بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جمعہ کی نماز میں خواتین کی شرکت


سوال

ایک جامع مسجد اس انداز  سے تعمیر  کی گئی ہے کہ برآمدہ کے اوپر منزل میں گیلری بنائی گئی ہے جس میں ہر طرف سے پردہ ہے اور گیلری میں آنے جانے کا راستہ عمومی راستہ سے بالکل الگ ہے۔ اس گیلری میں خواتین کا بروز جمعہ جاکر وعظ سننا اور امام صاحب کے پیچھے نمازِ جمعہ باجماعت ادا کرنا کیسا ہے؟

جواب

عورتوں کے لیے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں آنا مکروہِ تحریمی ہے، خواہ فرض نماز ہو یا جمعہ و  عید ین کی نماز ہو یا تراویح کی جماعت ہو، حضور ﷺ کے زمانہ میں عورتیں مسجد میں نماز کے لیے آتی تھیں، وہ بہترین زمانہ تھا، آپﷺ بنفسِ نفیس موجود تھے، اور وحی کا نزول ہوتا تھا، اسلامی احکام نازل ہورہے تھے اور عورتوں کے لیے بھی علمِ دین اور شریعت کے احکامات سیکھنا ضروری تھا، مزید یہ کہ آپ ﷺ کی مسجد میں نماز پڑھنے کا ثواب بھی عام مساجد سے کئی گنا زیادہ تھا ،لیکن اس وقت بھی انہیں یہی حکم تھا کہ عمدہ لباس اور زیورات پہن کر نہ آئیں اورخوش بو لگا کر نہ آئیں، نماز ختم ہونے کے فوراً بعد مردوں سے پہلے واپس چلی جائیں، اور ان پابندیوں کے ساتھ اجازت کے بعد بھی آپ ﷺنے ترغیب یہی دی کہ عورتوں کا گھر میں نماز ادا کرنا مسجد میں نماز ادا کرنے سے افضل ہے، اور گھر کے کمرے میں نماز ادا کرنا برآمدے میں نماز ادا کرنے سے افضل ہے، اور گھر کی کوٹھری میں نماز ادا کرنا کمرے میں نماز ادا کرنے سے افضل ہے۔

حضرت امّ حمید رضی اللہ عنہا نے بارگاہِ نبوی ﷺ میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ مجھے آپ کے ساتھ نماز پڑھنے کا شوق ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:تمہارا شوق (اور دینی جذبہ) بہت اچھا ہے، مگر تمہاری نماز اندرونی کوٹھری میں کمرے کی نماز سے بہتر ہے، اور کمرے کی نماز گھر کے احاطے کی نماز سے بہتر ہے، اور گھر کے احاطے کی نماز محلے کی مسجد سے بہتر ہے، اور محلے کی مسجد کی نماز میری مسجد (مسجدِ نبوی) کی نماز سے بہتر ہے۔

چناں چہ حضرت امّ حمید ساعدی رضی اللہ عنہا نے فرمائش کرکے اپنے کوٹھری  کے آخری کونے میں جہاں سب سے زیادہ اندھیرا رہتا تھا مسجد (نماز پڑھنے کی جگہ) بنوائی، وہیں نماز پڑھا کرتی تھیں، یہاں تک کہ ان کا وصال ہوگیا اور اپنے خدا کے حضور حاضر ہوئیں"۔(الترغیب و الترہیب:۱/۱۷۸)

آپ ﷺ کے پردہ فرمانے کے بعد جب حالات بدل گئے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے اپنے زمانہ میں یہ دیکھا کہ عورتیں اب ان پابندیوں کا خیال نہیں کرتیں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی موجودگی میں عورتوں کو مسجد آنے سے منع کر دیا گیا، اور اس پر گویا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا اتفاق ہوگیا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ عورتوں کی جو حالت آج ہو گئی ہے وہ حالت اگر حضور ﷺ کے زمانہ میں ہوئی ہوتی تو آپ ﷺ عورتوں کو مسجد آنے سے منع فرما دیتے۔

یہ اس زمانہ کی بات ہے کہ حضور ﷺ کے وصال کو زیادہ عرصہ بھی نہیں گزرا تھا۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاج خوب سمجھتی تھیں؛ اسی لیے فرمایا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتوں کی ایسی حالت ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو آنے سے منع فرمادیتے۔ اس لیے موجودہ پر فتن دور جس میں فتنہ ، فساد ، اور بے حیائی عام ہے، اور مرد وزن میں دین بے زاری کا عنصر غالب ہے، عورتوں میں فیشن، اور بن سنور کر باہر نکلنے کا رواج ہے، عورتوں کو مسجد میں آکر باجماعت نماز پڑھنے کی ہرگز اجازت نہیں ہے، خواہ پردے کے ساتھ ہی کیوں نہ آئیں، پس عورتیں اپنے گھروں میں نماز اداکریں، یہی ان کے لیے زیادہ اجر وثواب کا باعث ہے۔

باقی جس طرح مردوں کے لیے شرعی اَحکام سیکھ کر ان پر عمل کرنا ضروری ہے، اسی طرح خواتین کے لیے بھی دین کے بنیادی اَحکام سیکھنا ضروری ہے، اگر ان کے لیے گھر میں والد ، بھائی یا شوہر وغیرہ سے سیکھنا ممکن ہوتو وہیں سیکھیں، یا اپنے محارم کے واسطے سے قریبی علماء سے مسائل معلوم کرکے سیکھیں، اور ان کی راہ نمائی سے چلیں، اور اگر اپنے گھر میں انتظام نہ ہوسکے تو  علاقے میں کسی جگہ کسی مستند عالم کے وعظ وغیرہ کا انتظام کردیا جائے جہاں پردے کے احکام کی مکمل رعایت رکھتے ہوئے علاقے کی خواتین شرکت کریں، اس سے ضروری مسائل کی تعلیم اور تذکیر کا مقصد حاصل ہوسکتا ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200949

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں