بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رہن رکھی ہوئی چیز کی زکات کا حکم


سوال

کیا شے مرہون پر زکات ہے؟

جواب

شے مرہونہ کی زکات نہ راہن پر لازم ہے اور نہ ہی مرتہن پر لازم ہے، راہن پر اس لیے نہیں کہ اس کے قبضہ وقدرت میں نہیں اور مرتہن پر اس لیے نہیں ہے کہ اس کی ملکیت میں نہیں ہے۔

الفتاوى الهندية (1/ 172):

"ومنها: الملك التام وهو ما اجتمع فيه الملك واليد، وأما إذا وجد الملك دون اليد، كالصداق قبل القبض، أو وجد اليد دون الملك، كملك المكاتب والمديون، لاتجب فيه الزكاة، كذا في السراج الوهاج ...  ولا على الراهن إذا كان الرهن في يد المرتهن، هكذا في البحر الرائق".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 263):
"ولا في مرهون بعد قبضه.

ح (قوله: ولا في مرهون) أي لا على المرتهن لعدم ملك الرقبة ولا على الراهن لعدم اليد، وإذا استرده الراهن لايزكي عن السنين الماضية، وهو معنى قول الشارح بعد قبضه، ويدل عليه قول البحر: ومن موانع الوجوب الرهن ح وظاهره ولو كان الرهن أزيد من الدين ط". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200321

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں