بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جو مال ملے گا مخصوص حصہ اللہ کے نام پر دوں گا


سوال

دو آدمی (زید اور بکر) نے مل کر کاروبار شروع کیا اور تیسرا فریق اللہ کو بنایا, یا بکر اکیلا ہی یہ کہے کہ مجھے جو بھی مال ملے گا تو اس کا ایک متعین حصہ جیسے پانچواں یا دسواں حصہ اللہ کا ہے. یعنی اللہ کے نام پر دوں گا. تو  کیا یہ حصہ وہ اپنے بھائی کو  یا بھتیجے یا بہن یا بھانجے وغیرہ پر خرچ کرسکتا ہے یا نہیں?

جواب

کاروبار میں جو نفع کا حصہ  اللہ تعالی   کے لیے خاص کیا جائے، اگر  زبان سے یہ   کہا کہ  اتنا حصہ اللہ تعالی کا ہے تو  اس کی  حیثیت  نذر  کی ہے، اور نذر کا حکم یہ ہے کہ  کسی غریب، زکاۃ کے  مستحق کو دینا ضروری ہے، چناچہ  اگر بھائی، بھتیجا، بہن یا بھانجا مستحقِ زکاۃ ہو تو اسے بھی دے سکتا ہے۔ نیزاس رقم سے مسجد بنوانا، مدرسہ کی تعمیر کروانا  درست نہیں ہے۔ اسی طرح  اس حصے میں سے مال دار  شخص کو  یا والدین،  اولاد اور میاں بیوی کا ایک دوسرے کو دینادرست نہیں  ہے۔

اور  اگر زبان سے نہیں کہاکہ  اتنا حصہ اللہ تعالی کا ہے،  بلکہ صرف نیت کی کہ اتنا صدقہ میں غریبوں کو دوں گا تو  اس کی  حیثیت صدقہ  کی ہے، ا س سے مسجد بنوانا ، مدرسہ کی تعمیر کروانا بھی   درست   ہے۔ 

"اعلم أن الصدقة تستحب فاضل عن کفایته، والأفضل لمن یتصدق نفلاً أن ینوي لجمیع المؤمنین والمؤمنات؛ لأنها تصل إلیهم ولاینقص من أجره شیء". (الشامية ۲؍۳۵۷ کراچی)
"فالجملة في هذا أن جنس الصدقة یجوز صرفها إلی المسلم … ویجوز صرف التطوع إلیهم بالاتفاق، وروي عن أبي یوسف أنه یجوز صرف الصدقات إلی الأغنیاء إذا سموا في الوقف. فأمّا الصدقة علی وجه الصلة والتطوع فلا بأس به. وفي الفتاوی العتابیة: وکذلك یجو ز النفل للغني". (الفتاویٰ التاتارخانیة ۳؍۲۱۱-۲۱۴)
 فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144106201211

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں