بجائے محض قلبی نفرت پر اکتفا نہ کرتے۔ یا ، ’’وَذٰلِکَ أَضْعَفُ الْإِیْمَانِ‘‘، کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص کسی برائی کو محض قلبی طور پر برا جاننے پر اکتفا کرتا ہے، بلکہ ہاتھ اور زبان کے ذریعہ اس برائی کو مٹانے کی جدوجہد کرتا ہے ، اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ بہترین جہاد، ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہنا ہے ، نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ آیت :((وَلَايَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآئِمٍ)) اور ان کو کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہیں ہوتا ۔

 بعض علماء نے فرمایا ہے کہ حدیث میں پہلے حکم (یعنی برائی کو ہاتھ کے ذریعہ مٹانے) کا تعلق ان اہلِ ایمان سے ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے طاقت و اقتدار سے نوازا ہے یعنی بادشاہ و حاکم وغیرہ، چنانچہ طاقت و اقتدار رکھنے والے مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے حلقہ اثر و اقتدار میں سختی و شدت کے ساتھ برائیوں کی سرکوبی کریں اور برائیوں کا ارتکاب کرنے والوں کو راہِ راست پر لانے کی کوشش کریں، دوسرے حکم (یعنی برائی کو زبانی مذمت اور تلقین و نصیحت کے ذریعہ ختم کرنے) تعلق علماء کی ذات سے ہے ۔ یعنی یہ اہلِ علم اور واعظین کا فریضہ ہے کہ وہ جن برائیوں کو دیکھیں اپنے وعظ و نصیحت کے ذریعہ ان کی مذمت کریں اور عوام کو تلقین و نصیحت کے ذریعہ ان برائیوں سے روکیں، اور تیسرے حکم (یعنی برائیوں اور ان کے مرتکبین کے خلاف دل میں نفرت کا جذبہ رکھنے کا تعلق عام مسلمانوں سے ہے ، چنانچہ عام مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ خلافِ شرع امور کو دیکھ کر محض اعراض و بے اعتنائی کا رویہ اختیار نہ کریں، بلکہ ان امور کو دل سے برا جانیں اور ان کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف قلبی نفرت رکھیں۔

بعض حضرات نے حدیث کے اس آخری جملہ کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ یہ چیز یعنی کسی برائی کو دیکھ کر محض دل میں اس کو برا سمجھنے پر اکتفا کر لینا ایمان کے مراتب میں سب سے کمزور مرتبہ ہے، کیوں کہ اگر کوئی مسلمان ایسی چیز کو دیکھے کہ جس کا دینی نقطہ نظر سے برا ہونا قطعی طور پر ثابت و ظاہر ہو اور وہ اس چیز کو برا بھی نہ سمجھے، بلکہ اس پر اپنے اطمینان کا اظہار کرے اور اس کو اچھا جانے تو مسلمان نہیں رہے گا، بلکہ کافر ہو جائے گا۔

اس موقع پر اس بات کو بھی جان لینا چاہیے کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا حکم بھلائیوں یا برائیوں کی حیثیت کے تابع ہوتا ہے، یعنی اگر کوئی چیز اس درجہ کی ہے کہ اس کو اختیار کرنا واجب ہے تو اس کو اختیار کرنے کا حکم دینا (یعنی امر بالمعروف) بھی واجب ہوگا اور اگر وہ چیز مستحب ہوگی تو امر بالمعروف بھی مستحب ہوگا، اسی طرح اگر کوئی خلافِ شرع چیز حرام کا درجہ رکھتی ہو اس سے روکنا یعنی نہی عن المنکر واجب ہوگا اور اگر وہ چیز مکروہ ہو تو اس صورت میں نہی عن المنکر بھی مستحب ہوگا۔

اسی کے ساتھ یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ امر بالمعروف ونہی وعن المنکر کے فریضہ کی ادائیگی اس بات کے ساتھ مشروط ہے کہ ان کی وجہ سے کسی فتنہ و فساد کے پیدا ہو جانے کا خوف نہ ہو، مثلاً: اگر یہ ظاہر ہو کہ فلاں شخص کو کسی نیک کام کی تلقین کرنے کی وجہ سے فتنہ اٹھ کھڑا ہوگا یا جو شخص کسی برے کام کا مرتکب ہے اگر اس کو اس برائی سے روکا گیا تو اس کے نتائج اور زیادہ فتنہ و فساد کی صورت میں نکلیں گے تو اس صورت میں اس فریضہ کی ادائیگی قطعاً ضروری نہیں ہوگی۔

اسی طرح ایک شرط یہ بھی ہے کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو قبول کیےجانے کا گمان بھی ہو، لہٰذا اگر یہ گمان ہو کہ جس شخص کو نیک کام کرنے کی تلقین کی جائے گی یا اس کو کسی برے کام سے روکا جائے گا تو وہ اس بات کو قبول نہیں کرے گا تو اس کو اس نیک کام کا حکم کرنا یا برے کام سے روکنا واجب نہیں ہوگا، البتہ مستحسن ضرور رہے گا؛ تاکہ شعارِ اسلام کا اظہار ہو جائے ۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس کے خلاف نقل کیا ہے جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔

حدیث کے الفاظ ’’مَنْ رَأٰی مِنْکُمْ مُّنْکَرًا‘‘ میں لفظ ’’مَنْ‘‘ کے ذریعہ مذکورہ حکم کا مخاطب جن لوگوں کو قرار دیا گیا ہے ان میں ملت کا ہر فرد شامل ہے ، یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ہر مسلمان کو ادا کرنا چاہیے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور خواہ آزاد ہو یا غلام، یہاں تک کہ فاسق بھی اس امر کا ذمہ دار ہے ۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ امر بالمعروف کے لیے شرط نہیں ہے کہ جو شخص کسی نیکی کا حکم کرنے والا ہو وہ پہلے خود بھی اس نیکی پر عامل ہو، اور بغیر اپنے عمل کے امر بالمعروف کا فریضہ انجام دینا اس کے لیےدرست نہ ہو، کیوں کہ جس طرح خود اپنے نفس کو کسی نیکی پر عمل کرنے کی تلقین کرنا ایک واجب چیز ہے اسی طرح ایک واجب امر یہ ہے کہ دوسروں کو نیکی کی تلقین کی جائے، لہٰذا اگر ان میں سے کوئی ایک واجب ترک ہوتا تو اس کی وجہ سے دوسرے واجب کو ترک کرنا قطعاً جائز نہیں ہوگا، یہ الگ بات ہے کہ جس واجب کا ترک ہوگا اس کا گناہ بہر صورت لازم آئے گا۔ لہٰذا قرآن کریم میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ ۔ آیت (لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ) 61۔ الصف : 2)۔ (یعنی تم اس چیز کو کیوں کہتے ہو جس پر خود عمل نہیں کرتے) تو اس آیت کریمہ کا محمول امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو تسلیم کرنے کی صورت میں یہ کہا جائے گا کہ اس آیت کی مراد ترکِ عمل سے روکنا اور اس پر زجر و تنبیہ ہے نہ کہ دوسروں کو بھلائی کی تلقین کرنے سے منع کرنا مراد ہے، اس بات کو زیادہ وضاحت کے ساتھ یوں سمجھیے کہ جو شخص بھلائیوں کی تلقین کرتا ہے اور دوسروں سے نیک عمل اختیار کرنے کو کہتا ہے لیکن وہ خود اس بھلائی اور نیک عمل کو اختیار نہیں کرتا تو یہ آیتِ کریمہ ایسے شخص کو متنبہ کرتی ہے کہ یہ تو ٹھیک ہے کہ تم دوسروں کو بھلائی اور نیک عمل کرنے کی تلقین کرتے ہو، لیکن یہ نہایت غیر موزوں بات ہے کہ تم خود اس بھلائی اور نیک عمل کو اختیار نہیں کرتے۔ لہٰذا آیت یہ بات قطعاً  ثابت نہیں کرتی کہ جو شخص خود نیک عمل اختیار نہ کرے وہ دوسروں کو بھی نیک عمل اختیار کرنے کی تلقین نہیں کر سکتا۔ تاہم اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نیکی کی تلقین کرنے والا اگر خود بھی نیکی کو اختیار کرے تو اس سے اچھی کوئی بات نہیں ہو سکتی، کیوں کہ جو شخص خود عمل نہیں کرتا، اس کی تلقین و نصیحت دوسروں پر اثر انداز نہیں ہوتی۔

امام نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم میں اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حدیث میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کی ادائیگی کی جو ترتیب ذکر کی گئی ہے وہ قرآن و سنت اور اجماعِ امت کے ذریعہ واجب ہے، اس بارہ میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے البتہ کچھ روافض کا اس سے اختلاف ہے جن کا کوئی اعتبار نہیں ہے، لہٰذا جس شخص نے مذکورہ ترتیب کے مطابق اس فریضہ کو انجام دیا اور مخاطب نے اس کو قبول کر لیا تو سبحان اللہ اور اگر قبول نہ کیا تو وہ شخص اپنی ذمہ داری سے بہرحال سبک دوش ہو جائے گا، اس کے بعد اب اس پر کوئی اور چیز واجب نہیں ہوگی۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143804200013

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں