بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکات اور صدقات کے پیسے مدرسہ اور مسجد کی تعمیر میں استعمال کرنا


سوال

صدقہ و خیرات اور زکاۃکے پیسے سے مسجد یا مدرسہ کی تعمیر کی جا سکتی ہے؟

جواب

  زکات اور صدقاتِ واجبہ (مثلاً: نذر، کفارہ، فدیہ اور صدقہ فطر) ادا ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ  اسے کسی مستحقِ زکاۃ شخص کو بغیر عوض کے مالک بناکر دیا جائے ؛ اس لیے رفاہی کاموں،شفاخانوں اور مدارس ومساجد کی تعمیر  وغیرہ پر زکاۃ کی رقم نہیں لگائی جاسکتی ؛ کیوں کہ اس میں تملیک نہیں پائی جاتی۔ باقی نفلی صدقات وعطیات تعمیراتی کاموں میں استعمال کیے جاسکتے ہیں۔

''فتاوی عالمگیری'' میں ہے:

" لا يجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد، وكل ما لا تمليك فيه، ولا يجوز أن يكفن بها ميت، ولا يقضى بها دين الميت كذا في التبيين".   (1/ 188،  کتاب الزکاۃ، الباب السابع فی المصارف، ط: رشیدیہ)  فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 144001200797

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں