بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں جائیداد کی تقسیم کا مسئلہ


سوال

مثلاً: میرے پا 47 لاکھ روپے ہیں تو 4 بیٹوں  4 بیٹیوں اور ایک بیوی میں کیسے تقسیم کرنا چاہیے؟کوئی خود کار طریقہ ہو تو بتائیے!

جواب

ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی جائے داد کا مالک  وخود مختار ہوتا ہے، وہ ہر جائز تصرف اس میں کرسکتا ہے، کسی کو یہ حق نہیں  ہے کہ اس کو اس کی اپنی ملک میں تصرف  کرنے سے منع کرے ، نیز والد ین کی زندگی میں اولاد وغیرہ کا اس کی جائے داد میں   کوئی حق  و حصہ  نہیں  ہوتا،  اور نہ ہی کسی کو مطالبہ کا حق حاصل  ہوتا،  تاہم اگر صاحبِ جائیداد اپنی  زندگی میں  اپنی جائے داد  خوشی  ورضا سے اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، اور اپنی زندگی میں جو جائے داد  تقسیم کی جائے  وہ ہبہ (گفٹ) کہلاتی ہے، اور اولاد کے درمیان ہبہ (گفٹ) کرنے میں برابری ضروری ہوتی ہے، رسول اللہ ﷺ نے اولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں برابری کرنے کا حکم دیا ، جیساکہ نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ کی  روایت میں ہے:

'' وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»''. (مشکاة المصابیح، 1/261، باب العطایا، ط: قدیمی)

ترجمہ:حضرت نعمان ابن بشیر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ……  آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔(مظاہر حق، 3/193، باب العطایا، ط: دارالاشاعت)

البتہ جو تقسیم موت کے بعد ہوتی ہے، اس کو میراث کہتے ہیں اس کے حصے متعین ہوتے ہیں۔

اور صاحبِ جائیداد کی طرف سے اپنی زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان ہبہ کرنے کا شرعی  طریقہ یہ ہے کہ   اپنی جائیداد میں سے  اپنے  اور اپنی اہلیہ کے لیے   جتنا چاہے رکھ لے؛ تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئے،  اور بقیہ مال اپنی  تمام  اولاد میں برابر تقسیم کردے، یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو دے،  نہ کسی کو محروم کرے اور نہ ہی بلاکسی شرعی وجہ کمی بیشی کرے، ورنہ گناہ گار ہوگا اور اس صورت میں ایسی تقسیم شرعاً غیر منصفانہ کہلائے گی۔

البتہ  کسی بیٹے یا  بیٹی کو  کسی معقول وجہ کی بنا پر  دوسروں کی بہ نسبت   کچھ زیادہ  دینا چاہے تو دےسکتا ہے،  یعنی کسی کی شرافت  ودین داری یا غریب ہونے کی بنا پر  یا زیادہ خدمت گزار ہونے کی بنا پر اس کو  دوسروں کی بہ نسبت کچھ زیادہ دے تو اس کی اجازت ہے۔

اگر صاحبِ جائیداد  اپنی  زندگی میں اپنی بعض  اولاد  کو کچھ دینا چاہے اور دوسرے   دل سے رضامند ہوں کہ ان کو دیا جانے والا حصہ اوروں کو دیا جائے اوران پر کسی قسم کا دباؤ وغیرہ نہ ہو اور صاحبِ جائیداد کا مقصد بھی ان اولاد کو محروم کرنا یا نقصان پہنچانا نہ ہو ، بلکہ کسی بنا پر وہ اپنے بعض بچوں کو کچھ دے رہا ہے تو  یہ جائز ہے۔

زندگی میں جائے داد کی تقسیم کے احکام ذکر کردیے گئے ہیں، اس تقسیم کے لیے کسی خود کار طریقے کی ضرورت نہیں ۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200007

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں