بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں جائیداد کی تقسیم اور وصیت کا حکم


سوال

1۔ کیا کوئی شخص زندگی میں ہی وراثت تقسیم کرسکتا ہے؟ زندگی میں وراثت برابر تقسیم کی جائے گی یا جو اصول قرآن میں ہیں اُس طریقے؟

2۔۔ وصیت لکھنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب

1۔ زندگی میں ہی جائے داد واموال کی تقسیم شرعاً لازم نہیں اورنہ ہی  اولاد میں سے کسی کو جائے داد کی تقسیم کے مطالبہ کا  شرعاًحق ہے ۔  تاہم اگرکوئی شخص  اپنی جائے داد اپنی مرضی و خوشی  سے اپنی زندگی میں  تقسیم کرنا چاہتا ہے تو اپنی کل جائے داد میں سے جتنا چاہے اپنے اور اپنی اہلیہ  کے لیے رکھ لے ۔ بقیہ جائے داد کو اپنی اولاد میں برابر   تقسیم کردے ،یعنی  جتنا حصہ ایک بیٹے کو دیں اتنا ہی حصہ ہر ایک  بیٹی کوبھی  دیں، کسی کو کم یا زیادہ دینا درست نہیں۔البتہ اگر اولاد میں سے کوئی زیادہ خدمت گزار ہو، یا دین دار زیادہ ہو تو اس کو کچھ زیادہ بھی دے سکتے ہیں۔

2۔ ہر انسان کا دنیا میں رہتے ہوئے مختلف لوگوں سے واسطہ رہتاہے،کسی سے کچھ لینایا کسی کو کچھ دیناحقوقِ واجبہ ہوتے ہیں،بسااوقات قرض لیے جاتے ہیں ،لوگوں کی امانتیں کسی کے پاس رکھی ہوتی ہیں،اور انسان کو اپنی موت کا کچھ علم نہیں کہ کس وقت آجائے؛ اس لیے افضل یہ ہے کہ وصیت لکھی ہوئی ہر وقت تیار رہے،اور آدمی پر جس جس کا جو حق ،یاقرضہ یاامانتیں ہیں یا دینی فرائض اور واجبات میں سے ادائیگی باقی ہے ان تمام کو کسی کاغذ پر لکھ کر وصیت تیار رکھے، تاکہ اگر اچانک موت آجائے تووارثین ان تمام چیزوں کو اداکرسکیں اور درست انتظامات کرسکیں۔بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

’’ کسی مسلمان کے پاس کوئی بھی چیز ہو جس کی وصیت کرناہو تواس کے لیے یہ بات ٹھیک نہیں ہے کہ دوراتیں گزرجائیں اور اس کی وصیت ا س کے پاس لکھی ہوئی نہ ہو‘‘۔(1/382)

نیز سنن ابن ماجہ کی حدیث میں رسول اللہ ﷺسے منقول ہے کہ :

’’جس شخص کو وصیت پر موت آئی (یعنی وصیت کرکے دنیاسے گیا)وہ صحیح راستے پر اور سنت پر مرا‘‘۔ (ص:194)

البتہ اگر سوال سے آپ کا مقصود اپنی وراثت کے بارے میں وصیت کرناہے،تویاد رہے کہ وارث کے حق میں وصیت کا شرعاً اعتبار نہیں ہوتا؛ لہٰذا میت نے اگر اپنے وارث کے لیے وصیت کی ہے تو وارثین پر اس کی تعمیل ضروری نہیں،  بلکہ سارا ترکہ ورثاء کے درمیان ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا،البتہ اگر سارے وارثین  عاقل ،بالغ ہوں اوربخوشی  اس وصیت کے نفاذ پر راضی ہوں تو   وصیت نافذ ہوسکتی ہے۔

اوراگر وصیت کا تعلق غیر وارث سے ہے تو اُس کا نفاذ صرف  ایک تہائی مال میں ہوتا ہے۔البتہ اگر دیگر وارثین کو کوئی اعتراض نہ ہو تو تہائی سے زیادہ میں بھی اُس کی وصیت نافذ ہوجائے گی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200130

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں